محمدعرفان الحق ایڈووکیٹ
سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی مقدس و جنتی جماعت کے ان چند افراد رضی اﷲ عنہم کی آراء سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ذات بابرکات پر اعتراضات کی جو بوچھاڑ اپنے پرائے تحریری یا تقریری صورت میں کر گئے یا کر رہے ہیں، وہ سب بے بنیاد اور شیعیت زدہ نا قابل اعتماد تاریخ سے تمسک کا نتیجہ ہے۔ کاش! کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق قرآن اور مستند احادیث سے تمسک کرتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی سیرت مطہرہ پر کچھ کہا یا تحریر کیا جاتا تو آج کم از کم مسلمان کہلانے والے تو اس عظیم صحابیؓ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض نہ کرتے اور اس عظیم شخصیت کا نام نامی اسم گرامی لیتے ہوئے انہیں تأمّل بھی نہ ہوتا۔
اس قبل عرض کیا گیا تھا کہ سیدنا علی و معاویہ رضی اﷲ عنہما کے مابین اختلاف پر مزید گفتگو آئندہ کی جائے گی تو اس سلسلہ میں چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ سب سے پہلے تو اس پر غور فرمایا جائے کہ حیدر کرار رضی اﷲ عنہ کے لائق اور بڑے فرزند سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے جس سال امام تدبر و سیاست سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، اس سال کو عام الجماعۃ کا نام دیاگیا یعنی وہ سال جس میں مسلمانوں کے مابین اختلاف کا خاتمہ ہوا، امت مسلمہ پھر سے ایک علم تلے متحد ہوئی اور کفر کے خلاف جہاد کا جو سلسلہ جہاں منقطع ہوا تھا امیرالمؤمنین سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زیر خلافت و سیادت، وہیں سے دوبارہ اس عظیم فریضہ کا آغاز کیا گیا۔
صحیح بخاری میں کتاب المناقب کے باب علامات النبوۃ فی الاسلام میں یہ حدیث مبارکہ درج ہے:
عن ابی بکرۃ رضی اﷲ عنہ، اخرج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ذات یوم الحسن فصعد بہ علی المنبر فقال ابنی ہذا سید و لعل اﷲ ان یصلح بہ بین فئتین من المسلمین
‘‘حضرت ابو بکرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دن سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کے ساتھ باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے پھر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا’’
یہ حدیث مبارکہ کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ بخاری کے چار مختلف مقامات کے علاوہ سنن ابو داؤد، سنن الترمذی، سنن النسائی، مسند احمد، مسند البزار، صحیح ابن حبان، المعجم الکبیر للطبرانی میں بھی موجود ہے۔ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فتح الباری )شرح بخاری( میں سیدنا حسن و سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما کی صلح کو اس حدیث کا مصداق قرار دیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امام بخاری نے صحیح بخاری میں دیگر مقامات کے علاوہ اس حدیث کو نبی علیہ السلام کی نبوت کی نشانیوں کے ذیل میں بھی ذکر کیا ہے۔ اور اس حدیث مبارکہ سمیت ان تمام احادیث، جن میں کچھ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہی قول نبوت موجود ہے، کے الفاظ پر غور کیا جائے تو انتہائی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن دو جماعتوں کے مابین صلح کا ذکر فرمایا ہے وہ :
٭ دونوں جماعتیں مسلمانوں کی ہیں
٭ دونوں جماعتیں بڑی ہیں
٭ کسی جماعت کو کسی بھی طرح دوسری جماعت پر فوقیت نہیں دی گئی
٭ کسی بھی جماعت کو حق پر یا اقرب الی الحق یعنی حق کے زیادہ قریب،نہیں کہا گیا
٭ کسی بھی جماعت کو اجتہادی خطاء کی حامل نہیں کہا گیا
