استاذ الاساتذہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اﷲ خان رحمۃ اﷲ علیہ
خاص مکتوب ،اہم وصیت اور زندگی کی آخری تحریر
شیخ المشایخ ،استاذ الاساتذہ ،رئیس المحدثین حضرت اقدس مولانا سلیم اﷲ خان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔مگر آپ کا تابناک کردار تااَبد زندہ رہے گا،اور آنے والی نسلوں کو رہنمائی دیتا رہے گا۔ آپ محض لفظوں کے نہیں بلکہ عمل کے آدمی تھے۔پوری زندگی علم وعمل اورعزم و عزیمت کے ساتھ گذاری۔دین پر تصلب، سنت پر مداومت،تمسک بالحدیث ،اہل حق کی اتباع ، اوراَکابر وقت کی صحبتوں نے آپ کودر مکنون بنا دیا تھا۔دور حاضر کے اکثر بڑے علماء ،شیوخ حدیث اور مشائخ ِ وقت آپ کے براہ راست یا بالوسطہ شاگرد تھے ۔اﷲ پاک نے آپ کی ذات کو مرجعیت کا مرکز بنا دیاتھا۔آپ حق گو تھے اور بلاخوف لومۃ لائم کلمہء حق ادَا فرماتے۔آپ کی حق گوئی محض اَغیار کے لیے نہ تھی بلکہ اگر اپنوں میں کوئی قابل اصلاح بات دیکھتے،کہیں کسی ہم مسلک فردکو اکابر کی راہ سے برگشتہ پاتے تو نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے۔ اخیر عمر میں امت کے حوالے سے آپ کی فکرمندی بہت بڑھ گئی تھی۔اَفراد واشخاص اور جماعتوں کو خطوط ،زبانی پیغام یا فون کے ذریعے ضرور متوجہ فرماتے۔آپ کی اہل حق کے مختلف طبقات پر گہری نگاہ تھی ،ان میں در آنے والی کمزوریوں اور خامیوں کا بھی ادراک رکھتے تھے۔آپ کا خیال تھا کہ حضرات مشائخ ِ کرام کے تتبع میں عمومی خطوط کے ذریعے ایک تسلسل کے ساتھ بعض اہم دینی امور کی طرف متوجہ کیا جائے۔زیر نظر خط اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔آپ اس کے مندرجات کو ملاحظہ فرمائیے،اب یہ محض ایک دل ِ دردمند کی آواز نہیں بلکہ اہل حق سے وابستہ ہر فرد کے لیے حضرت شیخ رحمۃ اﷲ علیہ کی وصیت بھی ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی۔قارئین کرام سے درخواست ہے اسے صرف حضرت والا کی ایک تحریر سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ توشہء خاص خیال فرمائیں ،اور اس پیغام کی اصل روح کو اپنے رگ وپے میں جذب کریں۔
س
نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم، اعوذباﷲ من الشیٰطن الرجیم بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تبارک وتعالیٰ:﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾․
و قال اﷲ تعالیٰ:﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾․
گرامی قدر…………
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بعافیت ہوں گے۔
ایک عرصے سے دل میں خیال پختہ ہو رہا تھا کہ آں جناب کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا جائے، اس عریضے کے ذریعے آپ کی خدمت میں اپنے دلی جذبات کا اور عمومی طور پر ہمارے دینی احوال پر اپنی فکر مندی کا اظہار کیا جائے۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علوم نبوت کا وارث وامین بنایا ہے اور منبر ومحراب کے ذریعے دین حق کے بیان اور تبلیغ واشاعت کے لیے منتخب فرمایا ہے، یہ ایک بہت بڑا اعزاز بھی ہے اور ذمے داری بھی، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس منبر ومحراب اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے طاقت ور ذریعہ ہے اور اس ذریعے سے امت مسلمہ کے لیے دینی خدمات کا فریضہ کافی حد تک انجام دیا جارہا ہے…… لیکن اگر معاشرے میں پھیلے فساد وبگاڑ کے ساتھ اپنی سعی وکاوش کا موازنہ کیا جائے تو غالباً ہمیں خود پر شرمندگی ہو گی۔
