سید محمد کفیل بخاری
دہشت گردوں نے دو سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر اپنے ناپاک وجود کا احساس دلاتے ہوئے ریاست کو چیلنج کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ چیرنگ کراس لاہور میں ایک احتجاجی جلوس پر خود کش حملے سے دہشت گردی کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت ۱۳؍افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پشاور، مہمندایجنسی اور شب قدر میں عام شہریوں، سیکورٹی فورسز اور ججوں پر چار حملے کیے، جن میں ۴؍ اہل کاروں سمیت ۷؍افراد شہید ہوئے۔ سہون میں شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے نتیجے میں ۱۰۰؍ افراد شہید جبکہ ۵۰۰ زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے ضلع اوران میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت ۳؍اہل کار شہید ہوئے۔ گویا دہشت گردوں نے چاروں صوبوں میں تسلسل کے ساتھ سفاکانہ کارروائیاں کر کے جہاں انسانوں کو بے گناہ قتل کر کے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے وہاں ریاست اور ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
دہشت گردی کی تازہ ہولناک اور خونی لہر، نیشنل ایکشن پلان، سیکورٹی اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ دو سال قبل آ ٹھویں ترمیم کے ذریعے پاک فوج کو آپریشن کے لیے قانونی اختیار دیا گیا جس کے نتیجے میں امن قائم ہوا۔ لیکن جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور آپریشن کی دو سالہ مدت پورے ہونے کے بعد نہایت منظم طریقے سے دہشت گردی کا آغاز یقینا پاکستان کے خلاف کوئی بڑی سازش ہے۔ ستم یہ ہے کہ دہشت گردی کو مذہب اور مسلک کے ساتھ جوڑدیا گیا ہے۔ ایک مخصوص لابی وطن عزیز کے خلاف استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دینی مدارس اور مذہبی طبقات کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دلوانے کے لیے سرگرم ہے۔ جبکہ حقائق یکسر اس کے برعکس ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں اور مسلک نہیں ہوتا۔ دو سال قبل پوری قوم نے نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کی، تمام دینی و سیاسی جماعتیں، ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور اب بھی ساتھ کھڑی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی اصل دشمنوں کو تلاش کر کے تمام ملک دشمن سرگرمیوں کا مکمل قلع قمع کیا جائے۔
ملک کو آئین اور قانون کے تحت چلایا جائے، قانون خاص نہ ہو بلکہ عام ہو، جو بھی ریاست کے خلاف ہو اسے عبرت ناک سزا دی جائے۔
وطن عزیز پاکستان میں 2000ء کی دہائی سے مسلسل آپریشنز ہو رہے ہیں۔
آپریشن المیزان 2002-2006 (فاٹا)
آپریشن راہِ حق نومبر 2007 (سوات)
آپریشن شیر دل ستمبر 2008 (باجوڑ)
آپریشن زلزلہ 2008-2009 (ساؤتھ وزیرستان)
آپریشن صراط مستقیم 2008 (خیبر ایجنسی)
آپریشن راہ راست مئی 2009 (سوات)
آپریشن راہ نجات اکتوبر 2009 (ساؤتھ وزیرستان)
آپریشن کوہ سفید جولائی 2011 (کرّم ایجنسی)
آپریشن ضربِ عضب جون 2014
آپریشن کراچی 2016-2015
لاتعداد کومبنگ آپریشن (پورا پاکستان)
آپریشن ردّالفساد 2017ء (پورا پاکستان)
’’آپریشن ردّالفساد‘‘ ہر اعتبار سے اہم ہے نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں جو کامیابیاں ملیں اور ملک میں امن قائم ہوا، دشمن نے اچانک حملہ کر کے ان کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کرنے کی ذلیل اور گھٹیا حرکت ہے۔ آپریشن ردّالفساد کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ ملک سے فساد، فسادیوں اور ان کے سہولت کاروں اور آماج گاہوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان سے حاصل شدہ کامیابیوں کو بھی بچانا ہے۔
دہشت گر دوں نے ملک کا امن و سکون تباہ کردیا ہے، ریاست کا ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، دہشت گردوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں، وہ اسلام، مسلمانوں اور وطن تینوں کے دشمن ہیں، قوم تو دعا ہی کر سکتی ھے، شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے،ہم ضرب عضب کی طرح ردّالفساد کی بھی مکمل حمایت کرتے ہے، لیکن حکمرانوں سے سوال کا حق رکھتے ہیں کہ دہشت گرد کب ختم ہوں گے؟
آپریشن کب تک ہوتے رہیں گے؟
بے گناہوں کا لہو کب تک بہتا رہے گا؟
امن کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہو گا؟
کیا پاکستانی آپریشن لائف ہی گزارتے رہیں گے؟
قوم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے، حکمران ملک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، وطن کی حفاظت ہر پاکستانی کا عزم اور نصب العین ہے، مجلس احرار اسلام قیام امن کی ہر کوشش کی مکمل حمایت اور تائید کرتی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)