مولانا زاہد الراشدی
کل جمعرات کا دن اسلام آباد میں گزرا، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حسب معمول اسباق سے فارغ ہو کر حافظ شفقت اﷲ کے ہمراہ ظہر سے قبل اسلام آباد پہنچا۔ ان دنوں سودی نظام کے خاتمہ کے حوالہ سے وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی سماعت جاری ہے جس کی پیروی جماعت اسلامی کی طرف سے قیصر امام ایڈووکیٹ اور تنظیم اسلامی کی طرف سے حافظ عاطف وحید کر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے چند علما کرام سے بات کی تھی کہ اس سلسلہ میں کیس کی پیروی کرنے والے حضرات کے ساتھ رابطہ میں رہ کر تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رہنا چاہیے اور ان کے ساتھ معاونت و شرکت کی کوئی صورت نکالنی چاہیے اس لیے کہ ملک بھر کے علما کرام کا بالعموم اور اسلام آباد کے علما کرام کا بالخصوص اس کیس سے لاپروا اور بے تعلق رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر طے ہوا کہ ایک مشترکہ اجلاس کا اہتمام کیا جائے تاکہ باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی ترتیب طے کی جا سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے راقم الحروف کی دعوت پر 16 فروری کو 3بجے دن جامع مسجد عثمان غنی، بلند مارکیٹ، جی ٹین ون، اسلام آباد میں اجلاس منعقد ہوا جس میں اسلام آباد کے سرکردہ علما کرام کے علاوہ کیس کی پیروی کرنے والوں کی طرف سے حافظ عاطف وحید، قیصر امام ایڈووکیٹ، سیف اﷲ گوندل اور پروفیسر محمد یوسف فاروقی شریک ہوئے۔ تفصیلات سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے حوالہ سے جن نکات پر بحث جاری ہے وہ کم و بیش وہی مباحث ہیں جو اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں تفصیل کے ساتھ زیر بحث آچکے ہیں اور جن کے بارے میں دونوں اعلی عدالتیں واضح فیصلہ دے چکی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ مسئلہ عدالتوں کا نہیں بلکہ اصل رکاوٹ حکومت اور بڑے مالیاتی اداروں کی طرف سے ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی اور دینی مسئلہ کو اعلی عدالتوں کے درمیان الجھائی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وقت کسی نہ کسی طرح گزرتا رہے اور سودی نظام کے تسلسل کو جتنا زیادہ ہو سکے جاری رکھا جا سکے۔ سادہ سی بات ہے کہ دستور پاکستان نے حکومت پاکستان کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ ملک کو جلد از جلد سودی نظام سے نجات دلائے لیکن اس کے باوجود حکومت اور اس کی پشت پناہی کے ساتھ بڑے مالیاتی ادارے گزشتہ دو عشروں سے اعلی عدالتوں میں گھما پھرا کر اس مسئلہ کو مسلسل لٹکائے ہوئے ہیں اور اب بھی ان کی حکمت عملی یہی دکھائی دیتی ہے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل بدستور جاری رکھا جائے۔ دینی طبقات کی بے بسی یہ ہے کہ وہ عملی طور پر صرف مطالبات ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو اتنی پارلیمانی قوت ہوتی ہے کہ وہ جمہوری ذرائع سے اپنے مطالبات کو عملی جامہ پہنا سکیں، اور نہ ہی ملک کے دیگر ریاستی اداروں میں ان کی کوئی نمائندگی نظر آتی ہے کہ وہ منظور شدہ قوانین کو حقیقی معنوں میں نافذ کروا سکیں۔ بہرحال حسب صورتحال دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ حکومت سے دوٹوک مطالبہ کریں کہ وہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی دستوری ذمہ داری کو فوری طور پر پورا کرے۔ اس مطالبہ کو موثر بنانے کے لیے دینی حلقوں اور رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ملی مجلس شرعی پاکستان اور اس کے تحت تحریک انسداد سود پاکستان کے فورم پر پہلے سے تھوڑا بہت کام جاری ہے اور ملک میں مختلف مقامات پر دینی راہنماؤں اور جماعتوں کے مشترکہ اجتماعات کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ جبکہ اس کے لیے اسلام آباد کے علما کرام اور سول سوسائٹی کو منظم کرنے کی زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اجلاس میں تحریک انسداد سود رابطہ کمیٹی اسلام آباد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا محمد رمضان علوی کو اس کا کنوینر مقرر کیا گیا جبکہ اس کے دیگر ارکان یہ ہوں گے۔ مولانا تنویر احمد علوی، مولانا خلیق الرحمان چشتی، مولانا ظہور الہی، مولانا ثنا اﷲ غالب، حافظ سید علی محی الدین، مولانا مفتی محمد سیف الدین، مولانا محمد اسحاق صابری اور مولانا عبد القدوس محمدی۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں تمام مکاتب فکر کے علما کرام، تاجر راہنما، وکلا برادری اور دیگر طبقات سے رابطہ کر کے انہیں سودی نظام کی تباہ کاریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس قومی مطالبہ کی حمایت کے لیے منظم و متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ سودی نظام کا خاتمہ حکومت کی شرعی اور دستوری ذمہ داری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سودی قوانین کا تعین اور وضاحت کر کے قابل عمل متبادل نظام تجویز کر چکی ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں غیر سودی مالیاتی نظام کا کامیاب تجربہ جاری ہے۔ اس لیے ملک میں سودی نظام کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی دستوری ذمہ داری کو پورا کرے اور اس کے لیے عملی اقدامات کا اہتمام کرے۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں رابطہ کمیٹی سیاسی و دینی جماعتوں کی اعلی قیادت اور پارلیمنٹ کے سرکردہ ارکان سے ملاقاتیں کر کے ان سے بھی مزید توجہ کی درخواست کرے گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی پیروی کرنے والے حضرات سے مسلسل رابطہ رکھا جائے گا اور ان کے ساتھ اخلاقی و علمی معاونت کا اہتمام کیا جائے گا۔ اجلاس سے فارغ ہو کر اسلام آباد میں سب سے پہلے بننے والی مسجد اولی مسجد میں حاضری ہوئی جہاں نماز مغرب کے بعد مولانا قاری عزیز الرحمان نے حضرت مولانا سلیم اﷲ خان، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی اور حضرت قاری محمد انور کی یاد میں تعزیتی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اسلام آباد کے بہت سے علما کرام مجتمع تھے، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا قاضی مشتاق احمد اور راقم الحروف کے علاوہ دیگر حضرات نے خطاب کیا اور ان بزرگوں کی دینی و ملی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی دینی جدوجہد کا تسلسل جاری رکھنے کا عزم کیا اور ان کے لیے مغفرت و بلندی درجات کی دعا کی گئی۔ تعزیتی نشست سے فارغ ہونے کے بعد ہم فیض آباد کے جنرل بس اسٹینڈ سے گوجرانوالہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’اسلام‘‘ ملتان، 18؍فروری2017)