تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

)قسط:۸(

ظفر جی

آرام باغ
25 فروری ․․․․ 1953ء ․․․․ کراچی
پورا دِن افواہوں اور چہ میگوئیوں میں گزر گیا۔حکومت آخری چارے کے طور پر “مولویوں” کو توڑنے کی جدوجہد کرتی رہی جو کسی بانڈ کی طرح آپس میں جُڑ چکے تھے ۔ کچھ روز پہلے ہی مولانا لال حسین اختر کی کوششوں سے مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع کی صلح ہوئی تھی۔اب حکومت پورا زور لگا کر اہلِ تشیع کو تحریک سے الگ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پہلے سیّد مظفرعلی شمسی کو اکیلا وزیرِ اعظم ہاؤس طلب کیا گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا۔ پھر ریڈیو پر وزیر اعظم کا یہ بیان سنا گیا :” با اثر علماء ہمارے ساتھ ہیں !!! ”
” شمسی صاحب اور مودودی صاحب تو گئے !!! ” میں نے خیال ظاہر کیا۔
” شمسی صاحب ایسا نہیں کریں گے، ہاں مودودی صاحب کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عوامی مظاہروں کے حق میں نہیں ہیں،وہ اس جنگ کو قانونی طریقے سے لڑنا چاہتے ہیں۔ البتہ عوامی مزاج کچھ اور نظرآرہاہے۔”
ہم آرام باغ کے مخملی گھاس پر بیٹھے سموسے کھا رہے تھے۔کچھ ہندو خاکروب باغ کی صفائی میں مصروف تھے ۔ رات کو یہاں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا جلسہ ہونے والا تھا۔
” یہ وہی جگہ ہے، جہاں کبھی رام اور سیتا نے اپنے دن بِتائے تھے۔ ” چاند پوری بول اُٹّھے۔
” ایک نئی افواہ ! ” میں نے کہا۔
“یقین کرو، اس کا نام ” رام باغ ” تھا جو بگڑ کر آرام باغ ہو گیا۔ ”
“واہ! بڑی تاریخی جگہ ہے۔ اچھا اور کیا کیا ہوا تھا ،اس باغ میں ؟ ” میں نے سموسے کھاتے ہوئے چاندپوری کو مصروف رکھنے کی کوشش کی۔
“جنگِ آزادی 1857ء کے مجاہدین کو توپوں سے باندھ کر اُڑایا گیا تھا، اسی باغ میں ۔” انہوں نے انکشاف کیا۔
” اﷲ اکبر! اس لحاظ سے تو اس کا نام ” خونی باغ ” ہونا چاہیے تھا۔ ”
” 1947ء میں ہزاروں مہاجرین آ کر ٹھہرے تھے، اسی باغ میں۔ تب سے اسے آرام باغ کہا جانے لگا۔”
“سبحان اﷲ، پھر تو آرام باغ ہی ٹھیک رہے گا۔”
ایک ہاکر ہمارے پاس سے گزرا تو میں نے شام کا اخبار خریدا۔
” یہ ہمارے وزیرِ اعظم جانے کس دھرم کے ہیں؟ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ ” میں نے کہا۔
“کیوں ؟کیا فرماتے ہیں ؟ ”
” کہتے ہیں کراچی ہماری راجدھانی ہے ۔باہر سے آنے والے چند مُلا یہاں قبضہ نہیں کر سکتے ۔”
” دیکھو دوست! سیاسی ، سائنسی اور سنیاسی کا کوئی دھرم نہیں ہوتا ․․․․ یہ اپنی سوچ کے خود خُدا ہوتے ہیں۔”
“واہ کیا بات کہی! سیاسی ، سائنسی اور سنیاسی ․․․․ سبحان اﷲ! ” میں نے آخری سموسہ لپیٹتے ہوئے کہا۔
