غلام ابوبکر صدیقی بن حضرت مولانا محمد نافعؒ
گزشتہ دنوں ماہنامہ ’’لولاک‘‘ جمادی الاول ۱۴۳۸ھ فروری ۲۰۱۷ء کسی دوست نے ارسال کیا۔ اس میں تبصرہ کتب کے صفحہ نمبر۵۲ پر ’’تذکرہ حضرت مولانا محمد نافعؒ‘‘ تالیف حافظ عبدالجبار سلفی پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔ مبصر کا نام درج نہیں بلکہ صرف ادارہ تحریر ہے۔ اس میں ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ کے مندرجات پر تبصرہ کم اور مؤلف کی تعریف و توصیف زیادہ ہے۔ مبصر عموماً کتاب کا بغور مطالعہ کرتا ہے اس کے بعد کتاب کے مندرجات پر تبصرہ لکھتا ہے۔ کتاب کے جو مستحسن پہلو ہوں ان کی تعریف اور جو قابل نقد پہلو ہوں ان پر تنقید کی جاتی ہے۔ لیکن اس تمام تبصرہ میں مصنف کی تعریف کے ڈونگرے بجائے گئے ہیں اور حضرتؒ کے وارثین اور لواحقین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جیسا کہ وہ مصنف کو کام کرنے نہیں دے رہے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور بندہ نے جو اظہار برأت شائع کرایا تھا اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
سب سے پہلے میں یہ دعویٰ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ سلفی صاحب کی اپنی سیلفی ہے۔ اس نے یہ تبصرہ خود لکھا ہے، اپنی ستائش خود کی ہے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنے ہیں، کسی اور کی تحریر نہیں ہے۔ یہ مکمل تبصرہ سلفی صاحب کی اپنی سیلفی ہے۔
بندہ نے اس سے برأت کا اظہار کیوں کیا؟ اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔ امید ہے کہ منصف مزاج خود فیصلہ کرلیں گے کہ زیادتی کس فریق کی ہے۔ سلفی صاحب کی علماء، مشائخ، مشاہیر اور شرفاء پر جارحانہ اور سوفیانہ تنقید، تضحیک اور تذلیل آمیز عبارات میں سے چند اقتباسات تحریر کروں گا۔ اس سے آپ خود فیصلہ کرلیں کہ سلفی صاحب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ کیا ان کے ساتھ اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ مبصر صاحب کو پتہ نہیں یہ تحریریں کتاب میں کیوں نظر نہیں آئیں۔ اصل میں جب مبصر اور مصنف ایک ہی ہو تو پھر تضحیک اور تذلیل آمیز عبارات خاک نظر آنی ہیں۔
مشت نمونہ از خور وارے کے طورپر چند حوالہ جات درج کررہا ہوں ورنہ نصف سے زیادہ کتاب متنازعہ ہے۔
۱- ’’تنظیم اہل سنت کے بارے میں ۷۲ صفحات تعریف و توصیف میں سیاہ کرنے کے بعد صفحہ ۱۹۷ پر رقمطراز ہیں کہ ’’تنظیم پر ایک ایسا وقت بھی آگیا ہے کہ ان پڑھ مبلغین کا ایک چھوٹا سا ریوڑ ہی بچ پایا۔‘‘ کیا اس سے اتفاق کیا جاسکتا ہے؟
حضرت علامہ تونسویؒ کے ہمارے والد گرامی القدر کے ساتھ جو دوستانہ تعلقات، باہمی محبت کے روابط تھے ان کو مدنظر رکھ کر اس عبارت کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں حضرات کی باہمی محبت اس طرح تھی کہ حضرت تونسویؒ جب اِدھر سے یعنی محمدی شریف کے قریب سے گزرتے تو ملاقات کیلئے ضرور تشریف لاتے۔ جب آخری دفعہ تشریف لائے تو حضرت تونسویؒ بھی معذور تھے اور حضرت والد گرامی القدر بھی معذور تھے۔ حضرت تونسویؒ گاڑی میں بیٹھے رہے، نیچے نہیں اتر سکتے تھے۔ ہم نے حضرت والد گرامی القدر کی چارپائی اٹھا کر گاڑی کے قریب رکھ دی۔ دونوں حضرات آپس میں باتیں کرتے رہے اور ایک دوسرے کی زیارت کی۔
کیا حضرت تونسویؒ کی اولاد مولانا عبدالغفار تونسوی، مولانا عبدالحمید تونسوی اور دیگر علماء بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہیں؟ آپ خود ہی فیصلہ کریں۔
۲- صفحہ ۱۵۵ پر ہمارے تایا زاد بھائی حضرت مولانا محمدذاکرؒ کے بیٹے اور حضرت کے بھتیجے مولانا محمد رحمت اﷲ صاحب سجادہ ۶نشین خانقاہ محمدی شریف، ایم پی اے کو ’’باگڑبلا‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ جب وہ پڑھیں گے تو ان کا اور ہمارا تعلق کیا رہ جائے گا۔ کیا سلفی صاحب ہمارے گھر میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔
۳- صفحہ ۳۶۶ کے حاشیہ میں مولانا عنایت اﷲ صاحب سانگلہ ہل بریلوی عالم کی خوب درگت بنائی ہے۔ ان کو بسیارخور اور پتہ نہیں کون کون سے القابات سے نوازا ہے۔ خود ہی ملاحظہ کرلیں۔ مذکور مولانا صاحب کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ شیعہ مناظر کے مقابل میں حضرت والد گرامی القدر کے معاون تھے۔ ان کو اس تعاون کا صلہ سلفی صاحب نے خوب دیا ہے۔
۴- صفحہ ۴۰۸ کے حاشیہ میں حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالویؒ کے چچا میاں محمد سعداﷲؒ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’کچھ لوگوں کا ضمیر مردہ ہوتا ہے مگر کچھ کا سرے سے ہوتا ہی نہیں……الخ‘‘ اور صفحہ ۶۳۲ پر انہی میاں سعداﷲؒ کے بیٹے میاں رب نوازؒ کا ایک تعریفی خط جو انہوں نے حضرت والد گرامی القدر کے نام لکھا تھا جس میں حضرت کی تمام کتب کی تعریف و توصیف تحریر کی تھی، شائع کیا ہے۔ اس تضاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ باپ کی توہین کی جارہی ہے اور بیٹے کی تعریف کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خاندان کا خانوادۂ سیال شریف کے ساتھ تقریباً ایک صدی سے خانقاہی تعلق چلا آرہا ہے۔ حضرت والد گرامی ان سے اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے تھے اور ہمیں ان کا احترام کرنے کا حکم دیتے تھے۔ کیا حضرتؒ کے انتقال کے بعد ارادت کے تعلق کا حق اسی انداز میں ادا کیا جاتا ہے جس طرح سلفی صاحب کررہے ہیں اور ہمارے کندھے پر رکھ کر فائر کررہے ہیں۔
