سید محمد کفیل بخاری
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور اتحات تنظیمات مدارس کے سربراہ، بانی مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی فخرالمحدثین حضرت مولانا سلیم اﷲ خان ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ / 15جنوری 2017ء بروز اتوار کراچی میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔آپ کا شمار پاک وہند کے جید علماء میں ہوتا تھا۔ وہ علم و عمل میں یکتا تھے۔ مولانا کے انتقال سے علمی و روحانی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا وہ پورا ہونا مشکل ہے۔ آپ ۲۵؍دسمبر ۱۹۲۶ء ضلع مظفر نگر (انڈیا) کے قصبہ حسن پور لوہاری میں پیدا ہوئے۔ خیبرایجنسی کے علاقے تیراہ کے قریب ’’چورا‘‘ کے آفریدی پٹھانوں کے خاندان ’’ملک دین‘‘ سے تعلق تھا۔ یہیں سے آپ کے اجداد حسن پور لوہاری ضلع مظفر نگر گئے تھے۔ سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی قدس سرہ العزیز کے شیخ میاں جی نور محمد رحمتہ اﷲ علیہ بھی حسن پور کے تھے اور تمام عمر اسی گاؤں میں بسر کی۔
حضرت مولانا سلیم اﷲ خان رحمتہ اﷲ علیہ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا مسیح اﷲ خان رحمہ اﷲ سے مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند داخل ہوئے جہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمتہ اﷲ علیہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق (اکوڑہ خٹک) کے علاوہ دیگر جیداساتذہ سے تحصیل علم کی۔ ۱۹۴۷ء میں امتیازی نمبروں کے ساتھ دورۂ حدیث کی سند حاصل کی۔ آپ مدرسہ مفتاح العلوم، دارالعلوم ٹنڈو اﷲ یار (سندھ) دارالعلوم کراچی، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جامعہ فاروقیہ میں تفسیر و حدیث اور فقہ پڑھاتے رہے۔ آپ، حضرت مدنی، حضرت مولانا عبدالحق، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مفتی محمد شفیع اور حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہم اﷲ کے چہیتے اور قابل اعتماد تھے۔ حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہٗ آپ کے قابل فخر شاگرد ہیں۔ شوال ۱۳۸۷ھ / ۲۳؍ جنوری ۱۹۶۷ء کو جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان کے معیاری مدارس میں سرفہرست ہے۔ ۱۹۸۰ء میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، اپنی صلاحیتوں اور خدمات کے نتیجے میں ۱۹۸۹ء میں آپ کو وفاق المدارس کا صدر منتخب کیا گیا اور اپنی وفات تک وہ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ ملک بھر کے علماء کا ان پر اعتماد تھا اور مولانا اس اعتماد پر پورے اترے۔ تحریرو تقریر میں کمال حاصل تھا۔ آپ کے تقریری و درسی ذخیرے مرتب ہو کر مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ صحیح البخاری کے دروس ’’کشف الباری‘‘ کی ۱۵؍ جلدیں اور مشکوٰۃ کی تقاریر ’’نفحات التنقیح‘‘ تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ ماہنامہ الفاروق (عربی، اردو) جاری کیا۔ اس میں حضرت رحمہ اﷲ کے مضامین، مقالات اور تقاریر ومواعظ شامل ہوتے جو اہلِ درداور اہل بصیرت کے لیے سکونِ قلب اور فکر مندی کا ذریعہ بنتے۔
حضرت شیخ سلیم اﷲ خان ایک باوقار، بااصول، مستقل مزاج، بہترین منتظم، بہادر اور صائب الرائے شخصیت کے مالک تھے۔ وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے مدارس کے تحفظ ، نصابِ تعلیم اور نظم و نسق کے حوالے سے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی خاندانی نسبت اور علمی حیثیت کی وجہ سے حضرت شیخ ان کا بہت احترام کرتے۔ حضرت شیخ آپ سے عمر میں ایک دن بڑے تھے۔ بھائی شفیع الرحمن راوی ہیں کہ جامعہ فاروقیہ کے سامنے قدیم احرار کارکن بھیّا الیاس مرحوم کا گھر تھا۔ شاہ جی کراچی آتے تو ان کے ہاں قیام کرتے۔ حضرت شیخ سلیم اﷲ خان رحمہ اﷲ، شاہ جی سے ملنے وہاں تشریف لے آتے۔ خوب مجلس ہوتی، شاہد صدیق چوہان مرحوم بھی شریک مجلس ہوتے۔ حضرت شیخ کا شعری ذوق بھی بہت اعلیٰ تھا۔ حضرت ابوذر بخاری رحمہ اﷲ سے فرمائش کر کے حضرت شیخ اُن کے اشعار سنتے وہ مشہور قصیدہ جو سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت میں آپ نے لکھا خصوصی طور پر آپ نے سنا اور ہر شعر پر بے اختیار داد دیتے۔ میری ان سے بغیر تعارف کے چند ملاقاتیں تھیں۔ جس روز آپ کا انتقال ہوا، میں کراچی میں تھا۔ اس مرتبہ آپ کی زیارت و ملاقات کا مصمم ارادہ تھا لیکن آپ شدید علالت کے باعث ہسپتال داخل تھے۔ ملاقات تو نہ ہوسکی لیکن جامعہ فاروقیہ میں آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی۔ مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات میاں محمد اویس، سندھ کے امیر مفتی عطاء الرحمن قریشی، جناب محمد ارشد،بھائی شفیع الرحمن، عبد الغفور مظفر گڑھی اور دیگر احرار کارکنوں کی معیت میں جامعہ فاروقیہ پہنچے تو باہر سڑکوں اور گلیوں میں تا حدِ نگاہ انسان ہی انسان تھے ۔ حضرت کے فرزندان مولانا عادل خان مدظلہٗ اور مولانا عبیداﷲ خالد سے فون پر تعزیت کی اور ملتان واپس آگیا۔ اﷲ تعالیٰ، آپ کے حسنات قبول فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ عطاء فرمائے۔ آپ کا فیض جاری رہے اور جن خطوط پر آ پ نے وفاق المدارس کا نظام مرتب کیا، اخلاف اس کی حفاظت کریں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے اورآپ کے فرزندان گرامی کوآپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دینی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔آمین یارب العٰلمین
شیخ الحدیث، فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمۃ اﷲ علیہ کا سانحۂ ارتحال :
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ شیخ الحدیث، فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمتہ اﷲ علیہ ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ /۱۶؍جنوری ۲۰۱۷ء بروز پیر ساؤتھ افریقہ کے شہر پیٹر میرٹس برگ میں تبلیغی سفر کے دوران ۷۰؍برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ آپ۱۹۴۶ء میں امرتسر (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد ملک عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ قیام پاکستان کے بعد فیصل آباد آگئے اور کچھ عرصے بعد حجاز مقدس ہجرت کرگئے۔ اس زمانے میں والیٔ حرمین باب ملک کے باہر لوگوں کے مسائل سنتے اور درخواستیں وصول کرتے۔ ملک عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ نے سعودی شہریت کے حصول لیے درخواست دی تو منظور ہوگئی۔ سعودی شہریت ملنے کے بعد پورا خاندان مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اﷲ نے ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں ہی حاصل کی۔ مظاہرالعلوم سہارن پور (یوپی انڈیا) سے ۱۳۸۸ھ /۱۹۶۸ء میں دورۂ حدیث کی سند حاصل کی۔ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں تدریس کا آغاز کیا اور پھر حدیث شریف کے اسباق بھی پڑھائے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اﷲ علیہ سے روحانی تعلق قائم کیا جو فنافی الشیخ کے مقام تک پہنچا۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۸۲ء تک شیخ کی بے مثال رفاقت حاصل رہی۔آپ شیخ الحدیث کے لاڈلے اورچہیتے خلیفہ مجاز تھے۔آپ کی زندگی میں تبلیغی و اصلاحی رنگ حضرت شیخ کی صحبت کا فیض تھا۔ حضرت شیخ الحدیث کے بعد آپ ہی ان کے حلقے کا مرجع تھے۔ آپ نے مدینہ منورہ میں مطابع الرشید کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ حضرت شیخ الحدیث کی عربی کتابوں کو بڑے اہتمام سے شائع کیا اور دیگر دعوتی و تبلیغی کتب بھی شائع کیں۔ شیخ مکی انتہائی خوش اخلاق، وجیہہ و خوش شکل، جید عالم دین اور روحانی بزرگ تھے۔ خشک صوفی نہ تھے بلکہ بذلہ سنج، حاضر جواب اور فصیح البیان خطیب بھی تھے۔ بزرگوں کی فرماں برداری واکرام اور چھوٹوں پر شفقت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ ابن امیر شریعت قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم ۱۹۷۵ء میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور شیخ مکی نے انھیں مطابع الرشید میں خدمت کے لیے مامور کر دیا ساتھ یہ احسان بھی کیا کہ ان کے کفیل بن گئے۔ حضرت پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری مدظلہٗ تقریباً ۱۴؍سال مدینہ منورہ میں رہے۔ اس عرصے میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمتہ اﷲ علیہ کی خانقاہ میں مستقل حاضری اور شیخ عبدالحفیظ مکی کی رفاقت، محبت اور خلوص سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
حضرت مکی جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو مجلس احرار اسلام کے اجتماعات میں اہتمام سے شریک ہوتے۔ خصوصاً مسجد احرار چناب نگر کی ختم نبوت کانفرنس میں متعدد مرتبہ شریک ہوئے۔ دارِ بنی ہاشم ملتان اور دفتر احرار لاہور میں بھی تشریف لائے۔ پشاور اور لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی کانفرنسوں میں بڑے اصرار کے ساتھ مجھے شرکت اور خطاب کی دعوت دیتے ۔حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ، آپ کے خاندان اور آپ کی جماعت مجلس احرار اسلام سے بہت محبت فرماتے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں مجھ عاجز کو ساؤتھ افریقہ کے دورے پر ساتھ لے گئے حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہٗ، ڈاکٹر عمر فاروق احرار اور پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی علماء بھی مدعو تھے۔ وہاں کیپ ٹاؤن، جوہانس برگ، ڈربن، لنیشیا اور لینزیا میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنسوں میں میرا خطاب بھی کرایا، بے انتہاء شفقت اور سرپرستی فرمائی، کبھی نماز فجر کے بعد ’’صلاۃ ٹی‘‘ اور عشاء کے بعد مجلس احباب میں قہوہ اور ڈرائی فروٹ سے میزبانی فرماتے۔ ان مجالس میں علمی و تحقیقی مباحث، تفسیری و حدیثی نکات، سیرت طیبہ او رصحابہ رضی اﷲ عنہم کے ایمان افروز واقعات، شعروغزل، لطائف و ظرائف، سیاست، علماء و مشائخ کی نصائح، غرض سب کچھ ہوتا۔ یہ عجیب سب رنگ مجلس ہوتی۔ شیخ مکی اس میں بھر پور حصہ لیتے لیکن مجال ہے کہیں ابتذال کا کوئی پہلو آئے۔ شیخ مکی ہمیں ’’مرج البحرین‘‘ بھی لے گئے جہاں زمین ختم ہو کر سمندر شروع ہوجاتا ہے وہاں بھی لے گئے، اسی مقام پر ایک خوبصورت مسجد میں نماز مغرب ادا کی،شیخ نے وعظ بھی ارشاد فرمایا۔ واپسی پر عمرہ بھی کرایا اور دعاؤں سے رخصت کیا۔ انھیں تحفظ ختم نبوت کے مشن سے عشق تھا۔ یورپ اور دیگر ممالک میں تحفظِ ختم نبوت کا کام بڑے جذبے سے کیا۔ انٹرنیشنل ختم نبوت کے قیام میں ان کا ذوق اور عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم شامل تھا۔ وہ اﷲ کے صالح بندے تھے۔ مسافرت کی موت اور وہ بھی اﷲ کے راستے میں ان کے اعمال حسنہ کی قبولیت ہے۔ اورسب سے بڑا اعزاز جنت البقیع میں نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمسائیگی ہے۔ ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ /۱۹؍ جنوری ۲۰۱۷ء کو نماز فجر کے بعد مسجد نبوی میں نماز جنازہ ہوئی اور پھر صبح قیامت تک کے لیے بقیع شریف میں آسودہ خاک ہوگئے۔جب روز قیامت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جنت البقیع پہنچیں گے تو سب بقیع والوں کے ساتھ شیخ عبدالحفیظ بھی اٹھیں گے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت میں جنت الفردوس میں داخل ہوں گے۔ ان شاء اﷲ ، اﷲ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فرزندان مولانا عبدالرؤف، مولانا عمر، مولانا معاذ اور آپ کے برادران کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے اور شیخ کے نقشِ قدم پرچلائے۔ (آمین)