اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ قسط:۱۰
حافظ عبیداﷲ
تمنائی تحقیق کی حقیقت
قارئین محترم! یہ تھے تمنا عمادی صاحب کے وہ مفروضے جن کی بنیاد پر انہوں نے بزعم خود صحیح بخاری کی اس روایت کو ’’جھوٹی اور موضوع‘‘ ثابت کیا ہے، آئیے اس تمنائی تحقیق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
جہاں تک منکرینِ حدیث کے اِن ’’محدث العصر‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ صحیح بخاری میں ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کا ’’کتاب بدء الخلق‘‘ میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ باب بعدمیں کسی نے صحیح بخاری میں ’’ٹھونس‘‘ دیا ہے، تو عرض ہے کہ اُس صحیح بخاری میں جو امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ کی تصنیف ہے اور جو امام بخاری سے نسل در نسل منتقل ہوتی آرہی ہے یہ باب ’’کتاب بدء الخلق‘‘ میں ہرگز نہیں ، بلکہ ’’کتاب أحادیث الأنبیاء‘‘ میں ہے، لہٰذا اور کسی نے نہیں بلکہ خود تمنا عمادی صاحب نے شوقِ انکارِ حدیث میں اسے ’’کتاب بدء الخلق‘‘ میں ٹھونس دیا ہے ، صحیح بخاری کوئی نایاب کتاب نہیں عام دستیاب ہے قار ئین خود دیکھ لیں، سچ ہے:
میں الزام اُن کو دیتا تھا، قصور اپنا نکل آیا
عمادی صاحب نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنے جس استاد سے یہ حدیث روایت کی ہے اُن کا نام صرف ’’اسحاق‘‘ ذکر کیا ہے، لہٰذا یہ معلوم نہیں کہ یہ کون سے اسحاق ہیں؟کیونکہ امام بخاری تو پندرہ اسحاق سے روایت کرتے ہیں ۔ پھر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ چونکہ یہ اسحاق مجروح ہوں گے اس لئے اما م بخاری ؒ نے یہاں یہ وضاحت نہیں کی کہ اس اسحاق سے کون مراد ہیں تاکہ روایت ناقابل اعتبار نہ ہوجائے، اور اگر جان بوجھ کر کسی قابل اعتماد ’’اسحاق‘‘ کی شخصیت متعین کردیتے تو یہ جھوٹ ہوجاتا ، یہ خیال کرکے امام بخاری نے نہیں بلکہ ان کی کتاب میں ایسی حدیثوں کے داخل کردینے والوں نے صرف اسحاق لکھ کر راوی کی شخصیت کو مبہم چھوڑ دیا تاکہ بعد والے حسن ظن سے کام لے کر ثقہ اسحاق کو ہی خود متعین کرلیں۔
تو عرض ہے کہ پہلی بات یہ کہ خود عمادی صاحب اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں، کبھی امام بخاری ؒ پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر ’’اسحاق‘‘ مبہم چھوڑ دیا، پھر ایک دم قلابازی کھاکر کہتے ہیں کہ امام بخاری نے نہیں بلکہ اُن لوگوں نے مبہم چھوڑ دیا جنہوں نے یہ حدیث بعد میں صحیح بخاری میں داخل کی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام جھوٹی حدیث گھڑنے والوں نے ہی کیا ہے تو اُنہیں کس بات کا خوف تھا کہ وہ یہاں کسی ثقہ اور قابل اعتماد ’’اسحاق‘‘ کی وضاحت کردیتے؟ ۔ جو لوگ (تمنائی تحقیق کے مطابق) ایک جھوٹی حدیث بنا کر نبی کریم e کی طرف منسوب کرسکتے ہیں انہوں نے ’’اسحاق‘‘ مبہم کیوں رہنے دیا؟ ۔