۵- جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تصنیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے اعتراضات کے جواب میں حضرت والد گرامی القدر نے ’’مسئلہ اقربانوازی‘‘ تحریر فرمائی لیکن کہیں بھی مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے مقتدر رہنماؤں نے حضرت کے ساتھ تعلق قائم رکھا اور حضرت نے بھی ان سے تعلقات کو منقطع نہیں ہونے دیا بلکہ حضرت مولانا عبدالمالک کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے والد گرامی القدر کے انتقال کے بعد اپنے عمدہ تأثرات مضامین اور مقالات کی صورت میں ارسال کئے جو سلفی صاحب نے تذکرہ میں شائع بھی کئے ہیں۔ صرف حافظ ادریس صاحب کا مضمون شائع نہیں کیا لیکن اس پر تنقید صفحہ نمبر ۶ پر بھرپور انداز میں کردی ہے۔ جناب لیاقت بلوچ صاحب، جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب اور جناب حضرت مولانا عبدالمالک صاحب کے مضامین اور مقالات تذکرہ میں شامل ہیں لیکن یہ خوشگوار تعلقات اور حضرت کی تعریف و توصیف سلفی صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھائی بلکہ ان کے بانی مولانا مودودیؒ کے خلاف صفحہ ۲۲۸ پر خواہ مخواہ تنقید اور غلط الفاظ میں عنوانات باندھ کر ان کی تضحیک کی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ایک آدمی آپ کی عزت کررہا ہے، آپ کا ادب و احترام کررہا ہے لیکن آپ خواہ مخواہ اس کے خلاف لکھنا شروع کردیں اور اس کو آڑے ہاتھوں لیں۔ کیا ان کے احترام اور توقیر کا صلہ اسلام نے اس طرح دینے کا سکھایا ہے۔ جبکہ حضرتؒ نے ان کے ساتھ اختلاف کیا ہے تو ان کو ’’احباب‘‘ اور ’’حضرات‘‘ کرکے مخاطب کیا ہے۔ میرے خیال میں اسلام میں اخلاقیات کا درس سلفی صاحب کے نزدیک علماء کیلئے نہیں بلکہ جہلاء کیلئے ہے اسی لئے سلفی صاحب جیسا عالم تمام اخلاقی قواعد و ضوابط سے آزاد ہے۔
۶- صفحہ ۳۰۵ پر علامہ طاہرالقادری صاحب کو ’’شیخ الظلام‘‘ تحریر کیا گیا ہے اور صاحبزادہ نصیرالدین گولڑوی اور علامہ ریاض حسین پر بھی بے جا تبصرہ اور تنقید کی گئی ہے جس کا والدگرامی کی سوانح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف سلفی صاحب کا ہی خاصہ ہے کہ جن لوگوں کا حضرت کے ساتھ ذاتی، علمی یا روحانی تعلق تھا وہ بھی ان کی نشتر زنی اور چابک دستی سے محفوظ نہیں رہے اور وہ حضرات جن کا حضرت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ کوئی ملاقات بھی نہیں وہ بھی سلفی صاحب کی مار دھاڑ سے نہیں بچ پائے۔ سلفی صاحب کا جوڈو کراٹے والا اسلوب اور طرز تحریر ہے۔ ان سے کوئی بچ نہیں پاتا۔ کسی کو طمانچہ رسید کرتے ہیں تو دوسرے کو ٹانگ مارتے ہیں۔ کسی کو مکہ رسید کرتے ہیں تو کسی کو ٹکر مارتے نظر آتے ہیں۔ ان کے جوڈو کراٹے کے منفرد اسلوب سے کوئی بچ پائے تو اس کو قسمت کا دھنی سمجھا جائے۔
سلفی صاحب ماہنامہ ’’لولاک‘‘ جمادی الاول ۱۴۳۸ھ صفحہ ۲۵ پر رقمطراز ہیں کہ ورثا نے کسی رسالہ کا وقیع نمبر شائع نہیں کرایا۔ خبث باطن خود ہی باہر آجاتا ہے۔ سلفی صاحب آپ کو یاد ہوگا مولانا زاہد الراشدی صاحب ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا نمبر شائع کرنا چاہتے تھے لیکن آپ نے مخالفت کی تھی کہ کسی نمبر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے سوانح تیار کر لی ہے اس لئے اگر کسی جریدہ کا نمبر شائع ہوگیا تو سوانح کی افادیت کم ہو جائے گی اور ہمیں منع کیا تھا کہ کسی رسالہ کو مواد نہ دیں تاکہ سوانح عمری کی اہمیت برقرار رہے اور اب ہمیں طعنہ کس منہ سے دے رہے ہو۔ اصل میں ’’دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ والا مسئلہ ہے۔
سلفی صاحب اپنے آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں ’’سلفی صاحب کو لکھنے سلیقہ آتا ہے، تحقیق کے خوگر ہیں‘‘۔ ماشاء اﷲ آپ کو واقعی لکھنے کا سلیقہ آتا ہے کیونکہ آپ کا قلم مار دھاڑ کرتا، طعن و تشنیع کرتا، نشتر زنی کرتا، شرفاء، علماء اور مشائخ کی پگڑیاں اچھالتا، ان کی عزت کو تار تار کرتا نظر آتا ہے حتیٰ کہ اپنے ممدوح کو بھی نہیں بخشتا۔ اس لئے مولانا محمد نافعؒ پر بھی تنقید اور تبصرہ کرنے سے گریز نہیں کیا اور وہ بھی مولوی اسماعیل گوجروی کے مقابلہ میں۔ ملاحظہ فرمائیں تذکرہ ۳۶۹ تحت عنوان مناظرہ منڈی پھلروان ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کرو
Aہم جو عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
þ اس سے آگے سلفی صاحب اپنے آپ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’جس نے جو لکھا وہ اس کی ملکیت ہے، جیسے چاہے وہ شائع کرے۔‘‘