رات ہوتے ہی جہانگیر پارک میں سرفروشوں کا میلہ سج گیا۔تین روزہ ختمِ نبوت کانفرنس کا آج آخری جلسہ تھا۔ شام ہوتے ہی لوگوں کے ٹھٹھ لگ گئے ۔ پارک میں تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی تو لوگ اِدھر اُدھر عمارتوں کی چھتّوں پر چڑھ گئے ۔کم و بیش ایک لاکھ کی حاضری تھی۔ جلسے کا نظم وضبط اور حاضرین کا جوش و خروش مثالی تھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع پہلی بار ایک ساتھ سٹیج پر ظاہر ہوئے تو متحارب فرقوں کے پرجوش کارکنوں نے بے اختیار اٹھ کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔علامہ مظفّر علی شمسی سٹیج پر نظر آئے تو عوامی نعروں سے پورا باغ گونج اُٹھا :
” شمسی صاحب جواب دو ․․․․ آپ کس کے ساتھ ہو ! ”
لوگ اس پروپیگنڈے کا توڑ چاہتے تھے جو وزیراعظم سے اُن کی تنہا ملاقات کے بعد پیدا ہوا تھا۔شمسی صاحب بھی دن بھر کے دباؤ کی وجہ سے خوب تاؤ میں تھے مائک پر آئے تو جوش و جذبات کے سمندر بہا دیے :
“خواجہ ناظم الدین صاحب فرماتے ہیں کہ کراچی میری راجدھانی ہے اور ہم باہر سے آئے ہوئے چند بے قیمت مُلا ہیں ․․․؟کراچی والو! بتاؤ ․․․ کراچی کس کی ہے ؟ خواجہ ناظم الدین کی ؟ ”
مجمع سے شور اُٹھا “نہیں ․․․ نہیں ۔”
” یا فدایانِ ختمِ نبوت کی ؟ ․․․․ بتاؤ، بتاؤ ! ”
” آج تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے ․․․․․ کیا حسینؓ کے ناناﷺ کا دین لاوراث ہو گیا ہے ؟کیا کراچی ہمارے لیے کوفہ بن گیا ہے ؟
خواجہ صاحب سن لیجئے ! ہم یہاں سوداگری کرنے نہیں آئے۔ نہ تمہاری کرسی چھیننے آئے ہیں۔ سرکارِ مدینہ ﷺ کا تاجِ نبوت خطرے میں گھرا ہے۔ ہم حکومت سے ناموسِ رسالت کے تحفظ کی یقین دہانی مانگنے آئے ہیں۔ ہمیں وزارت نہیں چاہیے، دولت نہیں چاہیے، ہم اسلام کے بنیادی مسئلے کی خاطر تمہارے پاس آئے ہیں اورتم کہتے ہوکہ کراچی میری راجدھانی ہے ؟ وزیرِ اعظم صاحب ! ذراوزیراعظم ہاؤس سے باہر آئیے اور آ کر دیکھئے کہ کراچی کس کی راجدھانی ہے ؟ ”
ہر شخص دیوانہ و مستانہ ہوا جاتا تھا۔ لوگ اسی وقت جیل جانے کو تیّار تھے ۔ جب شمسی صاحب نے پوچھا کہ تحفظِ ناموسِ رسالت کے لئے کون کون جیل جانا چاہتاہے؟ تو مجمع بے قابو ہو کر سٹیج پر ٹوٹ پڑا۔اس موقع پربزرگ احراررہنما ماسٹر تاج الدین انصاری نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا:
“ہم خواجہ صاحب سے التجاء کرتے ہیں کہ وہ عوام کے مطالبات پر کان دھریں۔ ابھی رات باقی ہے۔ صبح ہمیں بلوا لیجئے ۔تسلّی سے سوچئے ۔ایک بار پھر غور کر لیجئے اور قوم کو نیک فیصلے سے سرفراز کیجئے۔ ہم آپ سے الجھنے نہیں آئے اورنہ شہر کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ہماری اب بھی دلی دعا ہے کہ کل کا سورج کسی سمجھوتے کی نوید بن کر اُبھرے۔ خدارا!قوم کے متفقہ مطالبات مان لیجئے ۔اﷲ آپ کو اس کی توفیق دے۔ آمین ،ثم امین ۔”
