(آخری قسط)
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمۃ اﷲ علیہ
3 ۔ ہمارے بھائیوں کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ دنیا کی بہت سی قوموں کو اسی ’’بروز،، اور عین،، کے عقیدوں نے برباد کیا ہے، عیسائی قوم کی مثال تمہارے سامنے ہے کہ انھوں نے کس طرح خدا کو انسانی مظہر میں اتار کرسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا اور خدا کابیٹا بنایا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام شکم مادر سے پیدا ہوئے، وہ اور ان کی والدہ انسانی احتیاج کے تمام تقاضے رکھتی تھیں، اس کھلی ہوئی ہدایت کے خلاف عیسائیوں نے ’’مسیح عین خدا ہے،، کا دعویٰ کرڈالا اور وہ ’’تین ایک، ایک تین،، کے جال میں ایسے پھنسے کہ اس پر پولوسی مذہب کی پوری عمارت تعمیر کرڈالی، کاش ہمارے بھائیوں نے اس سے عبرت لی ہوتی اور اسلام جن غلط نظریات کو مٹانے کے لیے آیا تھا اسلام ہی کے نام پر ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرتے، قادیانی یہ دعوے کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے ’’مرزاعین محمد ہے،، کا نظریہ ایجاد کر کے عیسائیت کی بنیادوں کو اورمستحکم کردیا، ذرا سوچئے اگر عیسائی یہ سوال کریں کہ ’’اگر مسیح موعود عین محمد ہوسکتا ہے تو مسیح ابن مریم عین خدا کیوں نہیں ہوسکتا؟ تو آپ کے پاس خاموشی کے سوااس کا کیا جواب ہوگا۔ پھر اگر مرزاغلام احمدقادیانی ’’بروز محمد،، ہونے کی وجہ سے ،، عین محمد ہیں تو وہ بروز خدا ‘‘ ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ اب اگرا ن کو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ’’بروز‘‘ ہونے کی وجہ سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت مع تمام صفات و کمالات کے حاصل ہے حتیٰ کہ نام، کام مقام اور منصب ومرتبہ بھی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کا حاصل ہوچکا ہے تو ’’بروزخدا‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کو خدائی مع اپنے تمام صفات وکمالات کے کیوں حاصل نہیں؟
4 ۔ ہمارے بھولے ہوئے بھائیوں کو ایک اور نکتہ پر بھی غور کرنا چاہیے وہ یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو احساس تھا کہ ان کا دعویٰ نبوت آیت خاتم النبیین اور حدیث لانبی بعدی کے منافی ہے، اس سے بچنے کے لیے انھوں نے ’’فنافی الرسول،، اور ’’ظل وبروز،، کا راستہ اختیار کیا، اور دعویٰ کیا کہ چونکہ وہ بروزی طورپر بعینہ محمد رسول اﷲ کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہیں اس لیے ان کے دعویٰ نبوت سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی، ہاں اگر ’’محمد رسول اﷲ،، کی جگہ کوئی اور آتا تو ختم نبوت کی مہر ضرور ٹوٹ جاتی۔
مرزا غلام احمدقادیانی کے بروز نظریہ پر جتنا غور کرواس کی غلطی واضح ہوتی جائے گی، واقعہ یہ ہے کہ مرزاغلام احمدقادیانی کی بروزی بعثت نے عقیدہ ’’تو حیدورتثلیث،، پر مہر تصدیق ثبت کردی یا یوں کہا جائے کہ انھوں نے محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قادیاں میں (بشکل مرزا) دوبارہ اتارکر ایک ’’جدید عیسائیت،، کی طرح ڈال دی۔
5 ۔ اسی بحث کا ایک او رپہلو بھی غور طلب ہے، عیسائیوں نے جب یہ دعویٰ کیا کہ ’’مسیح خدا کا اکلوتا بیٹا ہے،، تو انھیں حضرت مسیح کی والدہ کو معاذ اﷲ خدا کے رشتہ زوجیت میں منسلک کرنا پڑا، اسی لیے قرآن کریم نے جہاں عقیدہ ولدیت کی نفی کی وہاں عقیدہ زوجیت کی بھی نفی فرمائی، انی یکون لہ ولدولم تکن لہ صاحبہ (الانعام:۱۰۱) اسی طرح جب مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں کہ وہ بروزی طور پر (معاذ اﷲ بعینہ محمد رسول اﷲ ہیں، اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر صفت اور ہر کمال انھیں بروزی طورپر حاصل ہے، تو اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں اس سے گندی گالی ہوسکتی ہے۔ اور کوئی مسلمان جس کے دل میں ذرا بھی شرم وحیا ہو وہ اس بدترین حملہ کو برداشت کرسکتا ہے؟
