اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (قسط:۹)
حافظ عبیداﷲ
تیسری سند کے راویوں کا تعارف
حرملۃ بن یحییٰ بن عبداللّٰہ التجیبی
امام یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں فرمایاکہ ’’یہ عبداﷲ بن وہب کی احادیث کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے‘‘۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ’’میں نے حرملۃ بن یحییٰ کی حدیثوں کا اچھی طرح جائزہ لیا اور بہت زیادہ جانچ پڑتال کی ، مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملی جس کی وجہ سے انہیں ضعیف کہا جائے‘‘۔ امام عقیلی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ امام ابن حِبان نے بھی ان کا شمار ثقہ لوگوں میں کیا ہے۔ امام ذہبی نے ان کے بارے میں لکھا ہے ’’صدوق من أوعیۃ العلم‘‘ سچے اور علم کے سمندر تھے۔ (تہذیب التہذیب، ج2 ص229 /الکاشف، ج1 ص317 دارالقبلۃ۔جدۃ)
فائدہ: حرملۃ بن یحییٰ کے بارے میں امام ابوحاتم رازی کا ایک قول ملتا ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’یُکتب حدیثہ ولا یُحتج بہ‘‘ ان کی حدیث لکھ لی جائے لیکن وہ (اکیلے) حجت نہیں ہیں۔ ہماری زیرِ بحث حدیث کی امام مسلم نے چار مختلف سندیں بیان کی ہیں جن میں سے صرف ایک سند میں حرملۃ بن یحییٰ ہیں باقی تین سندوں میں وہ موجود نہیں لہٰذا اس حدیث کو بیان کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں۔
عبداللّٰہ بن وہب بن مسلم القرشي المصری
میمونی ؒ نے امام احمد بن حنبلؒ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کان ابن وہب لہ عقل ودین وصلاح‘‘ ابن وہب کے پاس عقل،دین اور صلاح تھی‘‘ ۔ امام احمد سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے انہیں ’’صحیح حدیث والا‘‘ فرمایا۔ یحییٰ بن معین ؒنے انہیں ’’ثقہ‘‘ فرمایا۔ امام ابوحاتم رازیؒ نے انہیں ’’صالح الحدیث صدوق‘‘ (اچھی حدیث والا اور سچا) فرمایا۔ امام ابوزرعہؒ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ’’میں نے عبداﷲ بن وہب کی تیس ہزار کے قریب احادیث میں غور کیا ہے، مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جو ناقابل قبول ہو، وہ ثقہ ہیں‘‘ ۔ ابن عدیؒ نے انہیں ’’عظیم اور ثقہ‘‘ لوگوں میں سے بتایا ہے۔ ابن سعدؒ نے بھی انہیں ’’بہت زیاد علم والا اور ثقہ‘‘ کہا ہے۔ عجلی ؒ نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ نسائی ؒ اور ساجی ؒنے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب، ج6 ص71، دائرۃ المعارف۔الہند)
یونس بن یزید الأیلي
عبداﷲ بن مبارکؒ اور ابن مہدی ؒنے فرمایا ’’ان کی کتاب صحیح ہے‘‘ نیز عبداﷲ بن مبارک نے فرمایا ’’جب میں معمر اور یونس دونوں کی حدیث دیکھتا ہوں تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے ، ایسا لگتا ہے ایک ہی چراغ کی روشنی ہے‘‘۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ ’’امام زہری کی احادیث کو زبانی یاد کرنے والا معمر سے بڑا کوئی نہیں ، لیکن یونس (بن یزید) کی خاصیت یہ ہے کہ وہ امام زہری کے ہاں ہر حدیث لکھ لیا کرتے تھے‘‘۔ فضل بن زیادؒ نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے یونس بن یزید کو ’’ثقہ‘‘ فرمایا۔ امام یحییٰ بن معین ؒنے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ فرمایا، نیز فرمایا ’’زہری کے شاگردوں میں سب سے پختہ یہ ہیں:مالک، معمر،یونس،عقیل، شعیب اور ابن عیینہ‘‘ ۔ احمد بن صالح ؒ کہتے ہیں : ’’نحن لا نقدم فی الزہری علی یونس أحداً‘‘ ہم امام زہری سے روایت کرنے والوں میں یونس (بن یزید) سے کسی کو مقدم نہیں رکھتے۔ امام عجلی اور نسائی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ یعقوب بن شیبہ نے انہیں ’’اچھی حدیث والا‘‘ فرمایا ہے ۔ امام ابوزرعہ نے فرمایا ’’لا بأس بہ‘‘ ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ ابن خراش نے انہیں ’’سچا‘‘ کہا ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے انہیں ’’ثقہ اور حجت‘‘ لکھا ہے ۔
(تہذیب التہذیب، ج11 ص450 /میزان الاعتدال، ج4 ص484 دار المعرفۃ بیروت)
فائدہ: یونس بن یزید کے بارے میں بعض لوگوں سے یہ جرح ملتی ہے کہ ’’ان کا حافظ اچھا نہ تھا‘‘ نیز ابن سعد نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’کان حلوا الحدیث کثیرۃ ولیس بحجۃ ربما جاء بالشیء المنکر‘‘ وہ بہت زیادہ شیرین حدیث والے تھے لیکن حجت نہیں، کبھی منکر حدیث بھی بیان کردیتے ہیں(حجت نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اکیلے حجت نہیں ہیں، ہاں وہ حدیث جو اُن کے علاوہ دوسرے ثقہ لوگوں نے بھی روایت کی ہو یقیناً حجت ہے) ، لیکن امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان دونوں باتوں کو ’’شاذ اقوال‘‘ بتایا ہے جو یونس بن یزید کے بارے میں جمہور ائمہ کے مخالف ہیں ،نیز یہ جرح غیر مفسر ہے جو قابل قبول نہیں ۔
تمنا عمادی صاحب کے مغالطے
تمنا عمادی صاحب نے حسب عادت یونس بن یزید کے بارے میں ائمہ کے توصیفی اقوال جان بوجھ کر ذکر نہیں کیے ، اور جو کچھ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے :
’’اب یونس بن الایلی کا حال بھی سن لیجیے۔ یہ ابن شہاب زہری کے ہم وطن تھے ۔ اور ان کے رفیق خاص تھے، مگر بقول امام احمد بن حنبل منکر الحدیث تھے، منکر حدیثیں بہت روایت کیا کرتے تھے۔ ابن شہاب کی حدیثیوں میں ان کو محدثین نے بہت زیادہ ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ ان کی حدیثیں حجت وسند نہیں ہیں۔ مصر کے قریب ۱۵۹ھ میں وفات پائی۔‘‘(انتظارِ مہدی ومسیح، ص 183)
قارئین محترم! یہ ہے تمنائی شعبدہ بازی، پھر وہی جھوٹ کہ یہ ابن شہاب زہری کے ہم وطن تھے، جبکہ امام زہری کا وطن اصلی مدینہ منورہ تھا نہ کہ ’’ایلہ‘‘، ہم نے امام احمد بن حنبل سے یونس بن یزید کا ’’ثقہ‘‘ ہونا باحوالہ پیش کیا ہے جو عمادی صاحب کو نظر نہ آیا، پھر یہ مغالطہ دیا کہ ’’یہ منکر حدیثیں بہت روایت کیا کرتے تھے‘‘ جبکہ ’’بہت زیادہ‘‘ کا لفظ عمادی صاحب کا اضافہ کردہ ہے، جس نے یونس بن یزید کی منکر روایت کا ذکر کیا ہے یوں کیا ہے ’’فی حدیث یونس عن الزہری منکرات‘‘ امام زہری سے یونس کی حدیث میں منکر حدیثیں بھی ہیں (جیسے امام احمد سے نقل کیا گیا ہے) یا ’’ربما جاء بالشیء المنکر‘‘ شاید کبھی منکر حدیث بھی بیان کردیتے ہیں (جیسے ابن سعد نے کہا) ان الفاظ کا (بفرض صحت) یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی اکثر روایات منکر ہیں ، اور یہ بھی یاد رہے کہ امام احمد بن حنبلؒ کے ہاں ’’منکر‘‘ حدیث صرف اسے کہاجاتا تھا جو اکیلی ہو اور اس کی متابع اور کوئی حدیث نہ ہو، اصطلاحی منکر مراد نہیں ہوتی تھی ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے مقدمہ فتح الباری میں اس کی تصریح کی ہے ، لکھتے ہیں:
’’ المنکر اطلقہ احمد بن حنبل وجماعۃ علی الحدیث الفرد الذی لا متابع لہ‘‘ یعنی امام احمد بن حنبلؒ اور ایک جماعت کے نزدیک ’’منکر حدیث‘‘ اس اکیلی حدیث کو کہاجاتا ہے جس کا کوئی متابع نہ ہو۔
(ہدي الساری مقدمۃ فتح الباری، ج1 ص437، المکتبۃ السلفیۃ)
پھر حافظ ابن حجرؒ نے خاص طور پر ’’یونس بن یزید اَیلی‘‘ کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ اور ابن سعدؒ کے اقوال کا ذکر کرنے کے بعد اپنا فیصلہ یوں لکھا ہے :
’’قلتُ وَثَّقہ الجمہور مطلقاً واِنما ضَعّفُوا بعض روایتہ حیث یخالف أقرانہ أو یُحدِّثُ من حفظہ فاذا حَدّث من کتابہ فہو حُجّۃ قال ابن البرقي سمعتُ ابن المدیني یقول: أثبت الناس في الزہري مالک وابن عُیینۃ ومعمر وزیاد بن سعد ویونس من کتابہ، وقد وثّقہ أحمد مطلقاً وابن معین والعجلي والنسائي ویعقبو بن شیبۃ والجمہور واحتج بہ الجماعۃ‘‘ میں کہتا ہوں کہ جمہور نے یونس بن یزید کی مطلقاً توثیق کی ہے ، ان کی بعض روایات کی تضعیف اس لئے کی گئی ہے کہ یا تو انہوں نے کسی روایت میں اپنے ہم زمانہ لوگوں کی مخالفت کی ہے یااپنی یادداشت سے روایت بیان کی ہے ، ورنہ جب وہ اپنی کتاب سے روایت بیان کریں تو وہ حجت ہیں، ابن البرقی نے کہا ہے کہ میں نے ابن المدینی کو یہ فرماتے سنا کہ : زہری کے شاگردوں میں سب سے پکے اور قابل اعتماد یہ ہیں : مالک، ابن عُیینہ، معمر، زیاد بن سعد اور یونس جب وہ اپنی کتاب سے روایت بیان کریں، امام احمد نے بھی ان کی مطلقاً توثیق کی ہے، اسی طرح یحییٰ بن معین، عجلی، نسائی، یعقوب بن شیبہ اور جمہور نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے اور محدثین کی جماعت نے انہیں حجت تسلیم کیا ہے۔ (ہدي الساری مقدمۃ فتح الباری، ج1 ص455، المکتبۃ السلفیۃ)
اب ابن المدینی تو یونس بن یزید کو امام زہری کے سب سے زیادہ ہونہار اور ’’ثبت‘‘ شاگردوں میں شمار کریں اور تمنا عمادی صاحب ان کے بارے میں یہ لکھیں کہ ’’محدثین نے انہیں امام زہری کی حدیثوں میں سب سے زیادہ ضعیف قرار دیا ہے‘‘ کھلا ہوا مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔ واضح رہے کہ نزول عیسی بن مریمi کی حدیث بیان کرنے میں ’’یونس بن یزید‘‘ متفرد بھی نہیں بلکہ بقول ائمہ حدیث یہ روایات تو متواتر ہیں ۔ لہٰذا تمنائی مغالطے کی کوئی علمی حیثیت نہیں ۔
چوتھی سند کے راویوں کا تعارف:
الحسن بن علي بن محمد الہذلي الحلواني
صحیح مسلم کی چوتھی سند کے پہلے راوی ہیں ’’حسن الحلوانی‘‘، ان کے بارے میں یعقوب بن شیبہ نے کہا کہ یہ ’’ثقہ اور ثبت‘‘ ہیں۔ امام ابوداؤد نے کہاکہ’’ یہ علم رجال کے عالم بھی تھے لیکن اپنا یہ علم استعمال نہیں کرتے تھے اور کسی پر تنقید نہیں کرتے تھے‘‘۔ امام نسائی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ خطیب بغدادی نے کہا کہ ’’یہ ثقہ اور حافظ تھے‘‘ ۔ امام ترمذی نے بھی انہیں ’’حافظ‘‘ کہا ہے۔ ابن حبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے ۔حافظ ابن حجرؒ نے ان کے بارے میں لکھا ہے ’’ثقۃ حافظ لہ تصانیف‘‘ یہ ثقہ اور (حدیث) کے حافظ تھے ، ان کی تصانیف بھی ہیں، امام ذہبیؒ نے بھی انہیں ’’ثبت حجۃ‘‘ لکھا ہے ۔(تہذیب التہذیب، ج2 ص302/تقریب التہذیب،ص162 /الکاشف، ج1 ص328)
عبد بن حُمید بن نصر الکِسّی