حضرت امیر شریعت مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری نے جذبات سے بھرپور تقریر کی اور عشقِ مصطفی ﷺکا حق ادا کر دیا۔ اُن کی بے مثال خطابت کے بہاؤ کے دوران کوئی آنکھ نہ تھی جو عشقِ مصطفی ﷺمیں پُرنم نہ تھی اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو عشق رسولﷺ میں تڑپ نہیں رہا تھا۔
” قُل اِنّ صلاتیِ وَ نُسُکیِ وَ مَحیَایَ ․․․․․ وَ مَمَاتیِ ․․․․ لِلّہِ ․․․․ رَبِ العالمین:بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا، اﷲ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔لا نبی بعد محمد ﷺ، لا امت بعد امت محمد ﷺ۔ کراچی والو ! یاد رکھو! یہ نماز ، یہ روزہ ، یہ حج ، یہ زکوٰۃ، یہ شریعت ، یہ طریقت ، یہ حقیقت ، یہ تہذیب ، یہ تمدّن ، یہ اخلاق ، یہ مذہب ، یہ پُورا دینِ اسلام، حضور ﷺ کی ختم المرسلینی کے گرد طواف کر رہا ہے۔ ”
احراررہنماصاحبزادہ سیّد فیض الحسن تقریر کے لئے سٹیج پر آئے تو کسی مُرید نے ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال دیا۔ انہوں نے وہ ہار نوچ پھینکا اور کہا :”یہ وقت ہار پہننے کا نہیں میرے عزیز ! سرکارِ دوعالم ﷺ کی آبرو کو خطرہ ہو اور میں پھولوں کے ہار پہنتا پھِروں ؟یہ ہتھکڑیاں پہننے کا موسم ہے،بیڑیاں پہننے کا موسم ہے، ہمیں پابہ زنجیر کر کے دیکھو ۔ہمیں زندانوں میں پھینکو۔ہمارے جسم کو اُدھیڑ کے رکھ دو۔ پھر دیکھو کہ ہمارے ماتھے پہ شکن بھی آتی ہے کہ نہیں !”
آرام باغ کی فضاء فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔نعرہء تکبیر ․․․․ اﷲُ اکبر !تاج وتخت ختم نبوت ․․․․ زندہ باد!
پر اسرار کار
رات گیارہ بجے ایک نیلے رنگ کی کار بندر روڈ سے آرام باغ کی طرف مُڑی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جلسہ گاہ کے قریب آ گئی۔سیاہ شیشوں والی اس گاڑی میں اسٹیبلشمنٹ کے دو شاطر کھلاڑی سوار تھے ۔ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا اور کیبنٹ سیکرٹری مسٹر جی۔احمد !پراسرار کار جلسہ گاہ سے قریب آکر رُک گئی۔کراچی کے عوام نہایت اشتیاق سے صاحبزادہ فیض الحسن کی تقریر سن رہے تھے جو شب کی جولانی میں ساون بھادوں کی طرح گرج برس رہے تھے ۔
” انگریز چلا گیا اور اپنی باقیات چھوڑ گیا !
ہم نے انگریز کو بھی بھگت لیا ،تمہیں بھی بھگت لیں گے !انگریز کی قید بھی برداشت کی۔ تمہاری بھی برداشت کر لیں گے !تمہیں آزادی مبارک ہو تم تو پہلے بھی آزاد تھے۔اب بھی آزاد ہو۔ ہماری آزادی کا سورج تب طلوع ہو گا ،جب تحفظِ ناموسِ رسالت کا قانون بنے گا۔جب منکرینِ ختم نبوت کا فیصلہ ہوگا ۔جب مسلمان کو انصاف ملے گا !!!”
