منکرات حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۱۱)
حافظ عبیداﷲ
اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ’’اسحاق بن راہویہ‘‘ ، ’’اسحاق بن منصور‘‘ اور صحیح بخاری کی اس حدیث کے دیگر راویوں کا مختصر تعارف بھی کتب اسماء الرجال سے کرادیں :
اسحاق بن ابراہیم بن مخلد ابویعقوب (ابن راہویہ)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کراتے ہیں : ’’ہو الامام الکبیر، شیخ المشرق، سید الحُفّاظ‘‘ وہ بڑے امام، شیخِ مشرق، اور حفاظ حدیث کے سردار تھے ۔ پھر لکھتے ہیں کہ ان کی ولادت سنہ 161ھ میں ہوئی۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’اسحاق بن راہویہ جیسا دنیا میں کوئی نہیں‘‘، نیز ایک بار اُن سے اسحاق بن راہویہ کے بارے میں رائے پوچھی گئی تو امام احمد نے فرمایا: ’’کیا اسحاق جیسے لوگوں کے بارے میں بھی سوال کیا جاسکتاہے؟ اسحاق تو ہمارے نزدیک امام ہیں‘‘۔ امام ابن خزیمہ نے فرمایا: ’’ اگر اسحاق بن راہویہ تابعین میں ہوتے تو ان کے حافظے، علم اورفقہ کو تابعین بھی تسلیم کرتے‘‘ ۔امام نسائی نے کہا : ’’اسحاق تو اماموں میں سے ایک امام، ثقہ اور مامون ہیں‘‘۔ امام حاکم کہتے ہیں : ’’اسحاق بن راہویہ حفظ اور فتویٰ میں اپنے زمانے کے امام تھے، وہ اصل میں مروزی تھے لیکن سنہ 184ھ میں جب ان کی عمر 23 سال کے قریب تھی وہ عراق چلے گئے تھے‘‘ ۔ ابو محمد دارمی نے کہا : ’’اسحاق صدق وسچائی میں اہل مشرق واہل مغرب کے سردار ہیں‘‘۔ ابوحاتم کہتے ہیں کہ : ’’میں نے زمانے میں احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ جیسا نہیں دیکھا‘‘۔امام ابوزرعہ کے سامنے اسحاق بن راہویہ کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’اسحاق جیسے حافظہ والا اور کوئی نہیں دیکھاگیا‘‘۔ محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں کہ : ’’سنہ 199ھ کی بات ہے کہ بغداد کے محلہ رصافہ میں بڑے بڑے محدثین جمع ہوئے جن میں امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین بھی تھے، اس مجلس کی صدارت اسحاق بن راہویہ فرمارہے تھے‘‘ ۔ ابن حبان نے کہا کہ : ’’اسحاق بن راہویہ اپنے زمانے کے فقہ، علم اور حفظ حدیث کے سردار تھے‘‘۔ حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں لکھا کہ : ’’أحد الأئمہ طاف البلاد‘‘ اماموں میں سے ایک امام ہیں اورمختلف ممالک میں گومتے رہے۔
(ملخصاً: سیر اعلام النبلاء، ج11 ص358 /تہذیب التہذیب، ج1 ص216)
فائدہ: امام بخاریؒ کے صحیح بخاری لکھنے کی وجہ اسحاق بن راہویہ ؒ ہی بنے تھے، چنانچہ علماء حدیث نے امام بخاریؒ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
’’ہم اسحاق بن راہویہؒ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی نبی کریم e کی سنتوں پر مشتمل ایسی مختصر کتاب لکھ دے جس میں صرف صحیح احادیث جمع کی جائیں (اما م بخاری فرماتے ہیں) یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی پس میں نے الجامع الصحیح (صحیح بخاری) تالیف کرنا شروع کردی‘‘ ۔
(ہدي الساري مقدمۃ فتح الباری، ج1 ص7 /تدریب الراوي ج1 ص117 دار العاصمۃ ۔الریاض)
