(قسط:۷) ظفر جی
تیسری ملاقات
16 فروری ․․․․ 1953ء گورنر ہاؤس لاہور
ٹھنڈی سیاہ رات میں ہم گورنمنٹ ہاؤس کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے ۔کافی دیر بعد بغلی چیک پوسٹ کی کھڑکی سے ایک اَردلی نے سر باہر نکالا۔
” کِنّوں مِلناں جے ؟”
(کس سے ملنا ہے)
“وزیراعظم صاحب کو ” مولانا ابوالحسنات نے کہا۔
“خیریت اے ؟ ایس ویلے ؟”
(خیریت ہے،اس وقت!)
“وزیراعظم کو بتا دیں کہ مجلس عمل کا وفد آیا ہے۔ ”
سنتری کھڑکی بند کر کے اندر گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد کھڑکی دوبارہ کھلی۔
“اپنا اپنا ناں تے سیاسی وابستگی دسّو ؟”
(اپنااپنا نام اورسیاسی وابستگی بتائیں)
” میں جمعیت علمائے پاکستان سے ہوں ․․․․ اور باقی بزرگ مجلسِ احراراسلام پاکستان سے ہیں۔ ”
اردلی کچھ ردّوکد کے بعد اندر چلا گیا۔ ہم گورنمنٹ ہاؤس کے باہر ٹھٹھرتے رہے ۔ سردی کی وجہ سے ہمارے منہ سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہانپتا کانپتا واپس آگیا:
“آ جاؤ چاچا ․․․․ گیٹ کھلا جے ․․․”
(آجاؤچچا! گیٹ کھلا ہے)
گورنمنٹ ہاؤس کے وسیع وعریض لان سے گزر کر ہم ایک شاندار اور پُرتکلف لاؤنج میں پہنچے ۔ اردلی ہمیں نرم صوفوں پر بٹھا کر وزیرِاعظم کو اطلاع دینے چلا گیا۔ کمرے کی تزئین و آرائش لاجواب تھی۔ دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار ، قد آدم قیمتی پینٹگز ، دیدہ زیب رنگ و روغن ، بیش قیمت طغرے ، گُلدان ، خوبصورت قالین ، انگیٹھی میں جلتے کوئیلے کی حدّت ۔عین اسی وقت نسبت روڈ پر رات کے جلسے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔عاشقانِ ختم نبوت سردی میں ٹھٹھرتے، کانپتے قائدین کا خطاب سننے کے لئے جمع ہو چکے تھے ۔کچھ ہی دیر میں اچکن شیروانی اور جناح کیپ پہنے وزیر اعظم کمرے میں داخل ہوئے ۔ ہم سب نے اُٹھ کر استقبال کیا۔ وہ ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے والا ٹیبل گھیر کر بیٹھ گئے ۔
” جی ․․․ ملونا ساؤب ․․․․ سنا ہے لہور میں کوئی ہڑتول وگیرہ ہوا ہے ؟” انہوں نے بظاہر پر سکون نظر آنے کی کوشش کی۔
” جی ہاں ․․․․ اب خود ہی فیصلہ کیجئے کہ عوام کیا چاہتی ہے۔ “سید ابوالحسنات بولے ۔
” ہم تو اوٹھتے بیٹھتے ، چُلتے پُھرتے ، اب ایک ہی دُعا کرتا ہے ․․․․ یا اﷲ !!! ہم کو اُٹھا لے ․․․․ یاجفراﷲ کو اُوپر بلا لے۔ ” وزیراعظم نے کہا۔ “اﷲ آپ کو عُمرِ خِضر عطا کرے ․․․․ کسی کے مرنے سے مسائل حل ہوتے تواِس وقت نسبت روڈ پر مجمع کے ہاتھ میں پتھر ہوتے ․․․․ ”
” پبلک ہمارے بارے میں کیا سوستا ہو گا ؟؟” وزیرِ اعظم نے پوچھا۔
” پبلک اپنے نیک وزیرِ اعظم کے لئے اچھا سوچتی ہے اورنیک امید رکھتی ہے ۔آپ فی الحال صرف سرظفراﷲ کو برخواست کردیں ․․․ عوام بھی شانت ہو جائے گی اور آپ کا سیاسی قد بھی بڑھ جائے گا۔”مولانا ابوالحسنات نے کہا۔