٭ ہر لحاظ سے دونوں جماعتوں کو مساوی رکھا گیا
مگر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے مابین وقوع پذیر ہونے والے اختلاف کے متعلق کئی حضرات کا یہ غلط اور بے بنیاد نظریہ سامنے آتا ہے کہ خلیفۂ چہارم سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور اس وقت کے امیر شام یعنی سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے مابین پیش آنے والے اختلاف میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ حق پر تھے جبکہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ خطأ پر تھے نعوذباﷲ من ذالک! نیز یہ کہ ہر دو حضرات رضی اﷲ عنہما کے درمیان یہ اختلاف اجتہادی نوعیت کا تھا جس میں سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے خطاء اجتہادی کا صدور ہوا۔ کئی اہل سنت حضرات نے بھی تقریری و تحریری طور پر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے سر یہی اجتہادی خطاء ڈالی ہے اور اس کے خلاف یہ حضرات کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ نہ معلوم کیسے اس بات کو عقائد کا مسئلہ بنا کر عام افراد کے ذہن کو پراگندہ کرتے ہوئے انہیں اہل تشیع کی مشابہت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اس مزعومہ نظریہ کے خلاف کوئی بات تحریراً یا تقریراً کہ دے تو اسے اہل سنت سے ہی خارج کر دینے کی بساط بچھا لی جاتی ہے۔ اور محض لکیر کی فقیری میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو خطاء اجتہادی کا مرتکب قرار دیا جاتاہے۔ جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ اپنی تصنیف ‘‘تہذیب التہذیب’’ کی جلد اول صفحہ 94میں رقم کرتے ہیں :
فالتشیع فی عرف المتقدمین ہو اعتقاد تفضیل علیؓ علی عثمانؓ و ان علیاؓ کان مصیبا فی حروبہ و ان مخالفہ مخطیٔ مع تقدیم الشیخین و تفضیلہما
‘‘یعنی علماء متقدمین کے نزدیک حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا شیعیت ہے اور یہ کہ شیخین یعنی حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کی فضیلت کے ساتھ اس امر کا اعتقاد رکھنا کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اپنی لڑائیوں میں حق پر تھے اور انؓ کے مخالفین خطاء پر تھے’’
یعنی متقدمین علماء کرام میں سے کسی کا یہ عقیدہ / نظریہ نہ تھا کہ سیدنا علیؓ و سیدنا معاویہؓ کے باہمی اختلاف میں سیدنا علیؓ حق پر یا اقرب الی الحق اور سیدنا معاویہؓ راہ خطاء پر تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ /نظریہ تو اہل تشیع کا ہے۔ مقام حیرت و افسوس ہے کہ اپنے آپ کو اہل سنت کہلانے والے کئی حضرات اہل تشیع کی مثل عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور پھر اس کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ اگر کوئی اس پر معترض ہو تو اس کو ‘‘ناصبی/خارجی/یزیدی’’ کے الفاظ سے مطعون بھی کیا جاتا ہے اور عوام کے قلوب میں اس کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ ذہن میں رہے کہ خوارج سیدنا عثمان و سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما دونوں کے مخالف تھے جو بعد ازاں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے بھی خلاف ہو گئے۔سرکار دو عالم، رحمت اللعالمین، امام الانبیاء، یعنی اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم تو کسی جماعت کو مصیب یا مخطی نہیں فرماتے مگر اہل سنت کہلانے والے حضرات جانے کیوں اس پر مُصر ہیں کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو حق پر اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو مجتہد مخطی سمجھا اور کہا جائے؟ اور اس کا پرچار بھی اہل سنت والجماعت کا لیبل لگا کر کیا جائے۔ یا یہ نظریہ پیش کیا جاے کہ دونوں حضرات رضی اﷲ عنہما حق پر تھے مگر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ زیادہ حق پر تھے نسبتاً سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے۔ جب قرآن و سنت نے اس معاملہ میں کوئی فیصلہ نہیں دیا تو کسی اور کی کیا مجال کے وہ اس پر تبصرہ کرے؟سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما کے اختلاف کے وقت کئی صحابہ رضی اﷲ عنہم ایسے بھی تھے جنہوں نے کسی کا ساتھ نہ دیا اور اس معاملہ پر سکوت اختیار فرمایا۔ احد من عشرۃ مبشرۃ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ فاتح ایران، بھی انہیں صحابہؓ کے طبقہ میں سے ہیں جو اس موقع پر غیر جانبدار رہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جمل و صفین کے موقع پر دونوں جانب صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد تھی۔صحابہؓ کے باہمی اختلافات میں اﷲ و نبی علیہ السلام فیصلہ دے سکتے ہیں یا پھر کوئی صحابیؓہی اس ضمن میں کوئی ارشاد فرمانے کے اہل ہیں۔ مگر ان کے بعد کوئی بھی صحابہؓ کے باہمی اختلاف پر فیصلہ کرنے کا ہرگز اہل نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مابین پیش آنے والے اجتہادی امور میں کسی کے مصیب ہونے یا مخطی ہونے کو یقین کے ساتھ بیان کرنا انتہائی نا مناسب اور خلاف شرع ہے۔ درست ہے کہ ہر دو فریقین میں سے ایک مصیب اور دوسرا مخطی ہوتا ہے مگر کون مصیب اور کون مخطی ہے؟ یہ بات صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے امت میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کا مجتہد مصیب یا کسی کے مجتہد مخطی ہونے کا فیصلہ صادر کرے اور اس کو دوسروں پر مسلط کرنے کی دھن میں ڈٹ جائے۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ولا تکو نوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاء ہم البینت و اولئک لہم عذاب عظیم )اٰل عمران:۱۰۵(
‘‘اور مت ہو ان کی طرح جو متفرق ہو گئے اور اختلاف کرنے لگے بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کو حکم صاف اور ان کو بڑا عذاب ہے’’۔
)ترجمہ از معارف القرآن، مفتی محمد شفیع(
تفسیر ‘‘معارف القرآن’’ میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں جو تحریر ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ چوں کہ صحابہ کرامؓ کا باہمی اختلاف اصولی امور پر نہ تھا بلکہ غیر واضح فروعی امور میں تھا اس لیے صحابہ کرامؓ کا اختلاف اس آیت کا مصداق نہیں مفتی محمد شفیع اسی آیت کی تفسیر میں اختلاف صحابہ کو مذکورہ آیت کے مصداق سے خارج قرار دینے کے بعد رقم طراز ہیں:
اجتہادی اختلاف میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی، اس پر نکیر جائز نہیں
‘‘یہاں سے ایک بہت اہم اصولی بات واضح ہو گئی کہ جو اجتہادی اختلاف شرعی اجتہادکی تعریف میں داخل ہے، اس میں اپنے اپنے اجتہاد سے جس امام نے جو جانب اختیار کر لی اگرچہ عنداﷲ اس میں سے صواب اور صحیح صرف ایک ہے، دوسرا خطاء ہے، لیکن یہ صواب و خطاء کا فیصلہ صرف حق تعالیٰ کے کرنے کا ہے، وہ محشر میں بذریعہ اجتہاد صواب پر پہنچنے والے عالم کو دوہرا ثواب عطاء فرما دیں گے’اور جس کے اجتہاد نے خطاء کی ہے اس کو ایک ثواب دیں گے، اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو اجتہادی اختلاف میں یہ کہنے کا حق نہیں کہ یقینی طور پر یہ صحیح ہے اور دوسر ا غلط ہے، ہاں اپنی فہم و بصیرت کی حد تک ان دونوں میں جس کو وہ اقرب الی القرآن و السنۃ سمجھے اس کے متعلق یہ کہ سکتا ہے کہ میرے نزدیک یہ صواب ہے، مگر احتمال خطاء کا بھی