میں یہاں یہ وضاحت کردینا چاہتاہوں کہ ازواج مطہرات کی قدرومنزلت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس نبوت سے زیادہ نہیں، اگر ازواج مطہرات کے حق میں یہ دریدہ دہنی ناقابل برداشت ہے اور یہ بات سنتے ہی ایک باغیرت آدمی کی آنکھوں میں خون اترآتا ہے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کو جو شخص اپنی طرف منسوب کرتا ہے اسے کیونکر برداشت کر لیا جائے۔
ایک ہے کسی شخص کا نفس نبوت کا دعویٰ کرنا، اور رایک ہے بعینہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت اور کمالات رسالت کا دعویٰ کرنا ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نفس نبوت کا دعویٰ بھی کفر ہے، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ظل بروز کی آڑ میں رسالت محمدیہ کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نبی ہوں، مگر میری نبوت کوئی نئی نبوت نہیں، نہ میں کوئی نیانبی ہوں، بلکہ بروزی طورپر بعینہ محمد رسول اﷲ ہوں، جو پہلے مکہ میں مبعوث ہوا تھا اور اب قادیاں میں دوبارہ اسی کا ظہور ہوا ہے، مرزاغلام احمد قادیانی کی جماعت کاترجمان روزنامہ ’’الفضل،، لکھتا ہے:
’’اے مسلمان کہلانے والو! اگر تم واقعی اسلام کا بول بالا چاہتے ہو اور باقی دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہو تو پہلے خود سچے اسلام کی طرف آجاؤ، جو مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) میں ہو کر ملتا ہے، اسی کے طفیل آج بروتقویٰ کی راہیں کھلتی ہیں اسی کی پیروری سے انسان فلاح و نجات کی منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہے، وہ وہی فخرالاولین وآخرین ہے جو آج سے تیرہ سوبرس پہلے رحمتہ اللعالمین بن کرآیا تھااور اب اپنی تکمیل تبلیغ کے ذریعہ ثابت کرگیا کہ واقعی اس کی دعوت جمیع ممالک وملل عالم کے لیے تھی۔ فصلی اﷲ علیہ وسلم۔‘‘ (الفضل ۲۶ستمبر ۱۹۱۵ء)
اس لیے مرزاغلام احمد قادیانی کا جرم صرف یہ نہیں کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ اس سے بھی بدترجرم یہ ہے کہ اس نے ظل وبروز کی من گھڑت اصطلاحوں کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر چیز کو اپنی منسوب کرلیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ کا نام نامی ’’خدیجہ رضی اﷲ عنہا‘‘ تھا، مگر بے غیرتی اور بے حیائی کی حد ہے کہ مرزاغلام احمدقادیانی نے محمد رسول اﷲ بننے کے شوق میں ’’خدیجہ‘‘ کو بھی اپنی طرف منسوب کرلیا، مرزاکاالہام ہے:
اذکرنعمتی رائیت خدیجتی میری نعمت کو یاد کرتونے میری خدیجہ کو دیکھا۔‘‘
(تذکرہ طبع دوم ۳۸۷ طبع سوم ص:۳۷۷)
اشکر نعمتی رائیت خدیجتی ’’میری نعمت کا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کو دیکھا‘‘ (تذکرہ ص:۱۰۹)
افسوس ہے کہ اس کی مزید تشریح کی ایمانی غیرت اجازت نہیں دیتی
مرا درویست اندرول اگر گویم زباں سوزو
Kوگروم ور کشم ترسم کہ مغزا ستخوان سوزو
Ü بہر حال ’’محمد رسول اﷲ،، کے ساتھ ’’خدیجہ،، کی نسبت مرزاغلام احمد قادیانی کی نفسیاتی ذہنیت کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے ذرا بھی ایمانی غیرت اور انسانیت سے نوازا ہو اس کے لیے اس کے دقیق پہلوؤں کا مطالعہ مشکل نہیں۔
