طارق اسماعیل ساگر
بھینسے موچی اور اس کے ساتھیوں کو غائب ہونے پر 25تا33آنٹیوں اور چلغوزوں کا احتجاج یہ بتانے کے لئے تو کافی ہے کہ غائب ہونے والے مرتدوں سے ہیومن رائٹس کو کتنی دلچسپی ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان حرام خوروں کی اوقات کیا تھی ؟ ہماری روشن خیالی ہمارا ذاتی مسئلہ ہو سکتا ہے اجتماعی مسئلہ نہیں۔ دنیا میں آج بھی کروڑوں ایسے مسلمان موجود ہیں جو ختمی مرتبت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تصدیق ہونے کے بعد گستاخِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی گرفتاری کا انتظار نہیں کرتے۔ آپ اسے کچھ بھی معنی دیں لیکن جو مسلمان اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر ’’ابنارمل‘‘ نہ ہو اس کا ایمان مشکوک ہے۔ لعنت ہے ایسی زندگی اور ایسی روشن خیالی پر جو وجہ تخلیق کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر خاموشی اختیار کرے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
Iلیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
à یہ ایمان کا معاملہ ہے دل کے معاملات ہیں ، یہاں کوئی دلیل، منطق، فلسفہ قانون، کچھ کام نہیں آتا ۔ جو بدتمیزیاں اورحرام کاریاں اس بھینسے اور اس کے ساتھیوں کی منظر عام پر آرہی ہیں اس کے بعد ان کے حق میں کوئی آواز ’’ہیومن رائٹس ‘‘کے نام پر یا کسی اورحوالے سے بلند ہونا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں یا جانوروں کے ؟ ہم مسلمان تو دور کی بات ہے انسانیت کی سطح سے بھی گر چکے ہیں۔ کچھ دردِ دِل رکھنے والے احباب نے اس غلیظ بھینسے کی ان ان حرام کاریوں کی تفصیلات سوشل میڈیا پر ’’نقل کفر، کفر نہ باشد‘‘ کے تحت نقل کی ہیں میری تو مجال نہیں کہ چند سطریں پڑھنے کے بعد آگے بھی پڑھ سکوں لیکن میں یہ سوچ کر حیران و پریشان ہو رہا ہوں کہ اب تک ان غلیظ اور راندۂ دَرگاہ لوگوں کو زندہ رہنے کا حق کس قانون یا اخلاقی ضابطے کے تحت دیا گیا تھا ؟
ہر سوال کا جواب یہ نہیں ہوتاکہ یہ غیر قانونی حرکت ہے، ایسا قانون جائے بھاڑے میں جو شانِ رسالت ما ٓب صلی اﷲ علیہ وسلم میں گستاخیوں کے مرتکب ان عادی مجرموں پر اب تک ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ انہیں کٹہرے میں نہیں لا سکا۔ اپنی جان بچانے کے لئے جو بہرحال ایک دن چلی جائے گی آئین اور قانون ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ ہم حملہ آور کو جان سے مار دیں جسے ’’حفاظتِ خود اختیاری ‘‘کہا جاتا ہے لیکن اپنے ایمان پر حملہ آور ہونے والے سے متعلق ہم خاموشی اختیار نہیں کر سکتے !
کوئی غیر مسلم جج اپنے ضمیر کی عدالت میں اس کیس کو لے جائے ۔ ان غلیظ تحریروں کا مطالعہ کرے جو ان بھینسوں نے سوشل میڈیا پر پھیلائی ہیں ، میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ بھی فوراً ان مردودوں کو قتل کرنے کا حکم دے گا۔ استغفر اﷲ ! قرآن پاک کی آیات کے الفاظ بد ل کر یہ گندے اور گھٹیا جنونی اُردود میں جو ترجمہ کرتے رہے جس طرح ان بدبختوں نے رسالت ما آب صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر غلیظ حملے کئے خصوصاً آپ کی معاشرتی اور اَزدواجی زندگی پر اپنی ذہنی غلاظت کے انبار لگائے اس کے بعد ان کے لئے اگر کسی کے دل میں کسی بھی حوالے سے کوئی ہمدردی ہے تو وہ اپنی ڈی این اے ٹیسٹ کروائے ’’اﷲ کی قسم ‘‘جو کچھ یہ لوگ سوشل میڈیا پر واویلا کرتے رہے ہیں اس کے بعدیہ بدترین سزا کے مستحق ہیں ۔
یہ منطق اورجواز ان وحشیوں پر فٹ ہی نہیں ہوتی کہ انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ امریکہ سے زیادہ مہذب معاشرہ موم بتی مار کہ آنٹیوں اور بے غیرت بریگیڈ کے لئے اور کون سا ہو سکتا ہے۔ کیا ایف بی آئی یا سی آئی اے کچھ خصوصی جرائم کی تصدیق کے بعد مجرموں کو عدالت میں پیش کرتی ہیں؟ کیا انہیں خصوصی اختیارات کے تحت ایسے مجرموں کو ماردینے کا حکم نہیں ملتا؟ درجنوں فلمیں اورکتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ کیا ’’فریڈم آف سپیچ ‘‘امریکہ میں نہیں ہے ؟ یہ اصطلاح ہی مغرب سے آئی ہے لیکن وہ بھی ایک حد سے آگے کسی کو جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ تو سیکولر لوگ ہیں ہم تو جھوٹے سچے بہرحال خود کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔ میرا دل نہیں مانتا کوئی لبرل مسلمان بھی ان تحریروں کا متحمل ہو سکتا ہے جو ان غلیظ ذہنوں کی تخلیق ہیں۔ جو تحریریں مشتے از خروارے سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ ان میں تو یہ انسانوں کی نسل سے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ قرآنی آیات کے الفاظ بدل کر ان کے ترجمے کر کے قرآن پاک کاتمسخر اُڑایا گیا ہے۔ سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم سے متعلق جو بے ہودہ گفتگو کی گئی ہے میری تو مجال نہیں کہ اسے ’’نقل کفر‘‘ کے ضمن میں بھی احاطۂ تحریر میں لا سکوں ۔ اسلامی شعائر ، خانہ کعبہ، مسجد نبوی (ﷺ) پر جو گند انہوں نے بکا ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی لبرل معاشرے میں رہنے والے مسلمان کے لئے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو قابل برداشت ہی نہیں۔
مجھے علم نہیں کہ یہ لوگ خود غائب ہوئے ہیں یا کسی نے انہیں اغوا ء کیا ہے؟ لیکن کرنٹ افیئر اور خصوصاً انٹیلی جنس اُمور کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں جانتا ہوں کہ ان بے غیرتوں کی اپنی تو کوئی حیثیت اور اوقات ہوتی نہیں ۔ یہ غیر ملکی ایجنسیوں کے گماشتے ہوتے ہیں جن کی قیمت پاکستان میں شراب کی ایک دو بوتلوں، چند ہزار روپے اور گرفتاری یا اپنے کرتوتوں پر قابو آنے کے بعد کسی بھی مغربی ملک میں ’’سیاسی پناہ‘‘ ہوتی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں، یہ لوگ طویل عرصے سے سوشل میڈیا پر گندگی پھیلا رہے تھے اور بھینسا تو ایجنسیوں کو للکار کر کہا کرتا تھا کہ ہمت ہے تو اسے پکڑ لو ۔ اس طرح کے چیلنج اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے، اپنی قیمت بڑھانے یا پھر اپنے مالکان کی Modus aprandaeطے شدہ منصوبے کے تحت ہی کئے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے ’’مالکان‘‘ اپنے بھینسوں کو دی گئی ہدایات پر عمل کے باوجود جب متوقع نتائج حاصل نہ کر سکیں تو سنسنی خیزی پھیلانے اور ’’ٹارگٹ ملک‘‘ کو بدنام کر کے متوقع نتائج حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے ’’بھینسوں ‘‘ کو خود ہی غائب کردیتے ہیں ۔انہیں قتل کردیتے ہیں ، فرار کروا دیتے ہیں یا منظر سے غائب کردیتے ہیں۔ عین ممکن ہے ان ’’بھینسوں‘‘ کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا ہوگا۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ انہیں دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے اغوا کروا لیا جاتا ہے۔ آپ کے لئے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں بھی ان ہی ’’مالکان‘‘ کی پیدا کردہ ہیں جن کے یہ بھینسے ملازم ہیں لیکن دونوں کو الگ الگ مشن سونپے جانتے ہیں ۔ دہشت گرد تنظیموں سے اسلام کے نام پر دہشت گردی کروائی جاتی ہے اور بے غیرت بریگیڈ سے لبرل ازم، آزاد خیالی، فریڈم آف سپیچ وغیرہ کے نام پر بے غیرتی کروائی جاتی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کا متحارب بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن دونوں گدھے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ عین ممکن ہے جلدی کسی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے ان کی لاشوں یا گرفتاری کے ساتھ کوئی ویڈیو سامنے آ جائے ۔ تیسرا اور آخری امکان یہ ہے کہ ان کو واقعی ایجنسیوں نے قابو کرلیا ہے اور ان کی تفتیش ہو رہی ہے۔ اگر تیسرا امکان غالب ہے تو میری ایک مسلم پاکستانی کی حیثیت سے درخواست ہے کہ اس گندگی سے اپنے کپڑے میلے نہ کریں ان بھینسوں کے جرائم کی تفصیلات سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ان کے غیر ملکی ایجنسیوں سے تعلق کی تفصیلات آپ نے اب تک حاصل کرلی ہوں گی ۔ انہیں جلد از جلد عدالت میں پیش کیا جائے۔ جہاں برق رفتار اوپن ٹرائل کے بعد انہیں’’انصاف‘‘ ملے اور یہ اپنے انجام کو پہنچیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ان کا زیادہ دیر غائب رہنا مزید مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
(روزنامہ’’ جہان پاکستان‘‘ لاہور، اشاعت14جنوری2017ء)