اسحاق بن منصور بن بَہرام المروزي ابویعقوب (الکَوسج)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کراتے ہیں : ’’الامام الفقیہ الحافظ الحجۃ‘‘ امام ، فقیہ، حافظ حدیث اور حجت۔ امام مسلم کہتے ہیں : ’’وہ ثقہ اور مامون ہیں‘‘۔ امام نسائی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابو حاتم نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ عثمان بن ابی شیبہ نے انہیں ’’ثقہ اور صدوق‘‘ کہا۔ ابن حِبان اور ابن شاہین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردہیں۔ (یاد رہے کہ احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین بغداد میں رہتے تھے۔ناقل) ۔ (ملخصاً: سیر اعلام النبلاء، ج12 ص258 /تہذیب التہذیب، ج1 ص249)
یعقوب بن ابراہیم بن سعد : ان کا تعارف حدیث نمبر 2 کے راویوں میں ہوچکا۔
ابراہیم بن سعد بن ابراہیم: ان کا تعارف بھی گزر چکا۔
صالح بن کیسان المدني : حدیث نمبر 2 کے ضمن میں ان کا تعارف بھی ہوچکا۔
حدیث نمبر 5:
’’(امام بخاریؒ فرماتے ہیں) بیا ن کیا ہم سے (یحییٰ) بن بُکیر نے، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا لیث (بن سعد) نے، اُن سے یونس (بن یزید) نے، اُن سے ابن شہاب (زہری) نے، اُن سے ابوقتادہ انصاریؓ کے غلام نافع نے، اور اُن سے حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا تمہارا اُس وقت کیا حال ہوگا جب( عیسیٰ) بن مریم تُم میں اتریں گے اور اُس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا ۔ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی ہے۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3449)
فائدہ نمبر1: امام بخاری نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد جو فرمایا ہے کہ ’’عقیل اور اوزاعی نے اس کی متابعت کی ہے‘‘ اس کا مطلب ہے کہ امام زہری سے یہ حدیث یونس بن یزید کے علاوہ عبدالرحمن بن عمرو الأوازاعي او عقیل بن خالدبن عقیل نے بھی روایت کی ہے۔ چنانچہ حافظ محمد بن اسحاق ؒ بن یحییٰ بن مندہ (متوفی 395ھ) نے اوزاعی اور عقیل کی سند کے ساتھ یہ حدیث موصولاً بیان کی ہے۔
(کتاب الایمان لابن مندۃ، ج1 صفحہ 515 تا 516، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
فائدہ نمبر2: اسی حدیث کو ابنِ حِبان نے اپنی صحیح میں بھی روایت کیا ہے جس میں ابن شہاب زہری سے روایت کرنے والے امام اوزاعی ہیں ، اور امام زہری نے ’’عن‘‘ کے بجائے تصریح کی ہے کہ ’’نافع مولی ابی قتادہ نے انہیں خبر دی ہے‘‘(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:6802، ج15 ص213، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)۔
راویوں کا تعارف :
یحییٰ بن عبداللّٰہ بن بُکیر ابو زکریّا
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الاِمام المحدِّث الحافظُ الصدوق‘‘ امام، محدِّث، حافظ حدیث اور سچے۔ نیز لکھتے ہیں : ’’احتجّ بہ الشیخان وذکرہ ابن حِبان فی الثقات‘‘ شیخان (امام بخاری وامام مسلم) کے نزدیک یہ حجت ہیں، اور ابن حبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ساجی کہتے ہیں: ’’ہو صدوق‘‘ وہ سچے ہیں۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ : ’’یہ لیث بن سعد کے پڑوسی تھے ، اور لیث بن سعد سے روایت کرنے والوں میں سب سے زیادہ پکے اور قابل اعتماد یہی ہیں‘‘۔ خلیلی کہتے ہیں کہ : ’’کان ثقۃ‘‘ آپ ثقہ تھے۔ امام ابوداود نے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ابوصالح کی کتابیں زیادہ ہیں لیکن ابن بکیر حافظے میں ان سے بڑھ کر ہیں‘‘۔ ابن قانع نے بھی کہا : ’’یہ ثقہ ہیں‘‘ ۔ البتہ ابوحاتم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’یُکتب حدیثہ ولا یُحتج بہ‘‘ ان کی حدیث لکھ لی جائے لیکن وہ (اکیلے) حجت نہیں۔ امام نسائی سے منقول ہے کہ انہوں نے یحییٰ بن بکیر کے بارے میں کہاکہ یہ ضعیف ہیں (جس کا ایک خاص سبب تھا جو آگے بیان ہوگا۔ناقل) ۔
(ملخصاً: سیر اعلام النبلاء، ج612 /تہذیب التہذیب، ج11 ص237)
تمنائی اعتراضات اور مغالطے:
آپ نے دیکھا کہ امام بخاری ومسلم دونوں کے نزدیک یہ ثقہ اور حجت ہیں، اور امام بخاری ومسلم اپنی جگہ حدیث اور رجال کے امام ہیں۔ نیز امام ساجی ، ابن حبان ، ابن عدی اور خلیلی نے بھی انہیں قابل اعتماد قرار دیا ہے، امام ابوحاتم نے بھی انہیں ’’ضعیف‘‘ نہیں کہا، بلکہ ان کی حدیث لکھنے کی اجازت دی ہے ۔ ہاں البتہ امام نسائی نے (جو کہ امام بخاری ومسلم کے شاگردوں میں سے ہیں) انہیں ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ لیکن نہ جانے عمادی صاحب پر یہ ’’وحی‘‘ کب نازل ہوئی کہ چونکہ یحییٰ بن بکیر امام بخاری کے استاد تھے اس لئے بعض نے بخیال امام بخاری انہیں ثقہ لکھ دیا ، اور اگر کسی نے جرح بھی کی تو دبے الفاظ میں کی‘‘۔ ورنہ یہ بات کسی نے نہیں لکھی کہ جنہوں نے یحییٰ بن بکیر کی توثیق کی ہے وہ اس لئے کی ہے کیونکہ یہ امام بخاری کے استاد ہیں۔
دوسری دلیل عمادی صاحب نے یہ بڑھا چڑھا کر پیش کی ہے کہ چونکہ یحییٰ بن بکیر نے ’’موطّا امام مالک‘‘ کا سماع ’’حبیب بن ابی حبیب‘‘ کے واسطے سے کیا ہے (یہ بات بھی مختلف فیہ ہے۔ناقل) اور حبیب بن ابی حبیب ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے لہٰذا یحییٰ بن بکیر بھی قابل اعتماد نہیں ۔ اب ان ’’محدث العصر‘‘ کو کون سمجھائے کہ اگر حبیب بن ابی حبیب ضعیف ہے تو اس سے یحییٰ بن بکیر کیسے ضعیف ہوگئے؟ اگر کسی سند میں کوئی راوی خود ثقہ ہو لیکن جس نے اُس سے روایت بیان کی وہ ضعیف ہو تو کیا اس کی وجہ سے وہ ثقہ راوی بھی ضعیف ہوجائے گا؟ ۔
آئیے ہم آپ کو ’’پوری حقیقت‘‘ بتاتے ہیں ، جن چند حضرات نے یحییٰ بن بُکیر پر جرح کی ہے وہ صرف ان کی امام مالک سے روایت کردہ احادیث کی حد تک ہے، اور اس جرح کا سبب یحییٰ بن بکیر نہیں بلکہ امام مالک کے کاتب ’’حبیب بن ابی حبیب‘‘ ہیں ،اس کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ہوتی ہے :۔
قاضی عیاض بن موسیٰ السبتی مالکیؒ (متوفی 544ھ) لکھتے ہیں :
’’وقد ضعّف أئمۃ الصنعۃ روایۃ من سمِع الموطأ علی مالک بقراء ۃ حبیب کاتبہ، لضعفہ عندہم‘‘ علم حدیث کے ائمہ نے موطا امام مالک کی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جو امام مالک کے کاتب ’’حبیب‘‘ کے ذریعے سے ہے کیونکہ حبیب ان کے ہاں ضعیف ہے ۔ (پھر ذرا آگے لکھتے ہیں) ’’ولہذہ العِلّۃ لم یُخَرِّج البخاري من حدیث ابن بکیر عن مالک اِلا القلیل وأکثر عنہ عن اللیث ، قالوا: لأن سماعہ کان بقراء ۃ حبیب ‘‘ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری، ابن بکیر کی امام مالک سے روایت کردہ احادیث بہت ہی کم لائے ہیں اور ان کی ’’لیث بن سعد‘‘ سے بیان کردہ احادیث بہت زیادہ لائے ہیں، کیونکہ کہاجاتا ہے کہ ان کا (موطا مالک) کا سماع حبیب کے واسطے سے ہے ۔ (الاِلماع الی معرفۃ اصول الروایۃ والسماع، ص77، دار التراث ۔ القاہرۃ)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسی بات کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