عمادی صاحب نے یہ لکھ کر کہ ’’امام بخاری تو پندرہ اسحاق نامی لوگوں سے روایت کرتے ہیں‘‘ یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ پندرہ وہ ہیں جن سے امام بخاری بلاواسطہ روایت کرتے ہیں جیسے ہماری زیرِ بحث روایت میں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء رجال نے صحیح بخاری کی احادیث کی سندوں میں آنے والے تمام ’’اسحاق‘‘ نامی راویوں کی تعداد جو بتائی ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام بخاری ان سب سے بلاواسطہ روایت کرتے ہیں، ابو نصر احمد بن محمد الکلاباذیؒ (متوفی 398ھ) نے صحیح بخاری کی سندوں میں کہیں بھی آنے والے ’’اسحاق‘‘ نامی راویوں کی تعداد سترہ گنوائی ہے جن میں سے صرف پانچ اسحاق بن ابراہیم ہیں (الہدایۃ والارشاد فی معرفۃ أہل الثقۃ والسداد۔ المعروف بہ رجال صحیح البخاری، ج1 ص71 تا 80، دار المعرفۃ بیروت)
بہرحال یہ تو تھی ان کی تحقیق جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ ’’باب نزول عیسیٰ ابن مریم‘‘ صحیح بخاری کی کس کتاب میں ہے، اب آئیے اُن ائمہ حدیث کی تحقیق دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں علم حدیث کی خدمت میں گزاردیں، شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (متوفی852ھ) اسی حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
’’قولہ حدّثنا اِسحاق ہُو بن ابراہیم المعروف باِبن رَاہویہ واِنما جزمتُ بذلک مع تجویز أبي علي الجیّاني أن یکون ہو أو اِسحاق بن منصور لتعبیرہ بقولہ أخبرنا یعقوب بن ابراہیم لأن ہذہ العبارۃ یعتمدہا اِسحاق بن راہویہ کما عُرف بالاستقراء من عادتہ أنہ لا یقول الّا أخبرنا ولا یقول حدّثنا وقد أخرج أبو نُعیم فی المُستخرج ہذا الحدیث من مُسند اسحاق بن راہویہ وقال أخرجہ البخاري عن اسحاق‘‘ امام بخاری نے جو ’’حدّثنا اسحاق‘‘ کہا ہے اس سے مراد اسحاق بن ابراہیم ہیں جو ابن راہویہ کے ساتھ مشہور ہیں، اگرچہ ابو علی جیّانی کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اسحاق بن راہویہ بھی ہوسکتے ہیں اور اسحاق بن منصور بھی، لیکن میں (یعنی حافظ ابن حجر) اس سے مراد اسحاق بن راہویہ اس لئے لے رہا ہوں کہ یہاں اسحاق لفظ ’’أخبرنا یعقوب بن ابراہیم‘‘ کے ساتھ روایت کررہے ہیں، اور لفظ ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کرنا اسحاق بن راہویہ کی عادت ہے ، ان کی عادت ہے کہ وہ ’’حدّثنا‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’أخبرنا‘‘ کہتے ہیں ، نیز محدث ابوعوانہ نے بھی اپنی مستخرج میں اس حدیث کی مُسند اسحاق بن راہویہ سے تخریج کی ہے اور کہا ہے کہ بخاری نے بھی اسحاق سے یہ روایت ذکر کی ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر العسقلاني، ج6 ص491۔ المکتبۃ السلفیۃ)
صحیح بخاری کے ایک دوسرے شارح علامہ احمد بن محمد القسطلانی ؒ (متوفی 923ھ) اسی حدیث کے راویوں کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
’’(حدّثنا اسحاق) بن راہویہ قال: (أخبرنا یعقوب بن ابراہیم) الزہري قال: (حدّثنا أبي) ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف(عن صالح) ہو ابن کیسان‘‘ یعنی اس روایت میں اسحاق سے مراد ابن راہویہ ہیں، یعقوب بن ابراہیم کے والد سے مراد ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف ہیں، اور صالح سے مراد ابن کیسان ہیں۔
(ارشاد الساري، ج5 ص418۔ المطبعۃ الکبری الأمیریۃ مصر)