آج کے دور میں معاشرتی بگاڑ جس قدر بڑھ گیا ہے، اس کا احاطہ کرنا شاید ممکن نہ ہو، پہلے یہ بگاڑ اپنے اثرات کے اعتبار سے محدود ہوتا تھا، بعض مخصوص اَذہان وافراد یا مخصوص طبقات ہی اس کا شکار ہوتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے، اس بگاڑنے ہمارے ان طبقوں کو، افراد واشخاص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو امت کے مقتدا اور پیش وَا ہیں۔ اخلاقیات کے باب میں وہ تمام برائیاں جن کا تصور کیا جاسکتا ہے ہمارے معاشرے میں پائی جارہی ہیں۔ منکرات ومحرمات کاشیوع بڑھ گیا ہے ۔مسلمانوں کو بے دینی، اخلاقی بے راہ روی اور بد عقیدگی میں مبتلا کرنے کے لیے باطل ہر رنگ وروپ میں اپنی تمام سائنسی ایجادات اور آلات ووسائل کے ساتھ مصروف ہے۔ باطل کے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور حکومت وقانون کی لاٹھی بھی۔وہ اپنے نصاب تعلیم وتربیت اورذرائع ابلاغ کے ذریعے دماغوں کو بدل رہا ہے، اور ہمارے معاشرتی نظام میں پوری قوت کے ساتھ شگاف ڈال رہا ہے۔ اگر آپ اس سلسلے میں کچھ جاننا چاہیں تو تو صرف ایک دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو اپنی قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن اور باطل کی کام یاب محنتوں کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ماہ نامہ’’ وفاق المدارس ‘‘ربیع الاول ۱۴۳۸ھ کے شمارے میں ہم نے متحدہ امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تعاون سے شائع ہونے والی رپورٹ ’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس‘‘ کا جائزہ پیش کیا تھا۔یہ رپورٹ ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔باطل نے نہایت مسرت کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کا پیغام پورے اثرات کے ساتھ ہرہر جگہ پہنچ رہا ہے۔باطل اپنی محنت سے اس قدر پرامید ہے کہ اب وہ دِیدہ دلیری اور دَریدہ دَ ہنی کے ساتھ ہمیں کہہ رہا ہے کہ خاکم بدہن، العیاذ باﷲ ہم اسلام کو سچا دین سمجھنا چھوڑ دیں۔
اس کے بعد ذرا ہم اپنی ذمے داریوں اور اپنی مساعی کا جائزہ لیں تو معاف فرمائیے گا بہت حوصلہ شکن صورت حال سامنے آئے گی۔مجھے کہنے دیجیے کہ ہم میں سے اکثریت، جس کا علوم نبوت پر دسترس کا دعویٰ ہے وہ محض جمعہ کے بے روح بیان پر قانع ہیں یا پانچ وقت کی نماز پڑھا کرخودکو اپنے فرائض سے سبکدوش خیال فرماتے ہیں،حالانکہ وارث علم نبوت ہونے کے ناطے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت میں خیروبھلائی کا حکم کریں اور منکرات کی نکیر کریں۔ دیکھیے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کس جزم کے ساتھ اور کس وعیدکے ساتھ خیروبھلائی کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں:
والذی نفس محمدبیدہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر ولتاْخذن علیٰ ید السفیہ ولتاطرن علی الحق اطراً ،اولیضربن اللّٰہ قلوب بعضکم علیٰ بعض ،ثم یلعنکم کما لعنہم (رواہ ابوداوود،کتاب الملاحم)
ایک دوسری حدیث شریف میں یوں ارشاد ہے:
عن انس رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لاتزال لااِلٰہ الااللّٰہ تنفع من قالھا وترد عنہم العذاب والنقمۃ مالم یستخفوا بحقھا،قالوایارسول اللّٰہ !وماالاستخفاف بحقھا؟قال :یظہرالعمل بمعاصی اللّٰہ ،فلا یُنکر ولا یغیر(الترغیب للمنذری)
موجودہ دور میں پھیلے بے پناہ شروفساد اور بگاڑ کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے کسی اور کو نہیں آپ علماء کو ہی آگے بڑھنا ہے،مگرہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کے لیے جس تڑپ ، دل سوزی ، لگن او رمحنت کی ضرورت ہے، وہ مفقود ہے۔آج کا ماحول ہرہر عالم سے حضرت مجدد الف ثانی،حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی،حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی،حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی،حضرت مولانا محمدالیاس دہلوی،حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہم اﷲ جیسے کردار کا تقاضا کرتا ہے۔
