تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

ناول قسط (۲)

ظفرجی
کچھ ہی دیر میں ہال کچھا کھچ بھر چکا تھا۔چاندپوری مجھے ایک کونے میں دھکیل کر ایک بار پھر کہیں گم ہو چکے تھے ۔
” اختر علی خان ․․․ روزنامہ’’ زمیندار‘‘ ․․․․ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟؟ ” ایک ادھیڑ عمر شخص میرے سر پر آن کھڑا ہوا۔
” جج ․․․․ جی جی ․․․․ ضرور ․․․․ ” میں اپنی کرسی پر بیٹھا بیٹھا سکڑ گیا۔
” نوازش ․․․ کس روزنامچے سے ہیں آپ ․․․․ ؟ ” انہوں نے بیٹھتے ہی پوچھا۔
” جی میں وہ ․․․ دراصل ․․․․ چچ ․․․ چاند پوری ․․․ ” میں ہکلایا۔
” چاند پوری ؟؟ ماشاء اﷲ کہاں سے چھُپتا ہے ؟ ”
“ہر پانچ منٹ بعد چُھپ جاتا ہے ․․․․ وہ رہے ․․․․ وہ تیسری قطار میں ․․․ وہ جن کے ہاتھ میں سموسہ ہے ․․․․ میں ان کے ساتھ ہوں !”
“اچھا ․․․ اچھا ․․․․ ماشاء اﷲ!” وہ چشمہ درست کرتے ہوئے بولے ۔
میں کچھ دیر کن اکھیوں سے ان صاحب کو ٹٹولتا رہا پھر ہمت جمع کر کے بولا: ’’روزنامہ’’ زمیندار‘‘ وہی ہے نا ․․․․ جسے مولانا ظفر علی خان چلاتے ہیں ؟ ‘‘
“جی وہ میرے والدِ محترم ہیں ․․․․ ضعف پیری غالب ہو چکا ․․․․ اب میں چلا رہا ہوں اخبار ”
میں چونک کر ظفرُالملّت وَالدّین کے سپوت کو حیرت و عقیدت سے دیکھنے لگا ۔
اسی دوران ہال میں ایک انتہائی رعب دار شخصیّت داخل ہوئی۔ مولانا اختر علی خان احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے ۔ میں بھی دیکھا دیکھی کھڑا ہو گیا۔
” امیرِ شریعت ؒآئے ہیں ! ” انہوں نے سرگوشی کی۔
” اوہ ․․․․ سبحان اﷲ ” میرے منہہ سے نکلا۔
امیرِ شریعتؒ کا ذکر میں نے کئی کتابوں میں پڑھا تھا ․․․․ اور علماء کی تقریروں میں بھی سنا تھا ․․․․ آج چشم تخیّل سے پہلی بار زیارت نصیب ہو رہی تھی ․․․․ چہرہ پربہار ، زلفِ خمدار ، نگاہوں میں عشقِ رسول ﷺ کا خمار ، بڑھاپے کے باوجود شخصیّت میں ایک عزم ․․․․ ایک وقار ․․․ !لوگ احتراماً کھڑے ہونے لگے ۔
” ساتھ کون حضرات ہیں ؟ ” میں نے پوچھا۔
” ماسٹر تاج الدینؒ ․․․․ شیخ حسام الدین ؒ․․․․ اور صاحبزادہ فیض الحسن صاحبؒ ”
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کو سٹیج کے سامنے پہلی قطار کی کرسیوں میں جگہ دی گئی۔ وہ بیٹھنے لگے تو ایک بزرگ نے ان کے کان میں آکر کچھ سرگوشی کی۔شاہ صاحب دوبارہ اٹھے اور اپنی دائیں جانب تشریف فرمابابو جی ؒ کے پاؤں کی طرف دونوں ہاتھ بڑھا دیے ۔ بابوجیؒ نے دونوں ہاتھ تھام لئے اور گلے سے لگا لیا۔ امیرِ شریعتؒ نے پیر صاحب کا ماتھا چوما اور شعر پڑھا :
کتھے مہر علی ، کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
کچھ دیر بعد ایک خوش الحان قاری نے تلاوت کلام پاک سے ماحول کو مشکبار کیا۔ پھر مولانا عبدالستار نیازی سٹیج پر تشریف لائے ۔جیب سے ایک پرچی نکالی اور پرسوز آواز میں ایک نعت شریف کے پھول بکھیرنے لگے :
یا مصطفی ، خیرالوریٰ ، تیرے جیہا کوئی نہیں
کینوں کہواں تیرے جیہا ، تیرے جیہا کوئی نہیں
تیرے جیہا سوہنا نبی ، لبھّاں تے تاں جے ہووے کوئی
مینوں تاں ہے ایناں پتا ، تیرے جیہا کوئی نہیں
اس کے بعد صاحبزادہ گولڑہ شریف بابوجیؒسٹیج پر تشریف لائے اور فرمایا:
“یہاں ہر مسلک کے علمائے کرام موجود ہیں ۔ کچھ سے موافقت رہی ہے ۔کچھ سے اختلاف رہا ہے اور کچھ سے سخت کشیدگی ۔میں سب کو معاف کرتا ہوں اور سب سے معافی کا طالب ہوں ۔راولپنڈی کے عالم دین مولانا غلام اﷲ خان سے ہماری مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپّی نہیں ۔ ان کے اور ہمارے بیچ بے شمار اختلاف ہیں ،لیکن حضور سرور کونین صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ختم نبوّت کے صدقے میں مولانا غلام اﷲ خان کے جوتے بھی اٹھانے کو تیار ہوں ۔”
پیر صاحب نے ایک ہی عاجزانہ پھونک سے فرقہ واریت کی وہ آگ بجھا دی جس میں ربع صدی سے ہندوستان کا مسلمان جل رہا تھا۔پورا ہال سبحان اﷲ، ماشاء اﷲ کی صداؤں سے گونج اٹھا۔
” مسئلۂ ختمِ نبوت کی برکات کا ظہور ہو چکا ․․․․” مولانا اخترعلی خان بول اٹھے ۔ ” صدیوں بعد اختلاف کی برف پگھلی ہے بھائی ․․․․ 1935ء میں مسجد شہید گنج موومنٹ کے لئے بھی اس طرح کا اتحاد پیدا نہ ہو سکا تھا ․․․․ شاید آپ کو یاد ہو ؟
” جی میں تھوڑا بعد میں پیدا ہوا تھا ․․․․ البتہ آج کا اجتماع واقعی روح پرور ہے ” میں نے سادگی سے جواب دیا۔
اس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام مکاتیبِ فکر کے علمائے کرام اور صوفیائے عظام نے کھل کر عقیدۂ ختمِ نبوّت کا دفاع کیا اور مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوّت کے تارپود بکھیر دیے ۔ مقررین اس نکتہ پر متفق تھے کہ ملک میں مرزائیت کا کھوٹا سکّہ نہیں چلنے دیں گے ۔ حکومت آئین میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے اورسرظفراﷲ قادیانی کو وزارتِ خارجہ کے قلمدان سے برخاست کرے ، کیونکہ اسی ظفراﷲ خان نے قائدِ اعظم کا جنازہ یہ کر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا کہ ایک “مسلمان” کسی کافر کا جنازہ کیسے پڑھ سکتا ہے ۔ تقاریر جاری تھیں کہ مجھے نیند نے آلیا۔ میں کرسی سے ٹیک لگائے اونگھنے لگا۔ جانے میں کتنی دیر سویا رہا۔ اچانک ایک بھاری بھر کم آواز نے مجھے جگا دیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہال میں زلزلہ آ گیا ہو:
” میں میاں ﷺ کے سوا کسی کا نہیں ۔نہ اپنا نہ پرایا۔میں اُنہیں کا ہوں۔وہی میرے ہیں ۔ جن کے حسن و جمال کو خود رَبِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو۔ میں اُن کے حسن وجمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے اُن پر جو اُن کانام تو لیتے ہیں،لیکن سارقوں کی خیرہ چشمی کا تماشا بھی دیکھتے ہیں ۔جو نام نہاد مسلمان نبوت کے ڈاکوؤں سے حسنِ سلوک اور رواداری کے قائل ہیں۔ وہ حرماں نصیب روز محشر شفیعِ اُمّت ﷺ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے ،جو میاں ﷺ کا نہیں، وہ اس قابل نہیں کہ اسے منہ بھی لگایا جائے ۔! ”
پُوری محفل دم بخود ہو کر امیرِ شریعتؒ کا خطاب سن رہی تھی۔
” مسلم لیگ والو !تم ناموس رسالت کا تحفظ کرو ۔میں تمہارے کُتّے بھی پالنے کو تیار ہوں۔ میں تمہارے سؤر چرانے کو تیّار ہوں۔میں پوچھتا ہوں: پاکستان کس نے بنایا؟مسلم لیگ نے یا جماعت احمدیہ نے ؟مرزا بشیرالدین اور سرظفراﷲ کا پاکستان سے کیا تعلق ہے ؟یہ دُم بریدہ سگانِ برطانیہ اب پاکستان میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ میں پوچھتا ہوں کیوں؟ ہم ان کی یہ غدارانہ سرگرمیاں ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور پاکستان کو مرزائی اسٹیٹ نہیں بننے دیں گے ۔”