قارئین محترم! صحیح بخاری میں 50 کے قریب ایسی احادیث میں جن میں امام بخاری اپنے استاد کا نام صرف ’’اسحاق‘‘ ذکر کرتے ہیں اور اسحاق اپنے استاد سے لفظ ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کرتے ہیں ، ان میں سے ہماری زیر بحث روایت کے علاوہ 6 کے قریب ایسی روایات ہیں جن میں اسحاق لفظ ’’اخبرنا‘‘ کے ساتھ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ سے روایت کرتے ہیں ، 5 کے قریب احادیث ایسی ہیں جہاں امام بخاری اپنے استاد کا نام صرف ’’اسحاق‘‘ ذکر کرتے ہیں اور اسحاق لفظ ’’حدّثنا‘‘ کے ساتھ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ سے روایت کرتے ہیں، ایک حدیث ایسی بھی ہے جس میں امام بخاری نے اپنے استاد کا نام ’’اسحاق بن ابراہیم‘‘ ذکر کیا ہے اور وہ ’’اخبرنا‘‘ کے لفظ کے ساتھ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ سے روایت کررہے ہیں، اور ایک حدیث میں امام بخاری اپنے استاد کا نام ’’ابراہیم بن منصور‘‘ ذکر کرتے ہیں جو لفظ ’’اخبرنا‘‘ کے ساتھ ’’یعقوب بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ یہ کہتے ہیں کہ ابو علی الجیّانی نے یہاں اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور دونوں میں سے کسی ایک کے ہونے کا احتمال ظاہر کیا ہے لیکن میرے خیال میں یہاں ’’اسحاق‘‘ سے مراد اسحاق بن راہویہ ہیں کیونکہ اسحاق بن راہویہ کی عادت ہے کہ وہ ’’حدثنا‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’أخبرنا‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن تمنا عمادی صاحب کا کہنا ہے کہ حافظ ابن حجر کا یہ استقراء غلط ہے، اور پھر انہوں نے ایک مثال یہ دی ہے کہ اسحاق بن راہویہ عام محدثین کی طرح ’’عن‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد انہوں نے ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ اسحاق ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کررہے ہیں لیکن شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ’’اسحاق بن منصور‘‘ ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے یہ کہاں فرمایا ہے کہ اسحاق بن راہویہ ’’عن‘‘ کے ساتھ کبھی بھی روایت نہیں کرتے؟ بلکہ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ وہ ’’حدثنا‘‘ کے بجائے ’’أخبرنا‘‘ کہتے ہیں، نیز اگر کہیں اسحاق لفظ ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کررہے ہوں اور کسی خارجی قرینہ سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہاں ’’اسحاق بن راہویہ‘‘ مراد نہیں بلکہ کوئی اور اسحاق مراد ہیں توحافظ ابن حجر نے یہ نہیں لکھا کہ وہاں بھی ضرور اسحاق بن راہویہ ہی مراد لیے جائیں گے ۔
پھر عمادی صاحب نے آگے ایک اور مثال پیش کی ہے کہ ’’ باب ما یُستر من العورۃ‘‘ (حدیث نمبر 369) میں امام بخاری نے صرف ’’اسحاق‘‘ سے روایت کی ہے جو لفظ ’’حدّثنا‘‘ کے ساتھ یعقوب بن ابراہیم سے روایت کررہے ہیں لیکن حافظ ابن حجر نے وہاں ابن راہویہ ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا ہے (جبکہ ان کا استقراء کہتا ہے کہ اسحاق بن راہویہ لفظ حدثنا نہیں استعمال کرتے)۔ تو عرض ہے کہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے ذیل میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے:
’’قولہ : حدّثنا اسحاق کذا للأکثر غیر منسوب، ورَدّدَہ الحفاظ بین ابن منصور وبین ابن راہویہ، ووقع فی نسختی من طریق ابي ذر اسحاق بن ابراہیم فتعیّن أنہ ابن راہویہ ‘‘ (صحیح بخاری کے) اکثر نسخوں میں یہاں صرف ’’اسحاق‘‘ بغیر کسی نسبت کے ہے اس لئے حفاظ حدیث نے ابن منصور اور ابن راہویہ دونوں میں سے کسی ایک کے ہونے کا احتمال ظاہر کیا ہے، لیکن میرے پاس جو ابوذر کے طریق سے نسخہ ہے اس میں ’’اسحاق بن ابراہیم‘‘ ہے لہٰذا یہ بات متعین ہوگئی کہ یہاں بھی مراد ابن راہویہ ہی ہیں ۔
