تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قادیانیوں کو دعوت اسلام

(قسط:۱)

مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ

مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ سلسلہ نبوت حضرت آدم حضرت علیہ السلام سے شروع ہو کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدکوئی شخص منصب ِنبوت پر فائز نہیں ہوگا بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی رسالت ونبوت کا دورقیامت تک باقی رہے گا اور یہ بھی نہیں کہ ایک بار تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبی کی حیثیت سے مکہ میں مبعوث کیا جائے اور پھر کسی زمانے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دوسری بار خلعت نبوت سے آراستہ کر کے کسی اور جگہ بھیجا جائے۔ نہیں! بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی بعثت ہی ایسی کافی وشافی تھی کہ وہ قیامت تک قائم ودائم رہے گی اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کاآفتاب رہتی دنیا تک تاباں ودرخشاں رہے گا، نہ وہ کبھی غروب ہوگا، نہ اس کے بعد دوبارہ سلسلہ نبوت جاری کرنے کی ضرورت لاحق ہوگی۔
لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نبی کی حیثیت سے دنیا میں دوبارہ آنا منجانب اﷲ مقدر تھا، چنانچہ ایک دفعہ چھٹی صدی مسیحی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم محمد کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں مبعوث ہوئے اور دوسری بار انیسویں صدی مسیحی کے آخر اور چودھویں صدی ہجری کے اوائل میں ، قادیان (ضلع گورداسپور، مشرقی پنجاب) میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معبوث کیا گیا لیکن یہ دوسری دفعہ بعثت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی شکل میں نہیں ہوئی بلکہ اس بار مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ کے اسی ظہور کو مرزا غلام احمد قادیانی کی ’’خاص اصطلاح‘‘ میں ’’ظل‘‘ اور ’’بروز‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس عقیدے کی بنا پر مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بروز ہونے کی وجہ سے بعینہ ’’محمد رسول اﷲ ‘‘ہیں ان کا وجود بعینہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود ہے اور ان کی آمد بعینہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد ہے۔ فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ پہلی تشریف آوری میں آپ محمد تھے (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور دوسری میں آپ کا نام غلام احمد (قادیانی اصطلاح میں صرف احمد) ہے۔ پہلی بعثت مکہ میں ہوئی تھی ، اور دوسری قادیاں میں، پہلی بعثت جلالی تھی اور دوسری جمالی۔
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ ’’غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے دو بعثت مقدر تھے ایک بعثت تکمیل ہدایت کے لیے، دوسری بعثت تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے۔‘‘ [تحفہ گولڑیہ ص:۹۹، مندرجہ روحانی خزائن ص:۲۶۰، ج:۱۷]
۲۔ ’’پھر اس پر بھی تو غور کرو کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بعثتوں کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو امیوں یعنی مکہ والوں میں رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اسی طرح ایک اور قوم میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث کیا جائے گا، جو ابھی تک دنیا میں پیدا نہیں کی گئی، لیکن چونکہ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے کہ ایک شخص جب فوت ہوجاوے تو اسے پھر دنیا میں لایا جاوے۔ پس یہ وعدہ اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ثانی کے لیے ایک ایسے شخص کو چنا جاوے جس نے آپ کے کمالات نبوت سے پورا حصہ لیا ہو، اور جو حسن اور احسان اور ہدایت خلق اﷲ میں آپ کا مشابہ ہو۔ اورآپ کی اتباع میں اس قدر آگے نکل گیا ہو کہ بس آپ کی ایک زندہ تصویر بن جائے تو بلا ریب ایسے شخص کا دنیا میں آنا خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا دنیا میں آنا ہے اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم میں کوئی دوئی باقی نہیں رہی ۔ حتیٰ کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اﷲ تعالیٰ نے پھر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتارا۔‘‘
