مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اﷲ علیہ
خصوصیات نبوی اور مرزاغلام احمد قادیانی
اوریہ تو صرف اجمالی عقیدہ تھا کہ ’’مرزاغلام احمد قادیانی عین محمد ہیں‘‘ اس لیے انھیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام، کام، مقام ومنصب، شرف ومرتبہ اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت وکمالات نبوت سبھی کچھ حاصل ہیں جو کچھ پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تھا اب ’’بعثت ثانیہ‘‘ کے طفیل وہ سب کچھ مرزا غلام احمدقادیانی کے پاس ہے۔ آئیے! اب یہ دیکھیں کہ مرزا غلام احمدقادیانی اور ان کی جماعت نے بعثت ثانیہ کے پردے میں مرزاغلام احمدقادیانی کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کمالات وخصوصیات کس فیاضی سے عطا کیے ہیں۔
عقیدہ (۱) قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ آیت محمد رسول اﷲ والذین معہ کا مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ مگر قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت مرزا غلام احمد قادیانی اوار ان کی جماعت کی تعریف وتو صیف میں نازل ہوئی۔
(تذکرہ طبع دوم، ص:۹۷)
عقیدہ (۲) قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کا رسول بنا کر بھیجا ہے، مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ ’’چودھویں صدی سے تمام انسانیت کا رسول مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔‘‘ (تذکرہ ، ص:۳۶۰)
مرزا بشیراحمد قادیانی ایم، اے لکھتے ہیں : ’’ان سب لوگوں کا (یعنی انبیاء سابقین کا) کام خصوصیات زمانی اور مکانی کی وجہ سے ایک تنگ دائرہ میں محدود تھا، لیکن مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) چونکہ تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا تھا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اسے ہر گز نبوت کا خلعت نہیں پہنایا جب تک اس نے نبی کریم کی اتباع میں چل کر آپ کے تمام کمالات کو حاصل نہ کرلیا۔‘‘ (کلمۃ الفصل ص:۱۱۴، از مرزا بشیراحمد)
عقیدہ (۳) قرآنی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، اور قادیانی عقیدے کے مطابق اب یہ منصب بروزی طورپر مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:
۱۔ ’’میں باربار بتلاچکا ہوں کہ میں بموجب آیت وآخر ین منھم لما یلحقوابھم بروزی طورپروہی نبی خاتم الانبیاء ہوں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ، خزائن، ص: ۲۱۲، ج:۱۸)
۲۔ ’’پس چونکہ میں اسکا رسول، یعنی فرستادہ ہوں، مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے ، بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیا ء کا نام پا کر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔‘‘
(نزول المسیح ص:۲،خزائن ص:۳۸۰تا ۳۸۱،ج:۱۸)
۳۔ ’’ہلاک ہوگئے وہ جنھوں نے ایک برگزیدہ رسول (مرزا غلام احمد قادیانی) کو قبول نہ کیا، مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نورہوں ، بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑ تاہے، کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘ (کشی نوح ص:۵۶، خزائن،ص:۶۱،ج:۱۹)
عقیدہ (۴) قرآن کریم کے مطابق صاحب کو ثر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، اور قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ آیت انا اعطیناک الکوثر، مرزا غلام احمد قادیانی کے حق میں ہے۔(حقیقۃ الوحی ، ص:۱۰۲،خزائن،ص:۱۰۲،ج:۲۲)
عقیدہ (۵) قرآنی عقیدہ ہے کہ صاحب اسراء رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ صاحب اسراء بھی مرزا غلام احمد قادیانی ہیں کیونکہ آیت ’’سجٰن الذی اسری بعبدہ ‘‘ ان پر نازل ہوئی ہے۔
(تذکرہ ،ص:۸۱،طبع دوم، طبع سوم ، ص:۷۹)
عقیدہ (۶) قرآنی عقیدہ ہے کہ قاب قوسین کا مقام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے، مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ یہ منصب مرزا غلام احمد قادیانی کو حاصل ہے۔ (تذکرہ ،ص: ۱۷۰، طبع دوم، طبع سوم،ص:۳۹۵)