(فتح الباری، ج1 ص478)
لیجیے ! حافظ ابن حجر ؒ تو متعین کررہے ہیں کہ یہاں مراد ابن راہویہ ہی ہیں۔ یادر ہے کہ کسی راوی کی تعیین ائمہ حدیث صرف اٹکل بچو سے نہیں کرتے جیسا کہ عمادی صاحب کا خیال ہے بلکہ قرائن وشواہد کی بنیاد پر کرتے ہیں،حافظ ابن حجر کا استقراء اپنی جگہ بالکل درست ہے، اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہماری زیر بحث حدیث میں اسحاق بن راہویہ ہوں یا اسحاق بن منصور کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں ثقہ اور حجت ہیں، چنانچہ امام ذہبیؒ اسحاق بن منصور کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ:
’’قلتُ: قد یُروِي عنہ البخاريُّ، فیقول: حَدّثنا اِسحاقُ ، لم یُنسبہ ، فَیشتبِہ باِبن راہویہ، فَلَنا قرائن تُرَجِّح أحدہما، وبِکُلِّ تقدیرٍ، فَلا یُضُرُّ ذلک ، فَکُلٌّ منہما حُجَّۃٌ‘‘ میں (ذہبی) کہتا ہوں کہ ان (اسحاق بن منصور) سے امام بخاری صرف حدّثنا اِسحاق کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں ، توشبہ ہوتا ہے کہ یہاں اسحاق بن منصور مراد ہیں یا اسحاق بن راہویہ، پس ہم قرائن کے ساتھ ترجیح دیتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کہاں کون مراد ہے، لیکن یہ چیز کسی طرح بھی نقصان دہ نہیں کیونکہ یہ دونوں حجت ہیں ۔
(سیر اعلام النبلاء، ج12 ص260 ، مؤسسۃ الرسالۃ ۔بیروت)
تمنا عمادی صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں اسحاق بن راہویہ مراد لیے جائیں یا اسحاق بن منصور، اُن کا مقصد کسی طرح بھی حاصل نہیں ہوتا اس لئے انہوں نے یہ تمنا ئی تحقیق پیش کی کہ یہاں نہ اسحاق بن راہویہ مراد ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اسحاق بن منصور، وہ اس لئے کہ :
’’ اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور دونوں خراسان کے ایک قصبے ’’مرو‘‘ کے رہنے والے تھے جو کہ نیشاپور کے قریب واقع ہے اور یہ دونوں اواخر عمر میں نیشاپور آکر بس گئے تھے ، نیشاپور وضّاعین (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں) کا بڑا مرکز تھا، اس لئے اکثر محدثین وہاں کھنچے چلے آتے تھے، یہ دونوں بھی وہاں کھنچ گئے اور وہیں رہے، جبکہ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ خالص مدنی ‘‘ ہیں ، اِن سے حدیثیں لینے کا موقع ان خراسانیوں (یعنی اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور) کو کب اور کہاں ملا؟ یعقوب بن ابراہیم کا مرو یا نیشاپور جانا ثابت نہیں ، اور ابن راہویہ یا ابن منصور اگر مدینہ آئے تھے تو کس زمانے میں آئے تھے؟۔ اگر یہ دونوں مدینہ آئے تھے تو صرف یعقوب بن ابراہیم ہی سے حدیثیں کیوں لیتے اس وقت مدینہ میں اور بھی اکابر محدثین موجود تھے ، اُن سے احادیث کیوں نہ لیں؟‘‘ ۔
