تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

معار ف الحدیث

مولانامحمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ

لباس کے احکام و آداب :
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس طرح اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور کھانے پینے وغیرہ زندگی کے سارے معمولات کے بارے میں احکام و آداب کی تعلیم دی اور بتلایا کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، یہ صحیح ہے اور یہ غلط یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح ہدایات دیں۔
اس باب میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کی اساس و بنیاد سورہ اعراف کی یہ آیت ہے:
یٰبنَِی آدَمَ قَدَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا ساَّ یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکمْ وَرِیشاً وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذَالِکَ خَیْرٌ
)الاعراف۔ع۳(
ترجمہ: اے فرزندانِ آدم ہم نے تم کو پہننے کے کپڑے عطا کیے جن سے تمہاری ستر پوشی ہو اور تحمل و آرائش کا سامان اور تقویٰ والا لباس تو سراسر خیراور بھلائی ہے۔
اس آیت میں لباس کے دو خاص فائدے ذکر کیے گئے ہیں۔ ایک ستر پوشی یعنی انسانی جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن پر غیروں کی نظر نہیں پڑنی چاہیے اور دوسرے زینت و آرائش یعنی یہ کہ دیکھنے میں آدمی بھلا اور آراستہ معلوم ہو اور جانوروں کی طرح ننگ دھڑنگ نہ پھرے۔
آخر میں فرمایا گیا ہے ‘‘وَلبَاسْ التَّقْویٰ ذَالِکَ خَیْرٌ’’ یعنی اﷲ کے نزدیک اور فی الحقیقت وہ لباس اچھا ہے اور سراسر خیر ہے جو خدا ترسی اور پرہیز گاری کے اصول سے مطابقت رکھتا ہو اس میں اﷲ کی ہدایت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو، بلکہ اس کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہو۔ ایسا ہر لباس بلاشبہ سراسر خیرو نعمت اور شکر کے ساتھ اس کا استعمال قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس سلسلہ کے ارشادات اور ذاتی معمولات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب کی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ لباس ایسا ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد حاصل ہو اور دیکھنے میں آدمی باجمال اور باوقار معلوم ہو۔ نہ تو ایسا ناقص ہو کہ ستر پوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا گندہ یا بے تکا ہو کہ بجائے زیب و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑ دے اور دیکھنے والوں کے دلوں میں تنفرو تو حش پیدا ہو اسی طرح یہ کہ آرائش و زیبائش کے لیے افراط اور بے جا اسراف بھی نہ ہو، علیٰ ہذا شان و شوکت کی نمائش اور برتری کا اظہار و تفاخر بھی مقصود نہ ہو، جو مقام عبدیت کے بالکل ہی خلاف ہے، اسی طرح یہ کہ مرد ریشمی کپڑا استعمال نہ کریں، یہ سونے چاندی کے زیورات کی طرح عورتوں کے لیے مخصوص ہے اور یہ کہ مرد خاص عورتوں والا لباس پہن کرنسوانی صورت نہ بنائیں اور عورتیں مردوں والے مخصوص کپڑے پہن کر اپنی نسوانی فطرت پر ظلم نہ کریں۔
اس سلسلہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ جن بندوں پر اﷲ تعالیٰ کا فضل ہو انھیں چاہیے کہ اس طرح رہیں اور ایسا لباس پہنیں جس سے محسوس ہو کہ ان پر ان کے رب کا فضل ہے۔ یہ شکر کا ایک شعبہ ہے لیکن بے جا تکلف واسراف سے پرہیز کریں، اسی کے ساتھ اس کا بھی لحاظ رہے کہ غریب و نادار بندوں کی دل شکنی اور ان کے مقابلہ میں تفوق و بالاتری کی نمائش نہ ہو۔ نیز یہ کہ ہر لباس کو اﷲ تعالیٰ کا خاص عطیہ سمجھیں اور اس کے شکر کے ساتھ استعمال کریں۔ بلاشبہ ان احکام و ہدایات کی تعمیل کے ساتھ ہر لباس کا استعمال ایک طرح کی عبادت اور اﷲ تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ ہوگا۔
اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی حدیثیں درج ذیل ہیں۔
لباس نعمتِ خداوندی اور اس کا مقصد:
عَنْ اَبِیْ مَطَرِ اَنَّ عَلِیًا اِشُتَریٰ ثُوبًا بثلۃ دَرَا ھِمَ فَلَمَّا لَبِسَہٗ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ رَزَ قنیِ مِنَ الرِّیَاشِ مَا اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِی النَّاسِ وَاُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتیْ ثُمَّ قَالَ ھٰکَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہُصَلَّی اللّٰہ علیہ وَسَلَّم عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یْقُولُ۔ )رواہ احمد(
ترجمہ:ابو مطرتابعی سے روایت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے تین درہم میں ایک کپڑا خریدا اور جب اسے پہنا تو کہا: حمد و شکر ہے اس اﷲ کے لیے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا فرمایا جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں۔پھر فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سنا آپ )کپڑا پہن کر( اسی طرح ان ہی الفاظ میں اﷲ کی حمدو شکر کرتے تھے۔ )مسند احمد(
تشریح: جامع ترمذی میں قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے بھی مروی ہے ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے معلوم ہوا کہ لباس اﷲ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کا اصل مقصد ستر پوشی اورتجمل و آرائش ہے۔
بے پردہ اور بے ڈھنگے لباس کی ممانعت:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَاکُلَ الرَّ جُلُ بِشِمَالِہٖ اَوْاَنُ یَمْشِیَ فِیْ نِعْل وَاحِدَۃٍ وَاَنْ یَشْتَمِلَ الصَّمَّا ءَ اَوْیَحْتَبِیَ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ کَاشِفًا عَنْ فَرْجِہٖ۔ )رواہ مسلم(
ترجمہ: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس سے کہ آدمی بائیں ہاتھ سے کھائے، یا صرف ایک پاؤں میں جوتی پہن کر چلے اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی صرف ایک چادر اپنے اوپر لپیٹ کر ہر طرف سے بند ہوجائے یا ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھے اس طرح کہ اس کا ستر کھلا ہو۔ )صحیح مسلم(
تشریح: عربوں میں کپڑوں کے استعمال کے بعض طریقے رائج تھے اور ان کے لیے ان کی زبان میں بعض مخصوص الفاظ تھے، مثلا ایک طریقہ یہ تھا کہ سارے جسم پر ایک چادر اس طرح لپیٹ لی کہ ہر طرف سے بند ہوگئے اور اس طرح بندھ گئے کہ ہاتھ بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اس کو اِشْتِمَالِ صَمَّاء کہا جاتا تھا۔ اس حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ ایک بے ڈھنگا طریقہ ہے اور آدمی اس میں ہر طرف سے بندھ جاتا ہے اور مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ آدمی سرین زمین پر رکھ کے اور گھٹنے کھڑے کر کے بیٹھ جاتا اور بس ایک کپڑا اپنی کمر اور پنڈلیوں پر لپیٹ لیتا، اس میں ستر پوشی بھی نہ ہوتی )کیونکہ حصہ اسفل کھلا رہ جاتا( اس احتباء کہتے تھے، اس سے بھی اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح صرف ایک پاؤں میں جوتی پہن کر چلنے سے بھی ممانعت فرمائی گئی ہے، کیونکہ یہ بھی وقار کے خلاف اور بے ڈھنگے پن کی علامت ہے ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو ظاہر ہے کہ وہ معذور ہوگا۔
عورتوں کے لیے زیادہ باریک لباس کی ممانعت:
عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ اَسْمَاءَ بِنْتَ اَبِیْ بِکْرٍ دَخَلَتْ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ وَعَلَیْہَا ثِیَابٌ رِقَاقٌ فَاَعْرَضَ عَنْھَا وَ قَالَ یَااأَسماء اِنَّ الْمَرْأَ ۃ اِذَابَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَنْ یَصْلُحَ اَنْ یُرَیَ مِنْھَا الاَّ ھٰذَا وَاَشارَا اِلیٰ وَجْھِہٖ وَ کَفَّیہِ۔ )رواہ ابوداؤد(
