رپورٹ: شعبہ تعلیم وتربیت، مرکز تنظیم اسلامی
تنظیم اسلامی اورانجمن خدام القرآن کے تعاون سے 5فروری بروز اتوار صبح 10بجے تانماز مغرب،بمقام قرآن آڈیٹوریم ،لاہور ،ختم نبوت تربیتی کورس کا انعقاد کیا گیا، پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک وترجمہ سے ہوا،جس کی سعادت جناب حافظ تنویر احمد نے حاصل کی ،جبکہ نعت رسول مقبول ﷺ جناب حافظ امیر حمزہ نے پیش کی ، اسٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب خورشید انجم ناظم شعبہ تعلیم وتربیت تنظیم اسلامی پاکستان نے انجام دیے ،اس پروگرام میں کثیر تعدادمیں رفقائے تنظیم اسلامی اور دیگردینی جماعتوں کے کارکنان نے شرکت کی ، اس موقع پرتنظیم اسلامی، انجمن خدام القرآن اور مجلس احرار اسلام پاکستان کی طرف سے بک اسٹالز بھی لگا ئے گئے تھے ۔
اس پروگرام کی غرض وغایت کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے ناظم شعبہ تعلیم وتربیت جناب خورشید انجم نے فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ،اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نامکمل ہے ،مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس عقیدے کے حوالے سے ہمارے ہاں شعور وآگاہی بہت کم ہے ،نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق فتنوں کا دور آنے والا ہے ،اس دور میں ایک شخص صبح کو مومن ہوگا، تو شام کو کافر اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ۔
ہم اس وقت فتنوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں اور آئے روز نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں ،جس طرح تسبیح ٹوٹتی ہے تو اس کے دانے بکھر جاتے ہیں ،ہماری کیفیت بھی اس وقت بکھرے ہوئے دانوں کی ہے ،ہم بالکل بے حس ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ انہی فتنوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھاکہ عنقریب ایک فتنہ رونما ہوگا ،صحابہ ؓ نے پوچھاکہ اس فتنے سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :کتاب اﷲ !
عصر حاضر کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ بقول حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ قادیانیت ہے، بعض لوگ قادیانیت کوبھی اسلام ہی کا ایک فرقہ سمجھ بیٹھتے ہیں ،جو کہ ایک بہت بڑی غلطی ہے ،اسی حوالہ سے انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایک فہم ختم نبوت تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا ہے ،ختم نبوت کے حوالہ سے کام کرنے والی سب سے پرانی تنظیم مجلس احراراسلام کے قائدین کو مدعوکیاگیا ہے ۔
سب سے پہلے مرکز احرار تلہ گنگ کے مسؤل اور انچارج شعبہ ختم نبوت خط وکتابت کورس جناب مولانا تنویر الحسن کو خطاب کی دعوت دی گئی ،جناب مولانا تنویر الحسن نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ سب سے پہلے میں جناب ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو خراج عقیدت وخراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے قرآن کو اصل زندگی سمجھتے ہوئے میری اور آپ سب کی تربیت کی اور ہمیں قرآن وسنت کو سمجھنے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی طرف رہنمائی کی ۔
انہوں نے کہا کہ ہرزمانے میں عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے حوالہ سے کام ہوتا رہا ہے ،ماضی کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کہیں سے بھی ختم نبوت پر وار ہوا ،تو شمع ختم نبوت کے پروانوں نے اس وار کو بھانپ لیا اور صف بندی کرکے اس کا مقابلہ کیا ۔
انہوں نے کہا کہ اس دور میں صرف عقیدہ ختم نبوت ہی نہیں ،تین اور عقائد بھی ہیں ،جن پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور ڈاکہ ڈالنے والا ایک ہی شخص تھا،جسے مرزا غلا م احمد قادیانی کہا جاتا ہے ۔جس نے عیسیٰ ؑ ہونے او رمثل عیسیٰ ہونے ،مھدی ہونے اور مثل مھدی ہونے ،خود کو محمدالرسول اﷲ ﷺ ہونے اور خو دکو ظلی وبروزی نبی ہونے کا دعویٰ کرکے امت مسلمہ میں تفریق ڈالنے کا ایک نیا رخ اور راستہ اختیارکیا ۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کاحصہ ہے ،ہمارے بزرگوں میں سے امیر شریعت حضرت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ‘‘ عقیدہ ختم نبوت ہی عین ایمان ہے اگراس میں کمزوری پڑجائے ،توکوئی مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا ’’۔