محترم قارئین! آپ پہلے یعقوب بن ابراہیم کے تعارف میں پڑھ آئے ہیں کہ آپ اگرچہ مدنی ہیں (امام ابن شہاب زہری کی طرح) لیکن آپ بغداد (عراق) آگئے تھے اور آپ کی وفات بھی وہیں ہوئی،اور آگے آپ اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور دونوں کے تعارف میں پڑھیں گے کہ ان کا بغداد آنا کتب رجال میں لکھا ہے، بلکہ اسحاق بن راہویہ کا حجاز، یمن اور شام جانا بھی ثابت ہے ، اس لئے نہ ہی ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ ابن راہویہ اور ابن منصور مدینہ کب گئے ،اور نہ ہی اس بات کا ثبوت پیش کرنا ہم پر لازم ہے کہ یعقوب بن ابراہیم نیشاپور کب گئے کیونکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں اس شرط کا التزام کیا ہے کہ ان کے نزدیک راوی اور مروی عنہ دونوں کا صرف ہم عصر و ہم زمانہ ہونا کافی نہیں بلکہ ان کی ملاقات کا ثابت ہونا بھی ضروری ہے، لہٰذا امام بخاری کے نزدیک ان کی ملاقات ثابت ہے۔ ہاں اگر عمادی صاحب یہ ثابت کردیتے کہ یعقوب بن ابراہیم پوری زندگی مدینہ سے باہر نہیں نکلے اور ابن راہویہ و ابن منصور پوری زندگی مرو اور نیشاپور سے باہر نہیں گئے تو پھر عمادی صاحب کے اس خیالی گھوڑے میں جان پڑسکتی تھی ۔
پھر عمادی صاحب نے اپنی حدیث دشمنی کی عادت سے مجبور ہوکر یہ فقرہ بھی کسا ہے کہ ’’یہ دونوں اواخر عمر میں نیشاپور آکر بس گئے تھے ، نیشاپور وضّاعین (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں) کا بڑا مرکز تھا، اس لئے اکثر محدثین وہاں کھنچے چلے آتے تھے‘‘ جس سے وہ یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ اکثر محدثین جھوٹی حدیثیں جمع کرنے نیشاپور آتے تھے ، اس کے جواب میں ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ :
خِرد کا نام جنوں رکھ دیا ، جنوں کا خِرد
Cجوچاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
( اس کے بعد تمنا عمادی صاحب نے اپنا ’’اٹکل پچو‘‘ لگایا ہے جس کی کوئی دلیل یا بنیاد نہیں اور سوائے ایک مفروضے کے اس کی کچھ حیثیت نہیں، لکھتے ہیں کہ :
’’ یہ اسحاق جن سے امام بخاری روایت کرتے ہیں ،وہ نہ اسحاق بن راہویہ ہیں اور نہ اسحاق بن منصور، بلکہ وہ اسحاق بن محمد بن اسماعیل بن فروہ المدنی الاموی مولی عثمان ہیں، یہ بھی مدنی ہیں اور یعقوب بن ابراہیم بھی مدنی ہیں ، اس لئے یعقوب بن ابراہیم سے روایت کرنے والے یہی اسحاق بن محمد ہو سکتے ہیں، ان سے امام بخاری کی روایت حدیث بہت مشہور ہے ، لیکن یہ بہت مجروح ہیں ، امام بخاری کے زمانے ہی میں ان سے حدیثیں روایت کرنے پر ان کے شیوخ اور ہم عصروں نے زجر وتوبیخ شروع کردی تھی، اسی لئے امام بخاری نے بعد کو احتیاط شروع کردی اور جب ا ن کی کوئی حدیث لکھنے لگے تو صرف ’’حدثنا اسحاق‘‘ لکھ کر چھوڑ دیا اور ولدیت وسکونت کی نسبت کا اظہار ہی نہ کیاتاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کون سے اسحاق ہیں‘‘۔
قارئین محترم! عمادی صاحب نے اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور کے یعقوب بن ابراہیم مدنی سے روایت پر شک کا اظہار یوں کیا تھا کہ بتایا جائے یہ دونوں مدینہ کب گئے یا یعقوب بن ابراہیم نیشاپور کب آئے؟ ہم وہی سوال عمادی صاحب پر لوٹاتے ہیں کہ بخاریٰ کے رہنے والے امام بخاری نے یہ حدیث ’’اسحاق بن محمد فروی مدنی‘‘ سے کہاں سنی؟ مدینہ میں یا بخاریٰ میں؟ عمادی صاحب کی منطق تو یہاں بھی یہی کہتی ہے کہ امام بخاری کا ایک مدنی سے حدیث سننا مشکوک ہے۔
اب آئیے تحقیقی جواب کی طرف، عمادی صاحب نے جن ’’اسحاق بن محمد بن اسماعیل ابویعقوب الفروی المدنی‘‘ کا ذکر کیا ہے اُن سے پوری صحیح بخاری میں امام بخاری نے صرف تین روایات لی ہیں اور تینوں جگہ ان کا نام ’’اسحاق بن محمد الفروی‘‘ وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں ان احادیث کی تصریح کی ہے ، وہ تین حدیثیں یہ ہیں :
