ابوعکاشہ مفتی محمد عمر فاروق
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی اپنی اصلیت وحقیقت اور واضح پالیسی کا اعلان کردیا ہے ، انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں پر فوری عمل درآمد شروع کردیا ہے ، انتخابی مہم کے درمیان ٹرمپ کی جو شخصیت سامنے آئی، اس میں وہ صاف گو، غیر لچکدار رویے کے حامل اور دوٹوک انداز میں گفتگو کرنے والے فرد کی تھی چنانچہ انہوں نے اپنی واضح اور غیر لچکدار گفتگو میں کھلے انداز میں کہہ دیا ہے کہ ،،میں تشدد کا قائل ہوں،، اسی متشددانہ پالیسی کا آغاز مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی اور سخت چیکنگ کی صورت میں سامنے آیا۔
ان حالات کے تناظر میں امت مسلمہ کے قائدین اور تھنک ٹینک کو واضح غیر لچکدار اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا ہوگا، اپنی صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا کرکے امت مسلمہ کو ایک مدبر اور حوصلہ مند دور اندیش قیادت فراہم کرنا ہوگی ورنہ دنیا کے ظالم وجابر حکمران مسلمانوں کو منافقین کے ساتھ مل کر صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ شام، عراق ،ا فغانستان ،روہنگیابرما، کشمیر وفلسطین،بوسنیا،چیچنیا،لیبیا،مصر،یمن وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کے حالات اور ان کی بے بسی امت مسلمہ کے سامنے ہے ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالم اسلام اس وقت شدیدابتلاء و اختلاف کا شکار ہے جبکہ عالمی قوتوں نے اپنی ناپاک سازشوں کے ذریعہ مسلم ممالک کو جنگوں میں دھکیل کر ان کے وسائل پر قبضہ جمالیا ہے ۔ تاریخ اسلام اس پر شاہدہے کہ ہم نے کبھی دشمنو ں سے شکست نہیں کھائی، ہم نے اگر شکست کھائی ہے تو اپنے اندرونی اختلافات سے شکست کھائی ہے اسی نفسانیت کی بدولت اپنی سلطنتیں گنوائیں اوراپنے ملکوں کے چراغ گل کرائے ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے مسلم امہ کو عرب وعجم کی تخصیص کیے بغیرایک مشترک پلیٹ فارم پر آناہوگا اپنی کرنسی اپنی عالمی منڈیاں اورعدالتیں قائم کرکے عالمی قوتوں کے دہرے معیارکوبے نقاب کرناہوگا۔
یہ امت پوری انسانیت کی اصلاح کے لیے مبعوث کی گئی ہے ۔ پیغمبر دوعالم صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس امت کی قائدانہ صفات کاذکرکرتے ہوئے فرمایا تم لوگ آسانیاں فراہم کرنے والے بناکرمبعوث کیے گئے ہو دشواریاں پیداکرنے والے بناکرنہیں۔
ایک صحابی حضرت ربعی بن عامررضی اﷲعنہ نے اسلام کی جامعیت بیان کرتے ہوئے فرمایاہمیں اﷲتعالیٰ نے اس کام کے لیے مبعوث فرمایاکہ ہم اﷲکی مشیت کے مطابق انسانوں کوانسانوں کی غلامی سے نکال کراﷲوحدہ کی عبادت تک، دنیاکی تنگی سے نکال کراس کی وسعتوں تک،اورمختلف مذاہب وادیان کے ظلم وجورسے نجات دلاکراسلام کے عدل وانصاف تک پہنچادیں نیزنبی آخرالزمان کی بعثت کے ساتھ ایک ایسی امت کی بعثت بھی مشیت خداوندی میں شامل تھی جوباخبراورباشعورہو ۔صحیح راستے کی طرف دعوت دیتی رہے ،ہرزمانہ اورہر مقام پرانسانوں کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے ۔