6 ۔ ہمارے بھائیوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا مرزاغلام احمد قادیانی کی جسمانی ودماغی صحت، ان کے اس دعوے سے کہ میں ’’محمد رسول اﷲ ہوں،، اس بارے میں ہر عام وخاص جانتا ہے کہ وہ بہت پیچیدہ امراض کا نشانہ تھے، جن میں سے چند امراض کی فہرست حسب ذیل ہے:
۱۔بدہضمی (ریویو، مئی ۱۹۲۸ء)
۲۔تشنج دل (ضمیمہ اربعین نمبر۳ نمبر۴ ص:۴، خزائن ص:۴۷۱،ج:۱۷)
۳۔تشنج اعصاب (سیرۃ المہدی ص:۱۳،ج:۱)
۴۔جسمانی قوی مضمحل (آئینہ احمدیت ص:۱۸۶، دوست محمد)
۵۔دق (حیات احمد جلد دوم نمبر اوّل ص:۷۹ یعقوب علی)
۶۔سل (سیرۃ المہدی ص:۵۵،ج:۲، بدر جون۱۹۰۶ء)
۷۔مراق (سیرۃ المہدی ص:۵۵، ج:۲، بدرجون۱۹۰۶ء)
۸۔ہسٹیریا (سیرۃ المہدی ص:۱۳، ج:۱،ص:۵۵،ج:۲)
۹۔دماغی بے ہوشی (الحکم ۲۱مئی۳۴ء)
۱۰۔غشی (سیرۃ المہدی ص:۱۳،ج:۱)
۱۱۔سوسوبار پیشاب (ضمیمہ اربعین ص:۴، نمبر۴)
۱۲۔کثرت اسہال (نسیم دعوت ۶۸)
۱۳۔دل و دماغ سخت کمزور (تریاق القلوب ص:۳۵)
۱۴۔قولنج زحیری (ص:۳۳۴)
۱۵۔مسلوب القوی (آئینہ احمدیت ص:۱۸۶)
۱۶۔ذیابیطس (نزول المسیح ص: ۲۰۹، حاشیہ)
۱۷رینگن (مکتوبات احمدیہ)
۱۸۔دوران سر (نزول المسیح ص:۲۰۹ حاشیہ)
۱۹۔شدید درد سر جس کا آخری نتیجہ مرگی (حقیقۃ الوحی ۶۳۶۳)
۲۰۔حافظہ نہایت ابتر (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم ص:۳وص:۲۱)
۲۱۔ حالت مردی کا لعدم (تریاق القلوب،ص:۳۵)
۲۲۔ سستی نامردی (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم (۳) ص:۱۴)
خود مرزاغلام احمد قادیانی لکھتے ہیں: ’’مجھے دو مرض دامن گیر ہیں، ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں کہ سردرد اوردوران سر اور دوران خون کم ہو کر ہاتھ پیر سر د ہوجانا، نبض کم ہو جانا اور دوسرے جسم کے نیچے میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا، یہ دونوں بیماریاں قریب بیس برس سے ہیں۔،، (نسیم دعوت، ص:۱۷۱)
’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں‘‘ ہمیشہ درد سر اور دوران سر، کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے، اور دوسری بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسااوقات سوسودفعہ رات کو یادن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدرعوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔ ‘‘ (ضمیمہ اربعین۳)
’’مجھے دوران سرکی بہت شدت سے مرض ہوگئی ہے پیروں پر بوجھ دے کر پاخانہ پھرنے سے مجھے سر کو چکرآجاتا ہے۔،،
(خطوب امام بنام غلام ص:۶)
’’کوئی وقت دوران سر (سر کے چکر) سے خالی نہیں گزرتا، مدت ہوئی نماز تکلیف سے بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے بعض اوقات درمیان میں توڑنی پڑتی ہے، اکثر بیٹھے بیٹھے رینگن ہوجاتی ہے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲،ص:۸۸)
’’مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی یعنی مراق او رکثرت بول‘‘۔
(رسالہ تشحیذ الاذہان، جون ۱۹۰۶ء)
مرزاغلام احمدقادیانی کی اہلیہ کی روایت ہے کہ: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیر یا کا دورہ بشیر اول کی وفات ۴؍نومبر ۱۸۸۸ء کے چند دن بعد ہوا تھا، اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے لگے، جن میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے، بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے، خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا۔‘‘(سیرۃ المہدی صفحہ۱۳جلد۱)
