تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مجاہدختم نبوت مولانا محمداَبوذر ؒ کی رحلت

ڈاکٹرعمرفاروق احرار

مولانا پیرابوذرغفاریؒ علماء کے اُس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو جدیدوقدیم کا امتزاج رکھتاہے۔جن کے ہاں زہدکی خشکی نہیں ،بلکہ حلم وبرداشت کی تراوت ملتی ہے۔نوجوان جن سے محبت کرتے ہیں اورمحبت پاتے ہیں۔مولانا پیراَبوذراَپنے دینی معمولات اورمعاملات میں پختہ ،مگراِنتہائی ہنس مکھ طبع اوربذلہ سنج مزاج رکھتے تھے۔اِسی لیے وہ اپنے علاقہ اورراولپنڈی و اسلام آباد کے دینی حلقوں میں ہردلعزیز اورمجالس و محافل کی جان تھے۔نوجوان اُن سے محبت کرتے تھے اوراُن کی ظرافت و خوش مزاجی کی بدولت کھنچے چلے آتے تھے۔ہرطبقے کے لوگ اُن کے پاس آتے اورکچھ ہی عرصہ میں دین داری کی جانب مبذول ہوجاتے تھے۔مولانا پیر ابوذرؒکچھ عرصہ سے جگرکے عارضہ میں مبتلاتھے،مگر اُن کی اچانک جدائی وہم وگماں میں بھی نہ تھی۔11؍مارچ کو برادرعزیز مولانا تنویرالحسن نے فون پر اُن کی رحلت کی خبرسنائی تو دِل مسوس کررہ گیا۔اُن کے ساتھ مجلس احراراسلام کے حوالے سے تعلق تو بہت بعدمیں ہوا،لیکن بچپن ہی سے ہم آپس میں متعارف تھے۔بعدمیں وہ میرے خالہ زادبھائی ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ آشناہوئے اوراُن کی گہری دوستی کے چرچے رہے۔مولانا ابوذرکے عزیزقاری جاویداقبال مرحوم میرے قرآن مجیدکے استادتھے۔اُن کے ہاں بھی مولانا ابوذرکو بارہا دیکھا۔تب اُن سے یہ تعلق صرف ذاتی تھا۔بعداَزاں جب وہ جامعہ عربیہ چنیوٹ میں داخل ہوئے تواُن دنوں وہاں مجلس احراراسلام کے سابق رہنماقاری محمدیامین گوہرصاحب نے ‘‘احرارگارڈز’’کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کررکھی تھی۔مولانا ابوذربھی ‘‘احرارگارڈز’’کے ہراول دستے کا حصہ بن گئے۔یوں اُن سے ذاتی تعلق ،جماعتی رشتہ میں تبدیل ہوگیا اورالحمدﷲ یہ جماعتی تعلق آخرتک برقراررہا۔اﷲ کرے کہ روزمحشرہمیں ایک ساتھ ہی لوائے حمدکا سایہ بھی نصیب ہو،آمین۔
مولانا پیر ابوذرغفاریؒ1968 کو تبلیغی جماعت کے ایک مخلص بزرگ حاجی میاں شاہ محمدمرحوم کے ہاں تلہ گنگ،ضلع چکوال کے معروف قصبہ کچھیاں میں پیداہوئے۔سکول کی ابتدائی تعلیم کے بعدنوسال کی عمرمیں آپ کو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام ،جہلم میں داخل کرادیاگیا۔جہاں انہوں نے دوسال میں قاری عزیزالحق صاحب سے قرآن مجیدحفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے قاری مشتاق احمدؒ)مدفون مدینہ منورہ(سے قرأت سیکھی ۔راولپنڈی میں تبلیغی مرکز جامع مسجدزکریامیں ابتدائی کتب پڑھیں۔پھرمولانا عبدالوارث صاحب سے دارالعلوم مدنیہ چنیوٹ اورمولانا منظور احمد چنیوٹی سے جامعہ عربیہ میں موقوف علیہ تک تعلیم پائی۔جبکہ مولانا آزادڈیروی سے دارالعلوم حنفیہ چکوال میں دورۂ حدیث مکمل کیا۔اپنے والدماجدکے زیراثر تبلیغی جماعت سے بھی بہت محبت رکھتے تھے۔انہوں نے جماعت کے ساتھ بھی کافی وقت لگایا۔
چنیوٹ میں دوران تعلیم مولانا منظوراحمدچنیوٹی رحمہ اﷲ کی خصوصی محبت وشفقت حاصل رہی۔ مولاناچنیوٹی کے ساتھ ایک سفرغالباً انتخابی مہم کے دوران اُن کی گاڑی کا حادثہ ہوا ۔ مولانا چنیوٹی اورمولانا ابوذرشدیدزخمی ہوئے۔مولانا ابوذرکی ٹانگ ٹوٹ گئی اوروہ کافی عرصہ تک شدید علیل رہے۔فارغ التحصیل ہونے کے بعدکچھ عرصہ تلہ گنگ کی ایک مسجدمیں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔اِسی دوران انہوں نے ہمارے ساتھ ابن امیرشریعت حضرت پیرجی سیّدعطاء المہیمن بخاری مدظلہ’کے دستِ مبارک پر بیعت کی ۔پھر جھنگی سیّداں،راولپنڈی میں بعض احباب کی دعوت پر مسجدسیّدنا صدیق اکبر کی تعمیرکا کام شروع کیا اورحضرت پیرجی سیّدعطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم سے سنگ بنیادرکھوایا۔اِسی دوران کچھ عرصہ کہوٹہ میں بھی خطابت کرتے رہے،مگرپھر مستقلاً جھنگی سیداں راولپنڈی ہی میں تادم آخردعوتِ دین کا کام کرتے رہے۔یہاں تقریباً آپ نے پچیس برس تک قرآن کی تعلیم وتدریس کی اوریہیں سے آپ کا جنازہ اٹھا۔