کنونشن کے بعد علماء کرام ہال سے نکلے تو اَخباری نمائندوں نے گھیر لیا۔
” ہم نے ایک مشترکہ مجلسِ عمل تشکیل دے دی ہے جو مسئلۂ قادیانیت پر عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ حکومت سے اس مسئلے پر مذاکرات بھی کرے گی۔” مولاناابوالحسناتؒ نے کہا۔
’’حکومت کے سامنے آپ کیا مطالبات رکھیں گے؟ ” ایک رپورٹرنے دریافت کیا۔‘‘
’’ہم نے چار مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں ․․․․․
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے ․․․․سرظفراﷲ خان کو وزارتِ خارجہ سے برطرف کیا جائے ۔تمام قادیانیوں کو کلیدی پوسٹوں سے ہٹایا جائے اور ربوہ شہر کو عام مسلمانوں کے لئے کھول دیا جائے ۔
“مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مجلس عمل کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟ ”
“ہم ایک پر امن تحریک چلائیں گے اور ہم پُرامید ہیں کہ حکومت مسئلے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمارے مطالبات پر ضرور غور کرے گی۔ یہ صرف ایک مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی اور معاشرتی مسئلہ بھی ہے ․․․․”
“کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی؟”
” دیکھئے ․․․․ ساڑھے تیرہ سو سال میں بے شمار کذاب مدعیانِ نبوّت آئے اور آج دنیا ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔حکومت میں بیٹھے سیاسی حکیم اور دانشور بھلے مرزائیت کے جاں بلب گھوڑے کی مالش کرتے رہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ سواری اور شہسوار ایک دن ضرور منہ کے بل گریں گے ۔ہم تو اِس جدوجہد میں بس اپنی قبولیت کے متلاشی ہیں ․․․․”
چاندپوری کاپی پنسل سنبھالے نوٹس لے رہے تھے اور میں عشقِ مصطفی ﷺ میں گُندھی صورتوں کو دیکھ رہا تھا کہ دیکھنا جن کا کسی ثواب سے کم نہ تھا ۔
(18 مئی 1952ء جہانگیر پارک کراچی)
چاند پوری ایک درخت سے ٹیک لگائے پان چبا رہے تھے اور میں گھاس پر بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا۔رات ہی ہم ٹرین کا سفر کر کے کراچی پہنچے تھے ۔عصر کا وقت تھا اور ہم جہانگیر پارک کی گھنّی چھاؤں میں بیٹھے تھے ۔ہر پانچ منٹ بعد سپیکر سے “ہیلو،ہیلو،ہیلو مائیک ٹیسٹنگ ” کی آواز آتی۔ چاند پوری نیم وا آنکھیں کھولتے، پھر درخت کی جڑ میں ایک پچکاری مار کر کہتے: ” اندھیر نگری ہے بھئی ․․․․ اندھیر نگری ! ”
جہانگیر پارک میں قادیانیوں کا سالانہ جلسہ تھا۔ شہر بھر میں جلسے کے اشتہارات لگائے گئے تھے ۔جن پر آویزاں وزیرخارجہ ظفراﷲ خان کی قد آدم تصاویر قوم کا منہ چڑھا رہی تھی۔ حالانکہ دو ہی ہفتے قبل وزیراعظم نے سرکاری وزراء اور ملازمین کی مذہبی جلسوں میں شرکت پر پابندی لگائی تھی۔
میں نے ایک ہاکر سے اخبار خریدا اور گھاس پر لیٹ کر پڑھنے لگا۔
” لو جناب ․․․․ خوش ہو جائیے ․․․․ وزیرِ خارجہ نہیں آ رہے، آج کے جلسے میں ”
“کیوں ؟؟ ․․․ فوت ہو گئے کیا ؟؟” چاند پوری بیزاری سے بولے ۔
” نہیں ․․․․․ وزیرِ اعظم نے فون کر کے انہیں کراچی جلسے میں شرکت سے منع کر دیا ہے ․․․․ یہ دیکھئے :روزنامہ’’ فرمان ‘‘