امام ذہبی ؒ نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے ’’الاِمام الحافظ الحُجّۃالجوّال‘‘ امام، حافظ، حجت اور (حدیث کے لئے) مختلف مقامات پر گھومتے پھرنے رہنے والے تھے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا نام عبدالحمید تھا ، اور ’’کِسّی‘‘ کہ جگہ ’’کِشّی‘‘ بھی کہاجاتا ہے ۔ امام ابن حبانؒ نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے ’’عبدالحمید بن نصر الکِشي وہو الذی یُقال لہ عبد بن حُمید وکان مِمن جَمَع وصنّف ومات سنۃ تسع وأربعین ومائتین‘‘ عبدالحمید بن نصر الکشی ، انہیں ہی عبد بن حُمید کہا جاتا ہے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے علم جمع کیا اور تصنیف کیا، ان کی وفات 249 ھ میں ہوئی۔
(ملخصاً: تہذیب التہذیب، ج6 ص455 / سیر أعلام النبلاء، ج12 ص235 )
یعقوب بن ابراہیم بن سعد بن ابراہیم الزہری القرشی المدنی
امام ذہبی ؒ نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے ’’الامام الحافظ الحجّۃ ، ابویوسف الزہري، العوفي، المدني ثم البغدادي‘‘ امام ، حافظ اور حجت، ابویوسف زہری عوفی ، اصل میں مدینہ کے رہنے والے ہیں لیکن بعد میں بغداد چلے گئے ۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ عِجلی نے بھی ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابوحاتم نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا ہے۔ ان حِبان نے بھی انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد نے انہیں ’’ثقہ اور مامون‘‘ کہا ہے۔نیز ابن سعد کے مطابق آپ بغداد میں رہتے تھے، پھر (مامون کے وزیر) حسن بن سہل کے ہاں ’’فم الصِلح‘‘ نامی مقام پر (یہ واسط کے قریب ایک نہر کا نام ہے، اس نہر کے پاس ایک پہاڑی پر حسن بن سہل کا گھر تھا) چلے گئے اور وہیں شوال 208ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ (تہذیب التہذیب، ج11 ص380 /سیر اعلام النبلاء، ج9 ص491)
فائدہ: یعقوب بن ابراہیم مشہور صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد سے ہیں، ان کے پڑدادا ابراہیم، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے بیٹے ہیں، اور جیسا کہ امام ذہبی اور حافظ ابن حجر دونوں نے تصریح کی ہے کہ ان کا اصل وطن مدینہ منورہ ہے لیکن یہ بغداد میں جاکر بس گئے تھے، بالکل اسی طرح جیسے امام ابن شہاب زہری کا اصل وطن مدینہ تھا لیکن آپ شام جاکر بس گئے تھے، تمنا عمادی صاحب کی ضد ہے کہ امام زہری مدنی نہیں تھے بلکہ شامی تھے، اِس تمنائی منطق کی رُو سے یعقوب بن ابراہیم کو بھی ’’مدنی‘‘ نہیں بلکہ ’’عراقی‘‘ ہونا چاہیے، لیکن آگے آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث پر تنقید کرتے ہوئے جس میں یہی یعقوب بن ابراہیم ہیں ، عمادی صاحب نے امام زہریؒ کو شامی ثابت کرنے والے اپنے ’’تمنائی‘‘ فارمولے کو خود ہی غلط ثابت کیا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ یعقوب بن ابراہیم تو مدینہ سے باہر کہیں گئے ہی نہیں۔
ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف القرشی الزہری
یہ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ کے والد ہیں ، امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ان کا تعارف یوں کرایا ہے: ’’الامام ، الحافظ الکبیر ‘‘ بہت بڑے امام اور (حدیث کے) حافظ ’’وکان ثقۃ وصدوقاً صاحب حدیث‘‘ وہ ثقہ، سچے اور حدیث والے تھے۔ نیز میزان الاعتدال میں یوں فرمایا: ’’ أحد الأعلام الثقات‘‘ بڑے اور مشہور ثقہ لوگوں میں سے ایک ۔ امام احمد بن حنبل نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ اور حجت‘‘ کہا۔ عجلی اور ابوحاتم نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابن خراش نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) بتایا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ’’ہو من ثقات المسلمین حدّث عنہ جماعۃ من الأئمۃ ولم یختلف أحد فی الکتابۃ عنہ، وقول من تکلم فیہ تحامل‘‘ وہ مسلمانوں کے ثقہ لوگوں میں سے ہیں، اُن سے ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے احادیث بیان کی ہیں اور کسی نے اُن کی حدیث لکھنے میں اختلاف نہیں کیا، اور اگر کسی نے ان کے بارے میں کلام (یعنی جرح کی ہے) تو اُس نے زیادتی کی ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء، ج8 ص304 /میزان الاعتدال ج1 ص33 /تہذیب التہذیب ج1 ص121)
صالح بن کیسان المدني
امام ذہبی لکھتے ہیں : ’’الامام الحافظ الثقۃ‘‘ امام، حافظ اور ثقہ ۔ نیز لکھتے ہیں ’’وکان صالح جامعاً من الحدیث والفقہ والمُروء ۃ‘‘ صالح حدیث اور فقہ دونوں علوم کے جامع تھے اور بہت اچھے اخلاق والے تھے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ’’رأی ابن عمر وابن الزبیروقال ابن معین سمع منہما‘‘ انہوں نے حضرت عبداﷲ ؓ بن عمرؓ اور عبداﷲؓ بن زبیرؓ کو دیکھا اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ ان دونوں صحابیوں سے حدیث بھی سُنی ہے۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ صالح عمر میں زہری سے بڑے تھے اور انہوں نے ابن عمرؓ اور ابن زبیرؓ کو دیکھا ہے ۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی تعریف فرمائی۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ یعقوب بن شیبہ نے کہا کہ صالح ’’ثقہ اور ثبت‘‘ ہیں۔ ابو حاتم نے کہا کہ ’’صالح مجھے عقیل سے زیادہ محبوب ہیں کیونکہ وہ حجازی ہیں اور عمر میں بڑے ہیں نیز انہوں نے ابن عمرؓ کو دیکھا ہے، وہ ثقہ ہیں اور وہ تابعین میں سے ہیں‘‘۔ نسائی اور ابن خراش نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔ عجلی اور ابن حبان نے بھی ان کا شمار ثقہ لوگوں میں کیا ہے۔ (ملخصاً: سیر اعلام النبلاء، ج5 ص454 /تہذیب التہذیب ج4 ص399)
حدیث نمبر 3
’’(امام بخاری فرماتے ہیں) ہم سے علي بن عبداللّٰہ (مدینی) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان (بن عیینہ )نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زُہری (ابن شہاب) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ’’أخبرَنِي سعید بن المسیب‘‘ مجھے سعید بن المسیب نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سُنا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ابن مریم (عیسی علیہ السلام ) کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہولے، وہ صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، اور جزیہ قبول نہیں کریں گے (اس دور میں) مال ودولت کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2476)
راویوں کا تعارف
علي بن عبداللّٰہ بن جعفر ابن المدینی البصري ابوالحسن