آپ ماشاء اﷲ عالم دین ہیں ، آٹھ دس سال لگا کر آپ نے جس مدرسہ یا دارالعلوم میں دینی تعلیم کی تکمیل کی، اس کے بعد تو آپ پر خود بخود بلغوا عنی ولو آیۃ کے مصداق معاشرے کی صلاح واصلاح کی ذمے داری عائد ہو جاتی ہے۔ آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ جس دین کو آپ نے آٹھ دس سال لگا کر پڑھا اور سیکھا وہ نہ صرف آپ کے کردار وعمل اور افکار وخیالات سے جھلکے بلکہ اہلیت واستعداد کے مطابق اپنے گھر ، محلے اور مسجد ومدرسہ کے ماحول میں اس کے بیان وتبیان کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ پر بہت بڑا فضل فرمایا ہے۔ آپ مدرسہ کے مہتمم ہیں یا استاد! آپ کسی مسجد کے اِ مام ہیں یا خطیب!…… آپ پرلازم ہے کہ تواصی بالحق کا فریضہ بہرصورت انجام دیتے رہیں، منبر ومحراب آپ کے پاس بہت طاقت ور ذریعہ ہے ۔ الحمدﷲ ہم دین کی تعلیم وتبلیغ اور نشر واشاعت کے لیے سائنسی آلات یا ٹیکنالوجی کے محتاج نہیں۔ دینی تعلیمات میں معمولی غوروفکر سے بھی یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ جس طرح اسلام کا مقصد معلوم ومتعین ہے اسی طرح حصولِ مقصد کے لیے وسائل واسباب بھی معلوم ومتعین ہیں۔ اسلام ٹیکنالوجی کے سہاروں کی بجائے براہ راست مخاطب کی باطنی وقلبی اور اخلاقی وروحانی تبدیلیوں کا دَاعی ہے۔ یوں بھی بسا اوقات ٹیکنالوجی کے ذریعے دین کی تبلیغ واشاعت کے اثرات نہ صرف محدود ہوتے ہیں بلکہ منفی نتائج بھی دیتے ہیں۔
ہمارے پاس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ اور دعوت کے باب میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک طریقے متوارث چلے آرہے ہیں، یقین فرمائیے ان طریقوں کو ان کی روح کے مطابق عمل میں لایا جائے تو دیرپا اثرات کے حامل نظر آئیں گے …… اور وہ حسب ذیل ہیں:
٭…… منبر ومحراب کے ذریعے خطبہ وخطابات۔
٭…… انفرادی اور شخصی ملاقاتوں کے ذریعے دینی دعوت ، دینی تعلیم او رتزکیہ نفس کی کوششیں۔
٭…… مکاتیب (خطوط) کے ذریعے تبلیغ دین کا اہتمام۔
٭…… صُفّہ (یعنی مدرسہ) کے ذریعے اجتماعی تعلیم دین۔
الحمدﷲ یہ تمام مسنون طریقے ہماری دسترس میں ہیں،مگر فرق یہ پڑ گیا ہے کہ بوجوہ ہم ان طریقوں کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔ہاں! ان طریقوں کو اپنانے کے لیے ﴿لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فی الارض﴾ پر یقین واعتماد لازم ہے۔
ہماری آپ سے درخواست ہے کہ موجودہ معاشرتی بگاڑ کو ہلکا خیال نہ فرمائیں، چاروں جانب باطل نے اپنے فتنہ وفساد کی آگ دَہکا رکھی ہے۔ اس آگ کو فرو کرنے میں آپ سے جو بن پڑتا ہے کر گذریں، یہ موجودہ و آئندہ نسلوں پر آپ کا احسان ہو گا۔ آپ مسجد کے امام ہیں یا خطیب، تو خود کو صرف نماز پڑھانے اور جمعہ کا بیان کرنے تک محدود نہ رکھیں، ممکن ہو سکے تومندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرنے کی سعی فرمائیں:
درس قرآن مجید:
٭…… روزانہ، ورنہ ہفتے میں ایک دن ضرور مقرر کرکے اہل محلہ کے لیے عمومی درس قرآن مجید کا اہتمام فرمائیں، اس سلسلے میں خاص طور پر تیاری بھی کریں۔ کتب تفسیروحدیث سے رجوع کریں ۔البتہ ایک بات کا خیال رکھیں کہ عمومی درس قرآن میں صرفی نحوی ترکیبوں اور خالص علمی اسلوب اختیار نہ کریں بلکہ علیٰ قدر عقولہم پیرایہء گفتگو اختیار کریں۔ رات کے اخیر پہر رب کریم سے اپنی او راہل محلہ کی ہدایت کی مخلصانہ دُعائیں آ پ کی محنت کو ثمرآور کردیں گی۔