انہوں نے بے دلّی سے اخبار دیکھا اور کہا:
” اس فرمانِ شاہی کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹے گی ․․․․ انشاء اﷲ ․․․․ ”
” کیا مطلب ؟”
“مطلب یہ کہ سرظفراﷲ ڈنکے کی چوٹ پر آئیں گے۔ ”
” وزیر اعظم کے منع کرنے کے باوجود ؟ ”
” وزیراعظم کو پوچھتا کون ہے بھائی؟ وزیرِ خارجہ چھینکتے بھی’’ خلیفہ‘‘ کی مرضی سے ہیں “خلیفہ کون ؟ ”
“خلیفۃ القادیان فی ربوہ شریف ․․․․ کرائیں گے کبھی آپ کو بھی زیارت۔”
” وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سرکاری ملازمین اور حکومتی وزراء مذہبی جلسوں سے دُور رہیں ”
’’یہ حکم صرف مسلمانوں کے لئے ہے ․․․․ مرزائی اس سے مستثنیٰ ہیں ․․․․ اور کچھ ؟‘‘
میں خاموشی سے کھیلوں کی خبریں پڑھنے لگا۔
” اس سے پہلے کہ جلسے کی تقاریر سن کر ہاضمہ خراب ہو جائے ․․․․ چلو کچھ کھا کر آتے ہیں۔ ” چاند پوری نے کہا اور ہم “چلو کباب سبحانی ھوٹل” پر جا کر بیٹھ گئے۔
مغرب کے بعد جلسہ گاہ کی تمام نشتیں پر ہو چکی تھیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد یہاں موجود تھی۔ گاڑیوں کی چھتّوں کے علاوہ درختوں پر بھی لوگ قبضہ جمائے بیٹھے تھے ۔
“چلو ہم بھی کوئی مناسب شاخ ڈھونڈتے ہیں ․․․․ ”
“درخت پر بیٹھنا ضروری ہے کیا ؟ ” میں نے کہا۔
” واجب ہے بھائی واجب ! ․․․․ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر بندہ پچکاریاں تھوڑی مار سکتا ہے !”
تھوڑی سی مشقّت کے بعد ہم بھی ایک درخت پر مورچہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ یہاں اچھی خاصی روشنی تھی اور سٹیج کا منظر بھی صاف دکھاء دیتا تھا۔ جوں جوں رات ڈھل رہی تھی ، جلسہ گاہ کی رونق بڑھتی جا رہی تھی۔رات دس بجے اچانک اعلان ہوا: ” وزیر خارجہ پاکستان سرظفراﷲ خان جلسہ گاہ میں تشریف لا چکے ہیں ․․․! ” نعروں اور تالیوں کے شور سے پنڈال گونج اٹھا۔
چاند پوری مجھے پنسل چبھو کر بولے :
” کیا کہا تھا میں نے ؟ سرظفراﷲ عہدہ تو چھوڑ سکتے ہیں ․․․ہم مذہب قادیانیوں کا جلسہ مِس نہیں کر سکتے!” تھوڑی ہی دیر بعد جلسے سے سرظفراﷲ خان کا “فکر انگیز” خطاب شروع ہو چکا تھا۔ چاند پوری منہ میں گلوری دبائے دھڑا دھڑ تقریر کے نوٹس لینے لگے :
” انجمن کے ساتھیو! جنابِ وزیرِ اعظم نے دو روز پہلے کہا تھا کہ میں اس جلسے میں شرکت نہ کروں۔سردار عبدالرب نشتر صاحب کا بھی فون آیا تھا، لیکن میں نے جواب دیا کہ میں انجمن سے وعدہ کر چکا ہوں۔”
” یہ انجمن کون ہے ؟ ” میں نے چاندپوری سے پوچھا۔
” کلکتہ کی طوائف ! ” انہوں نے چشمے کے پیچھے سے آنکھ ماری۔
” آئی ایم مین آف پرنسپل ۔ اگر کچھ روز پہلے وزیراعظم مجھے کہتے تو شاید میں رک جاتا،لیکن وعدہ کر لینے کے بعد اس جلسے میں تقریر کرنا،میں اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں ۔ اگر اس کے باوجود بھی وزیرِ اعظم یہ سمجھتے ہیں کہ میں غلطی پر ہوں تو میں اپنا استعفی دینے کو تیار ہوں ! ”
پنڈال ایک بار پھر نعروں سے گونج اُٹھا اور دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔
” استعفی دیں ان کے دشمن ․․․․ دیکھو :ایک تیر سے کئی شکار کر لئے ۔” چاندپوری نے تبصرہ کیا۔
