اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ )قسط:۱۲(
حافظ عبیداﷲ
راویوں کا تعارف
زہیر بن حرب: ان کا تعارف حدیث نمبر 2 کے ضمن میں ہوچکا۔
الولید بن مسلم ابوعباس الدمشقي
امام ذہبی نے انہیں ‘‘امام، اہل شام کے عالم، حافظِ حدیث اور ثقہ’’ لکھا ہے۔ محمد بن سعد نے انہیں ‘‘ثقہ ، بہت زیادہ حدیث اور علم والے’’ لکھا ہے۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ : ‘‘میں نے شامی لوگوں میں ولید بن مسلم سے زیادہ عقل والا نہیں دیکھا’’ ، ایک جگہ فرمایا کہ: ‘‘شامیوں کی احادیث ولید بن مسلم اور اسماعیل بن عیاش سے زیادہ اچھی روایت کرنے والا میں نے نہیں دیکھا’’۔ علی بن المدینی نے کہا کہ : ‘‘میں نے شامیوں میں ولید کا مثل نہیں دیکھا’’ ۔ ابوزرعہ دمشقی کہتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا: ‘‘تمہارے پاس تین )بڑے( اصحاب حدیث تھے، مروان بن محمد، ولید بن مسلم اور ابو مسہر’’۔ ابومسہر نے کہا کہ : ‘‘ابو العباس )ولید کی کنیت۔ناقل( پر اﷲ رحم کرے وہ بہت علم والے تھے’’۔ ابوزرعہ دمشقی کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسہر سے ولید بن مسلم کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ‘‘وہ ہمارے ثقہ ساتھیوں میں سے تھے’’۔ امام عِجلی اور یعقوب بن شیبۃ نے بھی انہیں ‘‘ثقہ’’ کہا ہے۔ محمد بن ابراہیم اصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحاتم سے ولید بن مسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ‘‘وہ صالح الحدیث )یعنی اچھی حدیث والے( ہیں’’ ۔ ابن عدی نے بھی انہیں ‘‘ثقہ’’ کہا ہے۔
)سیر اعلام النبلاء، ج9 ص211 /تہذیب الکمال للمزي، ج31 ص86 /تہذیب التہذیب، ج11 ص151(
فائدہ: ولید بن مسلم کے بارے میں ابو مسہر کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ ‘‘ابن ابی السفر’’ )جو کہ کذاب اور جھوٹا تھا(سے امام اوزاعی کی احادیث لیتے تھے، اور پھر اس حدیث کو ‘‘قال الاوزاعي یعنی اوزاعی نے یوں کہا’’ کہہ کر بیان کرتے تھے اس طرح شبہ ہے کہ یہ ‘‘تدلیس’’ کے مرتکب ہوتے تھے )امام ذہبی نے ابن مسہر سے ربما دَلّس الولید بن مسلم کے الفاظ نقل کیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ احتمال ہے کہ انہوں نے تدلیس کی ہو( ۔
تو عرض ہے کہ ہماری زیرِ بحث روایت میں تدلیس کا کوئی احتمال نہیں، کیونکہ نہ تو یہ اس میں ولید بن مسلم ، اوزاعی سے روایت کررہے ہیں کہ احتمال ہو کہ یہ ابن ابی السفر کے واسطے سے تو نہیں لی، اور پھر وہ ‘‘حدثنا ابن ابي ذئب’’ کے لفظ کے صریح لفظ کے ساتھ روایت کررہے ہیں کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، اور امام ذہبی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ :
‘‘فاذا قال حدّثنا ، فہو حُجّۃ’’ جب وہ لفظ ‘‘حدّثنا’’ کے ساتھ روایت کریں تو وہ بلاشبہ حجت ہیں۔
)سیر اعلام النبلاء، ج9 ص212، مؤسسۃ الرسالۃ(
نیز امام ذہبی نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
‘‘قلتُ: البخاري ومسلم قد احتجّا بہ ، ولکنہما ینتقیان حدیثہ، ویتجنبان ما یُنکر لہ’’ بخاری ومسلم دونوں نے ان سے حجت پکڑی ہے، لیکن وہ دونوں ان کی حدیث کی اچھی طرح جانچ کرکے نقل کرتے ہیں اور ان کی اس حدیث کو بیان کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جو منکر ہو۔