(1)…… حدیث نمبر 2693 کتاب الصلح ۔
(2)…… حدیث نمبر 2925 کتاب الجہاد۔
(3)…… حدیث نمبر 3094 کتاب فرض الخمس۔
ان تین میں سے بھی پہلی روایت میں ان کے ساتھ ایک اور راوی ’’عبدالعزیز بن عبداللّٰہ الأویسی‘‘ مقرون ہیں یعنی امام بخاری نے فرمایا ہے کہ مجھ سے عبدالعزیز الأویسی اور اسحاق بن محمد الفروی دونوں نے بیان کیا ، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا…… الخ۔ باقی دونوں روایتوں میں ’’اسحاق بن محمد الفروی‘‘ امام مالک سے روایت کررہے ہیں ۔
(دیکھیں: صحیح البخاری اور ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری، ج1 ص389، المکتبۃ السلفیۃ)
اگر عمادی صاحب نے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ یہ بات نہ کرتے کہ:
’’چونکہ یہ مجروح راوی ہیں اس لئے امام بخاری جب ا ن کی کوئی حدیث لکھنے لگے تو صرف ’’حدثنا اسحاق‘‘ لکھ کر چھوڑ دیا اور ولدیت وسکونت کی نسبت کا اظہار ہی نہ کیاتاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کون سے اسحاق ہیں‘‘۔
افسوس کہ جیسے عمادی صاحب کو یہ معلوم نہ ہوا کہ ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ صحیح بخاری کی کس کتاب میں ہے ، اسی طرح انہیں یہ بھی نظر نہ آیا کہ امام بخاری نے جہاں بھی ان اسحاق سے روایت لی ہے وہاں ان کا پورا نام ’’اسحاق بن محمد الفروی‘‘ ذکر کیا ہے ، صرف ’’اسحاق‘‘ نہیں لکھا۔
اب رہی عمادی صاحب کی یہ بات کہ یہ اسحاق بن محمد الفروی ’’بہت مجروح‘‘ ہیں تو آئیے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں ، امام ذہبیؒ نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے:
’’الامام المُحدِّث العالِم، ابویعقوب ، اِسحاق بن مُحمد بن اسماعیل ابن عبداللّٰہ بن أبي فَروۃ الأموی مولاہم الفروي المدني ‘‘ امام، محدث اور عالم ابویعقوب اسحاق بن محمد بن اسماعیل بن عبداﷲ بن ابی فروہ اموی، فروی ، مدنی۔
ابوحاتم نے کہا ہے کہ : ’’صَدوقٌ ، ولکن ذہب بصَرُہ ، فرُبّما لُقِّن، وکُتُبہ صحیحۃ‘‘ سچے ہیں، لیکن آپ کی بینائی چلی گئی تھی،جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ تلقین بھی لیتے ہوں لیکن ان کی کتابیں صحیح ہیں۔ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابوداود نے انہیں واہی کہا ہے جس کی وجہ ان کی ایک حدیث ہے، اور دار قطنی نے کہاہے کہ ’’ وہ ضعیف ہیں، اور دار قطنی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’لایُترک‘‘ کہ انہیں ترک نہ کیا جائے، امام بخاری نے ان سے روایت لی ہے جس پر امام بخاری کی سرزنش کی گئی ہے۔ امام حاکم سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے کہا : ’’ اسحاق بن محمد الفروی کی روایت کردہ حدیث ذکر کرنا امام بخاری کے لئے عیب کی بات ہے کیونکہ اس راوی پر انگلی اٹھائی گئی ہے‘‘۔( امام ذہبی کہتے ہیں کہ) ’’ میں کہتا ہوں کہ درست بات وہی ہے جو امام ابوحاتم نے کہی ہے (کہ وہ سچے ہیں ) ۔
(سیر اعلام النبلاء، ج10 ص649/تہذیب التہذیب،ج1 ص248)