عقیدہ (۷) قرآنی عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ او راس کے فرشتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ ’’خدا عرش پر مرزا غلام احمد قادیانی کی تعریف کرتا ہے اور اس پر درود بھیجتا ہے۔‘‘
(تذکرہ،ص:۶۵۹، اربعین نمبر۲،ص:۳،۱۵،خزائن ۳۴۹،ج:۱۷)
عقیدہ (۸) مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود گرامی باعثِ تخلیق کائنات ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو کائنات وجود میں نہ آتی لیکن قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات صرف مرزاغلام احمد قادیانی کی خاطر پیدا کی گئی ہے، وہ نہ ہوتے تو نہ آسمان وزمین وجود میں آتے نہ کوئی نبی ولی پیدا ہوتا چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا الہام ہے۔ لولاک لماخلقت الافلاک یعنی اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا توآسمان کو پیدانہ کرتا۔
(حقیقۃالوحی ص:۹۹مندرجہ روحانی خزائن ص:۱۰۲،ج:۲۲)
عقیدہ (۹) اسلامی عقیدہ ہے کہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم افضل البشر اور سید الانبیا ء ہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مرتبہ تمام انبیاء کرام سے اعلیٰ وارفع ہے، لیکن قادیانی عقید یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا الہام ہے: ’’آسمان سے کئی تخت اترے، پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایاگیا۔‘‘
(حقیقۃً الوحی،ص:۸۹،خزائن،ص:۹۲،ج:۲۲)
اور اسی بناء پر مرزا غلام احمد قادیانی یہ ترانہ گاتا ہے:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
/من بعرفان نہ کمترم زکسے
7آنچہ داد است ہر نبی را جام
3داد آں جام رامرا بہ تمام
3کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
5ہر کہ گوید دروغ ہست لعین‘‘
K(نزول مسیح ۹۹،۰۰ا،خزائن ۴۷۷،۴۷۸،ج:۱۷)
(ترجمہ: انبیاء اگرچہ بہت ہوئے ہیں مگر میں عرفان میں کسی سے کم نہیں ہوں، جو جام کہ ہر نبی کو دیا گیا ہے، وہ مجھے پورے کا پورا دے دیا گیاہے، میں از روئے یقین ان میں سے کسی سے کم نہیں ہوں، جو شخص جھوٹ کہے وہ لعنتی ہے۔)اور اسی بناء پر مرزا غلام احمد قادیانی کا عقیدہ ہے:
عقیدہ (۱۰ ) اسلامی عقیدہ ہے کہ صاحب مقام محمود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور قادیانیوں کے نزدیک مقام محمود مرزاغلام احمد قادیانی کو عطا ہوا ہے، چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا الہام ہے: اراد اللّٰہ ان یبعثک مقامامحمودا!۔
(حقیقۃ الوحی ،ص:۱۰۲، مندرجہ روحانی خزائن ص:۱۰۵،ج:۲۲)
عقیدہ (۱۱) مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی پیروی کرتے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد از نزول آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کریں گے اور قادیانیوں کے نزدیک اب یہ مرتبہ مرزاغلام احمدقادیانی کو حاصل ہے۔ ’’الفضل‘‘ لکھتا ہے ۔ ’’حضرت مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) کے مرتبہ کی نسبت مولانا (محمداحسن امروہوی قادیانی) لکھتے ہیں کہ پہلے انبیاء اولوالعزم میں بھی اس عظمت شان کا کوئی شخص نہیں گزرا۔ حدیث میں تو ہے کہ اگر موسیٰ وعیسیٰ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع کے بغیر ان کو چارہ نہ ہوتا (حدیث میں حضرت موسیٰ کا نام مذکور ہے حضرت عیسیٰ کا نہیں، کیونکہ وہ تو زندہ ہیں، اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی بھی کریں گے۔ ناقل) مگر میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود کے وقت میں بھی موسیٰ وعیسیٰ ہوتے تو مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) کی ضرور اتباع کرنی پڑتی۔‘‘
(اخبارالفضل ۱۸؍مارچ ۱۹۱۶ء بحوالہ قادیانی مذہب ، ص:۳۲۵)
عقیدہ (۱۲) قرآن کریم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو ’’امت کی مائیں‘‘ فرمایا ہے ، وازواجہ امھاتھم (الاحزاب) لیکن قادیانی مذہب میں یہ لقب مرزا غلام احمدقادیانی کی اہلیہ محترمہ کا ہے۔