)سیر اعلام النبلاء، ج9 ص212، مؤسسۃ الرسالۃ(
محمد بن عبدالرحمن بن المغیرۃ القرشی العامری المدنی )ابن ابي ذئب(
امام ذہبی نے انہیں ‘‘شیخ الاسلام، اور فقیہ مدینہ’’ کہا ہے۔ ایک دوسری جگہ ان کے بارے میں لکھا ہے ‘‘کان کبیر الشأن، ثقۃ’’ وہ بڑی شان والے اور ثقہ تھے۔ حافظ ابن حجر نے انہیں ‘‘ثقہ، فقیہ اور فاضل’’ لکھا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ‘‘ابن ابی ذئب تو سعید بن المسیب کے مشابہ تھے’’ ۔ ایک جگہ فرمایا: ‘‘وہ سچے تھے اور امام مالک سے افضل تھے’’ ایک اور جگہ فرمایا: ‘‘وہ نیک آدمی تھے’’۔ یحییٰ بن معین نے کہا : ‘‘ابن ابی ذئب ثقہ ہیں، اور وہ سب بھی جن سے یہ روایت کرتے ہیں ثقہ ہیں سوائے ابوجابر البیاضی کے’’۔ امام ابوداود کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن صالح کو بھی یہ کہتے سناکہ : ‘‘ابن ابی ذئب کے تمام شیوخ ثقہ ہیں سوائے ابوجابر البیاضی کے’’۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ :‘‘جن لوگوں کو میں نہیں پاسکا ان میں سے سب سے زیادہ افسوس مجھے لیث )بن سعد( اور ابن ابی ذئب کے نہ پانے کا ہے’’۔ امام نسائی نے بھی انہیں ‘‘ثقہ’’ کہاہے۔ عثمان دارمی کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ ابن ابی ذئب زہری سے روایت کرنے میں کیسے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ‘‘ابن ابی ذئب ثقہ ہیں’’۔ محمد بن سعد نے کہا کہ :‘‘ابن ابی ذئب مدینہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے، وہ ثقہ ، عالم، فقیہ ، متقی اور عبادت گزار تھے’’۔ ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مدینہ کے فقہاء میں سے تھے۔ خلیلی نے کہا ہے کہ : ‘‘وہ ثقہ ہیں، امام مالک نے ان کی تعریف کی ہے’’۔ یعقوب بن شیبہ نے کہا کہ : ‘‘وہ ثقہ اور سچے ہیں، البتہ بعض لوگوں نے ان کی امام زہری سے روایت میں کلام کیا ہے کہ اس میں اضطراب پایا جاتا ہے’’۔ یحییٰ بن سعید سے نقل کیا جاتا ہے کہ وہ ابن ابی ذئب اور ابن جُریج کی امام زہری سے روایت کردہ حدیث سے راضی نہیں ہوتے تھے اور اسے قبول نہیں کرتے تھے۔
)الکاشف للذہبي، ج2 ص194 /تقریب التہذیب: ص493/تہذیب التہذیب، ج9 ص303 /سیر اعلام النبلاء، ج7 ص 139(۔
فائدہ: خود جناب تمنا عمادی نے اقرار کیا ہے کہ ‘‘ابن ابی ذئب تمام محدثین کے نزدیک بڑے ثقہ اور معتبر ہیں’’ )انتظارِ مہدی ومسیح، ص193(، لیکن ساتھ ہی یہ لکھتے ہیں کہ ‘‘بعض اکابر محدثین وائمہ رجال زہری کی حدیثوں میں ان کو معتبر نہیں سمجھتے’’ جو کہ سراسر ایک مغالطہ ہے، بعض )نا معلوم( حضرات کے زہری سے ان کی بیان کردہ احادیث میں بوجہ اضطراب کے کلام کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ‘‘بعض اکابر محدثین ابن ابی ذئب کو معتبر نہیں سمجھتے تھے’’۔ رہی یہ بات کہ یحییٰ بن سعید ان کی زہری سے بیان کردہ احادیث کو پسند نہیں کرتے تھے، تو جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس پسند نہ کرنے کی وجہ کیا تھی اس وقت تک اس جرح کی کوئی حیثیت نہیں، جب کہ یحییٰ بن سعید نے ابن ابی ذئب کی وثاقت پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
ابن شہاب زہري: ان کا مفصل تعارف ہوچکا ۔
نافع مولیٰ ابي قتادۃ: ان کا تعارف بھی ہوچکا ۔
حدیث نمبر 8:
‘‘)امام مسلم فرماتے ہیں( بیان کیا ہم سے قتیبہ بن سعید نے، )وہ کہتے ہیں( ہم سے بیان کیا لیث )بن سعد( نے، اُن سے سعید بن ابی سعید نے، اُن سے عطاء بن میناء نے، اُن سے بیان کیا حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا: اﷲ کی قسم مریم کے بیٹے )عیسیٰ علیہ السلام( ضرور نازل ہوں گے حاکمِ عادل ہو کر، پس توڑ ڈالیں گے صلیب کو اور مارڈالیں گے خنزیر کو، اور موقوف کردیں گے جزیہ کو،اور چھوڑ دیں گے جوان اونٹ کو، پھر کوئی محنت نہیں کرے گا اس پر، اور لوگوں کے دلوں میں سے کدورت،دشمنی اور جلن جاتی رہے گی، اور بلائیں گے وہ لوگوں کو مال دینے کے لئے لیکن کوئی قبول نہ کرے گا )اس وجہ سے کہ حاجت نہ ہوگی اور مال کثرت سے ہر کسی کے پاس ہوگا( ۔’’
)صحیح مسلم، ح 243)155(، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا e(
راویوں کا تعارف:
قتیبۃ بن سعید: تعارف پہلے ہوچکا ۔
لیث بن سعد : ان کا تعارف بھی ہوچکا۔
سعید بن ابي سعید المقبري)ابو سعد( المدني
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ‘‘الامام المحدِّث الثقۃ’’۔ یحییٰ بن معین، ابن المدینی، ابن سعد، عِجلی، ابو زرعہ، نسائی اور ابن خراش سب نے انہیں ‘‘ثقہ’’ کہا ہے۔ ابوحاتم نے انہیں ‘‘صدوق’’ )سچا( کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی انہیں ‘‘ثقہ’’ لکھا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کے حافظہ میں کچھ خرابی واقع ہوگئی تھی، لیکن امام ذہبی نے لکھا ہے کہ : ‘‘ما أحسبہ رویٰ شیئاً في مدۃ اختلاطہ، وکذلک لا یُوجد لہ شيء منکر’’ میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اختلاط کے اس عرصہ میں کوئی چیز روایت کی ہو، نہ ہی ان کی کوئی منکر چیز ) حدیث( پائی جاتی ہے۔
)تقریب التہذیب: ص236/تہذیب التہذیب، ج4 ص38 /سیر اعلام النبلاء، ج5 ص 216(
عطاء بن مِینا مولیٰ ابن ابی ذباب المدني )وقیل البصري(
سفیان بن عیینہ نے کہا کہ :‘‘عطاء بن مینا، حضرت ابوہریرہؓ کے معروف اصحاب میں سے تھے’’۔ ایوب بن موسیٰ نے انہیں ‘‘نیک لوگوں ’’ میں شمار کیا ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ‘‘ثقہ’’ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام عِجلی نے لکھا ہے :‘‘مدني تابعي ثقۃ’’ یہ مدنی الاصل، تابعی اور ثقہ ہیں۔ حافظ ابن حجر نے بھی تقریب التہذیب میں انہیں ‘‘صدوق’’ )سچے( لکھا ہے۔ ابن سعد نے بھی ان کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ‘‘یہ قلیل الحدیث ہیں’’ )یعنی ان سے بہت کم احادیث مروی ہیں(۔ امام دار قطنی ان کا ذکر یوں کرتے ہیں : ‘‘عطاء بن مینا ، مدني یُروي عن ابي ہریرۃ’’ عطاء بن مینا مدینہ کے رہنے والے ہیں ، حضرت ابوہریرۃ سے روایت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے بھی تاریخ کبیر میں ان کا ذکر کیا ہے۔
)التاریخ الکبیر، ج6 ص462 /تہذیب التہذیب، ج7 ص216 /الثقات للعجلی، ج2 ص 137 /المؤتلف والمختلف، ج4 ص2106(
تمنائی تلبیس
