جسٹس صدیقی کا آپریشن ردُالشیطان
ڈاکٹرعمرفاروق احرار
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے معاملہ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ’’ مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والے دہشت گرد ہیں۔ اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہوگی کہ روز محشر ہماری شفاعت کرنے والی ہستی ﷺکی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اِس حساس معاملے میں پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کروں گا۔بھینسے ، گینڈے ، کتے یا سور سب پج بلاک ہونے چاہئیں۔اگر بلاک نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کردیں۔‘‘جسٹس شوکت صدیقی کے ریمارکس کا قدرے طویل اقتباس اِس بات کا متقاضی ہے کہ اُسے من وعن نقل کرکے ایک ایمانی غیرت سے لبریز منصف کے دلی جذبات کومنعکس کیاجائے ۔جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا تھاکہ :’’جس دن سے یہ پٹیشن میرے سامنے آئی ہے، خدا کی قسم میں نہیں سویا۔کوئی میرے نبی ﷺ کو نعوذباﷲ زانی کہے تو میں اُسے کیسے برداشت کرلوں،آئین و قانون پر عملدرآمد نہ کرکے ہم خود ممتاز قادری کو جنم دیتے ہیں۔ایف آئی اے والو!پی ٹی اے والو!وزارت آئی ٹی والو!وزارت داخلہ والو!فوج والو! بتاؤکہ آقا ﷺ سے کس طرح شفاعت مانگو گے ،اِتنی گستاخی کے بعد ہم ابھی تک زندہ کیوں ہیں ؟یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے ۔اﷲ کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ اگر اپنے آقاﷺ،ازواج مطہراتؓ،اصحابؓ رسولﷺ اور قرآن کریم کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لئے مجھے اپنے عہدے کی بھی قربانی دینا پڑی، تو دے دوں گا، مگر اِس کیس کو منطقی انجام تک پہنچاؤں گا۔اِس کیس کا مدعی کوئی ایک شخص نہیں،پورا پاکستان اس کیس کا مدعی ہے ۔اگر آقا ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے سوشل میڈیا بھی بند کرنا پڑا تو اﷲ کی قسم !حکم جاری کردوں گا۔ویلنٹائن ڈے مناے والوں کو آقا ﷺ کی یہ گستاخی کیوں نظر نہیں آرہی ؟گستاخِ رسول ﷺ مباح الدم ہے ۔جب کوئی گستاخ مارا جائے تو پھر کچھ لوگ موم بتیاں لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہم خود قوم کو لاقانونیت کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔گر یہ مواد عوام تک چلا گیا تو وہ حشر کریں گے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے ۔اگر پی ٹی اے ،سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کو نہیں روک سکتا تو پی ٹی اے کو ہی ختم کردیا جائے ۔یہ عدالت سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کے خلاف آپریشن رد ُالشیطان شروع کررہی ہے ۔جنہوں نے گستاخی کی اور جو لوگ اِس کا تماشہ دیکھتے رہے۔ اِن سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘‘جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست گزار سلمان شاہد ایڈووکیٹ کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ’’طارق اسد صاحب!میں آپ کے توسط سے علماء سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر آقا ﷺ کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لئے متحد ہوجائیں۔یہ مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے ،اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی ناموس کی حفاظت سے زیادہ دین کی اور کوئی خدمت نہیں ہوسکتی۔‘‘