الغرض! اگر امام ابوداود نے ان پر جرح کی ہے تو ابوحاتم اور ابن حبان نے انہیں سچا اور ثقہ بھی کہا ہے، اگر دار قطنی نے انہیں ضعیف کہا ہے تو ایک اور جگہ انہیں ترک نہ کرنے کا قول بھی دار قطنی سے منقول ہے، امام بخاریؒ نے ان کا ذکر تاریخ کبیر میں کیا ہے اور ان پر کوئی جرح نہیں کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ کے نزدیک بھی وہ ابوحاتم اور ابن حبان کی طرح ثقہ اور صدوق ہیں، اور امام بخاری خود مجتہد ہیں اگر ان کے نزدیک اسحاق بن محمد الفروی قابل اعتماد ہیں تو کسی اور کی غیر مفسر جرح کی کوئی اہمیت نہیں، نیز جتنا کوئی شاگرد اپنے استاد کے بارے میں جانتا ہے اتنا کوئی دوسرا نہیں جانتالہٰذا اسحاق بن محمد الفروی کے بارے میں ان کے شاگرد امام بخاری کی رائے سب پر مقدم ہے، رہی امام حاکم کی بات تو ہم بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ اگر امام بخاری کے لئے اسحاق بن محمد الفروی کی حدیث لانا عیب کی بات تھی تو خود امام حاکم نے المستدرک میں تقریباً پندرہ حدیثیں انہی اسحاق بن محمد الفروی کے واسطے سے کیوں ذکر کی ہیں؟ اور پھر ان میں سے بعض کے ساتھ ’’صحیح الاسناد‘‘ کا لفظ کیوں لکھا ہے؟ ۔
ہم نے جملہ معترضہ کے طور پر اسحاق بن محمد الفروی کے بارے میں یہ چند سطور لکھ دی ہیں ورنہ ہماری زیرِ بحث حدیث کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ، عمادی صاحب نے محض اپنے دماغ سے ایک ہوائی مفروضہ پیش کیا ہے جس کی کوئی ٹھوس دلیل ان کے پاس نہیں ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے ایک اور جگہ تصریح بھی کردی ہے کہ :
’’صحیح بخاری میں جہاں بھی یعقوب بن ابراہیم اور دوسرے لوگوں سے روایت کرنے والے کا نام صرف ’’اسحاق‘‘ مذکور ہو، وہاں سوائے اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور الکَوسج کے اور کوئی اسحاق مراد نہیں ہوسکتا، اور ان دونوں کے درمیان فرق اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ جہاں اسحاق لفظ ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کررہے ہوں اُن سے مراد عام طور پر اسحاق بن راہویہ ہوتے ہیں‘‘ ۔
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج1 ص259 ، دار المعارف النظامیۃ، انڈیا)
نیز جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ یہی حدیث امام ابوعوانہ اسفرائینی ؒ(متوفی316ھ) نے اپنی مستخرج میں روایت کی ہے لیکن وہاں ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ سے روایت کرنے والے ’’اسحاق‘‘ نہیں بلکہ ’’ابوداود سلیمان بن سیف بن یحییٰ الحرانی‘‘ ہیں جو کہ ثقہ ہیں، اور ان کے شیوخ میں یعقوب بن ابراہیم کا نام بھی صاف لکھا ہے (دیکھیں: تہذیب التہذیب، ج4 ص199) ، لہٰذا اس تمنائی تحقیق کو اگر درست بھی فرض کرلیا جائے کہ صحیح بخاری کی روایت کی سند میں کوئی ’’مجروح اسحاق ‘‘ہیں تو بھی ابوعوانہ کی سند میں ان کی جگہ ثقہ راوی ابوداود الحرانی ہیں پس تمنا عمادی صاحب کا اس حدیث کے ’’موضوع اور جھوٹے ‘‘ ہونے کا دعویٰ صرف سینہ زوری ہے اور کچھ نہیں ۔
اس کے بعد عمادی صاحب نے اس حدیث کے ایک اور راوی’’صالح‘‘ کے بارے میں اپنی تحقیق یوں پیش کی ہے :
’’امام زہری سے یہ حدیث بیان کرنے والے کا نام امام بخاری نے صرف ’’صالح‘‘ ذکر کیا ہے ، نہیں معلوم یہ کون سے صالح ہیں۔ شارحین بخاری نے جھٹ صالح بن کیسان کا نام لکھ دیا اور غیر معیّن کو معیّن کردیا، حالانکہ صالح نام کے اور بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کی ہے ، یہاں بھی صالح مبہم چھوڑ دیا گیا تاکہ شخصیت کا تعین نہ ہوسکے اور بعد والے حسن ظن سے کام لے کر کسی ثقہ صالح کا نام چسپاں کردیں ……(نیز لکھا)…… امام بخاری ایسے دس راویوں سے روایت کرتے ہیں جن کا نام صالح تھا جن میں بعض ضعفاء ومجروحین بھی تھے، ان دس میں سے کسی سے بلا واسطہ خود روایت کرتے تھے اور کسی سے بالواسطہ‘‘۔