تمنا عمادی صاحب نے تو پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ نزولِ عیسیٰ u کی احادیث سب )نعوذ باﷲ( جھوٹی ہیں کیونکہ ان کی تمنائی تحقیق یہ کہتی ہے کہ ہر وہ حدیث جھوٹی اور موضوع ہے جس میں ایسی چیز بیان کی گئی ہو جس کا قرآن میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ، یہ کتاب ‘‘انتظارِ مہدی ومسیح’’ تو انہوں نے صرف یہ مغالطہ دینے کے لئے لکھی کہ میں تو کتب اسماء الرجال اور علم جرح وتعدیل کے قواعد کی روشنی میں ان احادیث کو جھوٹی اور غلط ثابت کررہا ہوں۔ لیکن جہاں کتب اسماء الرجال میں انہیں کوئی ایسی چیز نہ ملے جس کو پیش کرکے وہ مغالطہ دے سکیں تو وہاں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ فلاں شخصیت تو فرضی ہے، ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین نے یونہی انہیں ثقہ اور معروف لکھ دیا ہے۔
آپ نے ‘‘عطاء بن مینا’’ کے بارے میں مختلف ائمہ کے اقوال ملاحظہ فرمائے، اب چودھویں صدی کے ‘‘محدث العصر’’ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
‘‘ابن شہاب زہری کے علاوہ تین آدمی اور حضرت ابوہریرۃ سے روایت کرنے والے مہیا کیے گئے ہیں، تاکہ ابن شہاب ہی تنہا اس کے راوی نہ ٹھہریں، مگر ان تینوں کی خبر امام بخاری کو نہ تھی یا صحیح بخاری میں ان تینوں کی حدیثیں ٹھونسنے کا کسی کو موقع نہ ملا۔ نزولِ مسیح سے متعلق حدیثیں ٹھونسنے کا موقع یارانِ طریقت کو صحیح مسلم میں کافی طور سے مل گیا۔ چنانچہ کتاب العلم اور کتاب الفتن دو جگہ حدیثیں ٹھونسی گئی ۔ بہرحال ابن شہاب کے علاوہ عطا بن مینا جو مرو کے رہنے والے مگر ابن ابی ذباب المدنی کے غلام آزاد کردہ تھے اس لئے ابن حجر انہیں مدنی لکھتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ بعضوں نے ان کو بصری کہا ہے اور پھر آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ابن سعد نے ان کو اہل مکہ کے طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔مگر تھوڑا تدبر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی شخص ہی نہ تھے، اپنے جی سے ایک نام گھڑ کر اس سے روایت کی گئی۔ کیونکہ ان کا ذکر کسی کتاب میں تفصیل سے نہیں ملتا، حتیٰ کہ ان کا سالِ وفات بھی کہیں مذکور نہیں ……)پھر آگے لکھتے ہیں(…… ابن ابی ذباب کے آزاد کردہ غلام تھے، ابن ابی ذباب کی وفات 146ھ میں ہے ، انہوں نے انہیں کس سن میں آزاد کیا، اس وقت ان کی عمر کیا تھی…… حضرت ابوہریرۃ اور ابن ابی ذباب کی وفات کے درمیان نوے برس کا فاصلہ ہے، اس لئے ابن ابی ذباب ہی نے حضرت ابوہریرۃ کو نہیں دیکھا ہوگا، ان کے آزاد کردہ غلام نے کب دیکھاہوگا’’۔
)خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص195 و 196(
قارئین محترم! یہ اس شخص کی تحقیق ہے جس نے نہ صحیح بخاری پڑھی اور نہ صحیح مسلم کا مطالعہ کرنے کی ہی اسے توفیق ہوئی، لیکن بد قسمتی سے محض دھوکہ دینے کے لئے اسے ‘‘محدث العصر’’ مشہور کردیا گیا، پہلے اس نے یہ لکھا تھا کہ صحیح بخاری میں باب نزول عیسیٰ بن مریم ‘‘کتاب بدء الخلق’’ میں ہے، اب یہ لکھ رہا ہے کہ صحیح مسلم کی کتاب العلم میں بھی ‘‘نزولِ مسیح’’ کی حدیثیں ٹھونسی گئیں، میں نے بار بار صحیح مسلم کی کتاب العلم کا مطالعہ کیا ہے ، اس میں 16 احادیث ہیں )جن میں سے بعض احادیث امام مسلم نے مختلف سندوں کے ساتھ بیان کی ہیں( اور اس پوری کتاب العلم میں کوئی ایک حدیث مجھے ایسی نہیں ملی جس میں ‘‘نزولِ عیسیٰ u’’ کا ذکر ہو، پھر حدیث دشمنی کی انتہاء ہے کہ بار بار مسلمانوں کی حدیث کی صحیح ترین دو کتابوں )صحیح بخاری وصحیح مسلم( کے بارے میں یہ الفاظ لکھے جارہے ہیں کہ ‘‘ان کے