ہے، اور دوسری جانب خطاء ہے، مگر احتمال صواب کا بھی ہے، اور یہ وہ بات ہے جو تمام ائمہ فقہاء میں مسلّم ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اجتہادی اختلاف میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ماتحت اس پر نکیر کیا جائے، اور جب وہ منکر نہیں تو غیر منکر پر نکیر خود امر منکر ہے، اس سے پرہیز لازم ہے، یہ وہ بات ہے جس میں آج کل بہت سے اہل علم بھی غفلت میں مبتلا ہیں ’ اپنے مخالف نظریہ رکھنے والوں پر تبرا اور سب و شتم سے بھی پرہیز نہیں کرتے، جس کا نتیجہ مسلمانوں میں جنگ و جدل اور انتشار و اختلاف کی صورت میں جگہ جگہ مشاہدہ میں آ رہا ہے’’۔
مشاجرات صحابہؓ پر سکوت کرناہی ایمان و عمل اور دنیا و آخرت کی سلامتی اور خیریت و عافیت کا راستہ ہے۔ اس لیے سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما کے اختلاف سمیت مشاجرات صحابہؓ کے کسی بھی پہلو پر رائے زنی سے اعراض ہی عین ایمان اور اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔ واقعۂ صفین ہو یا واقعۂ جمل یہی مسلک صراط مستقیم کی طرف لے جانے والا ہے جبکہ اس کے برعکس کوئی نظریہ اپنا کر صحابہؓ پر اعتراض کرنا، ایمان کے لیے زہر قاتل ہے۔ صفین کے موقع پر جیسے سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما دونوں مخلص تھے کسی کا کوئی ذاتی مفاد نہ تھا دونوں بزرگ اﷲ کی رضا کے لیے اپنا اپنا ایک نظریہ رکھتے تھے، دونوں میں سے کوئی بھی غلط یا مخطی نہیں تھا، بیعنہٖ اہل بیت رسول، عفیفۂ کائنات،ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے مابین واقعۂ جمل کا پس منظر بھی یہی تھا کہ دونوں ہستیوں کا اختلاف محض قصاص عثمانؓ پر تھا اور کسی کا کوئی ذاتی عناد یا مفاد نہ تھا، اور یہ دونوں ماں بیٹا )سیدہ عائشہؓ و سیدنا علیؓ( بھی مبنی بر حق مؤقف رکھتے تھے، لہٰذا جیسے سیدنا علیؓ و سیدنا معاویہؓ کے باہمی اختلاف پر کوئی غیر صحابیؓ رائے زنی یا فیصلہ مسلط کرنے کا اہل نہیں بالکل اسی طرح سیدہ عائشہؓ اور سیدنا علیؓ کے درمیان بھی کسی کو ثالث بننے کا حق نہیں۔ ‘‘خود ساختہ ثالثوں’’ کو چاہیے کہ وہ اہل سنت والجماعت کا مارکہ استعمال کرتے ہوئے مشاجرات صحابہ کرامؓ سے متعلقہ معاملات میں ‘‘قاضی’’ مت بنیں بلکہ حقیقی طور پر اپنی توانائیاں خدمت دین اور مذہب اہل سنت والجماعت کے تحفظ و تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے لیے صَرف کریں۔ جو قلم و قرطاس خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو حامل خطاء اجتہادی ثابت کرنے اور انؓ کے خلاف ایسے بے بنیاد و لغو پروپیگنڈہ کا تدارک کرنے والے حضرات کو ‘‘ناصبی/خارجی/یزیدی’’ قرار دینے پر استعمال کیا جاتا ہے، اسے فروغ عظمت صحابہؓ و رد قدح صحابہؓ کے نصب العین کے لیے استعمال کیا جائے۔
جب راہ اعتدال سے ہٹ کر مشاجرات صحابہؓ پر رائے زنی کی جاتی ہے تو دشمنانِ صحابہؓ کو بھی توہین صحابہؓ کے مواقع ملتے ہیں اور دشمنانِ صحابہؓ یعنی شیعہ/رافضی، ناصبی )سیدنا علی و حسنین رضی اﷲ عنہما وغیرہ کی توہین کا مرتکب طبقہ( اور خارجی ان سے فائدہ اٹھا کر صحابہ رضی اﷲ عنہم پر تبراء کرتے ہیں اور بطور دلیل انہی نام نہاد سنّیوں کے حوالے پیش کرتے ہیں جنہوں نے صفین و جمل کے پس منظر میں حضرت عائشہ یا سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما پر اعتراض کیے ہوں۔ روافض، خوارج اور نواصب کے برعکس صرف اہل سنت والجماعت زاد اﷲ شرفہ’ ہی تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے محبت و مودت کو ایمان مانتے ہیں اور کسی بھی صحابی رضی اﷲ عنہ پر معترض نہیں ہوتے، یہ مسلک اہل سنت بھی ہے اور راہ اعتدال بھی۔