سلفی صاحب! بندہ کی آپ سے گزارش ہے کہ ایک آدمی مستری مزدور کو مکان بنانے کیلئے جگہ دِکھاتا ہے، ان کو میٹریل اور تمام سامان مہیا کرتاہے، مزدوری دیتا ہے۔ جب مکان تیار ہو جائے تو وہ مستری مزدور مکان پر قابض ہو جائیں اور کہیں کہ یہ ہم نے بنایا ہے، یہ ہماری ملکیت ہے، ہم اس کو نہیں چھوڑتے۔ آپ کا دعویٰ بھی ان مستری اور مزدوروں جیسا ہے۔ آپ نے ہم سے حضرت کے مسودات، ڈائریاں، خطوط اور سوانح سے متعلقہ تمام مواد لیا اور بندہ اور حافظ ندیم مالک ’’دارالکتاب‘‘ نے آپ کو 28,000 (مبلغ اٹھائیس ہزار روپے) ادا کئے اس کے بعد آپ اکڑ گئے اور اپنے کل پرزے نکالنا شروع کردیئے اور سینہ زوری سے بلا اجازت پہلے ’’فیضان علم‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا۔ اس کتابچہ کو ہم نے ضبط کیا تو آپ نے تذکرہ کی اشاعت بلا اجازت کر ڈالی حالانکہ یہ مذکورہ رقم جو آپ کو ادا کی گئی تھی وہ ’’رحمأء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے تھی اس لئے تذکرہ کے حقوق اشاعت رحمآء بینہم ٹرسٹ کے ہیں، اشاعت کے ساتھ ادارہ مظہرالتحقیق اور آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ نے غیراخلاقی اور غیرقانونی حرکت کی ہے۔ آپ سے جب تالیف کرنے کی بات ہوئی تھی اس وقت واضح طورپر کہا گیا تھا کہ ’’تذکرہ‘‘ ’’رحمآء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے شائع ہوگا۔ سخن اول کے عنوان کے تحت آپ خود اعتراف کررہے ہیں کہ تمام مطلوبہ مواد، ڈائریاں اور خطوط میں نے حضرتؒ کے بیٹوں سے حاصل کئے ہیں اور انہوں نے مجھے سوانح مرتب کرنے کا حکم دیا ہے اور تذکرہ کے ہی شروع کے صفحہ پر ایک ضروری وضاحت کے عنوان کے تحت ہمیں ہی چالاک، تیز طبع، شہرت پسند، زرپرست، حاسد، سرقہ باز، بددیانت اور گھٹیا پن کے خطابات سے نواز رہے ہیں۔ یہ تو ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والا معاملہ ہے۔ میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ:
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ایک ضروری وضاحت کے عنوان میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مسودہ تیز طبع لوگوں کے ہاتھ آگیا ہے حالانکہ یہ مسودہ آپ نے ہمیں بذریعہ ڈاک ارسال فرمایا تھا اور ایک خط بھی تحریر کیا تھا اس مسودہ کی تصحیح کی جائے۔ جب ہم دونوں بھائیوں نے ترامیم اور تصحیحات کیں تو آپ بگڑ گئے۔ آپ نے ان کو ماننے سے انکار کردیا اور فون پر آپ نے فرمایا کہ ’’میں مولانا محمد نافع نہیں بن سکتا، وہ انتقال کر گئے، ان کا اسلوب اور طرز تحریر ان کے ساتھ دفن ہوگیا۔ میں قاضی مظہرحسین صاحب کا شاگرد، مرید اور تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے اسلوب کے مطابق سوانح مرتب کروں گا۔‘‘
بندہ کی طرف سے گزارش ہے کہ جب تمام مواد لینے کیلئے آپ بمعہ حافظ ندیم صاحب تشریف لائے تو میرے بڑے بھائی محترم میاں مختار عمر مرحوم و مغفور نے آپ سے ہماری موجودگی میں آپ سے وعدہ لیا تھا کہ آپ ہمارے والد صاحب گرامی القدر کا اسلوب اور ہمارے اکابر کے مسلک کو سامنے رکھ کر سوانح مرتب کرنی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا تمام مکاتب فکر کے لوگ احترام کرتے ہیں اور ان سے ملاقات کیلئے آتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہم کسی پر تنقید اور تبصرہ برداشت نہیں کریں گے۔ اس وقت آپ نے ان تمام شرائط کو تسلیم کیا اور کہا کہ میرا تعلق بھی خانقاہی نظام سے ہے اس لئے میں اعتدال کے ساتھ سوانح مرتب کروں گا اور حضرت گرامی القدر کا اسلوب مدنظر رکھوں گا لیکن جب آپ نے مسودہ بھیجا اور اس کو ہم دونوں بھائیوں نے ملاحظہ کیا تو وہ مذکورہ بالا قواعد و ضوابط کے بالکل برعکس تھا۔ آپ سے فون پر رابطہ کیا تو آپ نے مذکورہ جواب دیا۔ پہلے بندہ لکھ چکا ہے کہ ’’دروغ گو را حافظ نہ باشد‘‘۔ یہی مقولہ سلفی صاحب پر صادق آتا ہے۔ آپ کو جوڈو کراٹے اور نشتر زنی کا اسلوب مبارک ہو جس سے کوئی شریف آدمی محفوظ نہیں رہتا کیونکہ شریف اور معزز آدمی ہی دوسرے شریف اور عزت دار آدمی کی عزت کرتا ہے۔ کمینہ اور کم ظرف آدمی جس کی اپنی کوئی عزت، حیثیت یا توقیر نہیں ہوتی وہ دوسروں کی عزت یا احترام خاک کرے گا۔ وہ اسی طرح ہر شریف آدمی کی پگڑی اچھالتا پھرے گا۔ بہرصورت ہمیں اس عزت افزائی سے محروم رکھیں تو ہمارے لئے اور آپ کیلئے بھی بہتر ہوگا۔ حضرت والد گرامی القدر کی عزت جب آپ کے قلم سے محفوظ نہیں رہی تو کس کی عزت محفوظ رہے گی۔
دراصل آپ کو پہلی ملاقات میں حضرت والد گرامی القدر نے جو تنبیہ کے طورپر ڈانٹ پلائی تھی اس کا کینہ آپ کے دل میں چھپا ہوا ہے وہ انتقام آپ نے ’’تذکرہ‘‘ مرتب کرکے اور اس میں جوڈو کراٹے کا اسلوب اختیار کر کے لیا ہے۔ آپ نے تذکرہ میں عنوان سخن اول میں جس پہلی ملاقات کا ذکر کیا ہے وہ جون ۲۰۰۳ء میں ہوئی حالانکہ حضرت والد گرامی القدر کے پاس کوئی ملاقاتی آتا تو اس کی ملاقات ڈائری میں ضرور درج کرتے لیکن حضرت کی ۲۰۰۳ء کی مکمل ڈائری میں نے چھان ڈالی ہے جون کیا پورے سال میں کہیں آپ کی ملاقات کا ذکر نہیں جبکہ آپ نے ’’تذکرہ‘‘ کے سخن اول کے موضوع میں اپنی ملاقات کا ذکر بڑا لہک لہک کر کیا ہے کہ میں ناچتا، کودتا، چھلانگیں لگاتا، مینڈک کی طرح پھدکتا حضرت کے گھر کے دروازے تک جا پہنچا۔ یہاں بھی دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ اول یہ کہ آپ ۲۰۰۳ء میں حضرت اقدس کے ہاں ملاقات کیلئے آئے ہی نہیں ورنہ اس ملاقات کا ذکر ڈائری میں ضرور ہوتا۔ دوم یہ کہ ہمارے ملنے والوں کو معلوم ہے ہمارا مہمان خانہ جس کو عرف عام میں مقامی لوگ لنگر خانہ بولتے ہیں وہ گھر سے دور اور مسجد کے ساتھ ملحق ہے۔ اس لئے آپ ہمارے گھر کے دروازے پر کیسے پہنچ گئے؟