اندر بعد میں حدیثیں ٹھونس دی گئی’’۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرنے والے ‘‘عطاء بن مِینا’’ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘وہ مرو کے رہنے والے تھے، مگر ابن حجر نے انہیں مدنی لکھا ہے، اور ابن حجر کے ہی بقول بعض نے انہیں بصری کہا ہے اور ابن سعد نے انہیں اہل مکہ کے طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے’’، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابن حجر نے انہیں ‘‘مدنی’’ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بعض نے انہیں بصری اور اور ابن سعد نے انہیں اہل مکہ میں شمار کیا ہے، تو اس میں اعتراض والی کیا بات ہے؟ بہت سے راویان حدیث کے بارے میں کتب اسماء الرجال میں لکھا ملتا ہے کہ فلاں نے اسے فلاں علاقے کا بتایا ہے اور فلاں نے کسی دوسرے علاقے کا، اس سے راوی کی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے؟، لیکن عمادی صاحب پر یہ وحی نہ جانے کہاں سے نازل ہوئی کہ ‘‘عطاء بن مِینا مرو کے رہنے والے تھے’’؟ یہ بات نہ حافظ ابن حجر کو معلوم تھی اور نہ ہی ابن سعد کو۔ یہ ہے عمادی صاحب کا مبلغ ِ علم اور تلبیس کا فن جس میں وہ ‘‘وحید العصر’’ ہیں ، فوا أسفاہ۔
اب آگے چلتے ہیں! کہتے ہیں کہ‘‘ عطاء بن مِینا ایک فرضی شخصیت ہیں، کیونکہ ان کا سن وفات کسی نے نہیں لکھا، نیز ان کے دادا پڑدادا کی بھی کوئی خبر نہیں’’ ۔ یہ راز نہ ابن حجر پر کھلا، نہ ابن حبان وعِجلی پراور نہ ہی امام بخاری اور ابن سعد کے ذہن میں یہ نکتہ آیا، نہ ان تمام ائمہ جرح وتعدیل کی توجہ اس طرف گئی جو حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرنے والوں میں ‘‘عطاء بن مِیناء’’ کا نام بھی لکھتے ہیں۔ یہ ‘‘کشف’’ ہوا تو چودھویں صدی کے ایک شخص پرجس کا مبلغ علم کچھ تو آپ ملاحظہ کرچکے اور کچھ آگے بھی ملاحظہ کریں گے۔
آگے عمادی صاحب نہ جانے کس ‘‘ابن ابی ذباب’’ کا ذکر کررہے ہیں کہ ان کی وفات 146ھ میں ہوئی تھی اور عطاء بن مِینا اُن کے آزاد کردہ غلام تھے، اور اِن ابن ابی ذباب نے خود حضرت ابوہریرہ ؓ کا زمانہ نہیں پایا تو ان کے آزاد کردہ غلام نے کیسے پالیا؟۔
میں نہیں جانتا عمادی صاحب نے کہاں سے سمجھ لیا کہ عطاء ابن مِینا انہی ابن ابی ذباب کے آزاد کردہ غلام تھے جن کی وفات سنہ 146ھ میں ہوئی، بلکہ اگر کتب اسماء الرجال کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرنے والے دو نام ایسے ملتے ہیں جن کے ساتھ ‘‘مولیٰ ابن ابی ذباب’’ ملتا ہے۔ ایک تو ہمارے زیرِ بحث ‘‘عطاء بن مِینا’’ اور دوسرے ‘‘ولید بن رباح الدوسی المدنی’’ ، اِن ولید بن رباح کو بھی ‘‘مولیٰ بن ابي ذباب کہا جاتا ہے ، اور ان کی ولادت سنہ 33 ہجری اور وفات سنہ 117 ہجری لکھی ہے، ابوحاتم نے انہیں ‘‘صالح’’، امام بخاری نے ‘‘اچھی حدیث والا’’ اور ابن حبان نے ‘‘ثقہ’’ لوگوں میں شمار کیا ہے )دیکھیں: تہذیب التہذیب، ج11 ص133 / الثقات لابن حِبان، ج5 ص493( معلوم ہوا کہ یہ ولید بن رباح کسی ایسے ‘‘ابن ابی ذباب’’ کے غلام تھے جنہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کا زمانہ پایا ہے یا وہ خود صحابی تھے، یہ وہ والے نہیں ہوسکتے جو عمادی صاحب نے فرض کر لئے ہیں، تو جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک نام ملتا ہے ‘‘ایاس بن عبداللّٰہ بن ابی ذباب الدوسي’’ ، حافظ ابن عبدالبر اور ابوحاتم رازی وغیرہ نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے، بعض نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے۔ )ملاحظہ ہو: أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج1 ص338 دار الکتب العلمیۃ بیروت / الاستیعاب فی أسماء الأصحاب، ج1 ص83 دار الفکر بیروت / تہذیب التہذیب، ج1 ص389 /الجرح والتعدیل لابن ابي حاتم، ج1 ص280 دار الکتب العلمیۃ بیروت /الوافی بالوفیات لصلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدي، ج9 ص260 دار احیاء التراث العربی بیروت( ۔
اور ان ابن ابی ذباب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہؓ کے قبیلہ سے یعنی ‘‘دوسی’’ ہیں، اور قرین قیاس یہی ہے کہ ‘‘عطاء بن مِینا’’ اور ‘‘ولید بن رباح’’ دونوں ان ہی ابن ابی ذباب کے غلام تھے ، لیکن عمادی صاحب کا مقصد صرف حدیث اور کتب حدیث کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا ہے اس لئے انہیں صرف وہی ابن ابی ذباب نظر آئے جن کی وفات 146ھ میں ہوئی تھی، اور حضرت ابوہریرہؓ کے اپنے قبیلہ والے یا تو نظر نہیں آئے یا جان بوجھ کر نظرانداز کردیے گئے۔
الغرض! عطاء بن مِینا ہرگز کوئی فرضی یا مجہول شخصیت نہیں، اور اس اعتراض کی علم اسماء الرجال یا فن ِ جرح وتعدیل میں کوئی حیثیت نہیں کہ چونکہ فلاں راوی نے صرف ایک صحابی سے روایت کی ہے اور کسی سے نہیں کی، یا اس کی روایت امام مسلم نے تو ذکر کی ہے امام بخاری نے نہیں ذکر کی لہٰذا یہ راوی ناقابل اعتبار یا فرضی شخصیت ہے، یہ تمنا عمادی صاحب کا اپنا ‘‘ڈھکوسلہ’’ ہے ۔
حدیث نمبر9:
یہی مذکورہ بالا حدیث امام ابن حبانؒ نے اپنی سند کے ساتھ یوں بیان فرمائی ہے:
‘‘ہمیں خبر دی عبداللّٰہ بن محمد الازدي نے، انہوں نے کہا کہ بیان کیا ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے ، انہوں نے کہا کہ خبر دی ہمیں عمرو بن محمد العنقزی نے، انہوں نے کہا بیان کیا ہم سے لیث بن سعد نے ، اُن سے )سعید بن ابی سعید( المقبُری نے ، اُن سے عطاء بن میناء نے ، اُنہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا……) آگے صحیح مسلم والے الفاظ ہیں( ۔
)صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 6816، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت(
راویوں کا تعارف:
عبد اللّٰہ بن محمد بن عبدالرحمن بن شیرویہ القرشی النیسابوری۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں انہیں ‘‘الامام ، الحافظ الفقیہ’’ لکھا ہے۔ اور تذکرۃ الحفاظ میں انہیں ‘‘بالاتفاق ثقہ’’ کہا اور لکھا ہے کہ ان کی ولادت 210 اور 220 ہجری کے درمیان ہوئی اور وفات 305ہجری میں ہوئی۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ انہوں نے اسحاق بن راہویہ کی مسند اول تا آخر اُن سے روایت کی ہے، اور اسحاق بن راہویہ ان کا اپنے والد کی طرح احترام کرتے تھے۔ اسحاق بن خزیمہ کہتے ہیں کہ‘‘ میں اپنے بچپن میں عبداﷲ بن محمد بن شیرویہ کو مناظرہ کرتے دیکھ کر یہ کہا کرتا تھا کہ کیا میں کبھی اِن جتنا علم حاصل کرپاؤں گا’’۔ امام سمعانی لکھتے ہیں کہ ‘‘یہ مشہور فقیہ اور محدث تھے، انہوں نے پہلے بیس سال تک حدیث کا علم حاصل کیا، پھر کئی سال تک وہ فتویٰ میں مشغول رہے، اس کے بعد بیس سال تک کتابیں تصنیف کرتے رہے، اور اس کے بعد بیس سال حدیث پڑھاتے رہے’’۔