’’ثقۃ فی اللیث، وتکلموا فی سماعہ من مالک‘‘ (یحییٰ بن بکیر) جو روایت لیث بن سعد سے کریں اس میں ثقہ ہیں، البتہ امام مالک سے ان کے سماع کے بارے میں کلام کیا گیا ہے (اور یہ کلام حبیب بن ابی حبیب کے ضعف کی وجہ سے ہے نہ کہ یحییٰ بن بکیر کی وجہ سے۔ناقل) ۔ (تقریب التہذیب، ص592 ، دار الرشید۔حلب)
اور ہماری زیر بحث صحیح بخاری کی روایت یحییٰ بن بکیر نے ’’لیث بن سعد‘‘ سے روایت کی ہے نہ کہ امام مالک سے لہٰذا اس روایت میں ’’حبیب بن ابی حبیب‘‘ کا قصہ چھیڑنے کا مقصد صرف مغالطہ دینا ہے اور کچھ نہیں ۔
اب رہی یہ بات کہ امام نسائی نے (جو کہ امام بخاری ومسلم کے شاگردوں میں ہیں) یحییٰ بن بکیر کو ضعیف کہا ہے، تو عرض ہے کہ یحییٰ بن بکیر تو امام بخاری کے استاد ہیں، اور امام بخاری اپنے استاد کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں یا وہ جو امام بخاری کے بھی شاگرد ہیں؟ ، پھر آئیے امام نسائی کی اس تضعیف پر امام ذہبی کا تبصرہ پڑھ لیں، لکھتے ہیں:
’’قلتُ : کان غزیر العلم، عارفاً بالحدیث، وأیام الناس، بصیراً بالفتوی، صادقاً دَیِّناً، وما أدري ما لاح للنسائي منہ حتی ضعّفہ، وقال مرۃ : لیس بثقۃ، وہذا جرح مردود، فقد احتج بہ الشیخان، وما علمتُ لہ حدیثاً مُنکراً حتی أوردہ، وقد قال أسلم بن عبدالعزیز : حدّثنا یحییٰ بن مَخلَد أن یحییٰ بن بکیر سمِع الموطأ من مالک سبع عشرۃ مرۃ‘‘ میں (ذہبی) کہتا ہوں: وہ (یحییٰ بن بکیر) بہت زیادہ علم والے، حدیث کی پہچان رکھنے والے، فتویٰ میں ماہر، سچے اور دین دار تھے، میں نہیں جانتا کہ (امام) نسائی کو کیا ضرورت پیش آئی کہ انہیں ضعیف قرار دے دیا، اور کبھی یہ کہا کہ وہ ثقہ نہیں ہیں، (امام نسائی کی) یہ جرح قابل قبول نہیں، کیونکہ شیخان (بخاری ومسلم) نے یحییٰ بن بکیر سے حجت پکڑی ہے، اور میرے علم میں اُن کی کوئی منکر حدیث نہیں جسے میں پیش کرسکوں، اسلم بن عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن مَخلَد نے بیان کیا کہ یحییٰ بن بکیر نے امام مالک سے سترہ بار موطأ کا سماع کیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء، ج10، ص614، مؤسسۃ الرسالۃ)
لیجیے! امام ذہبی نے تو اس قصہ کا بھی خاتمہ کردیا کہ یحییٰ بن بکیر نے صرف ’’حبیب بن ابی حبیب‘‘ کے واسطے ہی سے موطأ مالک کا سماع کیا ہے، نیز امام نسائی کی غیر مفسر جرح کو بھی رد کردیا۔
عمادی صاحب نے امام بخاری کی تاریخ صغیر کے حوالے سے بھی ایک مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے لکھا ہے ’’ابن بکیرنے تاریخ میں جو کچھ اہل حجا ز سے روایت کیا ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں‘‘ ، غور کریں یہاں ایک تو ’’تاریخ‘‘ کی بات ہے ’’حدیث ‘‘ کی نہیں، نیز اس تاریخ کی جو اہل حجاز سے روایت کریں، امام بخاری کی اس نفی کا تعلق یحییٰ بن بکیر کے ضعیف یا ناقابل اعتبار ہونے سے نہیں بلکہ جن اہل حجاز سے وہ تاریخ روایت کریں ان کے ضعف کے ساتھ ہے، اگر امام بخاری کے نزدیک یہ ضعف ان میں ہوتا تو وہ اپنی صحیح میں کبھی بھی ان سے روایت نہ کرتے ۔