آپ کی حضرت اقدس سے پہلی ملاقات جو میرے اور حضرت کے خادم خاص حافظ غلام رسول کی موجودگی میں ہوئی تھی، وہ آپ کی حضرت اقدس سے پہلی ملاقات ہے۔ اس ملاقات کی تاریخ مجھے یاد نہیں تھی لیکن حضرت اقدس کی ڈائریوں میں تلاش کرنے کے بعد تاریخ معلوم ہوگئی۔ آپ کی پہلی ملاقات حضرت اقدس کی ڈائری کے مطابق ۱۶؍جنوری ۲۰۱۱ء بروز اتوار ہے۔ پتہ نہیں آپ کو یاد ہے کہ نہیں مجھے اور حضرت کے خادم حافظ غلام رسول کو اچھی طرح یاد ہے کہ آپ دس اور گیارہ بجے کے قریب تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ تین یا چار آدمی اور بھی تھے۔ ہمارا ان سے تعارف نہیں ہے بلکہ اس وقت آپ سے بھی تعارف نہیں تھا۔ آپ لوگ گاڑی کھڑی کرکے گیٹ کے اندر تشریف لائے اور آپ تمام لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے۔ حضرت اقدس باہر دھوپ میں چارپائی پر بیٹھے تھے اور ان کا چہرہ شمال کی طرف تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ آپ ان دنوں حضرت مولانا طارق جمیل صاحب کو اپنے من پسند اور خوبصورت جوڈو کراٹے والے اسلوب کے تحت تنقید اور نشتر زنی کا نشانہ بنا رہے تھے اور گزشتہ ایک یا دو سال سے مولانا مذکور کی ’’تعریف و توصیف‘‘ ماہنامہ ’’حق چار یار‘‘ میں قسط وار لکھ رہے تھے۔ جب آپ تشریف لائے تو حضرت اس وقت آپ کے مضمون کی قسط پڑھ رہے تھے۔ آپ نے آتے ہی حضرت سے مصافحہ کیا اور السلام علیکم کہنے کے بعد تعارف کے طورپر کہا عبدالجبار سلفی۔ حضرت اقدس نے آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور وعلیکم السلام کہنے کی بجائے آپ کو واحد کے صیغے سے مخاطب کرکے انتہائی غصے کے انداز میں فرمایا کہ ’’تجھے علماء پر تنقید کے علاوہ اور کوئی کام نہیں؟ تو غلطی سے پاک ہے؟ تو نے کبھی غلطی نہیں کی؟‘‘ اس کے بعد بندہ آگے بڑھا اور عرض کیا کہ مہمان ہیں ان کو بیٹھنے تو دیں۔ تب حضرت اقدس کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ بعد میں آپ کو سمجھاتے رہے کہ علماء پر اس طرح تنقید مناسب نہیں ہے لیکن آپ پر خاک بھی اثر نہ ہوا۔ آپ اسی طرح اپنے مربی حضرات کی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ہمیشہ سلیم الطبع مزاج ہی اچھی نصیحت قبول کرتے ہیں۔
یہ ہے آپ کی حضرت اقدس سے پہلی ملاقات کا واقعہ۔ اسی ڈانٹ ڈپٹ کا میں نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے۔ آپ نے اس کینہ کا اظہار ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ لکھنے کا موقع میسر آنے پر خوب کردیا ہے۔
ہم دونوں بھائیوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے اس ملاقات کو مدنظر نہیں رکھا ورنہ ہم اس جھک جھک اور جھنجھٹ میں نہ پڑتے اور نہ ہی اس طرح کے جھگڑوں میں پڑنے کا ہمارے اکابر کا مزاج تھا اور نہ ہمارا ہے۔ یہ مبارک شیوہ آپ اور آپ کے مربی حضرات کا ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ ان جھگڑوں میں مصروف رکھے لیکن میری آپ سے اپیل ہے کہ آپ ہمیں معاف رکھیں۔ مذکورہ غلطی کی وجہ سے آپ کو حضرت سے انتقام لینے کا موقع میسر آگیا۔ آپ نے ٹائٹل کے خط سے لے کر کتاب کے آخر تک سب کچھ متنازعہ بنا دیا ہے۔ آپ بندہ سے درجنوں خطوط لے گئے ہیں۔ آپ کو ان میں سے حضرت کا کوئی غیرمتنازعہ خط نہیں ملا جو آپ ٹائٹل پر لگاتے۔ آپ نے متنازعہ اور حضرت مولانا شمس الحق افغانی کے شیعہ کتب کے مطالعہ کے بارے جو حضرت کے چند حروف درج ہیں وہ خط آپ نے ٹائٹل پر لگایا ہے تاکہ حضرت مولانا شمس الحق افغانی کا حلقہ اثر حضرت اقدس سے بدظن ہو۔ یہ کتنی بڑی شرارت ہے۔
بندہ کی علماء حضرات سے پرزور دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اس کتاب کا بغور مطالہ فرمائیں۔ ٹائٹل والے خط اور سلفی صاحب کے دوسرے مندرجات پر غور کریں اس کے بعد اس کتاب کے بارے میں تبصرہ لکھیں تاکہ سلفی صاحب سیلفیاں شائع کرانے سے اجتناب فرمائیں اور بندہ کے حال پر رحم فرمائیں۔
سلفی صاحب ماہنامہ ’’لولاک‘‘ میں اپنی سیلفی میں مجھے مخاطب کرکے تحریر فرماتے ہیں:
’’کسی کے کام کو دیکھ کر روٹھ جانا، اظہار برأت کرنا بڑے پن کے لائق نہیں۔‘‘
بندہ کی ان سے گزارش ہے کہ کیا گٹر ابل رہا ہو اور اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ناک پر کپڑا رکھنا بھی جرم ہے؟
اب بندہ علماء کی خدمت میں ’’تذکرہ حضرت مولانا محمد نافعؒ‘‘ کے ابواب کی تفصیل بیان کرتا ہے کہ سلفی صاحب کی کتنی محنت ہے اور حضرت اقدس کا خود کتنا کام کیا ہوا ہے اور مصنف مذکور نے مختلف کتب سے سرقہ کتنا کیا ہے۔