درس حدیث:
٭…… پانچ وقت نمازوں میں سے کسی ایک نماز کے بعد کم از کم پانچ منٹ کا درس حدیث ضروردیں۔ اس سلسلے میں کتاب الاخلاق، کتاب البر والصلہ ،کتاب الرقاق، کتاب المعاشرۃ والمعاملات،کتاب اشراط الساعۃ کو خاص طور پر مدنظر رکھیں، حضرۃ مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اﷲ علیہ کی ’’معارف الحدیث‘‘ آپ کی بہترین رفیق ہو سکتی ہے۔
فقہی مسائل کا بیان:
٭……کسی ایک نماز کے بعد دعا سے قبل نمازیوں کو روزانہ صرف ایک مسئلہ بتانے کا اہتمام فرمائیں، ایسے روز مرہ پیش آمدہ مسائل جن میں عوام مبتلا ہوتے ہیں مختصر اور عمومی انداز میں شرعی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیں، ’’ بشروا ولاتنفرو ‘‘کی ہدایت کے ساتھ حکمت ودانائی کو پیش نظر رکھتے ہوئے الفاظ اور جملوں کے انتخاب میں احتیاط برتی جائے۔ فرقوں یا افراد کے ناموں کے ساتھ تنقید کی بجائے صحیح مسائل کو سامنے رکھا جائے۔
اس بات کا ضرور خیال رکھیے کہ آپ کی مسجد میں پہلے سے جوتعلیمی، تبلیغی اورخانقاہی سلسلے جاری ہیں وہ بالکل متاثر نہ ہوں، دیگر دینی کاموں میں رفیق وحلیف تو بنیں فریق ہر گز نہ بنیں۔اگر کوئی شخص یا جماعت آپ کے کام میں مزاحم ہو تو دل گرفتہ نہ ہوں ،محبت اور شفقت سے سمجھائیں۔دعوت دین کے سلسلے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ آپ کے پیش نظر رہے گا ؛ہمدردی ، دل سوزی ،دین ِحق کے بیان کا جذبہ کار فرمارہے گاتو ان شاء اﷲ کامیابی ملے گی۔
جمعہ کا بیان:
٭……جمعہ کا بیان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جمعہ کے دن ہمارے ہاں لوگ عموماً بیان کے آخر میں مسجدپہنچتے ہیں ؛لیکن جہاں کہیں کوئی خطیب بھرپور تیاری کے ساتھ جمعہ کابیان کرتا ہے وہاں لوگ ذوق وشوق ے ساتھ آغاز خطاب میں پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں۔یہ رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ لوگ بھلائی کی بات سننا چاہتے ہیں ،فرق صرف انداز بیان کا ہے۔ جتنا جاندار اسلوب ِ بیان ہوگا،از دل خیزدبر دل ریزد کی کیفیت ہوگی اسی قدر لوگوں کی حاضری زیادہ ہوگی۔جمعہ کے دن لوگوں کی حاضری کو اﷲ پاک کی عنایت سمجھیے۔اس موقع کوسرسری بیان میں ضائع مت کیجیے۔ جمعہ کے بیان کے لیے کوئی موضوع سوچ کر ہفتہ بھر اس کے لیے محنت کیجیے۔محض فضائل کے بیان پر اکتفا نہ کیجیے بلکہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا حق ادا کیجیے۔اسلامی اعتقادات ،اسوہ رسول، اسلامی اخلاق ومعاشرت،صحابہ کرام کے مقام ومرتبہ ،صحابہ کے طرز معاشرت کا بیان، عصر حاضر میں پھیلے گمراہ کن جدید فتنوں سے آگاہی،خصوصاً جدیدیت کے طوفان سے امت کو بچانے کی فکر کریں۔ بدعات ورسوم کی بیخ کنی کے لیے بھی لسانی جدجہد کریں ۔افسو س کی بات ہے کہ آج کئی دیندار اور اکابر کے نام لیوا بھی بدعات کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں ۔اس سلسلے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کریں۔احقاق حق کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔
ہماری یہ درخواست اپنے تمام محبین کے لیے ہے ،اَلبتہ خصوصیت کے ساتھ ہمیں اپنے تلامذہ سے قوی امید ہے کہ وہ اپنے کہنہ سال اُستاذ کی عرض کی گئی باتوں کو ضرور قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
آخری بات یہ کہ آپ اس سلسلے میں اﷲ تعالیٰ سے توفیق بھی چاہیں کہ وہ پروردگار آپ کو اس مبارک عمل کے لیے منتخب فرمالیں، تضرّع، زاری، تبتل اور دُعا اس راہ کا بہترین توشہ ہے…… اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو اور اپنی رضا کے مطابق کام لے لیں۔