“میری آج کی تقریر کا عنوان ہے ۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ انجمنِ احمدیہ کے متوالو ! قرآن آخری الہٰامی کتاب ہے۔جس میں عالمِ انسانیّت کے لئے آخری ضابطۂ حیات مہیّا کر دیا گیا ہے ۔ کوئی بعد میں آنے والا ضابطہ اس کو موقوف نہیں کر سکتا۔ پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ والہ وسلّم خاتم النّبیین ہیں۔ جنہوں نے عالمِ انسانی کو اﷲ کا آخری پیغام پہنچا دیا ہے اور اس کے بعد کوئی نبیٔ شریعت نہیں آ سکتا اور نا ہی کوئی شخص قرآنی شریعت کے ضابطوں کو منسوخ کر سکتا ہے ۔ ”
میں نے حیرت سے چاند پوری کی طرف دیکھا تو وہ ایک تازہ گلوری منہ میں ٹھونس کر بولے :
“آخر میں مینگنی ڈالے گا ․․․․ تم ذرا صبر تو کرو ․․․․ مرزا صاحب بھی یہی کرتے تھے ”
” اور یہ رسول اﷲ کا وعدہ ہے۔نبی کا وعدہ ہے کہ ایسے لوگ اس امّت میں پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی اصلاح و تجدید کریں گے جو بدعات کا خاتمہ کریں گے۔یہ لوگ مامور من اﷲ ہوں گیاور تجدیدِ دین پر مامور ہوں گے اور اسلام کی اصل پاکیزگی بحال کریں گے۔ مرزا غلام احمد ایسے ہی ایک مجدّدتھے۔ احمدیت ایک ایسا پودا ہے جو اﷲ نے خود لگایا ہے اور اب جڑپکڑ چکا ہے ۔ تاکہ قرآن کے وعدے کی تکمیل ہو اور اسلام کی حفاظت کا ضامن بنے اور اگر یہ پودا اکھیڑ دیا گیا تو اسلام زندہ نہیں رہے گا۔ بلکہ ایک سوکھے درخت کی مانند ہو جائے گااور دوسرے مذاہب پر اپنی برتری کا ثبوت مہّیا نہیں کر سکے گا ۔ ”
” سن لو ․․․․ یعنی قادیانیّت ایک شجرِ پُربہار اور اسلام ایک سوکھا درخت ” چاند پوری پان تھوکتے ہوئے بولے ۔
” آپ کی پچکاری نیچے کسی احمدی پر گر گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ” میں نے کہا۔
” کچھ نہیں ہوتا۔ہم بھی تو اِن کی پچکاریاں برداشت کر رہے ہیں۔”
وزیر خارجہ نے تقریر جاری رکھی :
” انجمنِ احمدیہ کے ساتھیو!تمہیں اس شجرِ پر بہار کی حفاظت کرنی ہے اور اس پیغام کو ملک کے ہر خاص و عام تک پہنچاناہے کہ مُلائی اسلام ایک مُردہ مذھب ہے اور احمدی اسلام ایک زندہ مذہب۔”
“اب تو آگئی، بات سمجھ شریف میں ․․․․ یا مزید تشریح کی ضرورت ہے ؟” چاند پوری نے مجھے ٹہوکہ دیا۔
“واقعی ․․․․ بڑی ظالم پچکاری ماری ہے ․․․ ” میں نے کہا۔
اچانک جلسہ گاہ کی طرف سے شور برآمد ہوا اور چودھری ظفراﷲ کی تقریر رک گئی۔
نامعلوم سمتوں سے آنے والے پتھروں نے جلسہ درہم برہم کر دیا تھا۔
“اب جلدی اُترو ․․․․ اور بھاگو ․․․․ مجاہدین پہنچ گئے ہیں ․․․․ ” چاندپوری نے کہا اور ہم تیزی سے نیچے اترنے لگے ۔
ہم دوڑتے بھاگتے امپریس مارکیٹ پہنچے تو پہلا دھماکہ ہوا۔پتھراؤ کرنے والے مظاہرین پر پولیس آنسو گیس کے گولے فائر کر رہی تھی۔ہمارے سامنے سے پولیس کی گاڑیاں ہوٹر بجاتی ہوئی گزریں۔ وزیرِ خارجہ واپس جا رہے تھے ۔
چاند پوری نے کہا:”بس آج سے ملک میں قادیانیت کا تختہ الٹ گیا ․․․․ ”
” وہ کیسے ․․․․․؟؟ ”
” پہلا پتھر اہلیانِ کراچی نے مار دیا۔ اب پورے پاکستان میں ان کے جلسے یونہی الٹائے جائیں گے۔ چار سال سے برداشت کر رہے تھے ،حکومتی سرپرستی میں ان کی پچکاریاں۔ اب آسمان سے پتھر برسنے تو رہے۔ قوم کو خود ہی ہمت کرنا پڑے گی۔ “(جاری ہے)
٭……٭……٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.