” او مین ہیئر وی گو اَگین۔ کون ہے یہ مُلا ؟” گاڑی میں بیٹھے سکندر مرزا نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
“احراری ہے، صاحبزادہ فیض الحسن بی۔ اے۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہے۔تیس ہزار مرید ہیں اس کے۔ جہاں جاتا ہے،مرید مکھیوں کی طرح پہنچ جاتے ہیں۔” مسٹر جی احمد نے ونڈ اسکرین سے پار جھانکتے ہوئے کہا۔
” مقرر بھی تو کمال کا ہے ․․․․ ”
” میں تو کہتا ہوں واپس چلیں ۔مُلاؤں کی تقاریر سے مجھے تو سخت کوفت ہوتی ہے ۔” جی احمد نے منہ بنایا۔
” نہیں یار ․․․․ جلسہ دیکھ کر جائیں گے۔ ” سکندر مرزا نے کارکا شیشہ سرکاتے ہوئے کہا۔
” ارر․․․ارے ․․․ شیشہ بند کر بھائی․․․ سردی آ رہی ہے ” مسٹر جی احمد جھنجھلا کر بولے ۔
” کیا تقریر کرتا ہے یہ مولوی․․․․ ایک دم مست ”
“چل پھر اس مستی میں تھوڑی اور مستی بھی شامل ہو جائے! ”
“کیا ارادے ہیں ؟ ”
” زاہدشراب پینے دے جلسے میں بیٹھ کر ” جی احمد ڈیش بورڈ سے بوتل نکالتے ہوئے بولا۔
” مروائے گا تُو ․․․․ کسی مولوی نے دیکھ لیا تو ؟ ”
” کم آن یار ․․․ شیشہ اچھی طرح چڑھا دے۔ ” جی احمد پیگ بناتے ہوئے بولا۔
” یار ایک لاکھ بھیڑ بکریاں کیسے کھینچ لاتے ہیں یہ لوگ! وِد آؤٹ پبلسٹی ۔یاد ہے 14 اگست کو ہم لوگ پرائم منسٹر کی تقریر کے لئے پندرہ سو بندہ مہیّا نہیں کر سکے تھے ۔”
” اسٹریٹ پاور اِز ناٹ اتھارٹی” جی احمد نے گھونٹ بھرتے ہوئے زہریلا سا منہ بنایا۔ ” لوگ رات بھر بخاری کی اسپیچ سنتے تھے اور ووٹ صبح جناح کو دے آتے تھے۔ یہی پبلک کا مزاج ہے ! ”
” لیکن اس بار حالات کچھ اور ہیں یار ” سکندر مرزا سگریٹ جھاڑتے ہوئے بولا ” لگتا ہے یہ لوگ مرزائی کو کافر کرا کے ہی دم لیں گے ۔تم ابھی سے اپنا کوئی اچھا سا نام سوچ لو۔ کھڑک سنگھ کیسا رہے گا ؟”
” ہاہاہا۔ کھڑک سنگھ اور تم بھی سوچ لو ،اسکندر ناتھ !”
” کیوں بھائی! آئی ایم ناٹ کافر ! ”
” موت سے کس کو رُستگاری ہے …آج ہم، کل تمہاری باری ہے ! ” جی احمد نے کہا۔
” کیا مطلب ؟ ”
“پہلے ایک پیگ لگا، بتاتا ہوں ۔”
“یار تُو بھی ناں! مروائے گا۔چل اب بتا: میں کیسے کافر ہوا ” سکندر جام چڑھاتے ہوئے بولا۔
” دیکھ !آج اگر مرزائیوں کوکافر قرار دے دیا گیا تو کل اگلا نمبر شیعہ کا ہو گا! ”
” اِم پاسیبل۔ شیعہ اِز ناٹ اے کوئیسچن! ” سکندرمرزا سگریٹ مسل کر بولا۔
” دی گیم وِل اِینڈ سُون اینڈ کوئیسچن وِل رائز ۔یہ عارضی گٹھ جوڑ ہے بھائی ۔آج احمدی کے خلاف سب ایک ہیں ۔کل شیعہ کے خلاف ایک ہونگے ”
” شیعہ کے خلاف کیوں ؟”
” دیکھ، جب جنگل میں سوکھا پڑتا ہے ناں !تو شیر ،چیتا اور نیل گائے ایک تالاب پر راضی ہو جاتے ہیں۔ اسے واٹر ٹروس)water truce( کہتے ہیں ۔برسات میں یہ ٹروس خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔ تب شیر،چیتا مل کر نیل گائے کا شکار کرتے ہیں۔ سمجھے یا کوئی اور مثال دوں ؟ ”
” شیعہ اِز اے سیکٹ آف اسلام ۔وہ احمدی کی طرح لوکل آئٹم تھوڑی ہے بھائی! ” سکندرمرزا نے کہا۔