) سیر اعلام النبلاء، ج14 ص166 / تذکرۃ الحفاظ، ج2 ص705 دار الکتب العلمیۃ بیروت / التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید للحافظ ابی بکر بن نقطہ، ج2 ص588 طبع قطر / الأنساب للسمعاني، ج3 ص500 بیروت(۔
ایک وضاحت: یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ امام ابن حِبان نے تو اپنی سند میں ان کا نام ‘‘عبداللّٰہ بن محمد الأزدي’’ ذکر کیا ہے ، انہیں ‘‘بن شیرویہ ’’ نہیں لکھا، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی اور ہوں اور ‘‘بن شیرویہ’’ کوئی اور ہوں۔ کیونکہ امام ابن حِبان نے اپنی صحیح میں ان کا نام ‘‘عبداللّٰہ بن محمد بن عبدالرحمن بن شیرویہ الأزدي’’ بھی ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو )صحیح ابن حِبان، ج12 ص448 حدیث نمبر 5635 ، اور یہ حدیث بھی وہ اسحاق بن راہویہ سے روایت کررہے ہیں( لہٰذا یہ ایک ہی شخصیت ہیں۔
اسحاق بن ابراہیم )بن راہویہ(: ان کا تعارف پہلے ہوچکا۔
عَمرو بن محمد العنقزي ابوسعید الکوفي
امام احمد بن حنبل اور امام نسائی دونوں نے انہیں ‘‘ثقہ’’ کہا ہے۔ یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ ‘‘ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں’’۔ ابن حِبان نے انہیں ‘‘ثقہ’’ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام عِجلی نے بھی انہیں ‘‘ثقہ’’ لکھا ہے۔ امام ذہبی کے نزدیک بھی یہ ‘‘ثقہ’’ ہیں۔امام بخاری کے مطابق ان کی وفات سنہ 199 ہجری میں ہوئی۔
)تہذیب التہذیب، ج8 ص98 /الکاشف، ج2 ص87 /الجرح والتعدیل، ج6 ص262(
سعید بن ابي سعید المقبري:ان کا تعارف پہلے ہوچکا۔
عطاء بن مِینا: ان کا تعارف بھی ہوچکا۔
حدیث نمبر 10:
‘‘)امام مسلم فرماتے ہیں ( بیان کیا مجھ سے زہیر بن حرب نے ، وہ کہتے ہیں کہ بیان کیا ہم سے معلّٰی بن منصور نے، وہ کہتے ہیں بیان کیا ہم سے سلیمان بن بلال نے، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا سہیل )بن ابی صالح السمّان( نے، انہوں نے اپنے والد )ذکوان ابوصالح السمّان الزیّات( سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہ اﷲ کے رسول e نے فرمایا …… )ایک طویل حدیث ہے جس میں قیامت کے قریب پیش آنے والے مختلف واقعات کا ذکر ہے جن میں خروج دجّال اور حضرت عیسیٰ uکے ہاتھوں اس کے قتل ہونے کا ذکر بھی ہے ، اسی ضمن میں نبی کریم e نے فرمایا( …… فینزل عیسیٰ بن مریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَاَمَّہُم ، فَاِذَا رَآہُ عَدُوُّ اللّٰہِ، ذَابَ کَمَا یَذُوبُ المِلحُ فِي المَاءِ، فَلَو تَرَکَہ لانذابَ حَتّٰی یَہلِک، وَلٰکِن یَقتَلُہُ اللّٰہُ بِیَدِہ، فَیُرِیہِم دَمَہ فِي حَربَتِہ۔ پس حضرت عیسیٰ بن مریم i نازل ہوں گے پھر وہ ان کی قیادت کریں گے ، پس جب اﷲ کا دشمن )دجّال( انہیں دیکھے گا تو )ڈرسے( ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ، اگر عیسیٰ اُسے یونھی چھوڑ دیں تب بھی وہ خود بخود گل کر ہلاک ہوجائے ، لیکن اﷲ تعالیٰ اسے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں پر قتل کرے گا اور حضرت عیسیٰ کی برچھی میں اس کا خون دکھائے گا ۔’’