” یقیناً ․․․ یہ کانٹا نکل جائے تو قوم کا درد نصف رہ جائے گا۔” ماسٹر تاج الدین انصاری نے تائید کی۔
” ماسٹر سوب ․․․․ تم سے ہمارا بات نئیں ہے ․․․․ ہم توملونا سے بات کُرتا ہے۔ ” وزیرِ اعظم نے انتہائی ناگواری سے کہا۔ ان کے لہجے میں وہی مخاصمت تھی جو مسلم لیگ اورمجلس احرار میں برسوں سے چلی آ رہی تھی۔
” بہت بہتر جناب !جیسے آپ کی خوشی۔” ماسٹر صاحب نے تحمل مزاجی سے جواب دیا۔”
” وزیرِ اعظم صاحب ! بخُدا ہم آپ کی مشکلات بڑھانے نہیں،بلکہ اُن کا مداوا کرنے آئے ہیں ․․․․ ہمیں آپ سے ہمدردی ہے ․․․․ آپ نیک آدمی ہیں ․․․․ فرمائیے تو سہی آخرمشکل کیا ہے ․․․ تاکہ ہم اس مشکل کا کوئی حل نکالیں ؟ سیداَبوالحسنات نے کہا” آپ کو ہمارامُسکل کا احساس ہوتاتو پھرکیا مُسکل تھا۔ ” وزیراعظم ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولے ۔
” پوری قوم آپ کی پشت پر کھڑی ہے وزیراعظم صاحب ! ․․․․․ آپ قدم تو بڑھائیں ․․․․․ آج اگر آپ ہمارے مطالبات مان لیں،یقین کریں آپ کے نام کے ڈنکے بج اٹھیں گے․․․․ پھر کسی کو جرأت نہ ہو گی کہ آپ کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے ۔”
” ہم زانتا ہے۔ ” وزیرِ اعظم کرسی سے پشت لگا کر بولے۔ ” زانتاہے کہ آپ کا ڈیمانڈ مان کر پبلک ہم سے بوہت خُوس ہوگا ․․․ ہمارے غلّے میں فُولوں کے ہار ڈالے گا ․․․․ جِندہ باد کا نعرہ لگائے گا ․․․․ زانتا ہے ! ”
” تو پھر بسم اﷲ کیجئے ․․․․ دیر کس بات کی ․․․․ قوم آپ سے کپڑا نہیں مانگتی ․․․․ روٹی نہیں مانگتی ․․․․ رہنے کو ٹھکانہ نہیں مانگتی ․․․․ ختم نبوت کا قانون ہی تو مانگ رہی ہے ․․․․ لوگ باہر سردی میں آپ کے فیصلے کے منتظر کھڑے ہیں! ”
” دیکھو ملونا ساب ․․․․! ہم آپ کوسمزاتا ہے ․․․․ کُس باتیں بوہت تلخ ہوتاہے ․․․․ پنجاب کا پارٹیسن ہوا ․․․․ برؤبر ؟؟․․․․ اب بھارت نے کیا کرا کہ تینوں درزاؤں کا پانی بُند کر دیا ․․․․ ایک دم مُولک میں سُوکھا پڑ گیا ․․․․․ برؤبر ؟ ․․․ پاکستان کی آجادی کو پاؤنس سال ہوا اوربھارت ہماری سہ رگ پکڑکے بیٹھ گیا ہے ․․․․ نہ مُجاکرات کرتا ہے ․․․․ نہ کُس سننے کو ریڈی ہے ․․․ ہم ورلڈ بینک گیا ․․․․ وہ بھی ہمارا بات نئیں سُنا ․․․․ اب کوئی لُنگی اُٹھا کے چوک میں کھڑا ہو جائے تو آدمی کیا بولے ؟یہ مؤسلہ ہے ہمارا ․․․․․ بھارت ہمیں بنجر کرنے پہ تُلا ہے !!! ” کچھ دیر کے لئے کمرے میں سکوت سا چھا گیا۔
” لیکن اس مسئلے کا سر ظفراﷲ خان سے کیا تعلق ہے ؟” کچھ توقّف کے بعد ابوالحسنات بولے ۔