ہم جانتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کی صف میں سب سے آخر میں مبعوث فرمایا ،اورآپ پر جس کتاب کونازل فرمایاگیا ، وہ قرآن کریم ہے ، قرآن مجید میں عقیدہ ختم نبوت کو 132آیات میں کسی نہ کسی انداز میں بیان کیاگیا ہے ،معروف آیت ماکان محمد ابااحد۔۔۔۔میں خاتم النبین اس عقیدہ کامنبع وخلاصہ ہے، حضرت سیدنا موسیٰ ؑ، حضرت سیدناعیسیٰ ؑاوردیگر تمام انبیاء ؑ نے سیدنا نبی کریم ﷺ کی آمد کی بشارت دی،ہمارے آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میں محمد بھی ہو ں اوراحمدبھی ،دنیا میں میرا نام محمد اورآسمانوں پر میرا نام احمد ہے ،اﷲ جل جلالہ نے قرآن کریم میں چار مقامات پر محمد )ﷺ( اورایک مقام پر احمد)ﷺ( کے نام سے آپ کا تعار ف کرایا ہے۔عالم ارواح میں تمام انبیاء ؑ نے آپ کی نبوت کااقرارکیا ،یہ پہلا منظر نامہ ہے ،دوسرا منظرنامہ اور اس کی مکمل گواہی واقعہ معراج میں انبیاء ؑ نے اداکی ،تیسرا منظر نامہ، خطبہ حجۃ الوداع ہے ،اس موقع پر دین کی تکمیل کی گئی ،یہ شرف صرف نبی کریم ﷺ کو ہی عطا فرمایا گیا ،آیت میثاق ،آیت معراج /اسرا اورآیت تکمیل دین ۔عقیدہ کی افادیت وعظمت کو سمجھاتی ہیں ،قرآن کریم میں مختلف انبیاء ؑ کاذکر کیا گیا ہے کہ فلاں نبی کو فلاں قوم اور قبیلہ کی طرف مبعوث کیا گیا مگر ایک صرف ایک ہستی ایسی ہے کہ جسے پوری انسانیت کی طرف نبی بناکرمبعوث کیاگیا اور وہ عظیم ہستی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ہے کہ جن کے سر پر اﷲ تعالیٰ نے ختم نبوت کاتاج سجایا ۔
اس کے بعد رفع ونزول عیسیٰ ؑ ،خروج دجال وظہور مھدی کے عنوان پر مبلغ ختم نبوت جناب مولانا سرفراز معاویہ نے اس پروگرام کے انعقادپر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم اسلامی اس پر مبارکبادکی مستحق ہے کہ اس نے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا تعاقب کرتے ہوئے آغاز کردیا ہے،انہوں نے فرمایاکہ نبی اپنی طورپر نہیں بنتا ،نبی وہی ہوتا ہے کہ جسے اﷲ نبی بنائے ،جو شخص نبوت کو دعویٰ کرے جبکہ وہ نبی نہ ہوتو ایسا شخص جھوٹا اور دجال ہے ،مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیح ، مھدی اور نبی ہونے کادعویٰ کرکے دین اسلام پر وار کیا ۔یا درہے کہ قادیانی اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں ،1974ء کے آئین میں قادیانیوں کو کافر قراردیا گیا ہے ،قادیانی آئین پاکستان کی رو سے کافرہیں مگر یہ لوگ خود کواقلیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ،اس وقت پوری دنیا میں چھ کروڑ قادیانی ہیں ،جن میں سے تقریبا ًدوکروڑ پاکستان میں ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم ان فتنوں سے بچیں ،اس کے لیے علم کاہونا بہت ضروری ہے،علم کا ذریعہ قرآن وحدیث ہے ،اس علم کے وارث علماء کرام ہیں ،ہمیں علماء سے ہی رہمنائی حاصل کرنا ہوگی ،یہ علم انتہائی ضروری ہے ،یادرہے کہ اگر آپ کے پاس علم نہ ہوگا تو آپ متزلزل ہوجائیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ ختم نبوت پر کسی مسلک کا اختلاف نہیں ہے ،یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے ،حضرت علامہ سید انورشاہ کاشمیری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جوشخص ختم نبوت کاکا م کرے اس کے لیے جنت کی ضمانت ہے ۔امیرشریعت حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے تووہ نبی مکرم ﷺ کی شفاعت کا حق دار بن جاتاہے ۔