امت مسلمہ میں اسلامی بیداری نوع انسانی کی دائمی وابدی ضرورتوں غذاء پانی ہواسے معنوی اعتبار سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ پوری انسانیت کیلئے مطلوب ومفید ہے اوراس کافقدان صرف اسلام اورمسلمانوں کے وجودکے لیے نہیں بلکہ پورے انسانی معاشرہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے آج کا دورچونکہ شہوات نفسانی اورشکوک و شبہات ذہنی کا دور ہے اسلام سے نامانوس فلسفوں اورافکارکا زمانہ ہے اس لئے آج اسلامی بیداری کی ضرورت کئی گنازیادہ بڑھ گئی ہے اوراس امت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
امت کے خیر خواہ طبقہ کی اس پر نظرہونی چاہیے کہ اس دور میں کون کون سی تحریکیں اور کیسے کیسے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ عام زندگی میں ان کی کیاطاقت اوراہمیت ہے اوراسلام کے بارے میں ان کانقطہ نظرکیا ہے ۔وہ دنیااسلام کے مستقبل اور آنے والی اسلامی نسل کیلئے کس حدتک خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ان طاقتوں،تحریکوں اور قیادتوں سے آنکھیں بندکرلینا بہت خطرناک حالات سے دو چار کر سکتا ہے کہیں ایسانہ ہو کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجودتنگ ہوجائے اور جینا مشکل ہو جائے اور مسلمان دین کے باغیوں اور دشمنوں کے رحم وکرم پر غیر اسلامی قانون سازی، اسلامی قوانین میں دخل اندازی اور انکے متعلق شکوک و شبہات کی فضامیں مغربی تہذیب کے زیر سایہ زندگی گذارنے پر مجبور ہوجائیں ۔گرد وپیش کے رجحانات سے زمانے کی ضرورتوں اورتقاضوں سے اعراض ایک حد تک محدود رہ جانا اسلام کے صحیح فہم کا نتیجہ نہیں ۔بلکہ اسلام کی دعوت وتبلیغ نشرواشاعت اورنفاذکیلئے شعورکی بیداری اسکی تربیت حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے۔
صورت اسلام میں روح اسلام اور حقیقت اسلام پیداکرنے کی کوشش کی جائے ۔اس وقت امت کی سب سے بڑی احتیاج یہی ہے کہ اسی سے اس کے حالات اور اس امت کے حالات کے نتیجہ میں دنیا کے حالات بدلیں گے ،کیونکہ دنیا کے حالات، اس امت کے حالات کے تابع اور اس امت کے حالات حقیقت ِ اسلام کے تابع ہیں۔
صحابہ کرام کی زندگی اور انکی زندگی کا انقلاب اور انکی کوششوں سے دنیا کا انقلاب نظر کے سامنے موجود ہے ۔مایوس ہونے کی قطعاًضرورت نہیں پیچھے مڑکر دیکھے تاریخ کے سمندر میں آپ کو حقیقت اسلام کے جزیرے بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ حقیقت اسلام نے ظاہری قرائن وقیاسات کے خلاف حالات اور مخالف طاقتوں پر فتح پائی ہے ۔حقیقت اسلام اور حقیقت ایمان میں آج بھی وہی طاقت ہے جو ابتداء اسلام میں تھی آج اسکے سامنے دریا پایاب ہو سکتے ہیں۔سمندرمیں گھوڑے ڈالے جاسکتے ہیں درندے جنگل چھوڑ کر جاسکتے ہیں ۔
بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہماری مذہبی وسیاسی قیادت کی طرف سے اس کی طرف پیش رفت ہورہی ہے چنانچہ عالمی حالات پر گہری نظررکھنے والے دور اندیش مدبر سیاستدان مولانا فضل الرحمان نے کہا:
’’مسلم ممالک متحد ہو کر اسلامی اقوام متحدہ قائم کریں مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر سازشیں ہورہی ہیں کفریہ قوتوں کو ان کے دائرہ تک محدود کرنے کا وقت آگیا ہے ۔‘‘ اس لیے آج جو قائد اور ملک اس بیداری کے لیے آواز بلند کرے اس کو خوش آمدید اور ویلکم کہنا چاہیے ۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
کل بھی وہی قوم تھی اور آج بھی وہی جو نہیں ہے تو اتحاد نہیں، ایمان نہیں، یقین نہیں