عقیدہ (۱۳) مسلمانوں کے نزدیک محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا قرآن معجزہ ہے۔ اور قادیانیوں کے نزدیک مرزا غلام احمدقادیانی کی وحی کے علاوہ ان کی تصنیف اعجاز احمدی ، اعجاز المسیح اور خطبہ الہامیہ بھی معجزہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخصوص کمالات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت نے مرزاغلام احمد قادیانی پر چسپاں نہ کردیا ہو۔ کیوں؟ اس لیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا مظہر ہونے کی وجہ سے اب چودھویں صدی کے محمد رسول اﷲ ہیں۔
عقیدہ (۱۴) یہی وجہ ہے کہ مسلمان تو جب کلمہ لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ پڑھتے ہیں تو ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے ان کی مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہوتی ہے، لیکن قادیانی جب یہی کلمہ پڑھتے ہیں تو ’’محمد رسول اﷲ‘‘ سے صرف بعثت اولیٰ کے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مراد نہیں ہوتے بلکہ دوسری بعثت قادیانی بعثت کے محمد رسول اﷲ یعنی مرزاغلام احمد قادیانی بھی مراد ہوتے ہیں۔ اور یہ الزام نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بعثت ثانیہ کا منطقی نتیجہ ہے۔ چنانچہ مرزابشیر احمد قادیانی ایم،اے لکھتا ہے:
’’علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا او رہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صاروجودی وجودہ ،نیز من فرق بینی وبین المصطفی فما عرفنی ومارای اور یہ اس لیے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا، جیسا کہ آیۃ آخرین منہم سے ظاہر ہے۔
پس مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) خود محمد رسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں ! اگر محمد رسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔‘‘
(کلمۃ الفصل، ص:۱۵۸،از مرزا بشیراحمد)
عقیدہ (۱۵) چونکہ مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قادیان میں دوبارہ آنے کے قائل نہیں اور مرزا غلام احمدقادیانی کو محمد رسول اﷲ تسلیم نہیں کرتے اس لیے قادیانیوں کے نزدیک وہ قادیانی کلمہ کے منکر ہونے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مرزابشیر احمدقادیانی لکھتے ہیں:
’’اب معاملہ صاف ہے ، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے، کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے۔ اور اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو نعوذباﷲ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انکار ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول مسیح موعود آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے، آپ کا انکار کفر نہ ہو۔‘‘
(کلمۃ الفصل ،ص: ۱۴۶،۱۴۷، از مرزا بشیراحمد)
مکی بعثت پر قادیانی بعثت کی فضیلت
گزشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کلمہ قادیانی عقیدہ کے مطابق مرزاغلام احمد قادیانی کی شکل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا دوبارہ ظہور قادیاں ضلع گورداسپور میں ہوا۔ اس لیے مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والوں نے ’’مسیح موعود محمداست وعین محمداست‘‘ کا نعرہ بڑی شدت سے لگایا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام اوصاف وکمالات مرزاغلام احمد قادیانی کی طرف منتقل کردیئے ۔ اس پر جماعت کے اخبارات ورسائل میں بڑے ہنگامہ خیز مضامین شائع ہوتے رہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک مرزاغلام احمد قادیانی کی بعثت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکہ والی بعثت سے افضل ہے کیونکہ اس بعثت میں کچھ مزیدایسے خصوصی کمالات وفضائل بھی پائے جاتے ہیں، جو مکہ والی محمدی بعثت میں نہیں تھے۔ اس سلسلہ میں قادیانیوں کے درج ذیل عقائدملاحظہ کریں:
عقیدہ (۱) تین ہزار اور تین لاکھ کا فرق:
’’تین ہزار معجزات ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے ۔‘‘