باقی رہی امام ابوحاتم کی یہ بات کہ ’’ان کی حدیث لکھ لی جائے لیکن وہ حجت نہیں‘‘ اگر اسے قبول بھی کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اکیلے حجت نہیں، ہم نے نزول عیسیٰ کی احادیث کے بہت سے شواہد ومتابعات مختلف اسناد کے ساتھ پہلے ہی ذکر کردیے ہیں ، چنانچہ یہی حدیث امام مسلم نے بھی روایت کی ہے ایک دوسری سند کے ساتھ جس میں ’’یحییٰ بن بکیر‘‘ نہیں جو حدیث نمبر 6 کے عنوان سے آگے آرہی ہے۔
لیث بن سعد بن عبدالرحمن الفہمی المصری
ان کا تعارف تو حدیث نمبر 1 کے تحت گزر چکا، خود تمنا عمادی صاحب اقرار بھی کرتے ہیں کہ لیث بن سعد کا دامنِ وثاقت جرح سے آلودہ نہیں، لیکن چونکہ اپنی عادت سے مجبور ہیں اس لئے اپنی تمنائی جرح یوں کرتے ہیں کہ : ’’اب لیث بن سعد بن عبدالرحمن الفہمی کے دامن وثاقت کے آلودہ جرح نہ ہونے سے دھوکا نہ کھانا چاہیے، لیکن یادر ہے کہ یہ باوجود اپنی وثاقت وصداقت کے شیوخ کے انتخاب میں اور حدیثوں کے سننے میں تساہل برتتے تھے‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص183)
عمادی صاحب کے پاس کاغذ کی کشتی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، خود لیث بن سعد کو ثقہ بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن جرح بھی ضرور کرنی ہے، بقول شاعر :
کیے لاکھوں سِتم اِس پیار میں بھی آپ نے ہم پر خدا نخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا ہوتا
oیونس بن یزید اور ابن شہاب زہری دونوں کا تعارف ہوچکا۔
نافع بن عباس الأقرع (ویُقال بن عیاش) أبو محمد مولیٰ ابي قتادۃ
ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ : ’’یہ ایک عورت عقیلۃ بنت طالق الغفاریۃ کے (آزاد کردہ) غلام تھے، انہی کو نافع مولیٰ ابی قتادہ بھی کہا جاتا ہے، حقیقت میں یہ ابوقتادہ کے غلام نہ تھے‘‘(بلکہ صرف ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، خود عمادی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ‘‘ مولیٰ ابي قتادۃ‘‘ میں ’’مولیٰ‘‘ غالباً بمعنی رفیق اور دوست کے ہے۔ناقل)۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مولیٰ عقیلہ اور مولیٰ ابی قتادہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں، لیکن حافظ ابن حجر کے خیال میں ابن حِبان کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔ امام نسائی نے کہا ہے کہ : ’’نافع مولی ابی قتادۃ ثقہ ہیں‘‘۔ ابن شاہین نے بھی انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا ہے کہ یہ معروف شخصیت ہیں۔ امام عِجلی نے کہا ہے : ’’یہ مدنی تابعی اور ثقہ ہیں‘‘۔ ابن سعد نے کہاہے کہ : ’’ان سے بہت کم حدیثیں مروی ہیں‘‘۔ (اِن سے 9 کے قریب احادیث صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت کتب حدیث میں موجود ہیں۔ناقل)۔ حافظ ابن حجر نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔
(تہذیب التہذیب، ج10 ص405 /تقریب التہذیب،ص558 /معرفۃ الثقات للعِجلی، ج2 ص310)
حدیث نمبر 6:
اسی مذکورہ بالا حدیث کو امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ یوں ذکر کیا ہے :