” ارے مرے برانڈڈ آئٹم! دیکھ: وہابی ،سُنّی میں لاکھ اختلافات سہی، لیکن جب بھی کڑا وقت آتا ہے ، ایک اُمّت بن جاتے ہیں ۔بھلاکیوں ؟ اس لئے کہ سوادِ اعظم ایک ہے، جبکہ شیعہ ایک اقلیت ہے۔ وِد رَیسپیکٹ ٹو سوادِ اعظم! ”
” شیعہ کیسے اقلیت ہو گیا ؟ ہی اِز پارٹ آف گیم یار! ”
“ہاں، لیکن ندر کی گیم کچھ اور ہے، مولوی اپنا کام نکالنے کے لئے شیعہ کو استعمال کرتا ہے۔ کام نکل جائے تو اِختلافات شروع!”
” اختلافات تو سب فرقوں میں ہیں پھر ۔”
“بات اختلافات کی نہیں، سوادِ اعظم کی ہے ۔”
“یہ قائد اعظم کہاں سے آ گئے یار بیچ میں ؟”
” لگتا ہے کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے ۔قائد اعظم نہیں مائی لارڈ! سوادِ اعظم۔ سپریم اتھارٹی آف مُسلم میجارٹی ۔حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی یہ سب ایک سوادِ اعظم ہے۔ بَٹ شیعہ اِز اے کوائِٹ ڈِفرنٹ ریلیجئس چین! ”
“مطلب کہ ان حالات میں شیعہ کو کیا کرنا چاہیے؟ “سکندر مرزا پریشان ہو گئے ۔
“مرزائیت کا ساتھ دینا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے؟ آج سوادِ اعظم ہمارے خلاف ایک ہے۔ کل شیعہ کے خلاف ایک ہوگا۔ آج احمدی اکیلا ہے ۔ کل شیعہ تنہا ہوگا۔ ایک ایک کرکے کفر کے گڑھے میں دفن کریں گے ہمیں! ” جی احمد نے کہا۔
” آئی ڈونٹ بی لیو آن اِٹ! ” سکندر مرزا نے کہا۔
” اسی لئے تو کہتا ہوں کارل مارکس کو چھوڑ اور مذہبی کتابیں پڑھا کر۔ تاکہ آنکھ کھلے تیری !”
” اوہ مائی گوش !اس کا مطلب ہے مظفرعلی شمسی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے چلا ہے۔ ” سکندر مرزا کی آواز ڈگمگانے لگی۔
” آف کورس !شمسی اِز اَے میڈ ! وہ اُسی شاخ کو کاٹ رہا ہے ،جس پر خود بیٹھا ہے ! ”
“ویری ڈینجرس ! ” سکندر مرزا نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
” ناٹ اونلی ڈینجرس، اِٹس سوسائیڈل !آج ہی ان سب کو اَریسٹ کرو۔ صبح ہونے سے پہلے پہلے، بہت ہو چکا تماشا۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے ۔باقی رہی پبلک۔ جب لیڈر اَندر ہوں گے توپبلک خودبخود شانت ہو جائے گی۔ چلو اب نکلو یہاں سے۔”
“کہاں ؟”
“وزیراعظم ہاؤس ․․․․․ اور کہاں ؟؟
“اس وقت ؟ گیارہ بج رہے ہیں یار ! ”
” گیارہ نہیں میری جان ،ایک بجا ہے رات کا۔ وقت بہت کم ہے ! ”
“لیکن پلان کیا ہے ؟”
” سمجھاتا ہوں ․․․․ سمجھاتا ہوں ”
“اچھا !یہ قائدِ اعظم والی بات بھی مجھے ذرا پھر سے سمجھا دینا۔” سکندر مرزا بُڑبڑایا۔
“قائداعظم نہیں ،لارڈ ماؤنٹ بیٹن ․․․․ سوادِ اعظم ! ”
یہ کہہ کر جی احمد نے گاڑی رِی وَرس کی اور گورنمنٹ ہاؤس کی طرف بڑھا دی۔
میلہ محمدﷺ دے مستانیاں دا
سکندر مرزا اور مسٹر جی احمد نے نصف شب وزیرِ اعظم ہاؤس کی کنڈی کھٹکائی۔
خواجہ صاحب لباسِ شب خوابی میں ہی بھاگے چلے آئے ۔
“کھیریت ؟ اتنا رات گئے کیا مُسکل ہو گیا ؟ ”
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر مسٹر جی احمد ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولے ۔
” سیچواَیشن اِز وَیری کرِیٹِیکل سر !”