حضرت امیرشریعت مولاناسیّدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒکے فرزندانِ گرامی اوراُن کے عظیم خانوادے کے ساتھ عشق کی حدتک لگاؤتھا۔اپنی مسجدمیں حضرت پیرجی کے علاوہ ابن امیرشریعت مولانا سیّدعطاء المومن بخاری مدظلہ’،نواسۂ امیرشریعت سیدمحمدکفیل بخاری صاحب اوردیگر احراررہنماؤں کے خطابات تسلسل کے ساتھ کراتے رہے۔ آپ ختم نبوت کے انتھک مجاہد تھے۔ہمیشہ قادیانیت کے تعاقب کے لیے کوشاں رہتے تھے۔اکابراحرارکا قرب واِعتمادآپ کو حاصل تھا۔راولپنڈی اوراسلام آبادکی مرکزی دینی میٹنگوں میں،جہاں احرارکے مرکزی ہنما پہنچنے سے قاصرہوتے،وہاں آپ اکابراورجماعت کی بھرپورنمائندگی کرتے۔یہی صورت ملک کے دُوردرازاِجتماعات میں بھی دیکھی جاسکتی تھی۔آپ مجلس احراراسلام،اسلام آباد،راولپنڈی کے ناظم ہونے کے ساتھ ساتھ مجلس احراراسلا م کی مرکزی شوریٰ کی بھی رُکن تھے۔مجلس شوریٰ کے اجلاسوں اورجماعت کے اجتماعات خصوصاً 12 ربیع الاوّل کو سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقدہ مسجداحرار، چناب نگرمیں التزام سے شریک ہوتے۔کئی بارآپ کوآل پاکستان ختم نبوت کانفرنس ،چناب نگرکا نائب ناظم اجتماع بھی بنایاگیا اورآپ نے پوری مستعدی اورذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے اوراکابرکی دعائیں سمیٹیں۔
گزشتہ سال جب اُن سے ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں شرکت کی بابت فون پر دریافت کیاتو اُنہوں نے کہا کہ الحمد ﷲ میں کافی بہتر ہوں اورکانفرنس میں ضرورشرکت کروں گا۔حسب وعدہ وہ تشریف لائے اورکانفرنس کے انتظامات میں شرکت کے علاوہ اجتماع سے خطاب بھی کیا اورجلوس کی نگرانی اورترتیب میں بھی پیش پیش رہے۔بعدازاں وہ مجھے ملنے کے لیے تلہ گنگ آئے تو تاکیدکے ساتھ دووَصیتیں کیں کہ میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔میری وصیت ہے کہ میں نے ابتدائی عمرہی میں احرارمیں شمولیت اختیارکی ،میں اِس تعلق کو زندگی کے آخری سانسوں تک نبھاؤں گا۔اِس لیے جب میں مرجاؤں تو مجھے احرارکے سرخ ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے ۔دوسرایہ کہ میری نمازجنازہ حضرت پیرجی سیّد عطاء المہیمن بخاری مدظلہ’ پڑھائیں۔اگروہ تشریف نہ لاسکیں تو خاندانِ امیرشریعت میں سے کوئی بھی میراجنازہ پڑھادے۔تاکہ میری وابستگی میرے مرنے کے بعدبھی برقراررہے۔
مولانا ابوذرؒ کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی نواسۂ امیرشریعت حضرت سیّدمحمدکفیل بخاری حفظہ اﷲ تشریف لائے اورانہوں نے جنازہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے بتایاکہ‘‘ دودن پہلے مولانا ابوذرکی راولپنڈی میں عیادت کی۔خاصی دیراُن کی شگفتہ مزاجی سے محفل جمی رہی۔حالانکہ انہیں شدید تکلیف تھی۔پھر میں قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن کے ہاں ختم نبوت رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں چلاگیا۔میٹنگ میں شرکت کے بعد مولانا ابوذرکا فون آیاتو اُن کی آوازسے اُن کی نقاہت واضح تھی،مگر وہ تحفظ ختم نبوت کے عاشق تھے،اوراِس مسئلے پر اِنتہائی متفکرتھے،مرضِ وفات لاحق تھا،مگر ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات مجھ سے معلوم کرتے رہے۔’’ 11؍مارچ کو صبح 9؍بجے بہت بڑاجنازہ ہوا۔میّت کو آپ کی وصیت کے مطابق احرارکے سرخ پرچم میں لپیٹ دیاگیاتھا۔مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر نواسۂ امیرشریعت محترم سیدمحمدکفیل بخاری صاحب نے اپنے انتہائی مخلص کارکن،دیرینہ رفیق اورمجاہدختم نبوت کاجنازہ پڑھایا۔یوں یہ ہمارے پیارے دوست،ساتھی اوردمسازمولانا پیرابوذرغفاریؒ ہمیشہ کے لیے مٹی کی چادراَوڑھ کرمحوِ اِستراحت ہوگئے۔اُن کی وفات سے ہم ایک پُرجوش واَنتھک مبلّغ،نامور خطیب اورایک انتہائی اثرانگیزشخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
چارہ گر، یوں تو بہت ہیں، مگر اے جانِ فراز

Jجز ترے، اور کوئی، زخم نہ جانے، میرے
ö اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اوراُن کے فرزندان ابوہریرہ اوراحمدشاہ کو اُن کا صحیح جانشین اوردین کا سپاہی بنائے۔)آمین(

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.