پروفیسر محمد حمزہ نعیم
دو بدوی اپنا مقدمہ لے کر سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنا موقف پیش کیا جھگڑا ایک کنوئیں کا تھا۔ ایک نے اپنے قبضے اور ملکیت کے دلائل دیے پھر دوسرے نے بس اتنا کہا۔ ‘‘امیر المؤمنین! اَنَافَطَرتُہٗ یہ کنواں پہلے نہیں تھا’’ اسے میں نے بنایا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بدوی کے اس بیان سے میری نظر آیت قرآنی پر گئی کہ یوسف علیہ السلام نے دعا بہ بارگاہ رب العلا مانگی تھی فاطِرَالسموٰاتِ وَالاَرْضِ! اے آسمانوں کے بنانے والے، اے زمین کے وجود میں لانے والے، گویا پہلے نہ آسمان تھے نہ زمین تھی، نہ اہل آسمان تھے نہ اہل جہان تھے۔ یہ سب کچھ اے مالک تو نے بنایا۔ اس بدوی نے کہا تھا کنواں پہلے نہیں تھا میں نے بنایا۔ بنانے والا میں ہوں تو اس کی ملکیت، اس کے تمام حقوق، تمام اختیارات میرے ہیں ، کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں، کسی اور کی اس پر ملکیت نہیں۔سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کنوئیں کا فیصلہ تو اس کی اسی چھوٹی سی بات سے ہوگیا مگر میری توجہ اس نے خالق و مالک رب العالمین کی طرف کروادی کہ جب کنواں اس نے بنایا تو یہ بلاشرکت غیر ے اس کا مالک ہے اور کارخانۂ آسمان و زمین اﷲ نے بنایا وہ اس جہان کا فاطر اور ساری مخلوق کا بنانے والا ہے تو پھر کیوں نہ وہ اکیلا وحدہ لا شریک زمین و زمان، انسان و حیوان اور دونوں جہان کا مالک ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اَنَا وَلَا غَیرِیَ کی جھوٹی ملمع گلیوں میں پھرتا رہے اور اپنی منزل کو پاسکے۔یوسفِ صدیق علیہ السلام نے اعلان کر دیا کہ: اے اﷲ بے شک تونے مجھے پیامبری کا عظیم منصب دیا۔ اے رب تو نے مجھے بادشاہ بنایا۔ میں ایک غلام کی حیثیت سے مصر میں داخل ہوا۔ شاہی گھرانے میں تو نے میری پرورش کی، میں ایک عورت کی سازش سے جیل میں گیا، تو نے مجھے تاویل احادیث کا عظیم علم عطا فرمایا، پھر تو نے مجھے جیل سے نکال کر مصر کے خزانوں کا مالک بنادیا۔ اے مالک! اصل مالک تو ہے، میری کیا حیثیت ہے۔ اے مالک تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی ہے، میرا آقا ہے، اے مالک جب تو ہی آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا ہے سب سے پہلے انھیں تو نے بنایا ہے تو مالک اور مختار بھی تو ہے۔ بندہ تیری مِلک میں تیری ہی مرضی سے تصرف کر سکتا ہے۔ اے زمین و آسمان کے خزانوں کے مالک! ان سب خزانوں کی چابیاں تیرے ہی پاس ہیں، تو جب چاہتا ہے جتنی چاہتا ہے عطایا دیتا ہے۔ پھر ان عطایا کو تیری ہی مرضی اور اجازت سے خرچ کرنا ہر انسان پر اور مجھ پر بھی فرض ہے۔ ہمیں امانت و دیانت نصیب فرما، اہل ایمان بلکہ تمام مخلوق کے حقوق پہچاننے اور انھیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور ہاں مجھے اپنا فرمانبردار رکھ اور )اس عارضی جہان سے جب اٹھائے تو مجھے( اپنے صالحین بندوں کے ساتھ ملادے۔
سب سے بڑے موحد ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کا ڈنکا بجایا اور تمام امتحانوں میں کامیاب ہو کر، بیت اﷲ کے قریب کھڑے ہو کر لوگوں کو حج بیت اﷲ کی آواز لگائی۔ یہ آواز ایک انسانی آواز تھی لیکن محبت کے تمام امتحانوں میں وہ کامیاب ہوچکے تھے۔ وطن ، جان، مال ، اولاد اور بیوی سب کچھ سے اﷲ کے حکم پر جدائی بخوشی برداشت کر چکے تھے۔ اب ان کی ‘‘اَذِّنْ فِی النَّاسِ’’ کی گونج کو اﷲ نے وہ طاقت دے دی کہ اس زمانے میں موجود ہر انسان کے کانوں تک پہنچی اور قیامت تک آنے والی ارواح تک پہنچی۔ اُس موجود زمانہ میں اور تا قیامت عالم ارواح میں جن لوگوں نے ‘‘لبیک’’ پکارا، ان تمام نے جتنی دفعہ ‘‘لبیک’’ کہا اسے اپنے وقت میں اتنی دفعہ بیت اﷲ کی حاضری نصیب ہوئی۔
سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کے کے دو بیٹے بھی عظیم نبی ہوئے۔ اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام، آخری نبی خاتم المعصومین سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سیدنا اسماعیل کے ممتاز گھرانے سے دریتیم بن کر تشریف لائے جبکہ سیدنا اسحق علیہ السلام کی اولاد میں پشت در پشت ہزاروں انبیاء علیہم السلام ہادی و مہدی بن کر تشریف لاتے رہے اور اپنے تفویض کردہ قبیلوں، قوموں اور علاقوں کو راہِ ہدایت دکھاتے رہے۔ خوش نصیب مان لیتے بے نصیب محروم رہ جاتے۔ سیدنا اسحاق کے بیٹے سیدنا یعقوب علیہما السلام بھی نبی تھے اور یوسف علیہ السلام انھی یعقوب علیہ السلام کے فرزند ارجمند تھے۔ ان یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل ہوا، اور ان کے بارہ بیٹوں کی نسبت سے نبی اسرائیل کے بارہ قبیلے ہوئے۔تمام انسانوں کی طرح مقدس انبیاء علیہم السلام کو بھی اس دنیا سے انتقال مقدر ہے۔ یعقوب علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے سب بیٹوں کو بلا کر پوچھا ‘‘میرے بعد تم کس کی پوجا کروگے’’ سب نے جواب دیا ‘‘نعبد الہک وَ الٰہَ اٰبَاءِ کَ اِبْرَاہیمَ وَاِسْمٰعیلَ وَاسحٰق )ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم و اسماعیل واسحاق کی بندگی کریں گے۔ وہ معبود لا شریک ہے اور ہم اسی کی اطاعت پر قائم رہیں گے’’ قرآن اﷲ کا آخری سچا کلام ہے، اس کی سچی گواہی میں کوئی شک نہیں۔ قرآن کہتا ہے سب بیٹوں نے سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم کے ساتھ سیدنا اسماعیل کو بھی اپنے آباء میں شمار کیا تھا۔ وہ یعقوب علیہ السلام کے تایا ابا تھے اور اﷲ کی مصلحت یہ تھی کہ آخری ہادی و مہدی نبی سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم انھی کی اولادمیں آنے والے تھے۔ بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے عہد نبوت و رسالت میں خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارت دینے اور ان کی ہر قولی و عملی نصرت کے اﷲ کی طرف سے پابند تھے۔ لَتُؤمنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہْ سیدنا موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام بھی آمد مصطفی کی خوشخبریاں سنا چکے تھے، ان کی فرمانبرداری کا حکم دے چکے تھے۔ کئی یہود گھرانے کھجوروں والے دیس مدینہ میں صرف اس لیے آکر آباد ہوئے تھے کہ ان کی کتابیں اور ان کے نبی یہ ساری علامات بتا چکے تھے، ان جگہوں کی نشاندہی کر چکے تھے۔ سالار مجاہدین حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ کی درخواست پر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ بیت المقدس پہنچ چکے تھے جہاں اس زمانے کی محرف شدہ تورات و انجیل میں بھی امیر المومنین عمر رضی اﷲ عنہ کا حلیہ اور ان کے لباس پر لگے چودہ پیوند لکھے ہوئے تھے۔ ان اہل کتاب نے نشانیاں دیکھ کر بیت المقدس کے خزانوں کی چابیاں خلیفۂ رسول کے حوالے کردی تھیں۔ خوش نصیب لوگوں کو کلمہ اسلام لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ بھی نصیب ہوگیا تھا۔ قبل ازیں مدینہ طیبہ میں بنی اسرائیل کے بڑے عالم جناب عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ اور ان کے متعدد ساتھی داخلۂ اسلام کی سعادت پاچکے تھے۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ دو بدویوں کے مقدمہ کا فیصلہ سنا چکے تھے اور فرمارہے تھے کہ اگر اس نے کنواں بنایا اور یہ اس کی ملکیت کا دعویدار ہے تو اے انسان تجھے رب کریم نے بنایا، تیرا بھی وہ تنہا خالق و مالک اور مختار ہے۔ تو بھی اس کی دی ہوئی زندگی کو اسی کی امانت سمجھ اور اس میں نفس و شیطان کو حصہ نہ دے۔ ہمہ وقت اﷲ کی فرمانبرداری کر اور مذکور بالا آیت قرآن تمام اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو دعوت دے رہی ہے کہ تمہارے آباء، ابنائے یعقوب نے جب اسماعیل علیہ السلام کو اپنے آباء میں شمار کیا تھا تو تم کو دین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حجاب کیوں ہے؟