“کیوں، کیا ہوا؟ کیا زَولسے میں کوئی ہنگومہ ہو گیا ؟” وزیر اعظم نے متفکّر ہو کر پوچھا۔
“سکندر مرزا! وزیر اعظم کو ڈِی ٹیل بتلاؤ ۔”
سکندر مرزا نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور جھومتے ہوئے کہا:
” ہنگامہ نہیں سر! بغاوت۔ مولوِیز آر آؤٹ آف کنٹرول۔ دے ہیو ڈِی کلیئرڈ اَے وار اَگینسٹ اسٹیٹ ۔کل سے کراچی میں تباہیاں ہوں گی،تباہیاں! ”
” کمول کا بات ہے ․․․․ مولوی لوغ میٹنگ میں کُس اور بولتا تھا۔ اب زولسے میں کُس اور بول رہا ہے ؟”
” سر مولوی اور موسم کا کیا اعتبار ؟جو بادل آج گرج رہے ہیں، کل برس پڑے توسب کچھ بہہ جائے گا۔ اس لئے جتنا جلدی ہو سکے۔ان کڑکتی بجلیوں کو قید کیجئے۔ایکشن مسٹ بی ٹیکن ٹونائیٹ !”
” کیوں مستر جی۔احمد، آپ کیا بولتا ہے ؟” وزیرِ اعظم نے تصدیق چاہی۔
” ایگریڈ وِد مرزا سر۔ کل تک اس طوفان کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا ۔”
سادہ اور پُروقار وزیر اعظم نے یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہ کی کہ جلسے کی رپورٹ دینا تو اِنٹیلی جنس کی ذمّہ داری ہے ۔ آپ حضرات کس خوشی میں باولے ہوئے جاتے ہو؟”
” کمِسنرکراسی سے بات کراؤ، فوراً ۔” وزیر اعظم نے کہا۔
تھوڑی ہی دیر میں کمشنر کراچی اے ٹی نقوی لائن پر موجود تھے ۔
رات ایک بجے جلسہ تمام ہوا۔بندر روڈ پر عوام کا ایک سمندر موجزن تھا۔ آرام باغ سے لے کر جامعہ کلاتھ تک لوگ ہی لوگ تھے ۔ راستے میں جگہ جگہ میمن اور اسماعیلی برادری نے دودھ ،قہوے ، گرم انڈے ، حلوہ پوری اور چائے کے سٹال لگا رکھے تھے۔عاشقانِ رسول ﷺ کا تین روزہ جلسہ اہلِ کراچی کا ایمان جگمگا کر آج ختم ہو رہا تھا۔ میں چاند پوری صاحب کے ساتھ بائسکل پر تھا۔ کرائے کی بائسکل بھرے مجمع میں کیا چلتی،اُلٹااسے پیدل ہی گھسیٹ رہے تھے ۔ جامع کلاتھ کے سامنے عالم شاہ بخاری کے مزار پر خوب میلہ تھا۔ ہم وہاں بیٹھ گئے اور چائے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے لگے ۔ چاند پوری بہت پرجوش اور پرامید تھے ۔
” صدیوں بعد ، پہلی دفعہ اُمّت محمدی ﷺ ایک سٹیج پر اکٹھی ہوئی ہے یار۔ ماشاء اﷲ ! مُفتی محمد شفیع اور مولانا احتشام ا لحق تھا نوی نے آ ج ایک ساتھ نماز پڑھی ہے۔ سبحان اﷲ، مدتوں سے سینگ پھنسائے ان دو بڑے علماء کے بیچ تعصب کی دیواریں گرانے کا سہرا مجلسِ احرار اسلام کے رہنمامولانالال حسین اختر کے سر ہے۔ ہیراآدمی ہے یار، ہیرا۔مولانا لال حسین اخترپہلے لاہوری مرزائی تھے۔ اﷲ نے ہدایت دی اورآج اُمت مسلمہ کی تسبیح کے بکھرے دانوں کوجوڑ رہے ہیں ۔اﷲ اُنہیں خوش رکھے۔ ”