مرزاغلام احمد قادیانی کے ایک مرید ڈاکٹر شاہنواز لکھتے ہیں ’’حضرت قادیانی کی تمام تکالیف مثلاً دوران سر، کمی خواب، تشنج دل ، بدہضمی ، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی سبب تھا ، اور وہ عصبی کمزوری تھا۔‘‘
(رسالہ ریویوآف ریلیجز مئی۱۹۲۷ء)
مرزاغلام احمد قادیانی کی زندگی کا آخری فقرہ ’’میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔،، (مندرجہ حیات ناصر ص:۱۴)
اب انصاف فرمائیے کہ کیا ان تمام امراض کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے؟ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی نعوذ باﷲ مراق، ہسٹیریا، ذیابیطس، سلسل البول، کثرت اسہال، سوء ہضم، ضعف قلب، ضعف دماغ، ضعف اعصاب حتیٰ کہ ’’حالت مردی کالعدم،، کے شکار ہوسکتے تھے؟استغفراﷲ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو خیر سیدالبشر اور افضل الرسل ہیں، کیا دنیا کی کوئی بھی تاریخ ساز شخصیت بیک وقت ان تمام امراض کے باوجود مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں محمدرسول اﷲ ہوں، دنیا کے سامنے سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیا تصویر پیش کرتا ہے۔ جب ایک طرف مرزاغلام احمد قادیانی اپنی زبان وقلم سے مراق، ہسٹیر یا، ذیابیطس، ضعف دل ودماغ، حافظہ کی ابتری وخرابی، سوسوبار پیشاب ، اکثردست آتے رہنا۔ اور حالت مردی کا لعدم کا اقرار کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ بڑی شوخ چشمی سے خود کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بروزو مظہر اور ’’حسن واحسان میں آپ کا نظیر،، کہتے ہیں تو غیر اقوام کیا یہ فیصلہ نہیں کریں گی کہ مسلمانوں کا ’’ محمد رسول اﷲ،، بھی قادیانیوں کے ’’محمد رسول اﷲ،، کی طرح معاذ اﷲ انھی امراض ہوگا، اور اس کی دماغی چولیں بھی خدانخواستہ ٹھکانے نہیں ہوں گی؟ مراق اور ذیابیطس کی چادریں اس کے بھی زیب بدن ہوں گی۔ معاذاﷲ۔
7 ۔ مرزاغلام احمدقادیانی کا یہ دعویٰ کہ وہ محمدرسول اﷲ کا ’’بروز،، ہیں اور محمدرسول اﷲ کی دوبارہ بعثت مرزاغلام احمدقادیانی کے ’’روپ،، میں ہوئی ہے، ایک اور پہلو سے بھی غور طلب ہے وہ یہ کہ مرزاغلام احمدقادیانی بروز کی تفسیر ’’جنم،، اور اوتار،، کے ساتھ کرتے ہیں اور وہ خود کو کبھی محمد رسول اﷲ کا بروز کہتے ہیں، کبھی عیسیٰ علیہ السلام کا کبھی تمام انبیاء کا کبھی ہندوؤں کے کرشن جی مہاراج کا اور کبھی برہمن کا۔ ہندوؤں کے نزدیک انسان کی جزاء وسزا کے لیے یہی صورت قدرت کی جانب سے مقرر ہے کہ اسے نیک وبداعمال کے مطابق کسی اچھے یا برے قالب میں منتقل کر کے پھر دنیا میں بھیج دیاجائے ، جس کو وہ دنیا جنم، اور نئی جون کہتے ہیں مرزا کو دعویٰ ہے کہ محمدرسول اﷲ کو دوبارہ مرزاغلام احمدقادیانی کے قالب میں بھیجا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ (ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ اور مرزاغلام احمد قادیانی کے عقیدہ ’’ بروز،، کے مطابق) محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نعوذ باﷲ پہلی ’’جون،، میں کون ساپاپ ہوا تھا کہ انھیں دوبارہ مرزاغلام احمدقادیانی کی ناقص شکل میں بھیج دیا گیا؟ پہلی بعثت میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صحیح البدن تھے اور دوسری بعثت میں انواع واقسام کے امراض خبیثہ کا مجموعہ بن گئے۔ پہلے بعثت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعضاء صحیح سالم تھے۔ اور دوسری بعثت میں دائیں ہاتھ سے معذوری پہلی بعثت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جری اور بہادر تھے، دوسری بعثت میں ضعف دل ودماغ کے مریض پہلی بعثت میں صاحب شریعت تھے اور دوسری بعثت میں شریعت ونبوت سے محروم، پہلی بعثت میں شعر گوئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بلندوبالا مقام کے لائق نہ تھی اور دوسری بعثت میں آپ شاعر تھے۔ پہلی بعثت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کے مجاہد اعظم اور فاتح اعظم تھے، اور دوسری بعثت میں دجال کے غلام۔ پہلی بعثت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ’’نبی امی،، تھے ، اور دوسری بعثت میں آپ کو فضل الٰہی (شیعہ) کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنا پڑے۔
پہلی بعثت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جلالت وعظمت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کے جابروقاہر بادشاہوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے، اور دوسری بعثت میں آپ کے عجزودرماند گی کا یہ عالم ہوا کہ نصرانی ملکہ کو (جس کو کبھی غسل جنابت بھی نصیب نہ ہوا) یہ عرض داشت پیش کرنے لگے:
’’اس عاجز (مرزاغلام احمدقادیانی) کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا۔ جن میں اس اخلاص کا اندازہ بیان کرسکوں اسی سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شست سالہ جو بلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہندودام اقبالہا کے نام تالیف کر کے اور اس کا نام ’’تحفہ قیصریہ ،، رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا، اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی، اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا۔ مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنوں نہیں کیا گیا، اور میراکانشس ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ وہ ہدیہ عاجزانہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ حضور ملکہ معظمہ میں پیش ہوا ہواور پھر میں اس کے جواب سے ممنوں نہ کیا جاؤں، یقینا کوئی اور باعث ہے جس میں جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہنددام اقبالہا کے ارادہ اور مرضی اور علم کو کچھ دخل نہیں ، لہٰذا اس حسن ظن نے جو حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں ، اسی غرض سے یہ عریضہ روانہ کرتاہوں۔،،
’’میں دعا کرتا ہوں کہ خیروعافیت اور خوشی کے وقت میں خداتعالیٰ اس خط کو حضور قیصریہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچا دے، اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو، جو موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے، اپنی پاک فراست سے شناخت کرلیں اور رعیت پروری کی روسے مجھے رحمت جواب سے ممنوں فرمادیں۔،،
(ستارہ قیصریہ ص:۲)
پہلی بعثت کی عظمت وبرتری اور عالیشان پر نظر کرو، اور پھر دوسری بعثت کی اس گراوٹ، چاپلوسی ، خوشامد اور ناصیہ فرمائی کو دیکھو۔ دوسری بعثت میں قادیان کا محمد رسول اﷲ، صلیب پرست اور نجس ملکہ کو اپنی محبت واخلاص ، اطاعت ووفاشعاری اور بندگی وغلامی کا کن گھٹیا الفاظ میں یقین دلاتا ہے اور اسے طویل طویل لیکن بے مغز وبے مصرف خطوط پے درپے بھیجتا ہے، لیکن وہ اس ’’غلام بن غلام‘‘ کو خط کی رسید بھیجنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ پہلی بعثت کی وہ عظمت ورفعت۔ اور دوسری بعثت کی یہ پستی اور گراوٹ؟ سوچو اور سو چ کر بتاؤ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے العیاذ باﷲ پہلی بعثت میں وہ کون ساگناہ ہوا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی سزا میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قادیان کے ایک مغل بچہ کے روپ میں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا؟