قارئین محترم! عمادی صاحب کو اس حدیث پر تنقید لکھتے وقت شاید کوئی ایسا ’’صالح‘‘ نہیں ملا جو مجروح ہو اس لئے انہوں نے یہاں اپنا ’’اٹکل پچو‘‘ نہیں لگایا کہ یہاں ’’صالح‘‘ سے مراد فلاں مجروح راوی ہے صرف یہ لکھ دیا کہ زہری سے روایت کرنے والے اور بھی صالح ہیں ، ہاں انہوں نے یہ غلط بیانی ضرور کی کہ امام بخاری ’’صالح‘‘ نامی دس راویوں سے روایت کرتے ہیں جن میں بعض ضعیف اور مجروح بھی ہیں۔ کاش عمادی صاحب ان ضعیف اور مجروح ’’صالح‘‘ نامی راویوں میں سے کسی ایک کا نام لکھ دیتے جن سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے تو ہم اس پر بہتر طریقے سے بات کرسکتے ، اس لئے آئیے نظر ڈالتے ہیں اُن ’’صالح‘‘ نامی بزرگوں پر جن سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے۔ امام بخاری اپنی صحیح میں صرف پانچ ’’صالح‘‘ نامی بزرگوں سے روایت لائے ہیں جوکہ یہ ہیں :
(1)……صالح بن خوات بن جبیر بن النعمان الانصاری المدنی۔
(2)…… صالح بن کیسان الغفاري المدنی ۔
(3)…… صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف الزہری المدنی۔
(4)…… صالح بن صالح بن مسلم بن حیّان (یقال لہ ایضاً صالح بن حیّ)۔
(5)…… صالح بن ابي مریم ابوالخلیل الضبعي البصري۔
(ملاحظہ ہو: الہدایۃ والارشاد (رجال البخاري) للکلاباذي، ج 1 ص359 تا 362)
اور یہ پانچوں ثقہ ہیں ، ان میں سے کوئی بھی ضعیف یا مجروح نہیں ، تفصیل کے لئے تہذیب التہذیب’’ من اسمہ صاعد وصالح‘‘ ج4 ، ص 379 وما بعد کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ چونکہ عمادی صاحب نے صحیح بخاری کے ان پانچوں ’’صالح‘‘ نامی بزرگوں میں سے کسی ایک پر بھی کسی قسم کی جرح نقل نہیں کی اس لئے ہم بھی ان پانچوں کا مزید تعارف نہیں کراتے، لیکن غالباً بعد میں عمادی صاحب پرالہام یا وحی کے ذریعے یہ انکشاف ہوا کہ :
’’صحیح بخاری کی اس حدیث میں صالح سے مراد صالح بن کیسان نہیں بلکہ صالح بن محمد بن ابی زائدہ المدنی ہیں جو بالاتفاق غیر ثقہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث تھے‘‘ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص193)
ہم نے اسے عمادی صاحب کا ’’الہام یا وحی‘‘ اس لئے کہا کہ امام بخاری ؒ تو خود ان ’’صالح بن محمد بن ابی زائدہ المدنی’’ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ترکہ سلیمان بن حرب، منکر الحدیث‘‘ انہیں سلیمان بن حرب نے ترک کردیا تھا، یہ منکر الحدیث ہیں۔ (التاریخ الکبیر، ج4 ص291، دار المعارف العثمانیہ۔انڈیا)، اس لئے امام بخاری کس طرح ان کی روایت اپنی صحیح میں لا سکتے تھے جس کے بارے میں انہوں نے خود فرمایا کہ میں اس میں صرف وہ احادیث لایا ہوں جو صحیح ہیں۔ امام بخاری نے ہرگز اپنی صحیح میں ان ’’صالح بن محمد بن ابی زائدہ‘‘ کی کوئی روایت نہیں لی، اگر ایسا ہوتا تو عمادی صاحب کے دنیا میں آنے سے کئی صدیاں پہلے جن بزرگوں نے صحیح بخاری کی کچھ روایات پر تنقید کی تھی ان سے یہ بات مخفی نہ رہتی۔ شارحین صحیح بخاری کے بارے میں یہ کہنے والے نے کہ’’ انہوں نے اپنے اٹکل پچو سے راویوں کا تعین کیا ہے‘‘ خود یقیناً الہام ووحی کے ذریعے سے ہی یہاں ’’صالح بن محمد بن ابی زائدہ‘‘ کا تعین ہوگا؟۔
(جاری ہے)