” واقعی اس جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ عوامی جذبات علمائے دین کی مٹھی میں ہوتے ہیں ۔علماء آپس میں خلوص سے مصافحہ کریں تو عوام گلے ملتی ہے ۔اگروہ ایک دوسرے پر دھاڑیں تو پھرلاشیں گرتی ہیں ۔”
” بس یار !اب دعا کرو کہ اتحادِ امّت قیامت تک قائم رہے اور اس کی برکت سے دارالحکومت کا دل بھی پگھل جائے ، حکومت مطالبات پر غور کرے اور کل کا سورج کوئی اچھی نوید لے کرطلوع ہو ۔”
” آمین۔ اب اس اتحادِ امّت کی خوشی میں ایک پیالہ دودھ جلیبی تو کھلا دیں۔” میں نے فرمائش کی۔
“کیوں نہیں، ضرور ضرور۔ ” یہ کہہ کر چاند پوری بیکری کی طرف نکل گئے ۔
رات دو بجے کا عمل تھا۔ سڑک پر اب خال خال ہی لوگ نظر آ رہے تھے ۔ دربار پر کچھ لوگ بیٹھے قوالی سن رہے تھے ۔ ان دنوں پاک وہند میں دِین محمد جالندھری قوال کا طوطی بولتا تھا۔ کم و بیش سارے قوال دین محمد جالندھری کی ہی نقل کیا کرتے تھے ۔چاند پوری دو پیالے دودھ جلیبی کے لے آئے ۔ میں دین محمد قوال کی سُروں پر سر دُھننے لگا:
ایہہ میلہ محمد ﷺ دے مستانیاں دا                              دِلا اُٹھ کہ ویلا ہے شُکرانیاں دا
›) یہ محمد ﷺ کے دیوانوں کا میلہ ہے ۔ جاگ اے دِل ، کہ شکر بجا لانے کا وقت ہے ۔(
اچانک ہی فضاء سائرن کی آواز سے گونج اُٹھی۔ سامنے بندر روڈ سے پولیس کی تین گاڑیاں اور ایک پولیس بس گزری۔چاند پوری اور میں نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
“یا اﷲ خیر! یہ لشکرِ جرارکہاں جا رہا ہے ! ” چاند پوری بڑبڑائے ۔
“لگتا ہے ،وزیرِ اعظم صاحب آ رہے ہیں ،مجلس والوں سے ملنے۔ ” میں نے خیال ظاہر کیا۔
” نہیں ،کچھ اور معاملہ ہے۔ اُٹھو چل کے دیکھتے ہیں۔”
ہم پیالوں اور قوالوں کو وہیں چھوڑ کر روڈ کی طرف بھاگے ۔گاڑیاں ایک قدیم عمارت کے سامنے آ کر رُک گئیں۔پولیس کے چاک و چوبند دستے پوزیشنیں سنبھالنے لگے ۔ کچھ افسران سول لباس میں تھے ۔ایک افسر جوانوں کو متعیّن کر کے گاڑی میں نصب وائرلیس پر ہدایات وصول کرنے لگا۔
” یس سر ․․․ عمارت کو گھیرے میں لے لیا سر !!! ․․․ یس سر ․․․ سر ․․․ سر ”
میں نے عمارت کی دوسری منزل پر آویزاں سرخ رنگ کا بورڈ پڑھنے کوشش کی۔
” دفتر مجلس احراراسلام ․․․․کراچی!”