امام ذہبیؒ نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الشیخ ، الامام، الحُجّۃ، أمیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ شیخ، امام ، حجت ، حدیث میں مومنین کے امیر ۔حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں: ’’ ثقۃثبت اِمام أہل عصرہ بالحدیث وعﷲ‘‘ ثقہ، ثبت، اپنے زمانے کے حدیث اور علل کے امام۔ ابوحاتم رازی نے کہا: ’’علی (بن المدینی) لوگوں میں علم ِحدیث اور علل حدیث کی ایک علامت تھے، امام احمد بن حنبل تو احترام کے پیش نظر ان کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ آپ کا ذکر کنیت کے ساتھ کرتے تھے‘‘۔ سفیان بن عیینہ (جو کہ ابن المدینی کے استاد ہیں) فرماتے ہیں کہ : ’’اﷲ کی قسم میں نے اُن سے اُس سے زیادہ سیکھا ہے جتنا انہوں نے مجھ سے سیکھا‘‘، نیز سفیان بن عُیینہ نے کہا: ’’اگر علی بن المدینی نہ ہوتے تو میں (حدیث پڑھانے کے لئے) نہ بیٹھتا‘‘ ۔ حفص بن محبوب کہتے ہیں کہ ایک بار ہم سفیان بن عیینہ کے پاس بیٹھے تھے تو ابن المدینی اٹھ کھڑے ہوئے تو ان کے ساتھ سفیان بن عیینہ بھی اُٹھ گئے اور فرمایا: جب گھڑ سوار اٹھ گئے تو ہم پیادہ لوگوں کے ساتھ کیوں بیٹھیں؟‘‘ ۔ عبدالرحمن بن المہدی نے کہا: ’’لوگوں میں حدیث رسولؐ کے سب سے بڑے عالم علی بن المدینی ہیں ، خاص طور پر ان احادیث کے جو سفیان بن عیینہ کے واسطے سے ہیں‘‘۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ : ’’یحییٰ بن سعید ، ابن المدینی کا بہت اکرام کرتے تھے، انہیں اپنے قریب بٹھاتے تھے اور ان کے دوست تھے‘‘۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ : ’’ایسا لگتا ہے جیسے اﷲ نے ابن المدینی کو اسی مقصد کے لئے (حدیث کی خدمت کے لئے) پیدا فرمایا تھا‘‘۔ ابویحییٰ کہتے ہیں کہ : ’’جب ابن المدینی بغداد تشریف لاتے تو آپ مجلس کی صدارت فرماتے، جبکہ یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، معیطی اور دوسرے لوگ بحث مباحثہ کرتے، جب ان کا کسی بات میں اختلاف ہوتا تو اس وقت ابن المدینی کلام فرماتے (یعنی آپ فیصلہ فرماتے)‘‘۔ ابن حبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام نسائی نے کہا: ’’وہ ثقہ، مامون اور حدیث کے اماموں میں سے ایک امام ہیں‘‘۔ ابوزرعہ نے کہا کہ : ’’ان کی سچائی میں شک نہ کیا جائے‘‘۔
(ملخصاً: سیر اعلام النبلاء، ج11 ص41 / تقریب التہذیب ج1 ص403 تہذیب التہذیب ج7 ص349)
فائدہ: علی بن المدینی کے بارے میں امام احمد بن حنبل وغیرہ کے کچھ تنقیدی الفاظ بھی منقول ہیں، ان کا پس منظر ایک آزمائش ہے جو علی بن المدینی کو پیش آئی، جس کی تفصیل کتب رجال میں مذکور ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ : ’’قلتُ تکلم فیہ احمد ومن تابعہ لأجل ما تقدم من اِجابتہ في المحنۃ وقد اعتذر الرجل عن ذلک وتاب وأناب‘‘ امام احمد اور ان کی متابعت کرنے والوں نے اُن کے بارے میں جو کلام کیاہے اس کی وجہ ابتلاء و آزمائش کے دوران ابن المدینی کا جواب ہے جس کا پہلے ذکر ہوا، جبکہ انہوں نے اپنی بات سے اعتذار کر لیا تھا اور توبہ ورجوع بھی کرلیا تھا۔ (تہذیب التہذیب، حوالہ مذکورہ) ۔
سفیان بن عُیینہ : ان کا تعارف گزر چکا ۔
ابن شہاب الزہری: ان کا مفصل تعارف ہوچکا، تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ روایت امام زہری نے سعید بن المسیب سے ’’اخبرني‘‘ کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
سعید بن المسیب : ان کا تعارف بھی بیان ہوچکا۔
حدیث نمبر4:
’’(امام بخاری فرماتے ہیں) ہم سے اسحاق نے بیان کیا (انہوں نے کہا) ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی (انہوں نے کہا) ہم سے میرے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح (بن کیسان) نے ، اُن سے ابن شہاب (زہری) نے، ان سے سعید بن المسیب نے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے سُنا، انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ e نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، وہ زمانہ قریب ہے کہ (عیسیٰ) بن مریم i تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے ، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سُور کو مار ڈالیں گے ، اور جزیہ موقوف کردیں گے ، اس وقت مال کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بڑھ کر ہوگا ۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہار ا جی چاہے یہ آیت پڑھ لو: اور کوئی اہل کتاب میں ایسا نہیں ہوگا جو (عیسیٰ ؑ) کی موت سے پہلے اُن پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3448)
یہی حدیث امام ابوعوانہ اسفرائینی ؒ نے مستخرج ابی عوانہ( ج 1 ص 98 طبع دار المعرفۃ بیروت ) میں ابوداؤد سلیمان بن سیف الحرانی سے روایت کی ہے جنہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ۔ (آگے یہی بخاری والی سند ہے ) ۔
اس حدیث کے بارے میں تمنائی مغالطے
یہ صحیح بخاری کی ’’کتاب أحادیث الأنبیاء‘‘ کے باب ’’نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کی پہلی حدیث ہے ، جناب تمنا عمادی نے احادیث نزول عیسیٰ ؑ کی احادیث پر تنقید اسی حدیث سے شروع کی ہے اور اپنی خیالی و فرضی تحقیق کے ایسے گھوڑے دوڑائے ہیں کہ علم حدیث واسماء الرجال کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر منکرینِ حدیث کے ’’محدث العصر‘‘ کا یہ حال ہے تو باقیوں کا کیا حال ہوگا؟ ۔ عمادی صاحب نے صحیح بخاری کی اس حدیث کو ’’موضوع‘‘ اور ’’جھوٹی‘‘ ثابت کرنے کے لئے جو تحقیق پیش کی ہی اس کا خلاصہ یہ ہے :
(1)…… صحیح بخاری میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق اس باب کا ’’کتاب بدء الخلق‘‘ میں ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پورا باب کسی نے امام بخاری کی کتاب میں ’’ٹھونس‘‘ دیا ہے ، ورنہ حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کا اس کتاب سے کیا تعلق جس میں آغاز تخلیق سے متعلق مضامین بیان ہوئے ہیں، اسے تو اس کتاب میں ہونا چاہیے جس میں خاتمہ تخلیق سے متعلق مضامین بیان ہوں۔(خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص 167 – 168)
(2)……اس حدیث کو امام بخاری نے اپنے جس استاد سے روایت کیا ہے ان کا نام صرف ’’اسحاق‘‘ ذکر کیا ہے ، نہ ان کی ولدیت لکھی اور نہ ہی یہ وضاحت کی کہ وہ کون سے اسحاق ہیں، لہٰذا یہ اسحاق کون ہیں؟ اﷲ ہی جانے، امام بخاری تو پندرہ اسحاق سے روایت کرتے ہیں، ان میں سے بعض اسحاق مجروح اور ناقابل اعتبار بھی ہیں، امام بخاری اسی لئے ایسے مواقع میں نسبت ولدیت کی ایسی تصریح نہیں کرتے جس سے کسی کی شخصیت معین ہو سکے۔ اگر وہ اس راوی کی شخصیت خود متعین کردیتے تو اس کی مجروحیت کی وجہ سے وہ روایت ناقابل اعتبارٹھہر جاتی اور غلط نسبت ظاہر کرکے غلط شخصیت معین کردیتے ہیں تویہ کذب ہوجاتا ہے، یہ خیال کرکے امام بخاری نے نہیں بلکہ ان کی کتاب میں ایسی حدیثوں کے داخل کردینے والوں نے صرف اسحاق لکھ کر راوی کی شخصیت کو مبہم چھوڑ دیا تاکہ بعد والے حسن ظن سے کام لے کر ثقہ اسحاق کو ہی خود متعین کرلیں۔ (خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص 169 تا 171)