(تحفہ گولڑ ویہ ص:۶۳،خزائن،ص:۱۵۳، ج:۱۷)
’’میری تائید میں اس (خدا) نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ اگر میں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی،ص:۶۷،روحانی خزائن،ص:۷۰،ج:۲۲)
عقیدہ (۲) ذہنی ارتقاء:
’’حضرت مسیح موعود (مرزاغلام احمدقادیانی) کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعود کا منکر کافرنہیں تو نعوذباﷲ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا منکر بھی کافر نہیں، کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انکار کفر ہو، مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول مسیح موعود آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انکار کفر نہ ہو (اور پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صاحب شریعت نبی ہوں، اور دوسری میں صاحب شریعت نہ ہوں۔ ناقل)‘‘
(کلمۃ الفصل، ۱۴۶، ۱۴۷ ؍مرزا بشیر احمد)
عقیدہ (۳) آگے سے بڑھ کر:
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
Gاور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
5محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
;غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
a(اخبار بدرجلدنمبر۲ نمبر۴۳ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء)
قاضی اکمل قادیانی، مرزا غلام احمد قادیانی کا پرجوش مرید تھا، اس نے یہ نظم لکھ کر اور قطعہ کی شکل میں فریم کروا کر مرزا غلام احمد قادیانی کی خدمت میں پیش کی، مرزا غلام احمد قادیانی اس پر بے حد خوش ہوا اور اسے بہت ہی دعائیں دیں، بعدازاں اسے گھر لے گئے، غالباً ان کی دیوار کی زینت بنی ہوگی، قادیان کے اخبار بدر میں بھی اس کو شائع کیا گیا۔
عقیدہ (۴) استاد، شاگرد:
’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم معلم ہیں اور مسیح موعود مرزا غلام احمدقادیانی ، ایک شاگرد،خواہ استاذ کے علوم کا وارث پورے طورپر بھی ہو جائے ، یا بعض صورتوں میں بڑھ بھی جائے۔ استاذ بہرحال استاذ رہتا ہے، اور شاگرد شاگرد ہی۔‘‘ (تقریر میاں محمود ، مندرجہ الحکم قادیاں ۲۸؍اپریل ۱۹۱۴ء)
عقیدہ (۵)
قرآن کریم کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ مضمون نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیٹے جیسا کہا ہو لیکن مرزاغلام احمدقادیانی کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا ان سے فرماتا ہے: انت منی بمنز لۃ ولدی انت منی بمنزلۃ اولادی ’’یعنی تو مجھ سے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے، تو مجھ سے بمنزلہ میری اولاد کے ہے۔‘‘
(تذکرہ صفحہ نمبر۴۳۶)
عقیدہ (۶)
قرآن کریم کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ مضمون بھی نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ’’کن فیکون‘‘ کی طاقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہو، لیکن مرزاغلام احمدقادیانی کے بارے میں قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ’’کن فیکون‘‘ کے اختیارات ان کو عطا فرمائے ہیں چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی کا الہام ہے: ’’اے مرزا! تیری شان یہ ہے کہ جب توکسی چیز کا ارادہ کرے تو تو اس سے کہہ دے کہ ہوجا، پس ہوجائے گی۔ (تذکرہ،ص:۵۲۵)
عقیدہ (۷)
مرزا غلام احمد قادیانی کو ان کے الہامات میں اور بھی بہت سی صفات عطا کی گئی ہیں، جو اسلامی لٹریچر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کی گئیں مثلاً:
تومیرا ’’الاعلی‘‘ نام ہے۔ (تذکرہ ص:۳۳۸)
تومیری مراد ہے۔ (تذکرہ ص۸۳)
تومجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ (تذکرہ ص۴۲۶)
تو بمنزلہ میرے بروز کے ہے۔ (تذکرہ ص۵۹۶)
تو بمنزلہ میری توحید و تفرید ہے۔ (تذکرہ ص۳۸۱)
توبمنزلہ میری روح کے ہے۔ (تذکرہ ص۷۴۱)
توبمنزلہ میرے کان کے ہے۔ (تذکرہ ص۷۴۷)
تو مجھ میں سے ہے اور تیرا بھید میرا بھید ہے۔ (تذکرہ ص۲۰۷)
ہم نے تجھ کو دنیا دے دی اور تیرے رب کی رحمت کے خزانے دے دیئے۔ (تذکرہ ص۳۷۶)