پولیس افسر ہاتھ میں پستول تھامے آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس کے ساتھ سول لباس میں خفیہ والے بھی تھے ۔ انہوں نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا :
” دروازہ کھولو ورنہ توڑ دیا جائے گا ۔”
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور پولیس افسران اندر چلے گئے ۔
تقریباًدس منٹ تک خاموشی رہی۔ فضاء میں صرف قوالی کے بول ہی باقی رہ گئے ․․․․
مدینے دا ساقی ، ہے ورساں دا مستی

Gاو مستی ، جیندے وچ ہے مستاں دی ہستی
Iجے سَر دے کے مل جائے ، اے مے ہے سستی

Cہے اس مے کدے وِچ ، بلندی نہ پستی
9ہے عرش بریں فرش مستانیاں دا
دفتر احرارکے دروازے سے سب سے پہلے مولاناسیّد ابوالحسنات عصاء ٹیکتے باہر نِکلے ۔ ان کے پیچھے امیرِ شریعت سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری نظر آئے ، پھر صاحبزادہ سیّد فیض الحسن اترے ۔خمارِ عشقِ محمد ﷺ سے سرشار اِن مستانوں کے لئے آزادی اور زندان میں فرق بھی کیا تھا ؟ ان کی تو نصف زندگی ریل میں اور باقی جیل میں کٹی تھی ،دکھ تواُن بے بصیرت حکمرانوں پر تھا، جنہوں نے علمائے حق کے مطالبات کو نظرانداز کر کے غدارِ دین ووطن میر جعفر کے پڑپوتے کا مشورہ مان لیا تھا۔ جنہوں نے ذُریّتِ مرزاقادیان کو کھلا چھوڑ کر سیّد زادوں کو پابۂ زنجیر کر دیا تھا۔ دفتر احرارسے کل آٹھ علماء گرفتار ہوئے ۔ ان میں جناب مولانا لال حسین اختر ،جناب مولانا عبدالرحیم جوہرجہلمی ، جناب نیاز لدھیانوی ، اسد نواز ایڈیٹر‘‘ حکومت’’، اورجناب ماسٹر تاج الدین انصاری بھی شامل تھے ۔جبکہ مولانا عبدالحامد بدایونی اور مظفر علی شمسی صاحب اگلے روز گھروں سے گرفتار کئے گئے ۔
پولیس گاڑیاں ہُوٹر بجاتی ہوئیں سنٹر جیل کراچی کی طرف روانہ ہو گئیں۔ میں اور چاند پوری صاحب تھکے قدموں سے واپس چل پڑے ۔ ہم دونوں خاموش تھے اور بے حد افسردہ۔ ہم ایک بار پھر بابا عالم شاہ بخاری کے مزار پر جا بیٹھے ، جہاں قوال گردوپیش سے بے خبر مے خانۂ عشق و مستی کا احوال سنا رہے تھے :
عجب مستیاں ہن ، اس مے دے اندر

=کہ ہے قطرے قطرے دی تہ وچ سمندر
=جنہیں بوند پیتی او بنیاں قلندر

;نہ معبد کلیسا نہ مسجد نہ مندر
Aہویا دل اے دیوانہ ، مے خانیاں دا

=مدینے دا ہے ، مے کدہ کجھ نرالا
=ہر اک جام ہے ، درسِ توحید والا

3چراغِ محبت او حق دا اجالا
Gدِتّا جس نوں ساقی نے ، عشق دا پیالا

7براھیم ہے سارے بت خانیاں دا
?ایہہ میلہ محمد ﷺ دے مستانیاں دا
)جاری ہے(

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.