مجلس احراراسلام کے مبلغ جناب محمدآصف جو خود بھی فتنہ قادیانیت کا شکار رہے ہیں اور قادیانیت میں 7,8سال گزارکر آئے ہیں ،اﷲ نے ان کو ہدایت بخشی اور قادیانیوں کی کتابیں اور لٹریچر پڑھ کر اس کے تضادات نے ان کی آنکھیں کھول دیں،انہوں نے بھی فتنہ قادیانیت اوراس راہ کے مسائل ومشکلات پرروشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ قادیانیوں نے مرزا قادیانیت کی کتب کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ اگر وہ تحقیقی نقطۂ نظر سے اپنی کتابوں کا مطالعہ کریں تو انھیں سچ اور جھوٹ کا فرق معلوم ہوجائے گا۔ قادیانی، ہماری تبلیغ اور دعوتِ اسلام کا اصل ہدف ہیں۔ انھوں نے سامعین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس کورس کے مہمان خصوصی نواسہ امیر شریعت ؒاور مجلس احرار ِاسلام پاکستان کے نائب امیر مولانا سیدمحمد کفیل شاہ بخاری نے ‘‘قادیانیوں کو دعوت کا طریقہ کار ’’کے عنوان پر خطاب کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے خطاب کا آغاز پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے تو کئی برس پرانی یادیں تازہ ہوگئیں،جب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ؒ کی دعوت پر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے فرزند مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاری ؒ یہاں تشریف لائے تھے اور‘‘ منہج انقلاب ِنبوی ﷺاوراس کا طریقہ کار’’ کے موضوع پر مذاکرہ تھا تو بہت ہی خوبصورت ماحول تھا اور وحدت ِامت کا ایک منظرڈاکٹر صاحب ؒ نے یہاں پیش فرمایا تھا اور یہ ان کا خاص مشن تھا ۔الحمد ﷲ ! ان کا مشن جاری ہے اور آپ حضرات اس ادارے اورتنظیم سے وابستہ ہیں اوردین کی محنت ایک خوبصورت انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے فرمایا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دعوت کے کسی نئے طریقے کی ضرورت نہیں ،نبی کریم ﷺ کا اسوہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور قرآن کریم ہدایت کی کتاب ہے ،صحیح معنوں میں ہدایت تقویٰ ہے ،تقویٰ کے بغیر نفع نہیں ،نبی کریم ﷺ نے ایمان والوں میں تقویٰ پید اکیا ،حضور نبی کریم ﷺ نے آغاز زمانہ نبوت میں اپنے خاندان اور دوستوں کو دعوت دی ،سب سے پہلی مخالفت آپ کے خاندان اور قبیلہ والوں ہی نے کی ،آپ ﷺ اس مخالفت سے مایوس نہیں ہوئے ،دوبارہ ان لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے دین کی دعوت پیش کی ،آپ میلوں اور مختلف مجالس میں تشریف لے گئے ،آپ ﷺ نے دعوت وتبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ،فریضہ نبوت کو پوری قوت اور احسن طریقے سے ادا کیا ،جن لوگوں نے آپ کی دعوت کومان لیا ، وہ کامیاب ہوئے ،انہوں نے اپنی خواہشات اورمال وجان،اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور اطاعت میں قربان کردیا اورجن لوگوں نے آپ کی دعوت کو نہ مانا،وہ ناکام ونامراد ہوئے ۔
حضور ﷺ نے جب دعوت پیش کی تو اس دعوت کے نتیجے میں ری ایکشن پیدا ہوا ،آپ کے چچا جناب ابوطالب کے سامنے شکایات کے انبار لگادیے گئے کہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیے، آپ کے چچا کفار ومشرکین کی باتوں کو سن کر پریشان ہوتے اور کہتے کہ بھتیجے کچھ نرمی اختیار کرو ،اس وقت آپ ﷺ نے جوکلمات اداکیے ،وہ پوری امت کے لیے اسوہ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کام سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ،یہاں تک کہ اس راستہ میں مٹادیا جاؤں یا یہ کہ دین غالب ہوجائے ۔سوالات ہوئے آپ ﷺ نے جوابات ارشا د فرمائے ،آپ ﷺنے تحمل اوربردباری سے فریق مخالف کو سنا ،پیار ومحبت اوردلیل کی قوت سے اپنا پیغام ان تک پہنچایا ،اس پیغام نے دلوں پر اثر کیا ،مکہ فتح ہوا اور دین غالب ہوا ، آپ ﷺ نے اپنے آخر ی خطبہ )خطبہ حجۃ الوداع( کے موقع پر ارشادفرمایا کہ جوموجود ہیں ، وہ اس دین کو ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں۔دعوت پیش کرنا تمام انبیا ء علیہ السلام کی سنت ہے ، دعوت پیش کرنے میں زبردستی نہیں ہے ،نبی کریم ﷺ نے سربراہان مملکت کودعوتی خطو ط بھی ارسال فرمائے ،ان میں سے شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی نے اس دعوت کو قبول کیا،دیگر نے انکار کردیامگر اس دعوت کے نتیجے میں ان تک اﷲ تعالیٰ کاپیغام ضرور پہنچا ۔