” آپ کو مُلک کی صورتحال کا علم نئیں ․․․․” وزیرِ اعظم نے دراز سے ایک فائل نکالتے ہوئے کہا۔ ” یہ محکمہ خوراک کا پھائل ہے ․․․․ جتنا غندم اشٹاک میں تھا ․․․․ سب کھلاس ہو گیا ہے ․․․․ کال ہمارے سر پہ کھڑا ہے ․․․․ پبلک گندم کے دانے دانے کو ترسنے والا ہے ․․․․” وزیر اعظم کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئے ۔اتنے میں ایک اردلی چائے اور پانی کی ٹرالی دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا۔ کمرے کی بوجھل فضاء میں چائے کی خوشبو پھیلنے لگی۔
” بوہت مُسکل وقت ہے ۔” وزیرِ اعظم نے خاموشی توڑی۔ ” اس ناجک وقت میں․․․․ سرجفراﷲ خان اپنے جاتی تعلقات استعمال کر کے امریکی کانگریس سے ایک بِل منجُور کرانے کا کوسِس کر ریا ہے ․․․․ اگریہ کام ہو گیا توامریکہ ہم کوسات لاکھ پچاس ہزارٹن گندم فری میں دے گا ․․․․ یہ کام صرف جفراﷲ خان ہی کر سکتاہے ․․․․ اگر آپ کر سکتا ․․․․ توہم جفراﷲ کو ہٹا کے کل ہی آپ کو وجیر خارزہ بنا دیتا۔”
” آپ بے فکر ہو جائیں ․․․․ نہیں پڑے گا قحط۔ ” ابوالحسنات پیالی رکھتے ہوئے بولے۔ ” رزق دینے والی ذاتِ بابرکات اﷲ تعالی کی ہے ،ہم سب دُعا کریں گے ، نمازِ استسقاء پڑھیں گے ، ختمِ نبوت کے صدقے رب ہماری ضرور سنُے گا۔ ”
” آسمان سے آٹا برسنے سے تو رہا۔ ” وزیر اعظم نے کہا۔ ” پبلک کاپیٹ نئیں بھرے گاتوسورکرے گا ․․․ ہماراغریبان پکرے گا ․․․․قوم کا مجاج بدلتے کون سا دیر لگتاہے ․․․․․ جِندہ باد سے مردہ باد ہونے میں صرف ایک روٹی کا پھرق ہے ․․․․ ایک روٹی کا پھرق ․․․․․․ کیا بولے گا ۔”
” اجازت ہو تو ایک بات کہوں ؟” ماسٹر تاج الدین انصاری بول ہی پڑے ۔
“جی بولیے! ” وزیرِ اعظم فائل دراز میں رکھتے ہوئے بولے ۔
” خواجہ صاحب ! قوموں کی زندگی میں بعض گھڑیاں انتہائی فیصلہ کن ہوتی ہیں ․․․․․ عوام کا مقدر کسی ایک شخص کی مُٹھی میں دے دینا بدترین غلامی ہے ․․․․․ جب لیڈر ملک سے اہم ہونے لگے تو بربادی قوم کا مقدّر بن جاتی ہے ․․․․ کیوں نہ چند دن صبر کر کے ․․․․ رُوکھی سوکھی کھا کے ․․․․ گزاراکیا جائے ․․․․ اور قوم کو سرظفراﷲ سے آزاد کرا لیا جائے ․․․․ کہیں ایسا نہ ہوکہ ظفراﷲ گندم کے بدلے قوم ہی کو امریکہ کے پاس گروی رکھ آئیں ․․․․ اور ہماری آنے والی نسلیں آٹے کے لئے ہمیشہ امریکہ کی طرف دیکھتی رہیں ․․․․ جنابِ وزیر اعظم!فیصلہ کن قدم بڑھا دیجئے ،ان شاء اﷲ یہی ہماری اصل آزادی کا نقاّرہ ثابت ہوگا۔” وزیرِ اعظم خاموش ہو کر چھت کے فانوس کو دیکھنے لگے ۔
آخری ملاقات
22فروری ․․․․ 1953ء ․․․․ کراچی
الٹی میٹم کی معیاد ختم ہوگئی۔ہم حاجی گھسیٹا خان حلیم شاپ پر لنچ اُڑا رہے تھے کہ بندر روڈ کی طرف سے ایک سفید رنگ کی موٹرکار آتی دکھائیی دی۔ لوگ اُمڈ اُمڈ کر اُس کار کا استقبال کر رہے تھے ۔ جس کا بس چلتا موٹرکار کو چومتا ، کوئی ہاتھ لگا کر نہال ہو جاتا ، کوئی رُومال مَس کرتا۔ غرض کہ عجب منظر تھا۔ ان حالات میں کار رینگتی ہوئی گورنمنٹ ہاؤس روڈ کی طرف مُڑ گئی۔
“کون آیا ہے اس گاڑی میں ؟” میں نے چاند پوری سے دریافت کیا۔