(کلمۃ الفصل، ص:۱۰۴،۱۰۵، مندرجہ ریوآف ریلیجزمارچ اپریل ۱۹۱۵ء)
۳۔ ’’پس وہ جس نے مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) اور نبی کرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دووجودوں کے رنگ میں لیا اس نے مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کی مخالفت کی، کیونکہ مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کہتا ہے صار و جودی وجودہ۔ (میرا وجود آپ ہی کا وجود بن گیا ہے)۔ اور جس نے مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) اور نبی کریم میں تفریق کی اس نے بھی مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف قدم مارا، کیونکہ مسیح موعود صاف فرماتا ہے کہ من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی ومارایٰ (جس نے میرے اور مصطفی کے درمیان فرق کیا اس نے مجھے نہ دیکھا اور نہ پہچانا) (دیکھو خطبہ الہامیہ، ص:۱۷۱، خزائن،ص:۲۵۸،ج:۱۶) اور وہ جس نے مسیح موعودکی بعثت کو نبی کریم کی بعثت ثانی نہ جانا اس نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا کیوں کہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک دفعہ پھر دنیا میں آئیں گے۔‘‘
(کلمۃ الفصل،ص:۱۰۵، مرزا بشیراحمد)۔
ان حوالوں سے واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ہیں اور یہ کہ آپ کی دوسری بعثت قادیان میں مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں ہوئی۔
قادیانیت بعثت کے آثار و نتائج
’’محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘ کادنیا میں دوبارہ آنا (پھر قادیان میں مبعوث ہو کر مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں ظاہر ہونا) اپنے جلووں میں اور بھی چند ایک عقائد رکھتا ہے، جن کے مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کے لوگ قائل ہیں۔ ان سے پہلے دنیا کا کوئی مسلمان اس کا قائل نہ تھا نہ اب ہے، بلکہ تمام امت مسلمہ ان عقائد کو کفر صریح سمجھتی رہی ہے۔
عقیدہ (۱) خاتم النبیین کے بعد عام گمراہی:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ کی خاتمیت کا تقاضا ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین رہتی دنیا تک قائم ودائم رہے۔ نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب ہدایت دنیا سے مفقود ہو اور نہ آپ کی امت کبھی گمراہی پر جمع ہو جیسا کہ نصوص قطعیہ سے ثابت ہے مرزاغلام احمد قادیانی ’’محمد رسول اﷲ کی بعثت ثانیہ‘‘ کا روپ دھار نے کے لیے یہ نظریہ ایجاد کیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں جو ہدایت لے کر آئے تھے وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بعثت ثانیہ کا دور (۱۳۰۱ھ) شروع ہونے سے پہلے یکسرمٹ چکی تھی دنیا میں چاروں طرف اندھیرا تھا زمین میں نہ دین تھا نہ ایمان تھا نہ ہدایت تھی نہ کتاب ہدایت تھی اور یہ سب کچھ دنیا کو مرزا غلام احمد قادیانی کے بدولت دوبارہ نصیب ہوا مختصر یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا بعثت ثانیہ کا عقیدہ تب ممکن ہے جب کہ پہلے یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی بعثت کا نور بجھ چکا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کا چراغ گل ہوچکا تھا، اس آفتاب رسالت کے بعد بھی دنیا میں عام تاریکی پھیل چکی تھی، اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی پوری کی پوری دنیا گمراہ ہوچکی تھی یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط؟ برا ہے یا بھلا؟ اس کا فیصلہ بھی آپ عقل خداداد سے خود ہی کیجئے، میں صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ عقیدہ کی تلقین اپنی جماعت کو بھی کرتے رہے۔ کیونکہ یہی عقیدہ ان کے ’’ظل وبروز‘‘ کی عمارت کا بنیادی پتھر ہے،چند حوالے ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ ’’آیت انا علی ذھاب بہ لقادرون میں ۱۸۵۷ء کی طرف اشارہ ہے…… جس کی نسبت خدائے تعالیٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھالیا جائے گا، سو ایسا ہی ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی۔ ‘‘ قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر اٹھالیا گیاہے۔ وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایا تھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشا تھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن ان سے نیچے نہیں اترتا، انھی معنوں سے کہا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پراٹھایا جائے گا۔ پھر انھیں حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے والا ایک مرد فارسی الاصل ہوگا (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی۔ ناقل) یہ حدیث درحقیقت اسی زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جوآیت انا علی ذھاب بہ لقادرون میں اشارۃً بیان کیا گیا ہے۔‘‘ (ازالہ خورد قادیان، ص:۷۲۲، روحانی خزائن حاشیہ،ص:۴۸۹تا۴۹۲،ج:۳)
۲۔ ’’مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) اس زمانہ میں مبعوث کیا گیا جب دنیا میں چاروں طرف اندھیراچھا گیا تھا اور بحر وبر میں ایک طوفان عظیم برپا ہورہا تھا ، مسلمان جن کو خیرالامت کا خطاب ملا تھا نبی عربی کی تعلیم سے کوسوں دور جاپڑے تھے۔ تب یکایک آسمان سے ظلمت کا پردہ پھٹا او رخدا کا ایک نبی (مرزا غلام احمد قادیانی) فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر اترا۔‘‘ (کلمۃ الفصل، ص: ۱۰۰،۱۰۱ ، از مرزا بشیراحمد)
۳۔ ’’ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہا ں موجود ہے؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی، مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے اسی لیے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بروزی طورپر (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں) دوبارہ دنیا میں مبعوث کر کے آپ پر قرآن شریف اتارا جاوے‘‘ (کلمۃ الفصل، ص:۱۷۳)
الغرض دوسرے بعثت کے عقیدہ سے پہلے یہ عقیدہ ضروری ٹھہرا کہ رسالت محمدی کا آفتاب دنیا کے مطلع سے ڈوب چکا تھا، اس کی کوئی روشنی باقی نہ تھی ایمان تھا نہ اسلام تھا نہ قرآن تھا، چاروں طرف بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا، یہ سب کچھ مرزا غلام احمد قادیانی کی بعثت کے طفیل دوبارہ ملا۔
عقیدہ (۲) پہلی اور دوسری بعثت کا الگ الگ دور!
جب مرزاغلام احمدقادیانی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو الگ الگ بعثتیں ذکر کیں، ایک مکی بعثت بشکل محمد او ر دوسری قادیانی بعثت بشکل مرزا غلام احمدقادیانی، تو لا محالہ ان دونوں بعثتوں کا دور بھی الگ الگ ہوگا۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا عقیدہ ہے یہ چودھویں صدی سے دوسری بعثت کاد ور شروع ہوتا ہے اور یہ کہ تیرہویں صدی کے آخر میں پہلی بعثت کی تمام برکات ختم ہوگئی تھیں ، حتیٰ کہ قرآن ، ایمان اوراسلام سبھی کچھ اٹھ چکا تھا، اوریہ سب کچھ امت کو دوسری بعثت کے دم قدم سے دوبارہ نصیب ہوا۔ اس سے از خود یہ نتیجہ نکل آتا ہے کہ تیرھویں صدی پر مکی بعثت کا دور ختم ہوچکا اور اب چودھویں صدی سے قادیانی بعثت کا دور شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا انسانیت کی نجات وفلاح کے لیے مکی بعثت کا لعدم قرار پائی ہے۔ اور اسلام کا صرف وہی ایڈیشن معتبر، قابل عمل اور موجب نجات ٹھہرتا ہے جس پر قادیانی بعثت کی مہر ہو۔ مرزا غلا م احمد قادیانی لکھتا ہے کہ : ’’خدانے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے الگ رہے گاوہ کاٹا جاوے گا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات صفحہ ۴۱۶،جلدطبع لندن) پھر ایک حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کا الہام ہے جو آپ نے اپنے اشتہار معیار الاخیار مورخہ ۲۵مئی ۱۹۰۰ء صفحہ ۸ پر درج کیا ہے اور وہ یہ ہے : ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدااور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ ‘‘(تذکرہ ص:۳۳، مجموعہ اشتہارات ،ص:۲۷۵،ج:۳)