دعوت غوروفکر
۱۔ مرزاغلام احمدقادیانی نے اپنے دعووں کی بنیاد ’’فنافی الرسول‘‘ پراٹھائی۔ اس سے ترقی کر کے ’’ ظل وبروز،، کی وادی میں قدم رکھا، ظل وبروز سے آگے بڑھے تو حریم نبوت میں پہنچ گئے اور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کا جواز پیدا کرنے کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا نظریہ ایجاد کیا، یوں رفتہ رفتہ وہ بعینہ ’’محمد رسول اﷲ،، بن گئے، قرآن بھی قادیان کے قریب ہی اترآیا۔ (انا انزلنا قریباً من القادیان، تذکرہ ص:۷۶)او رپھر اس بعثت ثانیہ کے عقیدے سے جو عقائد ابھرے ان کا بہت ہی مختصر ساخاکہ آپ کے سامنے پیش کیا جاچکا ہے، یعنی خاکم بدہن مرزاغلام احمد قادیانی رحمتہ العالمین بھی ہوئے، سیدالرسل بھی ، باعث تخلیق کائنات بھی، مطاع مطلق بھی، مدار نجات بھی اور بالآخر کلمہ طیبہ میں بھی محمدرسول اﷲ سے مرزاغلام احمدقادیانی مرادلیا گیا ۔
ادھر مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی بعثت کو روحانیت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے اقوی اور اکمل او راشد بتایا، اپنے معجزات، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات سے سوگناہ زیادہ بیان کیے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور کو ہلال اور اپنے دور کو بدر کامل ٹھہرایا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور کو ترقیات کی ابتداء اور اپنے دور کو ترقیات روحانی کی انتہا قراردیا، ان کے مرید ان کے سامنے یہ ترانہ گاتے رہے۔
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
?اور آگے سے بڑھ کر اپنی شاں میں
ور مرزاغلام احمدقادیانی نے اس جیسے نعروں کی بھی تحسین اور حوصلہ افزائی فرمائی، جس کے نتیجے میں مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت کے بلند افراد نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، اورآگے بڑھ کرمرزاغلام احمد قادیانی کے ہاتھ پرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیعت ہی کرادی۔
یہ تمام تفصیل…… نہایت اختصار کے ساتھ آپ گزشتہ سطور میں پڑھ چکے ہیں اور مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت نے ایک صدی میں ان عقائد پر جو دفتر تصنیف کیے ہیں یہ چند عقائد اس سمندر کا ایک قطرہ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان سطور کو پڑھ کر ہمارے وہ بھائی جو جناب مرزاغلام احمد قادیانی کے رشتہ عقیدت میں منسلک ہیں، ان سے کیا تاثر لیں گے؟ لیکن میں ان کو صرف ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دوں گا کہ کیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر مرزاغلام احمدقادیانی کی آمد سے پہلے تک تیرہ صدیوں کے مسلمانوں کے یہی عقائد تھے جو مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کے اکابر کے حوالے سے میں اوپر درج کرچکاہوں۔ بہت موٹی سی بات ہے جس کے سمجھنے کے لیے دقیق فہم و فکر کی ضرورت نہیں کہ کیا ابوبکر وعمر وعثمان وعلی (رضوان اﷲ علیہم) بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دوبارہ قادیاں میں مبعوث ہوں گے؟ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ میں سے کسی سے یہ عقیدہ منقول ہے؟ کیا تابعین اور ائمہ دین میں سے کوئی اس کا قائل تھا؟ جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں خود مرزاغلام احمدقادیانی کی جماعت کے ترجمان ’’الفضل‘‘ کا اقرارہے کہ’’مرزاغلام احمدقادیانی سے پہلے کسی مسلمان نے یہ نظریہ کبھی پیش نہیں کیا۔،، اور واقعہ بھی یہی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی سے پہلے کوئی صحابی، تابعی، کوئی امام مجدد اس عقیدہ سے آشنا نہیں تھا۔ اور پھر اس عقیدے سے جو عقائد پیدا ہوئے ان کے بارے میں بھی آپ سن چکے ہیں کہ امت میں کوئی شخص ان کا قائل نہیں تھا۔