“وہی جن کی دنیا دیوانی ہے بھیّا ․․․․ ختمِ نبوت والے ․․․․ اب چھوڑو حلیم اور نکلو۔ ” انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
لکّی اسٹار پر ایک خلقتِ کثیر کھڑی تھی۔ لوگ پروانوں کی طرح رہنماؤں پر ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ۔ کراچی والوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔میں بمشکل اتنا ہی دیکھ پایا کہ چھوٹی سی اس کار میں دو بریلوی علماء ، دو اَحراررہنما ، اور ایک شیعہ عالم سوار ہیں۔ مولاناابوالحسنات سیّد احمد قادری اگلی سیٹ پر جلوۂ افروز تھے ۔
عوام جوش وخروش سے نعرے لگا رہے تھے ․․․․ تاج و تختِ ختمِ نبوت ․․․․ زندہ باد !
گورنمنٹ ہاؤس پہنچتے پہنچتے ہمیں ایک گھنٹہ لگ گیا۔علماء کا یہ وفد اِتمامِ حجت کے لئے آخری بار وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین سے ملنے آیا تھا۔ وفد کی قیادت مولانا عبدالحامد بدایونی کر رہے تھے اور وفد میں مولاناابوالحسنات ، ماسٹر تاج الدین انصاری ، مولانا لال حسین اختر اور مظفّرعلی شمسی شامل تھے ۔وزیرِ اعظم بھی شاید وفد ہی کا انتظار فرما رہے تھے ۔سردار عبدالرب نشتر بھی موجود تھے ۔ وزیرِ اعظم نے حسبِ معمول علماء کا پُرتپاک استقبال کیا اور نہایت ادب و احترام اور عاجزی سے پیش آئے ۔
” اختر علی خان نظر نہیں آ رہے۔ ” وزیرِ اعظم نے ملتے ہی پوچھا۔
“وہ بہاولپور میں ہیں ․․․ آج وہاں APNS کا قیام عمل میں آ رہا ہے ” مولانا بدایونی نے وضاحت کی۔
” اُن کو بلاؤ یار! ․․․․ سیکرٹری !!! وائی کنگ طیارہ ․․․․ بھِجواؤ ” وزیر اعظم نے کہا۔
“یس سر !!! ” سیکرٹری ڈائری میں نوٹس لینے لگا۔
میں نے سرگوشی کی۔ ” وائی کنگ جائے گا مولانا کو لینے ؟ ”
چاند پوری آنکھ مارتے ہوئے بولے ” ارے نہیں یار ․․․․ بادشاہ سلامت کچھ باتیں حالتِ جذب میں بھی کیا کرتے ہیں۔”
حال احوال پُوچھنے کے بعد وزیرِ اعظم نے کہا:
” امید ہے کہ آپ حجرات دارالحکومت کی عِجَّت و وقار کا بروبر کھیال رکھے گا۔ ”
“ہمیں بھی امید ہے کہ آپ ہمارے مطالبات پر ضرور غور فرمائیں گے ۔” بدایونی صاحب نے کہا۔
“دیکھئے ․․․․ پائلابات تو یہ ہے کہ ․․․․ میں آپ حجرات کو یہ سمجھا دے کہ ختمِ نبوت کو ہم ایک دم بروبر مانتا ہے ․․․․ کیا بولے گا؟؟ لیکن کیا ہے کہ ہم وَجیرِاَعجم ہے ․․․․ ہمیں بوہت کُس دیکھنا پڑتا ہے ․․․․ ملکی سیچوئسن ایسا نئیں ہے کہ کوئی نیا ٹینسن لیا جائے ․․․․ پائلے ہی بوہت ٹینسن ہے ․․․ کیا بولے گا ․․․؟ ”
” خواجہ صاحب! اگر آپ ․․․ اس وفد سے وعدہ ہی کرلیں کہ مسلم لیگ مرزائیت کو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کے لئے کابینہ میں قرارداد لائے گی تو ہم اپنی تحریک کو نرم رکھ سکتے ہیں۔” مولاناابوالحسنات نے کہا۔