دعوت ایک مستقل کام ہے ،قول اورفعل سے قرآن وسنت کی دعوت کا اظہار ہو ،دعوت حکمت،اچھے طریقے اوردلائل کی قوت سے پیش کی جائے،دل میں نرمی ، اضطراب اورفکر مندی ایسی ہوکہ مخاطب متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، دعوت کے نتیجے میں ہی ایک نیا معاشرہ تشکیل پاتا ہے ،صحابہ کرام ؓ کی جماعت اسی دعوت کے نتیجے میں قائم ہوئی ، ہر شخص دین کا داعی بنا ،انہیں کسی سیمینار،جلسے یا کورس کی ضرورت نہیں تھی ،صحابہ رضی اﷲ عنہم نے براہ ِراست دین کو سیکھا، سمجھااور اس پرعمل کیا ،ہر شخص چلتا پھرتا داعی تھا ،کفا رانہیں دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ یہ حضور ﷺ کا ساتھی ہے ۔
آج ہم نے دعوت الی اﷲ کا شعبہ مولوی کے سپرد کردیا ہے جبکہ یہ ذمہ داری ہر مسلمان کی ہے ۔ڈاکٹر اسرار احمد ؒ ہی کولے لیجیے کہ کس طرح انہوں نے دین کی دعوت پیش کی ،آپ نے مسلمانوں میں دین کا جذبہ پیداکرکے انہیں دین سے قریب کیا،مسلمانوں کوہر قسم کے فتنوں سے آگاہ کیا، انہیں ایمان کی حفاظت کا درس دیا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج بھی مسلمانوں کو مختلف فتنوں سے خبردار کیا جائے ،ان کے ایمان کی حفاظت کی جائے، اس وقت دین کی نئی نئی تشریحات سامنے آرہی ہیں ،عقلی معیار کو نمونہ بناکر پیش کیا جارہا ہے ، قرآن وسنت کے منہج سے ہٹ کر لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی جارہی ہے ،جو سراسر نقصان کاراستہ ہے ۔قرآن وسنت کو چھوڑنے اور اجماع امت سے ہٹنے کا نتیجہ دین سے دوری ہے ،اس وقت ہم بہت سے فتنوں سے دوچا رہیں اور ابھی کئی فتنے ایسے ہیں جو پر تول رہے ہیں ،ان فتنوں اورشرور سے حفاظت کا ذریعہ نماز ہے ،آپ پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کریں اوراپنے رب سے مضبوط تعلق استوار رکھیں ، اس تعلق کے نتیجے میں تمام فتنے اپنی موت آپ مرجائیں گے ۔
اس خطہ میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ،کچھ لوگ ان سے متاثر ہوئے ،ان لوگوں نے قرآن وسنت اوراجماع امت کو معیار نہیں بنایا ،جو لوگ دین سے پھر گئے ،انہیں دوبارہ دین میں واپس لانے کی تگ ودو ہونی چاہیے ،اس بارے میں آخرت میں ہم سب سے باز پر س ہونی ہے ،دعوت کے ضمن میں عام آدمی قادیانیوں سے تعلقات رکھے گا ،تو اس کی گمراہی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، قرآن وسنت کا علم رکھنا ،حالات اور فتنوں سے باخبر ہونا ،یہ انتہائی ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کا رد مرزا غلام قادیانی کے افکار ونظریات اور تضادات کوپیش کرکے کیا جائے تو یہ انتہائی موثر ہے کیونکہ مرزا غلام قادیانی کے ا قوال اورافعال میں بلاکاتضاد ہے۔
تحفظ ختم نبوت کے عظیم مشن میں ہمارے اکابر نے اﷲ کی رضا کے لیے محنت کی ،تواس کے نتائج بھی سامنے آئے ،ہم نے آج بھی اس مقدس مشن کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنا ہے ،مایوس نہیں ہونا ،اس گروہ کے اندر کام کرنے کی ضرورت کل بھی تھی اورآج بھی ہے ،ہمیں اپنے دین کی صداقت پر پورا یقین ہے کہ ایک ہی دین ہے دین اسلام ۔ جسے قائم رہنا ہے ،اسی پرہم نے عمل پیرا ہونا ہے ،یہی فتنوں سے بچنے کا راستہ ہے ۔جس کا ایمان لوٹ لیا گیا ،اس کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیا ۔ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہمارے جن بھائیوں کے ایمان کو لوٹ لیاگیا ہے ،اس کے لیے فکر مند ہوں،ہم انہیں جہنم کے کنارے سے گھسیٹ کر رحمت کے ماحول میں لے آئیں ۔ہم حضور نبی کریم ﷺ کی اطاعت ، محبت اور فرمانبرداری پر عمل پیرا ہوں ،یہی اﷲ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے ،اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کاکوئی او رذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔میری جماعت مجلس احرار اسلام کا مقصد و مشن یہی ہے کہ قادیانیوں اور دیگر کفار کو اسلام کی دعوت دی جائے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ، انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ میں اپنے رفقاء سمیت، تنظیم اسلامی کے دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ختم نبوت کورس کا انعقاد کیا اور ہمیں اس خدمت کی سعادت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