ہمارے بھائی اگر صرف اسی سوال پر عقل وانصاف سے غور کریں توا نھیں یہ احساس ہوگا کہ مرزاغلام احمد قادیانی ان عقائد کو اپنا کر ’’سبیل المومنین‘‘ پر قائم نہیں ہے ادھر قرآن کریم کا اعلان ہے کہ ’’جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور سبیل المومنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چل نکلے تو دنیا میں وہ جو کچھ کرتا ہے ہم اسے کرنے دیں گے، اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ ،، اس لیے مرزاغلام احمد قادیانی کے تمام عقیدت مندوں سے گزارش کروں گا کہ اگر انھوں نے واقعی اﷲ ورسول کی رضامندی کی خاطر مرزاغلام احمد قادیانی کا دامن پکڑا ہے جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو مرزاغلام احمدقادیانی کے عقائد ونظریات معلوم ہوجانے کے بعدان پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ انھوں نے اﷲ ورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضامندی کے لیے جوراستہ اختیار کیا ہے۔ وہ کعبہ کو نہیں بلکہ کسی اور ہی طرف کو جاتا ہے وہ ’’سبیل المومنین‘‘ (اہل ایمان کا راستہ) نہیں ، بلکہ یہ اہل ایمان کے راستے سے الٹی سمت کو جاتا ہے۔
2 ۔ دوسری بات جس پر ہمارے بھائیوں کو غور کرناچاہیے یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ عقیدہ کہ وہ عین محمد ہیں۔ عقل و دانش کی میزان میں کیا وزن رکھتا ہے؟
اگر مرزا غلام احمد قادیانی عین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے تو سوال ہوگا کہ:
۱۔ مرزا غلام مرتضیٰ کے نطفہ سے کون پید ا ہوگا؟
۲۔ چراغ بی بی کے پیٹ میں کون تھا؟
۳۔ جنت بی بی کس کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی؟
۴۔ بچپن میں چڑیوں کاشکار کون کرتا تھا؟
۵۔ گل علیشاہ (شیعہ) کی شاگردی کس نے کی تھی؟
۶۔ سیالکوٹ کچہری میں عیسائی گورنمنٹ کانوکر کون تھا؟
۷۔ عیسائی عدالتوں میں ’’مرجاہاجر‘‘ (یعنی مرزا حاضر!) کی آوازیں کس کو دی جاتی تھیں؟
۸۔ عیسائی قانون کی تیاری کس نے کی، اور اس میں فیل کون ہوا؟
۹۔ محترمہ حرمت بی بی کو طلاق کس نے دی؟
۱۰۔ مرزا سلطان احمداور فضل احمد کو عاق کس نے کیا؟
۱۱۔ محمدی بیگم کا اسیرزلف کون ہوا؟
۱۲۔ اس سے نکاح کی پیشنگوئی کس نے کی؟
۱۳۔ اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کا معیار کس نے ٹھہرایا؟
۱۴۔ اور پھر اس سے وصل میں ناکام کون مرا؟
۱۵۔ نصرت جہاں بیگم کا شوہر کون تھا؟
۱۶۔ مرزامحمود احمد، مرزابشیراحمد کا باپ کون تھا؟
اور دوسری طرف اگر مرزااور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ایک ہی ذات کے دو نام ہیں تو
۱۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کا داماد کون تھا؟
۲۔ حضرت عائشہ ؓ وحفصہؓ کا شوہر کون تھا؟
۳۔ حضرت عثمان اور علی رضی اﷲ عنہم کس کے داماد تھے؟
۴۔ حضرت فاطمہ ،زینب، رقیہ اور ام کلثوم رضی اﷲ عنہما کس کی صاحبزادیاں تھیں؟
۵۔ حسن وحسین رضی اﷲ عنہم کس کے نواسے تھے؟
۶۔ بدروحنین کے معرکے کس نے سرکیے؟
۷۔ شب معراج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام کون تھا؟
۸۔ قیصر وکسریٰ کی گردنیں کس کے غلاموں کے سامنے جھکیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
کیا پہلے سوالوں کے جواب میں ’’محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اور دوسرے سوالوں کے جواب میں مرزاغلام احمدقادیانی کا نام لے سکتے ہو؟ ’’محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں، اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں،، کے ترانے گانے والے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو! خدا کے لیے ذراسوچو کہ تم نے ’’محمد رسول اﷲ ‘‘ کو قادیاں میں د وبارہ اتار کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کیا انصاف کیا؟ اﷲ نے عقل وفہم تمہیں بھی عطا فرمائی ہے مرزاغلام احمدقادیانی کے دعوے میں محمد ہونے کو عقل وخرو کے ترازو میں تو لو اور دیکھو! تم نے کس کا تاج کس کے سر پر رکھ دیا ہے؟ کس کی دولت کس کے حوالے کردی ہے، آخر مکہ مکرمہ کے ’’محمد رسول اﷲ‘‘ میں معاذ اﷲ تمہیں کیا نقص نظریا آیا تھا کہ تم نے ان سے بڑھ کر شان والا ’’محمد رسول اﷲ‘‘ قادیان میں اتارلیا؟