)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2897، باب فی فتح قسطنطنیۃ وخروج الدجّال ونزول عیسی بن مریم(
یہی مذکورہ بالا حدیث امام ابن حبان نے بھی اپنی سند کے ساتھ یوں نقل فرمائی ہے:
‘‘خبر دی ہمیں محمد بن احمد بن ابی عون نے ، انہوں نے کہا بیان کیا ہم سے ابو ثور )ابراہیم بن خالد( نے ، انہوں نے کہا بیان کیا ہم سے معلّٰی بن منصور نے )آگے صحیح مسلم والی سند ہے( ۔
)صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر 6813، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت(
فائدہ : اس حدیث کے آخری الفاظ کا ترجمہ جیسا کہ آپ نے پڑھا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ uکے ہاتھوں دجّال کا قتل کریں گے اور عیسیٰ u کی برچھی میں دجال کا خون لوگوں کو دکھائیں گے ، لیکن جناب تمنا عمادی صاحب نے انکارِ حدیث کے جذبے سے سرشار ہوکر ان الفاظ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ‘‘اﷲ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے اُسے قتل کریں گے اور اﷲ اپنی برچھی میں اُس کا خون دکھائیں گے’’ اور پھر عمادی صاحب نے توبہ توبہ کی دہائی دی ہے کہ دیکھو اﷲ تعالیٰ کی توہین کردی گئی ) دیکھیں: انتظارِ مہدی ومسیح ، ص 252( ۔ جبکہ کسی محدث ، شارح یا اردو ترجمہ کرنے والے نے ‘‘بِیَدِہ’’ اور ‘‘حَربَتِہ’’ کی ضمیریں اﷲ تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹائیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹائی ہیں ۔ اگر عمادی صاحب کا بس چلتا تو وہ ‘‘یُریہم دمَہ’’ کا ترجمہ بھی یہ کرڈالتے کہ ‘‘اﷲ اپنا خون انہیں دکھائے گا’’ ، رہی یہ بات کہ ‘‘یقتلہ اﷲ’’ میں قتل کی نسبت اﷲ کی طرف کی گئی ہے اور یہ بھی توہین باری تعالیٰ ہے ، تو عرض ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جنگ بدر کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ﴿فَلَم تَقتُلُوہم وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُم وَمَا رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ۔الانفال:17﴾ ‘‘)مسلمانو! حقیقت میں( تم نے ان )کافروں( کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ انہیں اﷲ نے قتل کیا تھا، اور )اے پیغمبر!( جب تم نے ان پر )مٹی( پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں ، بلکہ اﷲ نے پھینکی تھی۔’’
آپ نے دیکھا کہ کفار کا قتل تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوا تھا لیکن اﷲ نے فرمایا کہ یہ قتل تم نے نہیں بلکہ میں نے کیا تھا، اسی طرح کفار کی طرف مٹی اور کنکر تو نبی کریم e نے پھینکے تھے اور اﷲ نے وہ مٹی اور کنکر دشمن کے ہر فر د تک پہنچادیے جو اُن کی آنکھوں وغیرہ میں جا کر لگے اور اُن سے لشکرِ کفار میں افراتفری مچ گئی ، لیکن اﷲ فرماتے ہیں وہ مٹی اور کنکر ہم نے پھینکے تھے ، کیا تمنا عمادی صاحب اور ان کے ہمنوا یہاں بھی معاذ اللّٰہ من تلک الہفوات ما قدروا اللّٰہ حق قدرہ ۔ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون جیسے الفاظ پڑھ کر اﷲ کی طرف قتل اور رمی کی نسبت کو توہین باری تعالیٰ کہنے کی جرأت کریں گے؟ واضح رہے کہ یہ الفاظ انہوں نے صحیح مسلم کی اس حدیث شریف کا غلط ترجمہ کرکے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھے ہیں۔
)جاری ہے(