باب نمبر۱ مکمل حضرت اقدس کی اپنی تحریر ہے۔ حضرت نے اپنے آباء و اجداد کے تذکرے مرتب کرکے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سلفی صاحب نے حضرت کے الفاظ میں ہی دیئے ہیں۔ وہاں سلفی صاحب کا ایک لفظ بھی نہیں ہے۔
باب نمبر۲ حضرت اقدس کے حالات بھی ’’ذکرذاکر‘‘ اور ’’تذکرہ مولانا محمد ذاکر‘‘، ’’یادِایام‘‘ اور ’’الجامعہ‘‘ کا ’’حضرت مولانا محمد ذاکر نمبر‘‘ سے لئے گئے ہیں جو بندہ نے سلفی صاحب کو دیئے تھے۔
’’ذکر ذاکر‘‘ اور ’’تذکرہ مولانا محمد ذاکر‘‘ کے مصنّفین نصرت علی اثیرؔ اور ڈاکٹر حافظ محمد سعداﷲ کی ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ کے حواشی میں خوب درگت بنائی گئی ہے۔ علماء حضرات خود ملاحظہ فرمالیں۔
باب نمبر ۳ حضرت مولانا سیداحمد شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا قطب الدین اُچھالویؒ اور مولانا ولی اﷲ انہی والوں کے حالات خود حضرت نے مرتب کیئے تھے۔ وہی اکثر دیئے گئے ہیں یا پھر یادِایام سے مولانا حکیم عطا محمد قریشی کا مواد لیا گیا ہے۔ چند ایک اساتذہ کے حالات سلفی صاحب نے دوسری کتب سے اخذ کیئے ہیں۔
باب نمبر ۴ علماء خود مطالعہ فرما لیں اس کا حضرت والد گرامی القدر کی سوانح کے ساتھ کتنا تعلق ہے۔ چند ایک عنوانات کے علاوہ سب کچھ طوالت کے سوا کچھ بھی نہیں اور نہ حضرت کی سوانح کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ یہ باب اکثر تذکار بگویہ سے لیا گیا لیکن آخر میں ۱۲۰-۲۱ پر تذکار بگویہ کے مصنف انوار بگوی صاحب کی خوب گوشمالی کی گئی ہے کیونکہ سلفی صاحب ان مصنّفین بیچاروں کی تصانیف سے فائدہ بھی حاصل کرتے ہیں اور ان کی گوشمالی بھی کرتے ہیں۔
باب نمبر۵ تنظیم اہل سنت کے عنوان سے مرتب کیا گیا۔ یہ طوالت کے سوا کچھ بھی نہیں اور نہ ہی حضرت کی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ حضرت کا تنظیم کے ساتھ جس قدر تعلق تھا اس کا چند صفحات پر ذکر آسکتا ہے۔ اس میں جناب سردار احمد پتافی کا طویل تعارف اور ان کے دوروں کا ذکر فضول اور طوالت کا سبب ہے لیکن سلفی صاحب ۷۲ صفحات سیاہ کرنے کے بعد آخری صفحہ ۱۹۷ پر سپاہ صحابہ کو ملک میں قتل و غارت اور دہشت گردی کا موجب اور تنظیم اہل سنت کو ان پڑھ مبلغوں کا ایک ریوڑ قرار دیا۔ سبحان اﷲ۔ ’’کیسا دلنشین اور دلربا اسلوب ہے جس پر جاں فریفتہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
باب نمبر ۶ میں بعض شیعہ اور اہل سنت کی کتب کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔
باب نمبر۷ کا عنوان ہے ’’فیضان علم‘‘۔ ظاہراً تو اس باب میں حضرت اقدس کی کتب کا تعارف اور ہم عصر علماء کی آراء جو حضرت کی کتب کے بارے میں ہیں ان کو ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ بھی بندہ کا مہیا کردہ ہے۔ علماء کے خطوط جو آراء پر مشتمل تھے یا کتب کے شروع کی تقریظیں لکھی ہوئی تھیں ان کو سلفی صاحب نے ترتیب دیا ہے۔ البتہ مصنف صاحب نے اس میں جو اضافہ کیا ہے وہ غیرمتعلق لوگوں پر تنقید اور طعن و تشنیع ہے۔ مولانا مودودیؒ کو نشترزنی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ علامہ طاہرالقادری کو ’’شیخ الظلام‘‘ لکھا گیا ہے۔ صاحبزادہ نصیرالدین گولڑویؒ مرحوم اور علامہ ریاض آف راولپنڈی اور دوسرے علماء حضرات پر غیرضروری تنقید کی گئی ہے اور ان علماء کا حضرت اقدس کی سوانح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور خواہ مخواہ درمیان میں لاکر ’’دلنشین‘‘ پیرائے میں ان کی درگت بنائی گئی ہے۔
’’تذکرہ حضرت مولانا محمد نافعؒ‘‘ کی اشاعت سے چند ماہ قبل اس وقت بندہ کے بڑے بھائی میاں مختار عمر مرحوم و مغفور زندہ تھے، سلفی صاحب نے سینہ زوری سے ’’فیضان علم‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کر دیا تھا جس میں مذکورہ متنازعہ عبارات تھیں جس وجہ سے بھائی صاحب نے اس کتابچہ کو ضبط کر لیا اور اپنے پاس محفوظ کر لیا تاکہ یہ مارکیٹ میں نہ آئے اور انتشار اور اختلاف کا سبب نہ بنے اور سلفی صاحب سے گزارش کی کہ ان عبارات کو حذف کردیں لیکن بجائے عبارات حذف کرنے کے ان کو ’’تذکرہ‘‘ کا ایک باب بنا دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف صاحب کے عزائم کچھ اور ہیں کیونکہ وہ ہم ورثاء کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
باب نمبر ۸ مکمل باب حضرت اقدس کی ڈائریوں سے ترتیب شدہ سلفی صاحب کا موضع رشیدہ کے مناظرہ کے حواشی میں مولانا عنایت اﷲ سانگلہ ہل کی بسیاخوری کا مبالغہ آمیز اضافہ اور ان کی توہین ہے۔
باب نمبر۹ مکمل باب حضرت کی ڈائریوں سے اور کتابچہ ’’آپ بیتی‘‘ تصنیف شدہ حکیم سلطان محمود آف جھنگ سلفی صاحب کا اضافہ صرف خواجہ سعداﷲ صاحب مرحوم پر طعن و تشنیع۔ یہ کتابچہ آپ بیتی بھی بندہ نے سلفی صاحب کو دیا۔
باب نمبر۱۰ والد گرامی القدر کی ڈائریوں سے مرتب شدہ ہے۔
باب نمبر ۱۱ بندہ کا مرتب شدہ اور تحریر شدہ والد گرامی القدر کے بارے یادداشتیں ہیں۔
