تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آزاد کشمیر کے آئین میں قادیانی غیر مسلم نہیں!

عمر فاروق
آزاد کشمیر اسمبلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے سدباب کے لیے پوری دنیا میں سب سے پہلے پارلیمانی اور حکومت سطح پر 29؍ اپریل 1973ء کو آزاد کشمیر اسمبلی میں قراردادِ ختم نبوت، مجاہد ختم نبوت، سابق اسپیکر قانون ساز اسمبلی میجر محمد ایوب خانؒ نے پیش کی اور اسے متفقہ طور پر پاس کرا کے یہ اعزاز اپنے، آزاد کشمیر کی اسمبلی اور خطۂ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے حاصل کرلیا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خطۂ کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اس عقیدے کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا، اُن میں اِس تحریک ختم نبوت کے بانی علامہ محمد انور شاہ کشمیری ؒبھی شامل تھے اور اسی خطّہ سے تعلق رکھنے والے عظیم مفکر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی 1935ء ہی میں پنڈت نہرو کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں۔ اِن حضرات نے ساری زندگی اس عقیدے کا تحفظ بھی کیا اور اُس کی سازشوں سے مسلمانوں کو آگاہ بھی کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ خطہ کشمیر کے مسلمانوں نے سب سے پہلے قرارد پاس کر کے جو اعزاز حاصل کیا تھا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ کشمیری مسلمان اس اعزاز کا تحفظ نہ کر سکے۔ جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی 7؍ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس طرح قانون سازی کر کے آئین میں اس ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر، تمام محکموں خصوصاً الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹوں میں اُن کو مسلمانوں سے الگ درج کیا اور ووٹر فارم میں حلف نامہ میں ختم نبوت کا اندراج کیا گیا۔ نیز مذہب سے متعلق نشان لگانے کے لیے مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ مت، پارسی، قادیانی وغیرہ پر مشتمل الگ الگ خانے بنائے گئے ہیں، حلف نامۂ ختم نبوت میں لکھا گیا ہے کہ میں حلفیہ اقرار کرتا/ کرتی ہوں کہ میں خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتا/ رکھتی ہوں اور یہ کہ میں ایسے کسی شخص کا/کی پیروکار نہیں ہوں جو حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو اور نہ میں ایسے دعویدار کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہوں/ مانتی ہوں۔ نہ میں قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا/ رکھتی ہوں یا خود کو احمدی لکھتا / لکھتی ہوں، یہ حلف نامۂ ختم نبوت، پاکستان کے تما م محکموں کے ملازموں اور حج فارم پر بھی موجود ہے مگر خطۂ کشمیر کے نہ تو آئین میں واضح طور پر قادیانیوں کا نام لے کر انہیں غیر مسلم اقلیت لکھا گیا ہے اور نہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی طرح ووٹر فارموں میں اور نہ ووٹر لسٹوں میں ان کو الگ لکھا گیا ہے۔ بلکہ یہ ظلم کیا گیا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹوں میں شامل کر کے مسلمان لکھا گیا ہے۔
اسی طرح صدر پاکستان اور صدر آزاد کشمیر نے امتناع قادیانت آرڈیننس 1984ء اور 1985ء میں جاری کر کے قادیانیوں پر اسلامی شعائر کے استعمال کرنے پر پابندی لگائی، پاکستان میں تو کسی حد تک اس پر عمل ہو رہا ہے مگر آزاد کشمیر میں تو ایک فیصد بھی اس پر عمل نہیں ہو رہا، اُلٹا آزاد کشمیر کے الیکشن کمیشن نے قادیانیوں کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹوں میں شامل کر کے مسلمان ظاہر کیا ہے کشمیری مسلمانوں اور حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کشمیر کے اسلاف نے تحفظ ختم نبوت کے لیے عظیم کام کیا مگر اس خطہ کشمیر کے نہ آئین میں واضح طور پر قادیانیوں کا نام لے کر غیر مسلم اقلیت لکھا گیا ہے اور نہ ہی پاکستان کے الیکشن کمیشن کی طرح ووٹر فارموں میں اور نہ ہی ووٹر لسٹوں میں ان کو الگ لکھا گیا ہے ان غداروں کو مسلمانوں کی ووٹر لسٹوں میں مسلمان لکھا گیا ہے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت نے گزشتہ کئی سالوں سے بھر پور کوشش میں مصروف رہی اور بار بار ہر دور کے حکمرانوں اور ممبران اسمبلی آزاد کشمیر سے برابر مطالبہ کرتی رہی ہے کہ آزاد کشمیر کے آئین میں پاکستان کے آئین کی طرح قادیانیوں کو واضح طور پر کافر لکھا جائے، اس کے بعد غیر مسلموں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جس میں لکھا جائے کہ فلاں فلاں غیر مسلم ہیں۔ ان میں قادیانی اور لاہوری دونوں شامل ہونے چاہییں، جیسا کہ پاکستان کے آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جہاں تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر نے صدر آزاد کشمیر، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور ممبرانِ اسمبلی آزاد کشمیر کو خطوط لکھے ہیں۔ اسی طرح چیئرمین الیکشن کمیشن آف آزاد کشمیر کو بھی اسی حوالے سے خط لکھا اور اس کے ساتھ بطور ثبوت پاکستان الیکشن کمیشن کے ووٹر فارم، حلف نامے ختم نبوت والے اور قادیانی مرد و خواتین کو الگ الگ ووٹر لسٹیں پیش کی گئیں کہ آزاد کشمیر کی ووٹر لسٹوں میں اور ووٹر فارموں میں قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ الگ درج کیا جائے۔ یہ آئینی تقاضا ہے، اس پر 19؍ ستمبر 2016 کو الیکشن کمیشن آف آزاد کشمیر کی طرف سے خط کا جواب موصول ہوا۔ جس میں سیکشن آفیسر محمد اشفاق نے لکھا کہ آپ کی درخواست (19-3-2016) حسب ہدایت تحریر حاضر خدمت ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں نافذ العمل انتخابی قوانین میں مسلم اور غیر مسلم ووٹر کے لیے الگ الگ کیٹیگریز میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کوئی قانونی پروویژن نہیں ہے، آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن کمیشن کوئی صرف نافذ العمل قانون کے مطابق ہی عمل درآمد کرنے کا پابند ہے، چونکہ یہ قانون سازی سے متعلق ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں کمیشن ہذا اَز خود کوئی کارروائی عمل میں لانے سے قاصر ہے، لہٰذا مہربانی کر کے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ مزید یہ ظلم ہوا کہ آزاد کشمیر کے آئین میں غیر مسلم کی تعریف پاکستان کے آئین کی طرح قادیانیوں یا دوسرے غیر مسلموں کا ذکر تک نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کے قادیانی اور قادیانی نواز یہ کہتے ہیں کہ قادیانی آزاد کشمیر کے آئین کی روح سے مسلمان ہیں، غیر مسلم نہیں۔ اسی لیے ہمارے نام بھی ووٹر لسٹوں میں مسلمانوں کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں تو ہم آئینی طور پر مسلمان ہیں غیر مسلم نہیں ہیں۔ تحریک تحفظ ختم نبوت ہر فورم پر یہ آواز بلند کرتی رہی ہے کہ قادیانیوں کے متعلق آزاد کشمیر کے آئین میں وہی الفاظ لکھے جائیں جو پاکستانی آئین میں لکھے ہوئے ہیں، مگر ہر دور میں حکمران اِتنے بے حس ہوتے گئے ہیں کہ یا تو اُن کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کی کوئی اہمیت نہیں، یا ملکی اور غیر ملکی دباؤ پر وہ بے بس ہیں۔ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر تحریک ختم نبوت آزاد کشمیر نے یہ فیصلہ کیا کہ آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جائے کہ حکومت کو قادیانیوں سے متعلق قانون سازی کے لیے آرڈر کرایا جائے اور آئین میں قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے راجہ انوار القمر ایڈووکیٹ نے تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر کے صدر اور دوسرے رہنماؤں اور وکلاء سے مشاورت کر کے حکومت اور دوسرے تمام محکموں کے خلاف آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور ہائی کورٹ نے 13/12/2016 کو حکومت سمیت تمام محکموں کو جواب کے لیے طلب کیا تھا مگر حکومت کی طرف سے کسی بھی محکمے نے جواب داخل نہیں کرایا۔ جس کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مصطفی مغل نے فریقین کو 18؍ جنوری 2017ء کے لیے دوبارہ نوٹسز جاری کیے ہیں اور حکومتی اداروں سے دوبارہ جواب طلب کیا ہے۔ جبکہ تحریک ختم نبوت آزاد کشمیر نے اس سلسلہ میں تین رکنی علماء کرام کی ایک کمیٹی مولانا جمیل احمد کی نگرانی میں تشکیل کی ہے جو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے اس مقدمہ کی اہمیت کے سلسلہ میں ملاقات کرے گی۔ تاکہ پہلی تاریخی پیشی پر ریاست بھر سے تمام مکاتیبِ فکر کے علمائے کرام، مشائخ عظام، سیاسی، سماجی رہنما، وکلاء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عاشقانِ رسول ﷺ وکیلِ ختم نبوت بن کر عدالت میں پیش ہوں، آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس اہم معاملہ میں حکومت کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر کے اسے فریق بنایا گیا ہے، تحریک کے صدر مولانا عبد الوحید قاسمی نے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کے آئین میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں اور تحریک گزشتہ کئی سالوں سے حکومت آزاد کشمیر سے اس سقم کو دُور کرنے کے لیے مطالبہ کرتی آئی ہے، لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جس کے بعد تحریک کے رہنماؤں نے وکلا کی مشاورت کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کردی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس سے آزاد کشمیر میں موجود قادیانیوں کی آئینی اور قانونی بلکہ مذہبی حیثیت وشناخت کا فیصلہ ہوگا۔
(روزنامہ ’’اوصاف‘‘، اسلام آباد۔ 15؍ دسمبر، 2016ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.