(3)……یہاں ’’اسحاق‘‘ سے مراد ’’اسحاق بن راہویہ‘‘ نہیں ہوسکتے (جیسا کہ حافظ ابن حجر ؓ اور علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے۔ ناقل) اور نہ ہی ’’اسحاق بن منصور‘‘ ہو سکتے ہیں (جیساکہ ابن حجر نے ابوعلی الجیّانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ناقل)کیونکہ اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور دونوں خراسان کے ایک قصبے ’’مرو‘‘ کے رہنے والے تھے جو کہ نیشاپور کے قریب واقع ہے اور یہ دونوں اواخر عمر میں نیشاپور آکر بس گئے تھے ، نیشاپور وضّاعین (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں) کا بڑا مرکز تھا، اس لئے اکثر محدثین وہاں کھنچے چلے آتے تھے، یہ دونوں بھی وہاں کھنچ گئے اور وہیں رہے، جبکہ ’’یعقوب بن ابراہیم‘‘ خالص مدنی ‘‘ ہیں ، اِن سے حدیثیں لینے کا موقع ان خراسانیوں (یعنی اسحاق بن راہویہ اور اسحاق بن منصور) کو کب اور کہاں ملا؟ یعقوب بن ابراہیم کا مرو یا نیشاپور جانا ثابت نہیں ، اور ابن راہویہ یا ابن منصور اگر مدینہ آئے تھے تو کس زمانے میں آئے تھے؟۔ اگر یہ دونوں مدینہ آئے تھے تو صرف یعقوب بن ابراہیم ہی سے حدیثیں کیوں لیتے اس وقت مدینہ میں اور بھی اکابر محدثین موجود تھے ، اُن سے احادیث کیوں نہ لیں؟۔
(خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص 174 – 175)
(4)…… پھر عمادی صاحب بزعمِ خود ’’اصل حقیقت‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ ’’اسحاق‘‘ جن سے امام بخاری روایت کرتے ہیں اور وہ یعقوب بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں ، وہ نہ اسحاق بن راہویہ ہیں اور نہ اسحاق بن منصور، بلکہ وہ اسحاق بن محمد بن اسماعیل بن فروہ المدنی الاموی مولی عثمان ہیں، یہ بھی مدنی ہیں اور یعقوب بن ابراہیم بھی مدنی ہیں ، اس لئے یعقوب بن ابراہیم سے روایت کرنے والے یہی اسحاق بن محمد ہو سکتے ہیں، ان سے امام بخاری کی روایت حدیث بہت مشہور ہے ، لیکن یہ بہت مجروح ہیں ، امام بخاری کے زمانے ہی میں ان سے حدیثیں روایت کرنے پر ان کے شیوخ اور ہم عصروں نے زجر وتوبیخ شروع کردی تھی، اسی لئے امام بخاری نے بعد کو احتیاط شروع کردی اور جب ا ن کی کوئی حدیث لکھنے لگے تو صرف ’’حدثنا اسحاق‘‘ لکھ کر چھوڑ دیا اور ولدیت وسکونت کی نسبت کا اظہار ہی نہ کیاتاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کون سے اسحاق ہیں۔(خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص 176 )
(5)……امام زہری سے یہ حدیث بیان کرنے والے کا نام امام بخاری نے صرف ’’صالح‘‘ ذکر کیا ہے، نہیں معلوم یہ کون سے صالح ہیں۔ شارحین نے جھٹ صالح بن کیسان کا نام لکھ دیا اور غیر معین کو معین کردیا، حالانکہ صالح نام کے اور بھی ایسے لوگ ہیں جن سے زہری نے روایت کی ہے یا کرسکتے تھے (غالباً عمادی صاحب یہ لکھنا چاہتے تھے کہ صالح نام کے اور بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کی ہے۔ ناقل) ، یہاں بھی صالح مبہم چھوڑ دیا گیا تاکہ شخصیت کا تعین نہ ہوسکے اور بعد والے حسن ظن سے کام لے کر کسی ثقہ صالح کا نام چسپاں کردیں۔ (خلاصہ: انتظارِ مہدی ومسیح، ص 176 – 177)
(6) ……امام بخاری ایسے دس راویوں سے روایت کرتے ہیں جن کا نام صالح تھا جن میں بعض ضعفاء ومجروحین بھی تھے، ان دس میں سے کسی سے بلا واسطہ خود روایت کرتے تھے اور کسی سے بالواسطہ، تو پھر صرف ’’صالح‘‘ بغیر تصریح ولدیت وسکونت کہہ دینا لوگوں کو قصداً اشتباہ میں ڈالنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟‘‘ ۔ ( انتظارِ مہدی ومسیح، ص 180)
جاری ہے