8 ۔ اس سے بڑھ کر تعجب خیز مرزاغلام احمد قادیانی کایہ دعویٰ ہے کہ: ’’دوسری بعثت کی روحانیت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ کی روحانیت سے اقوی اور اکمل اور اشد ہے۔،، (خطبہ الہامیہ ۱۸۱) اور روحانی ترقیات کی طرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا توصرف پہلاقدم ہی اٹھ سکا تھا، لیکن مرزا روحانی ترقیات کی آخری چوٹی تک پہنچ گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام ہلال کی مانند تھا۔ (جس کی کوئی روشنی محسوس نہیں ہوا کرتی)لیکن مرزا کے طفیل وہ بدر کامل بن چکا ہے۔ جس شخص کے سینے میں دل اور دل میں ایمان کی ذرا بھی رمق موجود ہو، جسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے عقیدت ومحبت کا ادنیٰ سے ادنیٰ تعلق بھی ہو اور جس کی چشم بصیرت سیاہ سفید کے درمیان تمیز کرنے کی کسی درجہ میں بھی صلاحیت رکھتی ہوکیا وہ مرزا غلام احمدقادیانی کے ان تعلیٰ آمیزدعوؤں کو ایک لمحہ کے لیے بھی قبول کرسکتا ہے جن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح توہین وتنقیص پائی جاتی ہے؟
9 ۔ چلیے اس کو بھی جانے دیجئے ، ذرا اس نکتہ پر غور فرمائیے کہ مرزاغلام احمدقادیانی کی ’’اعلیٰ واکمل روحانیت‘‘ نے دنیا میں کون ساروحانی انقلاب برپا کرڈالا۔ ان کے ’’بدرکامل‘‘ نے دنیا کو کیا روشنی عطا کی؟ اور ان کے ’’روحانی عروج‘‘ نے سفلی خواہشات اور مادیت کے سیلاب کے سامنے کون سا بند باندھ دیا؟ ہر چیز کو جھٹلایا جاسکتا ہے مگر ساری دنیا کے مشاہدہ کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ مرزاغلام احمدقادیانی کی ’’بعثت ثانیہ‘‘ پر کامل صدی کا عرصہ گزرچکا ہے۔ دنیا کے حالات پر نظر کر کے فیصلہ کرو کہ کیا مرزاغلام احمد قادیانی کے ان بلند آہنگ دعوؤں سے دنیا کا رخ بدلا؟فسق وفجور، ظلم اور کفر وارتداد میں کوئی کمی واقع ہوئی؟گھر بیٹھے اعلیٰ واکمل روحانیت کے دعوے کیے جانا کیا مشکل ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ اس ’’روحانیت،، کا مصرف کیا تھا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
ساری دنیا کی اصلاح کا قصہ بھی رہنے دیجئے ، خود مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر جن لوگوں نے بیعت کی اور سالہا سال تک ان کی صحبت سے جو لوگ مستفید رہے، سوال یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی ’’اعلیٰ واکمل روحانیت،، نے کم از کم انھی کی زندگیوں میں کیا انقلاب برپا کیا؟ اس کے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں، بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی نے ۱۸۹۳ء کے ’’اشتہارالتوائے جلسہ،، میں جو ’’شہادۃ القرآن ،، کے ساتھ ملحق ہے، اپنی جماعت کی ’’اخلاقی بلندی،، کا جو نقشہ کھینچا ہے اسی کا مطالعہ کافی ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں درج کرتا ہوں۔
مرزا کی ’’بعثت ثانیہ،، پر تیرہ چودہ سال کا عرصہ گزر رہا ہے، مگر ان کی جماعت کے بیشتر افراد بقول ان کے اب تک نااہل، بے تہذیب،ناپاک دل، ﷲی محبت سے خالی، پرہیز گاری سے عاری ، کج دل، متکبر، بھیڑیوں کی مانند، سفلہ، خود غرض ، لڑا کے، حملہ آور، گالیاں بکنے والے، کینہ ور، کھانے پینے پر نفسانی بحثیں کرنے والے، نفسانی لالچ کے مریض ، بدتہذیب، ضدی ، درندوں سے بدتر اور درحقیقت جھوٹ کو نہ چھوڑنے والے ہیں۔
