محمد سلمان قریشی
پڑھا جو قرآں ورق ورق تھا نبیؐ کے اصحابؓ کا حوالہ حدیث میں بھی یہی لکھا تھا کہ بعدِ آقاؐ وہی ہیں بالا
دِلوں میں ایمان کو سجا کے فْسوق و عِصیان سے بچا کے خْدا نے اصحابؓ کو عطا کی ہدایتوں کی حسین مالا
نبیء اکرمؐ پہ جانثاری کا تھا یہ عالم کہ اپنے تن پر نہ تیغ دیکھی نہ تیر دیکھا نہ دیکھا خنجر نہ دیکھا بھالا
سہی اذیت سُنی ملامت مگر نہ دامن نبیؐ کا چھوڑا وفا میں ثابت قدم تھے ایسے کہ ہر صحابیؓ ہی تھا نرالا
خُدا کے دینِ مُبیں کی ترویج کو ہیں پہنچے وہ مُلکوں مُلکوں اُنہیؓ کے دم سے زمانے بھر میں ہوا ہے ایمان کا اُجالا
اُٹھا کے توحید کے علم کو بڑھے عرب سے ہیں وہ عجم تک نہ دیکھے صحرا نہ دیکھے دریا نہ کوہ دیکھے بلند و بالا
وجُودِ اسلام کو سنورا بنا کے جِسم و لہو کو گارا اُنہیؓ کی قربانیوں سے دیں کا ہوا ہے عالم میں بول بالا
ملی جو رب سے سند رضا کی تو اس پہ ہے کُفر کا یہ عالم وہ کسمسائیں وہ غیض کھائیں مقام دیکھیں جو اُن کا اعلٰی
نبیؐ کے اصحابؓ کی عداوت میں اُن کے غیض و غضب کو یارو نہ پہنچے اژدر نہ پہنچے عقرب نہ پہنچے ناگن نہ پہنچے کالا
وہ ہوں ابوبکرؓ یا عمرؓ ہوں غنیؓ، علیؓ یا مُعاویہؓ ہوں میرے نبی کے چمن کا ہر گُل ہے رشکِ سُنبل و رشکِ لالہ
رُخِ نبیؐ پر گرے جو آنسو کہ جیسے شبنم گلاب پر ہو اُنہیؓ کے دم سے ہے آج ہر سُو حقیقتوں کا نیا اجالا
تھی اُن کی ہیبت ہی سب پہ ایسے کہ خوف کھاتے تھے سارے کافر شکست کھائی ہے دشمنوں نے عمرؓ سے جب جب پڑا ہے پالا
نبیؐ نے دیں بیٹیاں غنیؓ کو خوشی سے کلثومؓ اور رقیہؓ غنیؓ کو اﷲ نے عطا کی ہر ایک عظمت کہ جو تھی اعلیٰ
ہے قولِ آقاؐ برا نہ کہنا کبھی بھی سُسرالیوں کو میرے بُرا کہے جو مُعاویہؓ کو ہے وجہِ تکلیف شاہِ والا
مُعاویہؓ کے عناد میں جو بھی رطب و یابس کہے وہ سُن لے مُعاویہ کو بنایا آقا ؐنے کاتبِ وحیٔ حق تعالیٰ
نبیؐ کے یاروں کے دُشمنوں کو خُدا کے قُرآن ہی سے سمجھو کہ ان کے بارے میں خُوش گُمانی نہیں ہے اچھی جنابِ والا
جو اُمتی ماؤں کا نہیں ہے وفا کی اُن سے توقع کیسی ڈسے گا اک دن یہ آپ کو بھی جو آستیں کا ہے سانپ پالا
رسُولِ برحقؐ کے ہر صحابیؓ کی پیروی ہے ہمیشہ لازم یہی ہے سلمانؔ راہِ جنت کہ راہِ بِدعت تو ہے ضلالہ
ء ء ء