عبداللطیف خالد چیمہ
تحریک تحفظ ختم نبوت کے لیے کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختمِ نبوت کے نام سے 1953ء میں مجلس احرار اسلام کی میزبانی میں قائم ہونے والا مشترکہ دینی پلیٹ فارم اپنی شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ 1953کی تحریکِ مقدس کی پاداش میں مجلس احرار اسلام کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور 1962ء میں یہ پابندی ختم ہوئی۔ 1974اور 1984ء کی تحاریکِ ختم نبوت کی کامیابیاں اِسی کُل جماعتی فورم کے ذریعے ہی حاصل ہوئیں۔ 1996ء تک کُل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوّت کا مشترکہ پلیٹ فارم عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوّت کی میزبانی میں کام کرتا رہا۔ اس آخری دور کے امیر و سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ تھے،جبکہ سیکرٹری جنرل کے منصب پر جمعیت علماء پاکستان کے رہنما سردار محمد خان لغاری فائض رہے ،جبکہ سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی اور ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات راقم الحروف تھا۔ اس کے بعد مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوّت غیر مؤثر ہوگئی۔ ہمارے سمیت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ‘ اور دیگرکئی شخصیات نے اس کو متحرک کرنے کے لیے بارہا کوششیں کی، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جس کے مضر اثرات آج محسوس کیے جارہے ہیں۔
2008ء میں مختلف مکاتبِ فکر نے متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے نام سے ’’بچ بچا‘‘ کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا، جو آج بھی تحفظِ ختمِ نبوّت کے محاذ پر اَپنا ہر ممکن کردار ادا کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ اقتدار میں 295/Cکے قانون کے خلاف عالمی سازشیں زیادہ تیز ہوئیں تو تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت نے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کی سربراہی میں مہم تیز ہوئی۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک کو زبردست طاقت مہیا کی اور کراچی میں جمعیت کی عظیم الشان ریلی سے مولانا فضل الرحمن کے تاریخ ساز اور فیصلہ کن خطاب کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما اورسابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے حکومت کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا کہ قانون توہین رسالت میں ترمیم یا تنسیخ ہرگز نہیں کی جائے گی۔ اُس وقت قانون توہین رسالت پر جو بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے، وزارتِ قانون نے اُن کے تسلی بخش جوابات بھی دیے اور اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اُس مسودے کی باضابطہ توثیق بھی کی تھی۔ اور وہ ڈیکلیریشن حکومت نے بیرونِ ممالک اپنے سفارتخانوں کو جاری کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔تاکہ کوئی اعتراض یا اشکال آئے تو جوابی بیانیے کے طور پر وہ سرکاری تحریر (ڈیکلیریشن) جواباً پیش کر دی جائے۔ اب کچھ زیادہ عرصے سے مسلم لیگی حکمران پھر بیتاب ہوئے تو تمام حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں (ن) لیگ دین دشمنوں کو نوازنے میں سبقت لے جا رہی ہے۔ مقتدر حلقوں اور مقتدر اداروں میں جب زیادہ بے چینی نظر آئی تو دینی جماعتوں نے احتجاج شروع کیا۔
متحدہ تحریکِ ختمِ نبوّت رابطہ کمیٹی پاکستان نے قانون تحفظِ ناموسِ رسالت کے حق میں مہم چلائی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے یکم فروری 2017ء کو اسلام آباد میں تحریک تحفظِ ناموسِ رسالت کی اے پی سی منعقد کر کے درج ذیل چھے مطالبات کے ساتھ ایک ماہ کی ڈیڈ لائن بھی دی، جسے لیگی حکمرانوں نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ٭حکومت ِپاکستان 295-C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لے اور اس قانون کے تحفظ کا دو ٹوک اعلان کرے۔ ٭قائداعظم یو نیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سنٹرفارفزکس کو ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔٭چناب نگر میں ریاست در ریاست کا ماحول ختم کیا جائے۔حکومت دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کرے اور متوازی عدالتیں ختم کرکے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔٭قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔٭چناب نگر کے سرکاری تعلیمی ادارے قادیانیوں کو ہرگز نہ دیے جائیں۔٭دُوالمیال (چکوال)میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے نعیم شفیق کے قادیانی قاتلوں کو گرفتار جبکہ مظلوم اور بے گناہ مسلمانوں کو جلد رہا کیا جائے۔
ایک ماہ میں دینی جماعتوں نے ملک بھر میں بیداری پیدا کی۔ جبکہ 10؍مارچ جمعۃ المبارک کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت کی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے پرانے پلیٹ فارم کا باضابطہ احیا ء کر کے اُسے از سرِ نو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔متفقہ طور مولانا فضل الرحمن کو اُس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے 7,8,9؍اپریل 2017ء کو کے پی کے میں ہونے والے صد سالہ عالمی اجتماع میں ایک دن تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے مطالبات پر گفتگو ہو گی اور جمعیت کے اس اجتماع کے بعد اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد کر کے لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کا اعلان کیا جائے گا۔ پہلا بڑا اجتماع لاہور میں ہو گا۔ ہم جمعیت کے صد سالہ اجتماع کی کامیابی کے لیے بھی دعا گو ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی بصیرت سے تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت اگلے بڑے مرحلے میں داخل ہو گی اور امریکی و عالمی ایجنڈے کو آخر کار ناکام ونا مراد ہونا پڑے گا۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عزت مآب جسٹس جناب شوکت عزیز صدیقی کے عدالتی ریمارکس، سینٹ اور قومی اسمبلی میں اراکین کی طرف سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف آواز بلند کرنا، تحریکِ تحفظِ ناموسِ رسالت کی غیبی مدد ہے۔ تین ماہ کی مسلسل عدالتی جد و جہد کے بعد سانحۂ دُوالمیال میں قادیانیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوان مسلمان نعیم شفیق کی ایف آئی آر24؍مارچ 2017ء کو درج ہو چکی ہے، گستاخ ویب سائٹس کے خلاف قانونی و عدالتی چارہ جوئی آگے بڑھ رہی ہے۔جھوٹا مدعیٔ نبوّت کذاب ناصر سلطانی قادیانی ربوہ سے گرفتار ہو چکا ہے اور حکومت عالمی فورم پر گستاخانہ مواد کے خلاف آواز بلند کرنے لگی ہے۔ 27اسلامی ممالک کے سفیروں کا اسلام آباد میں اجلاس خوش آئند ہے لیکن جس ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اقدامات وہاں کرنے کی ضرورت ہے۔ گستاخانہ مواد اور سانحۂ دوالمیال کے حوالے سے چکوال اور اسلام آباد میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار کی نگرانی میں احراررہنمامولانا تنویر الحسن اور اُن کے جفاکش معاونین نے تین ماہ کی قانونی جنگ میں نامساعد حالات کے باوجود بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سانحۂ دوالمیال کے سلسلے میں گرفتار چھیاسٹھ میں سے نو مسلمان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں صورتِ حال مزید بہتر ہونے کا امکان دکھائی دے رہاہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما حافظ عمار یاسر گزشتہ کئی ماہ سے انتہائی گمبھیر صورتحال اور مشکل ترین حالات میں ہر ممکن معاونت کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ تمام حضرات کو بہترین اجر سے نوازیں(آمین)۔