” دیکھو ․․․․ یہ جو مِرجَئی کو سرکاری طور پر کافر بنانے کا مؤسئلہ ہے ․․․․ یہ تھوڑا کامپلی کے ٹِڈ ہے ․․․․ مطلب ․․․․․ سیدھا نئیں ہے ․․․․ کیا سمزا ؟ ”
” خواجہ صاحب !!! ․․․․ یہ مسئلہ تو تکلے کی طرح سیدھا ہے۔ ” مولانا لال حسین اختر نے کہا۔
وزیراعظم نے کرسی سے پشت لگائی اور بولے :
“دیکھو ملونا ․․․․ مرجوئیوں کا دو سیکٹ(فرقے) ہے ․․․․ کیا بولے گا ؟؟
ایک سیکٹ جس کو ہم احمدی بولتا ہے ، وہ مِرجا کو پروفٹ (پیغمبر)مانتا ہے ․․․․ بروبر ؟؟
دوسرا سیکٹ جو ہے ․․․․․ لاہوری گروپ ․․․․ وہ مِرجا کو پروفٹ نئیں بولتا ․․․․ امام بولتا ہے ․․․․ کیا سَمزا ؟؟
مطلب کُس کیا بولتا ہے ․․․․ کُس کیا بولتا ہے !!!
اب مُسکل یِہ ہے کہ لاہوری گروپ کو کائسے کافر بنائے گا ؟؟ ․․․․ اور اس سے بھی بڑا مُسکل جو ہے ․․․․ وہ یہ ہے کہ معلوم کیسے پڑے گا کہ فلوں سُسرا مِرجا کو اِمام مانتا ہے ․․․․ اور فلوں پروفٹ ․․․․ !!!
اب ریاست جو ہے ․․․․․ ایک ایک مرجئی کا لُنگی پکڑ کے تو نئیں پُوس سکتا کہ تم مِرجاکوپروفٹ مانتا ہے ․․․․ امام مانتا ہے یاکُس اورمانتا ہے ؟؟ ․․․․ مطلب اس میں تھوڑا کامپلی کیسن ہے ․․․ کیا بولے گا ؟ ”
” دیکھئے خواجہ صاحب !” مولانا ابوالحسنات نے کہا:”کریلا صرف کریلا ہوتا ہے ، کچا ہو ، نیم چڑھا ہو، یا پورا پکّا ․․․․ لاہوری مرزائی گروپ جس شخص کو اِمام مانتا ہے ، اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں نہیں ، ببانگِ دُہل نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور جو شخص جھوٹے مدعیٔ نبوت سے عقیدت رکھے ، اس کے لئے نرم گوشہ اختیار کرے ،اسے امام کا درجہ دے یا اصلاح کار سمجھے ، بہرصورت کافر ہے ۔”
” ایک دم بروبر ․․․․ ہم صرف یہ بات بولتا ہے کہ بہرحال یہ ایک ناجِک مسئلہ ہے ۔”
اس پر مولانا بدایونی بول اٹھے :
” جناب! ہم ہر بار آپ کو مسئلے کی نزاکت ہی تو سمجھانے آتے ہیں ․․․․ باہر اگر کوئی شخص سڑک پر کھڑا ہوکر وزیر اعظم پاکستان ہونے کا اعلان کردے ․․․ تو پانچ منٹ میں آپ کی پولیس اسے اور اس کے پیشروؤں کو اَریسٹ کر لے گی ․․․․ یہاں مسئلہ دعویٔ نبوت کا ہے ․․․․ یہ ہم سب کے ایمان کا سوال ہے ․․․․ کل ہمیں اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے ․․․․ جواب دینا ہے ․․․․ کیا اﷲ ہم سے پوچھے گا نہیں کہ میرے نبی ﷺ کے تختِ نبوت پر ڈاکہ مارنے والوں کو آپ نے وزارتوں کے تاج پہنا رکھے تھے ؟؟ یہ صرف چند مولویوں کا نہیں، ہر مسلمان کے ایمان کا مسئلہ ہے ”
اس دوران سردار عبدالرب نشتر بولے :
” دیکھئے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں ایک اور خسارا بھی ہے، غیر مسلم قرار دینے کے بعد ان کے حقوق تسلیم کرنا ہوں گے اور انہیں باقاعدہ ایوانِ بالا میں سیٹیں دینا پڑیں گی۔”