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ )میری بہن( اسماء بنت ابی بکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ: اے اسماء عورت جب بلوغ کو پہنچ جائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔
)سنن ابی داؤد(
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو ایسا باریک کپڑا پہننا جائز نہیں جس سے جسم نظر آئے۔ ہاں چہرہ اور ہاتھوں کا کھلا رہنا جائز ہے یعنی باقی جسم کی طرح ان کو کپڑے سے چھپانا ضروری نہیں۔ یہاں ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں عورت کے لیے سترکا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ حجاب )پردہ( کا حکم اس سے الگ ہے اور وہ یہ ہے کہ بے ضرورت باہر نہ گھومیں اور اگر ضرورت اور کام سے باہر نکلیں تو پردہ میں نکلیں۔ ستر اور حجاب شریعت کے یہ دو حکم ہیں اور ان کے حدود الگ الگ ہیں بعض حضرات کو ان میں اشتباہ ہوجاتا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت اسماء کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آنے کے جس واقعہ کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ حجاب )پردہ( کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ کیونکہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد حضرت اسماء اس طرح آپ کے سامنے نہیں آسکتی تھیں۔ واﷲ اعلم۔
امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ نے مؤطا میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ عنہا کا یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر ان کے پاس آئیں اور وہ زیادہ باریک اوڑھنی )خمار( اوڑھے ہوئے تھیں، تو حضرت صدیقہ نے اس کو اتار کے پھاڑ دیا اور موٹے کپڑے کی خمار اوڑھا دی۔ ظاہر ہے کہ حضرت صدیقہ کا یہ فعل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔
لباس میں تفاخر او رنمائش کی ممانعت:
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمِ مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُہْرَۃٍ فِی الدُّنْیَا البَسَہُ اللّٰہُ ثَوْبَ مَذَلَّۃِ یَومَ القِیٰمۃِ۔ )رواہ احمد وابوداؤد وابن ماجہ(
ترجمہ: حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اس کو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے کپڑے پہنائے گا۔
)مسند احمد، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ(
تشریح: حدیث میں ‘‘ثوبِ شہرت’’ سے مراد وہ لباس ہے جو اپنی شان و شوکت کی نمائش کے لیے اور لوگوں کی نظر میں بڑا بننے کے لیے پہنا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کی نظر میں علامہ یا بڑا مقدس بزرگ بننے کے لیے اس طرح کا خاص لباس تقدس پہنیں یا اپنی فقیری و درویشی کی نمائش کے لیے ایسے کپڑے پہنیں جن سے لوگ ان کو پہنچا ہوا فقیر و درویش سمجھیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کا تعلق آدمی کے دل اور اس کی نیت سے ہے۔ ایک ہی کپڑا اگر نمود و نمائش کے لیے اور اپنی بڑائی کے مظاہرہ کے لیے پہنا جائے تو گناہ اور اس حدیث کا مصداق ہوگا اور وہی کپڑا اگر اس نیت کے بغیر پہنا جائے تو جائز اور بعض صورتوں میں موجب اجر و ثواب ہوگا۔ اور چونکہ ہم بندوں کو کسی کی نیت اور دل کا حال معلوم نہیں اس لیے ہمارے لیے جائز نہ ہوگا کسی کے لباس کو نمود و نمائش اور ریاکاری کا لباس قرار دے کہ اس پر اعتراض کریں، ہاں اپنے دل ، اپنی نیت اور اپنے لباس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ یہی اس حدیث کا پیغام ہے۔
)مطبوعہ: معارف الحدیث، ج:۶، ص:۲۸۳……۲۹۰(

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.