’’بیان کیا مجھ سے حرملۃ بن یحییٰ نے ، وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی (عبداللّٰہ) بن وہب نے، وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی یونس (بن یزید) نے ، اُن سے بیان کیا ابن شہاب (زہری) نے ، انہوں نے کہا مجھے خبر دی ابوقتادہ انصاریؓ کے غلام نافع نے ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا : اس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب (عیسیٰ) بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور اُس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔‘‘۔
(صحیح مسلم، ح 244(155)، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا e)
فائدہ:صحیح مسلم کی اس حدیث کی سند میں مذکور تمام راویوں کا تعارف پہلے ہوچکا۔
حدیث نمبر 7:
اسی حدیث کو امام مسلم نے ایک اور سند کے ساتھ یوں روایت فرمایا ہے:
’’ہم سے بیان کیا زہیر بن حرب نے،(وہ کہتے ہیں) مجھ سے بیان کیا ولید بن مسلم نے ، (وہ کہتے ہیں) ہم سے بیان کیا ابن ابي ذئب نے، اُن سے ابن شہاب (زہری) نے ، اُن سے ابوقتادہ انصاریؓ کے غلام نافع نے، اور اُن سے حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ اﷲ کے رسول e نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب (عیسیٰ) بن مریم تم میں اتریں گے ……فأمَّکُم منکم……پس امامت کریں کے تمہاری تم ہی میں سے۔ (ولید بن مسلم کہتے ہیں) میں نے ابن ابی ذئب سے کہا: اوزاعی نے تو زہری اور نافع کے واسطے سے حضرت ابوہریرہؓ سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ :واِمَامُکم مِنکُم اُس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ایک شخص ہوگا(اور آپ جو الفاظ بیان فرمارہے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام حضرت عیسیٰ بن مریم ہی ہوں گے) تو ابن ابی ذئب نے فرمایا: کیا تمہیں پتہ ہے ’’فأمکم منکم‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ، میں نے کہا آپ بتادیجیے، تو انہوں نے فرمایا : اس کا مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ u تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی e کی سنت کے مطابق تمہاری راہنمائی فرمائیں گے ۔‘‘
(صحیح مسلم، ح 246(155)، باب نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا e)
فائدہ: اسی حدیث کو امام ابن حبان نے اپنی سند کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے ’’خبر دی ہم کو عبداللّٰہ بن محمد بن سلم نے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا عبدالرحمن بن ابراہیم نے ، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ولید بن مسلم نے ، وہ کہتے ہیں ’’حدّثنا الأوزاعي‘‘ ہم سے بیان کیا (عبدالرحمن بن عمرو) اوزاعی نے ، اُن سے ابن شہاب (زہری ) نے ، وہ کہتے ہیں کہ انہیں خبر دی ابوقتادہ انصاری ؓ کے غلام نافع نے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب (عیسیٰ) بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور (اُس وقت) تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا ۔‘‘
(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 6802،ج 15 ص213، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
جاری ہے
یٔ یٔ یٔ یٔ