” ہم مرزائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں آئے۔” مولانا بدایونی نے وضاحت کی۔ ” ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ محمد عربیﷺ کا پیروکار اور مرزا قادیانی کا معتقد ایک ہی خانے میں نہ لکھا جائے۔ ان کے لئے الگ الگ خانے ہوں، تاکہ صحیح معنوں میں جداگانہ انتخابات ممکن ہو سکیں ۔”
” آپ کا سب بات ایک دم بروبر ہے۔اﷲ جانتا ہے کہ ہم بھی مرجوئی کو کافر ہی سمجھتا ہے ․․․․ بروبر ؟؟ قانونی بات بھی تم نے سب سمزا دیا ، لیکن ہمارا مزبوُری ہے۔ کاس ہم آپ کا بات مان سکتا ․․․․ ہم کو بروبر افسوس ہے۔ فی الحال ہمارا ایسا پوزیسن نئیں ہے کہ آپ کا بات مان سکے ۔”
“آپ کی مجبوریاں ہوں گی۔ ” مولانا بدایونی اٹھتے ہوئے بولے ۔ “ہماری کوئی مجبوری نہیں ہم تو بس اپنا فرض ادا کرنے آئے تھے۔آپ کے پاؤں میں اگر دنیا داری کی بیڑیاں ہیں تو عشقِ رسول ﷺ نے ہمارے بھی ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ فصیلِ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لئے ہم سو بار بھی آپ کے پاس چل کے آنے کو تیار ہیں، لیکن تحفظ ختم نبوت سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہمارے بس کی بھی بات نہیں رہی۔”
” کیا کریں ․․․․ ہمیں اپنا جِمّہ داری بھی تو نبھانا ہے ! ” وزیراعظم نے زچ ہو کر کہا۔
” آپ اپنی ذمّہ داری نبھائیں ،ہم اپنا عشق نبھائیں گے ۔” ابوالحسنات نے صوفیانہ وقار سے جواب دیا۔
وزیرِ اعظم وفد کے ساتھ چلتے ہوئے گیٹ تک آئے۔پھر موٹرکار کا دروازہ کھول کر کھڑے ہو گئے۔بڑے ادب واحترام سے مولاناابوالحسنات کو سوار کرایا۔ دیگراکابربھی گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ موٹرکار سٹارٹ ہوئی اور دھواں چھوڑتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ وزیرِ اعظم نے جیب سے رُومال نکال کر آنکھیں صاف کیں اور نشتر صاحب کو ساتھ لئے تھکے قدموں سے واپس دفتر کی طرف چل دیے ۔
ہم سڑک ناپ کر سیدھا لکی اسٹار پہنچے اور ایک کھوکھے پر بیٹھ کر چائے پینے لگے ۔ریڈیو پاکستان کراچی مذاکرات کی جھوٹی سچّی خبریں دے رہا تھا۔ عوام کو مذاکرات میں پیش رفت کی گھاس کھلائی جا رہی تھی۔ شرپسندوں پر کڑی نظر رکھنے کی تاکید کی جا رہی تھی اور ملک میں امن و امان اور شانتی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔خبروں کے بعد محسن بھوپالی کی غزل نشر ہوئی تو میری بھی آنکھیں بھیگ گئیں :
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
Wلوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
[میں نے دل کی بات رکھی اور تُونے دنیا والوں کی
]میری عرض بھی مجبوری تھی، اُن کا حکم بھی مجبوری
Sروک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
Kکچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹّی کی مجبوری
جاری ہے
یٔ یٔ یٔ یٔ