خلاصہ یہ کہ مرز ا غلام احمد قادیانی کے دو بعثتوں والے عقیدہ کا ایک اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ تیرھویں صدی کے بعدآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت پر ایمان لانا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کرنا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات واشارات پرعمل کرنا موجب نجات نہیں،بلکہ یہ ساری چیزیں کالعدم ، لغو اور بے کار ہیں جب تک کہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لایا جائے۔ کیونکہ تیرھویں صدی کے بعد مکی رسالت ونبوت کا دور نہیں رہا، بلکہ قادیانی رسالت ونبوت کاد ور شروع ہوچکا ہے اور اس دور میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنے والوں کی بھی وہی حیثیت ہوگی جو رسالت محمد یہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنے والوں کی بھی وہی حیثیت ہوگی جو رسالت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرنے والوں کی ہے۔ یعنی مرزا بشیر احمد کے الفاظ میں: ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا ، یا عیسیٰ کو تو مانتا ہے مگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں مانتا اور یامحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (کلمۃ الفصل ۱۱۰، از مرزا بشیراحمد)
یہ تو قادیانی عقیدہ ہوا، اس کے برعکس اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ رسالت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دور تیرھویں صدی تک محدود نہیں، بلکہ قیامت تک ہے، اس لیے ایمان وکفر کا معیار آج بھی وہی ہے، جو چودھویں صدی سے پہلے تھا، اور یہی معیار قیامت تک قائم رہے گا۔ اب اہل عقل کو غور کرنا چاہیے کہ کیا قادیانی عقیدے کے مطابق رسالت محمدیہ (یا مرزا غلام احمد قادیانی کی اصطلاح میں پہلی بعثت) منسوخ اور کالعدم ہوجاتی ہے یا نہیں؟
عقیدہ (۳) جامع کمالات محمدیہ
جب مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا مظہر ہونے کی بنا پر بعینہ ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بن گئے ہیں تو یہ عقیدہ بھی لازم ٹھہرا کہ وہ تمام اوصاف وکمالات جو پہلی بعثت میں حضرت محمد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں پائے جاتے تھے وہ اب بروزی رنگ میں ، پورے کے پورے جناب مرزا غلام احمدقادیانی کے نام رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جو منصب ومقام کی تیرھویں صدی تک محمد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھا وہ اب مرزا غلام احمد قادیانی کو تفویض کیا جاچکا ہے اور جس مسندرسالت پر پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جلوہ افروز تھے، اب اس پر مرزا غلام احمد قادیانی رونق افروز ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت اس عقیدے کا بھی برملا اظہار کرتی ہے، ان کے بے شمارے حوالوں میں سے چند حوالے درج ذیل ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتے ہیں: ’’جب کہ میں بروزی طورپر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی ،مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون ساالگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طورپر نبوت کا دعویٰ کیاہے۔‘‘
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، خزائن، ص:۲۱۲،ج:۱۸)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میرانام نبی اﷲ اور رسول اﷲ رکھا مگر بروزی صورت میں میرانفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے، اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا، پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی ، محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی۔‘‘
(ایک غلطی ازالہ، روحانی خزائن، ص:۲۱۶، ج:۱۸)
ان حوالوں سے قادیانی عقیدہ کا منشاء بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے نزدیک مرزاغلام احمد قادیانی کے بعینہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام کمالات حاصل ہیں اور چودھویں صدی سے ’’محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کی مسند رسالت پر مرزاغلام احمد قادیانی متمکن ہیں۔ کیاکوئی مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی اس عقیدہ کو تسلیم کرسکتا ہے؟ (جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.