باب نمبر ۱۲ سلفی صاحب کا اپنا مرتب کردہ ہے لیکن اس میں بہت سارا مواد بندہ کا فراہم کردہ ہے۔ مثلاً فیصلہ شرعیہ، یادایام، فوزالمقال اور حضرت پر لکھے گئے مقالات۔
باب نمبر ۱۳ حضرت اقدس کی کتب سے ترتیب دیا گیا۔
باب نمبر ۱۴ مکمل باب بندہ کا تحریر کردہ ہے۔
باب نمبر ۱۵ مختلف علماء اور مشاہیر حضرات کے حضرت اقدس کے بارے میں مضامین پر مشتمل ہے یا مختلف رسائل میں چھپے مضامین جو ہم نے جمع کئے ہوئے تھے وہ ہمارے ہی فراہم کردہ ہیں کوئی ایک مضمون سلفی صاحب نے حاصل کیا ہو تو معلوم نہیں۔ البتہ سلفی صاحب کا اضافہ حواشی میں ہے جس میں ڈاکٹر حافظ محمد سعداﷲ کے مضمون اور بھائی میاں مختار عمر کے مضمون پر خوب نشتر زنی کی گئی ہے۔
باب نمبر ۱۶ اور باب نمبر ۱۷ ویسے ہی حضرت کی ڈائریوں کے اقتباسات اور مکاتیب پر مشتمل ہے۔
اب قارئین اس کے مطالعہ سے خود ہی اندازہ کرلیں۔ یہاں سلفی صاحب کی کتنی محنت اور جدوجہد ہے اور ہمارا کتنا مواد فراہم کردہ ہے۔ باب نمبر ۴ جس میں بگوی خاندان کا تفصیلی ذکر اور جلال پوری حضرات کے ساتھ ان کی لڑائی کا حضرت کی سوانح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف طوالت اور صفحات کا اضافہ ہے۔ قارئین خود ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہم نے سلفی صاحب کو گزارش کی تھی کہ بگوی خاندان کا جس حد تک محمدی شریف کے ساتھ تعلق ہے اس حد تک اس کا ذکر کریں باقی نکال دیں لیکن وہ کوئی ترمیم ماننے کیلئے تیار ہی نہ تھے۔ خواہ مخواہ جلال پوری حضرات پر تنقید حضرت کی سوانح میں شامل کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
باب نمبر ۵ تنظیم اہل سنت کے تعارف کے ساتھ جناب سردار احمد پتافی کی مکمل سوانح دینا بھی طوالت کا باعث ہے۔ صرف صفحات بڑھانے کا ایک بہانہ ہے۔ تنظیم کے ان اجلاسوں کی کارروائی جن میں حضرت اقدس کی شمولیت نہیں ہے وہ بھی غیر متعلقہ ہے۔ ہم نے تجویز دی کہ اس کو مختصر کریں لیکن شاید ان پر صفحات اور کتاب کی ضخامت بڑھانے کا بھوت سوار تھا اس لئے وہ غیرمتعلقہ مباحث شامل کرتے گئے اور ہماری کوئی بات بھی ماننے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ طعن و تشنیع والے مختلف حواشی اور متنازعہ عبارات کو خارج کرنے کی استدعا بھی درخور اعتنا نہ سمجھی۔ ماہنامہ ’’لولاک‘‘ میں سلفی صاحب کی سیلفی پڑھ کر علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر ہی لکھ سکتا ہوں۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
Cدامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
¹اب قارئین کو ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ کے بارے میں بعض حضرات کی آراء پیش کرتا ہوں جو انہوں نے ارسال کی ہیں۔ حضرت مولانا عبیداﷲ ساجد صاحب زیدمجدہ مہتمم مدرسہ احیاء السنہ للبنین والبنات فاروقہ ضلع سرگودھا رقمطراز ہیں:
کتاب ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ میں جو تحریریں حضرت مرحوم کے قلم مبارک سے لکھی گئی ہیں ان میں نورانیت ہے۔ حضرت مرحوم کی تالیفات و تصانیف شاہد ہیں کہ دیگر مسالک کے علماء کرام بالخصوص روافض سے نظریاتی و علمی اختلاف کے باوجود ان کی تحقیر اور ان کی ذات کو ہدف تنقید نہیں بنایا۔ جناب حافظ عبدالجبار سلفی صاحب جامع و مرتب ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ نے کتاب کے حاشیہ میں مختلف تحریروں میں جارحانہ، سوفیانہ تحریریں لکھ کر کتاب ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ کی افادیت کو کم کر دیا ہے۔ مرحوم علماء اور شرفاء کی دستار وجیہ کو اچھالنا کم ظرف لوگوں کا طریقہ ہے۔‘‘
حضرت مولانا حافظ عبدالرحمٰن عبداﷲ صاحب مدظلہ سلالہ عمان متحدہ عرب عمارات سے ایک تبصرہ بھیجا ہے۔ حافظ صاحب کا تبصرہ بڑا جذباتی ہے۔ ۸ صفحات پر مشتمل ہے لیکن اتنے مفصل اور طویل تبصرے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کی بعض جزئیات یہاں درج کی جاتی ہیں۔ وہ رقم فرماتے ہیں:
’’اس کے برعکس یہاں نئی کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ علم کسی کا، محنت کسی کی اور نام کسی کا؟ اس وقت میرے سامنے ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ موجود ہے۔ پڑھنے کے بعد حیران کن نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یہ تو حضرت اقدس مولانا محمد نافعؒ کا تذکرہ اس میں کم اور غیر نافع مواد اس میں زیادہ ہے جس کا حضرت اقدس کی ذات گرامی سے دور کا بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلقہ نہیں ہے۔‘‘
حافظ عبدالرحمٰن عبداﷲ صاحب صفحہ نمبر ۲ پر لکھتے ہیں: ’’شرم آنی چاہئے سوانح کے نام پر ایسی خرافات، بکواسات، مخترعات لکھیں اور ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ حضرت کے احسانات کا ایسا برا اور بھیانک جواب
شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘
حافظ صاحب صفحہ نمبر ۶ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’تحقیق کے نام پر دْکان چمکانے والے کو کیا معلوم علماء کرام کی شان کیا ہوتی ہے۔ ان حضرات کے بارے میں دکان میں بیٹھنے والا گستاخ لکھتا ہے کہ تحریک تنظیم اہل سنت کے مبلغین ان پڑھ مبلغین کا ایک چھوٹا سا ریوڑ ہے۔ کیا یہی حضرت اقدس مولانا محمد نافعؒ کی سوانح ہے؟ کیا یہی حضرت کا مزاج تھا؟ کیا اسی مقصد کیلئے ورق کالے کئے گئے؟
حافظ صاحب آخر صفحہ ۷ اور ۸ پر رقمطراز ہیں کہ خلاصہ یہ ہے کہ ’’یہ حضرت کا تذکرہ ہرگز نہیں لگتا بلکہ مجھے یقین ہے کہ یہ اْوٹ پٹانگ حضرت کی ڈائریوں میں ہرگز نہ ہوں گی جو لکھ دی گئی ہیں اور جابجا اہل علم پر تیر برسائے جو کہ حضرت کا طرز عمل ہرگز نہ تھا۔ ایسی شخصیت کے تذکرہ میں ایسی بیڈھنگی خرافات سمجھ سے باہر ہیں۔ معلوم نہیں تصنیف و تالیف میں نام بنانے کے شوق میں لکھاری شکاری نے علماء کرام کی توہین کرکے کیا اجر و ثواب کمایا اور نام بڑھایا۔‘‘
جناب اورنگزیب اعوان صاحب آف ہری پور ہزارہ نے ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے تبصرہ لکھا جو انہوں نے اپنے دوست حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب، مفتی دارالافتاء جامعہ محمدیہ F-6/4، اسلام آباد کو بھیجا تو مفتی صاحب نے اس تبصرہ پر تبصرہ فرمایا اور ایک کاپی مجھے بھی ارسال فرمائی اور جناب اورنگزیب صاحب کے تبصرہ کی بھی ایک کاپی بھیجی۔ جناب اورنگزیب صاحب نے تحریر فرمایا کہ ۱۹؍اگست ۲۰۱۶ء بروز پیر حافظ عبدالجبار سلفی صاحب میرے گھر تشریف لائے اور سفید رنگ کے رومال میں لپٹی کتاب ’’تذکرہ مولانا محمد نافعؒ‘‘ عنایت فرمائی۔ اس عبارت سے سلفی صاحب کی اور کذب بیانی عیاں ہوگئی کہ جناب بھائی میاں مختار عمر کا انتقال ۲۶؍اگست ۲۰۱۶ء کو مکہ مکرمہ میں ہوا اور سلفی صاحب ۲۷؍اگست کو بھائی صاحب کی تعزیت کیلئے تشریف لائے اور مجھے اظہار افسوس کرنے کے بعد جاتے ہوئے کہا کہ آپ نے اور آپ کے بھائی صاحب نے جو تصحیحات اور ترامیم تجویز کی ہیں وہ بندہ تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ آپ مہمانوں سے فارغ ہو لیں۔ چند دن بعد مل بیٹھ کر ان پر مذاکرات کرلیں گے اور اس کے بعد ’’تذکرہ‘‘ کی اشاعت کریں گے۔ اس بات کے گواہ حضرت مولانا سیف اﷲ خالد صاحب مہتمم جامعہ امدادیہ چنیوٹ والے بھی ہیں کیونکہ واپسی پر سلفی صاحب نے ان کے پاس دوپہر کا کھانا کھایا۔ ان سے بھی یہی بات کہہ کر گئے کہ ابوبکر کو یقین دہانی کرادیں کہ تذکرہ میں متنازعہ مباحث پر مل بیٹھ کر ان کا حل نکال لیں گے۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصوف ۱۷؍اگست ۲۰۱۶ء کو کتاب شائع کر چکے تھے اور ۱۹؍اگست کو ہری پور ہزارہ میں اپنے دوست جناب محمد اورنگزیب صاحب کو تبصرہ کیلئے بھی پیش کر چکے ہیں اور مجھے ۲۷؍اگست کو چکمہ دے رہے ہیں کہ آپ کی تصحیحات اور ترامیم کو شامل کرنے کے بعد تذکرہ کو شائع کریں گے۔ سبحان اﷲ حضرت کذب بیانی کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اور دوسرا یہ اشاعت کا حق بھی ان کو نہیں تھا۔ رحمآء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے شائع ہونا تھی۔ یہ سینہ زوری شائع کرکے اور مالک بن بیٹھے۔ میرے غم میں شریک ہونے کی بجائے وہ میرا منہ چڑھانے آئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ علماء سوء کے شر سے محفوظ فرمائے۔ بندہ تو دعا ہی کر سکتا ہے۔
مفتی شکیل صاحب آف اسلام آباد اپنے دوست کے تبصرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
۱- تبصرہ میں کتاب، کتاب کے مندرجات اور نفس مضمون کی خوبیوں اور خامیوں پر تبصرہ ہونا چاہئے۔ مصنف کی تعریف و توصیف، القابات، اوصاف حمیدہ و جلیلہ کی طوالت درست نہیں ہے۔ یعنی مؤلف کے فن پر تبصرہ ہو، ذات پر نہیں جبکہ اس تبصرہ میں مصنف کی ذات بابرکات پر کافی سطور سفید کی گئی ہیں۔
۲- صفحہ ۲ پر لکھا ہے: ’’بعض مواقع پر مولانا کے قلم کی شوخیاں سنبھالے نہیں سنبھلتیں، ہم دست بستہ یہ عرض کرنا اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں کہ بعض دفعہ قلم کی شوخیاں توہین، تضحیک، تذلیل اور گستاخی کی حدیں پھلانگتی نظر آتی ہیں۔‘‘
مفتی صاحب اس کے بعد پیراگراف میں تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ خود خیال فرمائیں کہ الفاظ و حروف کی اغلاط اور ان کی نشاندہی اور تصحیح اہم ہے یا توہین، تضحیک، تذلیل اور گستاخی کی حدیں پھلانگتی ہوئی بیباک عبارات کی نشاندہی، تصحیح اور تصویب۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ہی مصنف کی ایک ہی کتاب پر ایک ہی تبصرہ میں یہ دہرا معیار کیوں اپنایا گیا۔‘‘
۳- مفتی صاحب صفحہ نمبر۲ پر راقم ہیں: ’’مصنف کے قلم کی شوخیاں تو توہین، تضحیک، تذلیل اور گستاخی تک کی حدیں پھلانگنے سے باز نہ آئیں اور تبصرہ نگار ان کا مبہم و مجہول تذکرہ بھی نہ کرے۔‘‘
اصل میں مفتی شکیل صاحب نے اپنے دوست جناب اورنگزیب کے تبصرہ پر تبصرہ لکھا ہے جس میں اورنگزیب صاحب نے لفظی اور املا کی غلطیوں کی طرف توجہ فرمائی ہے لیکن اصل متنازعہ اور ہتک آمیز عبارات کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ املاء کی غلطیوں کی نشاندہی پر بھی دست بستہ عاجزانہ طورپر نیازمندانہ معذرت کرتے نظر آتے ہیں۔ تو مفتی صاحب نے درج ذیل تبصرہ فرمایا ہے:
’’مصنف کے قلم کی شوخیاں تو توہین، تضحیک اور گستاخی تک کی حدیں پھلانگنے سے باز نہ آئیں اور تبصرہ نگار ان کا مبہم و مجہول تذکرہ کرے۔‘‘
اسی صفحہ نمبر ۲ پر اگلے پیرگراف میں مفتی صاحب لکھتے ہیں:
مصنف کا قلم تو توہین، تضحیک، تذلیل اور گستاخی کی حدیں پھلانگ جائے اور جناب تبصرہ نگار صرف دبے لفظوں میں ادب آشنا اور شرمیلے قلم سے صرف اتنی جسارت کر پائیں: ’’سنجیدہ اور باوقار تحریروں میں یہ انداز مستحسن اور پسندیدہ نہیں ہے۔‘‘
وگرنہ مولانا (سلفی صاحب) کی تو یہ شان ہے کہ وہ ہم عصر لکھاریوں کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں:
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
[تو مجھ سے سیکھ لے یہ فن اور اس میں بے مثال بن
ð سلفی صاحب سے میری استدعا ہے کہ وہ بندہ اور بھائی میاں مختار عمر مرحوم سے حاصل کردہ والد گرامی القدر کے بارے میں مواد، کتب، خطوط، ڈائریاں اور رقم واپس کردیں تاکہ یہ معاملہ ختم ہو جائے جو آپ نے لکھنا تھا وہ لکھ لیا۔ آپ اپنی ملکیت ثابت نہیں کرسکتے اور نہ ہی آپ کی کوئی چیز ملکیت ہے۔ خطوط، ڈائریاں، کتب وغیرہ سب کچھ والد گرامی کی ملکیت تھا یا اب بندہ اس کا وارث ہے۔ آپ اپنے طورپر مواد جمع کرتے اور اپنے طورپر تذکرہ لکھتے تو آپ اپنی ملکیت جتانے کے حق بجانب تھے جبکہ ہم دونوں بھائیوں نے ایک زبانی معاہدہ کے تحت آپ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کو تمام مواد اور عوضانہ کے طورپر 28,000 روپے دیئے جو رحمآء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے آپ کو دیئے گئے لیکن آپ اپنی حیثیت پہچاننے کی بجائے مستری اور مزدور کی طرح مالک مکان بن بیٹھے۔ آپ کا حضرت والد گرامی القدر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، نہ آپ ان کے شاگرد ہیں اور نہ کوئی روحانی تعلق ہے۔ یہ تو ہم سے غلطی ہوئی ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں سکے۔ ہم کو حضرت سے آپ کی پہلی ملاقات مدنظر رکھنی چاہئے تھی، آپ کے دام فریب میں نہیں آنا چاہئے تھا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
تحصیل بھوانہ میں سول جج کے پاس بندہ نے استقرار حق نام سے دعویٰ دائر کررکھا ہے جس کا عنون ہے ’’مختارعمر بنام عبدالجبار سلفی‘‘۔ اس مقدمہ میں بھی آپ پیش نہیں ہوئے۔ ان شاء اﷲ اس مقدمہ کا فیصلہ بندہ کے حق میں ہوگا کیونکہ بندہ ہی حضرت کی مملوکہ اشیاء کا وارث ہے۔ ان کے مملوکہ مواد سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کو بندہ اجازت دے گا۔ اب ان شاء اﷲ کسی اٹھائی گیرہ کو فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔ درج ذیل اشیاء آپ کے پاس ہیں وہ واپس کرکے عمدہ اخلاق کا ثبوت دیں تاکہ غیرمملوکہ اشیاء پر ناجائز قابض ہونے اور کسی کی حق تلفی کرنے پر یوم القیامت کے عذاب سے نجات پا سکیں۔ ویسے عمومی طورپر قیامت پر ایمان نہیں ہے کیونکہ نعرہ ہے ’’رام رام جپنا، پرایا مال اپنا‘‘۔ درج ذیل اشیاء آپ کے پاس ہیں:
فوزالمقال جلد دوم، یادایام، ڈائریاں، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۷ء ڈائریوں سے نقل کیا گیا مواد۔ خطوط کی فوٹو کاپیاں جو آپ نے رکھ لی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتب وغیرہ۔ نقد 28,000 روپے جو رحمآء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے آپ کو دیئے گئے۔ ان مذکورہ اشیاء کے علاوہ حضرت اقدس کی الماری خاص سے چند لفافے غائب ہیں۔ تین لفافے ایسے ہیں جن پر لکھا ہوا تھا قابل اشاعت۔ حضرت اقدس نے حوالہ جات جمع کئے تھے جن کی ابھی تک اشاعت نہیں ہوئی تھی۔ اور ایک لفافہ جس پر حضرت اقدس نے مبلغین کیلئے لیکچرز یا خطبات تیار کئے ہوئے تھے۔ جب آپ دارالمبلغین پڑھانے کیلئے جاتے وہ خطبات سامنے رکھتے۔ یہ چند قیمتی لفافے غائب ہیں۔ آپ کے سوا ان تک کسی کی رسائی نہ تھی۔ جب آپ محمدی شریف تشریف لاتے تو بھائی صاحب مرحوم آپ کو اس خاص کمرہ میں حضرت اقدس کی الماری کے سامنے بیٹھنے کی اجازت فرما دیتے اور آپ ہم سب کو کمرے سے نکال دیتے کہ مجھے خلوت میں بیٹھ کر سکون سے کام کرنا ہے اور بیگ بھی ساتھ رکھتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لفافے آپ نے ہی سرقہ کئے ہیں۔ مہربانی فرما کر واپس فرما دیں تو بڑا احسان ہوگا ورنہ بندہ قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دنیا میں آپ سے برآمد نہ کرا سکا تو قیامت کے دن تو آپ کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ۔ بندہ اپنی بات کو ایک شاعر کے اس شعر پر ختم کرتا ہے:
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
Wکوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
محترم شاعر سے معذرت کرتے ہوئے موقع محل کے مطابق ذرا سی تبدیلی کے ساتھ۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
[کوئی ان سے نہیں کہتا نہ لکھو یوں بے حیا ہو کر
Åحضرت مولانا محمد نافعؒ زندہ باد۔ آپؒ کا دلنشین دلربا اسلوب پائندہ باد۔ جوڈو کراٹے اسلوب مردہ باد۔
یٔ یٔ یٔ یٔ