مزید تیرہ چودہ سال بعد ان کی جماعت کی اخلاقی سطح جس قدر بلند ہوئی، مرزا غلام احمد قادیانی اپنی آخری تصنیف میں اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:
’’ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت سارے ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں ، اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں، اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف۔،، (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص:۸۸)
جب مرزا غلام احمد قادیانی کی پوری زندگی کی پچیس تیس سالہ محنت کا ثمرہ بقول ان کے ’’جیسے کتا مردار کی طرف ،، نکلا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بعد ان کی جماعت کی ’’روحانیت،، کا معیار کتنا’’ بلند،، ہوگا؟لاہوری فریق نے قادیانی فریق کے اما (مرزامحمود)اور اس کے مقتدر لیڈروں پر، اسی طرح قادیانی فریق نے لاہوری فریق کے امیر (مسٹر محمدعلی) اور اس کے ممتاز ممبروں پر (جو سب کے سب مرزاغلام احمدقادیانی کے یار غار[۱] اور طویل صحبت یافتہ تھے) الزامات کی جو بوچھاڑ کی ہے وہ کس کے علم میں نہیں؟ ان میں اخلاقی اعتبار سے زنا، لواطت، چوری ، بدکاری، قتل وغارت، تعلی وتکبر، حرام خوری، خود غرضی،فریب کاری، مغالطہ اندازی اور بددیانتی کے الزامات اور دینی لحاظ سے کفر وشرک ،ارتداد ونفاق اور تحریف وتلبیس وغیرہ کے الزامات سرفہرست ہیں۔
یہ وہ لوگ تھے جن کی مرزا غلام احمدقادیانی کی اقویٰ اوکمل اور اشد روحانیت نے برسہا برس تک تربیت کی جن کو مرزا غلام احمد قادیانی کے ’’فرشتہ،، کہلانے کا شرف حاصل ہوا، جن کے حق میں مرزاغلام احمد قادیانی نے الہامی بشارتیں سنائیں جو مرزاغلام احمد قادیانی کے نقیب اور داعی تھے۔ انھی کے ایسے اخلاقی قصے (جن کو سن کر تہذیب وشرافت سر پیٹ لے) گلی کو چوں میں گائے جاتے ہیں، اخباروں اور رسالوں میں چھپتے ہیں اور ان کی صدائے بازگشت سے عدالتوں کے کٹہرے گونج اٹھتے ہیں۔
یہ تھا مرزاغلام احمد قادیانی کی روحانیت کا اصلاحی کارنامہ، اور یہ تھا اس کے اس پر غرور دعوے کا نتیجہ کہ ان کی روحانیت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے۔ اﷲ ہمارے بھائیوں کو فہم وبصیرت بخشے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔
خلاصہ یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ (قادیان میں دوبارہ تشریف آوری) کا عقیدہ پیش کرنا، خود کو بروز محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیثیت سے محمد رسول اﷲ قراردینا، اور پھر اس قادیانی بعثت کو مکی بعثت سے اعلیٰ وبرتر قراردینا نہ صرف اسلامی عقیدہ کے خلاف ، اور قرآن کریم کی تصریحات کے منافی ہے، بلکہ یہ عقل وخرد کے اعتبار سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بدترین ظلم اور آپ سے ناقابل برداشت مذاق ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے ماننے والوں کے دل میں اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت وحرمت کی کوئی رمق باقی ہے تو ان سے حرمت نبوی کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ خدارا ان حقائق پر غور فرمائیں ، اور مرزاغلام احمد قادیانی کی پیروی سے دستکش ہو کر حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن رحمت سے وابستہ ہوجائیں۔ دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ان بھولے بھٹکے بھائیوں کو بھی صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے اور شیطان لعین کے چنگل سے نجات عطا فرمائے۔
وصلی اﷲ علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین وعلیٰ والہ واصحابہ اجمعین الیٰ یوم الدین