جسٹس شوکت صدیقی کے یہ ریمارکس دراصل پاکستانی مسلمانوں کے حقیقی جذبات کی عکاسی ہے،کیونکہ کچھ عرصہ سے گستاخ دہشت گردوں نے مقدس ہستیوں کے خلاف جس طرح دیدہ دلیری سے میڈیابالخصوص سوشل میڈیا پرطوفانِ بدتمیزی مچارکھا ہے اورجس بے شرمی اوربے خوفی سے روزانہ کی بنیادپر اِسلام کے خلاف توہین آمیزمواداَپ لوڈکیا جارہا ہے۔اِس صورت حال نے مسلمانوں کے دل ودماغ میں آگ لگارکھی ہے۔جان سے عزیزہستیاں کہ جن سے ہمارااِیمان وعقیدہ وابستہ ہے،اُنہیں نشانۂ ستم بناکرہمارے احساسات وجذبات کو زخمی کیاجارہا ہے۔مسلمانوں کے مجروح جذبات کایہ لاوااَب ایک دردِ دل رکھنے والے مسلمان منصف کی زبان سے اُبل پڑاہے۔جسٹس صدیقی سماعت کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اوربارباراُن کی آنکھوں میں نمی لہراتی اوراُن کی آوازرُندھ جاتی رہی۔کوئی مسلمان کتناہی بے عمل کیوں نہ ہو،مگر جب بھی اُس کے سامنے اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین کی جائے گی تو وہ جان ومال تج کربھی اُن محترم ہستیوں کے ناموس کا تحفظ کرے گا۔سوشل میڈیا گستاخ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکاہے۔جنرل راحیل کے نیشنل ایکشن پلان نے جن بے لگام قوتوں کو نکیل ڈالی تھی۔اب وہ پھرسے سر اُٹھانے لگی ہیں۔پہلے چار گستاخوں سلمان حیدر،عاصم سعید،وقاص گورایااوراحمدرضانصیرنے بھینسہ، موچی جیسے انتہائی دل آزار پیج فیس بک پر بنائے اوربے دھڑک توہین کا ارتکاب کرکے امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔جب نیشنل ایکشن پلان کے تحت انہیں اٹھا لیاگیا تو کیاحکومت اورکیامیڈیا !سبھی نے آزادیٔ رائے کا منافقانہ نعرہ بلندکرکے ،اُنہیں نہ صرف بازیاب کرایا،بلکہ اُن کی بیرون ملک روانگی کا بحفاظت انتظام بھی کیا۔کچھ وقت کے لیے اُن کی سرگرمیاں بندرہیں ،لیکن اب پھروہ پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ومضبوط ہوکر فکری دہشت گردی میں مصروف ہیں۔بنظرغائر دیکھا جائے تو اِن توہین آمیزواقعات اورسرگرمیوں کے پس پردہ وہ بیرونی قوتیں مصروفِ عمل ہیں جوعوام کے جذبات کو مشتعل کرکے ملک کو اِنتشاراورخانہ جنگی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہیں۔جس کے نتیجے میں وہ اپنے طے شدہ منصوبے کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے درپے ہیں،کیونکہ جب توہین آمیزموادسے اشتعال کے سبب خانہ جنگی کا ماحول بنے گاتو اُن قوتوں کو کُھل کھیلنے کا دل پسندموقع میسرآئے گا ۔بیرونی عناصر پاکستان کو داخلی سطح پر کمزوردیکھناچاہتے ہیں۔وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺمسلمانوں کے دل ونگاہ کے مرکزہیں ۔اُمت کی اِس مرکزیت پر ضرب لگاکرہی وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اِسی خاطرسوشل میڈیاپر بلامبالغہ سینکڑوں توہینِ رسالت پرمبنی پیجز بنائے گئے ہیں اوراُن پراِنتہائی گستاخانہ خاکے اورپوسٹیں لگائی جارہی ہیں۔باقی گستاخانہ پیجز تو ایک طرف رہے ،انٹرنیٹ پر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ منکرینِ ختم نبوت قادیانیوں کی ویب سائٹس کام کررہی ہیں۔جن پر قادیانی دھڑلے سے پاکستانی آئین کا مذاق اڑارہے ہیں اورلگاتارقادیانیت کا ممنوعہ لٹریچراورتبلیغی موادپھیلارہے ہیں۔2013میں راقم الحروف (ڈاکٹر عمر فاروق)نے چیئرمین پی ٹی اے کو تمام تر ثبوتوں کے ساتھ درخواست دی تھی،مگر اب تک اُس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔اب الحمدﷲ مجلس احراراسلام کی طرف سے قادیانی ویب سائٹس کوبندکرنے کے حوالے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جاچکی ہے۔
مجرمانہ بے حسی اورغفلت کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا۔مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں ہی کو اِن شرمناک سرگرمیوں پر اِحتجاج کرنا پڑ رہاہے اوریہ احتجاج بھی حکام کی غفلتوں کی نیندکو ختم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہاہے۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی کے عزم وارادے میں اﷲ برکت دے۔اُن کی تواناآوازسے دُکھے دلوں میں امیدکی ایک کرن جاگی ہے۔اﷲ اُن کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اورحکومت کو بھی توفیق دے کہ وہ پانامہ لیکس کے دھندوں سے ہٹ کر اِسلامیانِ پاکستان کے ایمان وعقیدے کو ملک کے نظریاتی دشمنوں اورفکری دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں اورمنصوبوں سے بچانے کا سامان کرسکے۔یہ اربابِ اختیارکی قومی ذمہ داری بھی ہے اوردینی فرض بھی۔جس سے پہلوتہی پروہ بہرصورت عنداﷲ جواب دہ ہوں گے۔