پروفیسر محمد حمزہ نعیم
ماں باپ خوش ہوجائیں تو روٹی اور دودھ کے علاوہ مٹھائی بھی کو کھلا دیتے ہیں۔ نہیں تو شاباش تو کہیں گئی نہیں، استاد خوش ہوجائے تو اول دوم سوم آنے والوں کو انعام دیا جاتا ہے۔ ان تین کے بعد بھی حوصلہ افزائی کے انعامات ہر ادارے میں دیے جاتے ہیں جبکہ کم سے کم انعام کا میابی کے سرٹیفکیٹ کی صورت میں ملتا ہے۔ کلام قدیم قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ جو کوئی آگ (کے عذاب ) سے بچا لیا گیا اورجنت میں اس کو داخلہ مل گیا تو بے شک وہ کامیاب ہوگیا (القرآن) یہ سب سے آخری انعام ہے جو کامیابی کی صورت میں مل گیا۔ پھر فرمایا دنیوی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ اب جس کسی نے یہ سبق یاد کرلیا اسے کیا پروا؟ آخری امت آخری جماعت کا پہلا انعام تو سب صحابہ لے گئے۔ اعلان بھی ہوگیا۔ ’’رَضِیَ اللّٰہ عنہم‘‘ اﷲ ان سب سے راضی ان کی آپس کی مسابقت مقابلہ میں عشرہ مبشرہ کے دس صحابہ پہلا انعام لے گئے۔ اس میں سابقون الاولون بھی شامل ہیں چاہے وہ مکہ ام القریٰ کے ماریں کھانے والے آگ کے دریا عبور کرنے والے مہاجرین ہوں یا ان مثالی قربانیوں والے مہاجرین کی مالی ، اخلاقی، سکنی اور دیگر ہر طرح کی مدد کرنے والے انصار ہوں۔ ان اَوّلون میں اول انعام پانے والے بدری صحابہ ہیں جن کو ہر طرح کی مغفرت کا انعام ملا۔ حدیث قدسی میں ارشاد ہوا ’’اے بدر والو! اب تم جو چاہو کرو، ہم نے تہماری مغفرت کردی۔ اسی غزوہ بدر میں سرور کونین صلی اﷲ علیہ وسلم نے مومنوں کی ماں کے دو پٹے کو جھنڈا بنا کر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ میں دیا تھا۔ تمام اہل ایمان اس علم نبوی کے سایہ میں آگئے تھے اور پانچ ہزار فرشتوں نے آسمانوں سے اتر کر فتح مبین مومنین کے نام کردی تھی۔ بدری اصحابِ رسول کے بعدایک اور انعام کیکر کے درخت والوں کو مل گیا تھا جنھوں نے قصاص عثمان کے لیے جان وارنے کا عہد معاہدہ نبی کے ہاتھ پر کیا تھا اس پر سات افلاک پرے سے اﷲ رب العزت نے عظیم انعام بھیجا تھا، یہ رضوان سرٹیفکیٹ تھا جو خصوصی طور پر سید الملائکہ جبریل علیہ السلام کے ہاتھ بھیج کر پورے چودہ سو صحابہ کو نام بنام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد غزوہ خندق میں اتنی قربانیاں پیش کی گئیں کہ خود اﷲ جل جلالہ نے نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا تھا ’’کلیجے مونہہ کو آگئے تھے‘‘ پوری کفریہ طاقتوں کی نیٹو فورسز مدینہ آ دھمکی تھیں۔ اﷲ نے ان کو یہی نام دیا تھا ’’اَحزاب‘‘۔ انھوں نے مدینہ طیبہ کا گھیراؤ کر لیا تھا مگر فتح کس کی ہوئی؟ ان کو جو نبی کے ساتھ تھے وَالَّذِیْنَ مَعَہ کے بیج جنھوں نے اپنے سینوں پر سجارکھے تھے کامیابی انہی کو ملی آخری میں غزوہ مکہ جب اعلان فرمادیا لاتثریب علیکم الیوم۔ ارے تم سب کو معافی ! ہم جبر نہیں کریں گے، آج عالمینی رحمت کے بادل گرج برس رہے ہیں۔ اﷲ نے بھی اعلان نبوت کی توثیق و تصویب کردی ہے المولفہ قلوبہم تمہارے دلوں میں اے مکہ والو! ہم الفت ڈال رہے ہیں یہ بھی ہمارا انعام ہے۔ الفت ہوگی تو ایمان بھی آئے گا۔ جبرواکراہ والاایمان بھلاکس کام کا اور اصحابِ رسول رضی اﷲ عنہم کو جبرواکراہ سے کیا کام! پر وہی بنی عبدمناف کی شاخ بنی امیہ جن کے پاس مکہ اور قریش مکہ کی ’’قیادۃ‘‘ کا سب سے بڑا عہدہ تھا۔ وہی سالار عساکر قریش، وہی جزیرۃ العرب کے اکابر قریش کا سردار، جو ہر حرب وضرب میں نبی علیہ السلام کے مقابل تھا،غزوہ مکہ سے ایک دن پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والا حرب بن امیہ کا بیٹا ابوسفیان غزوہ طائف میں ایک آنکھ ہتھیلی پر لے کر بارگاہ محمدی علیہ السلام میں حاضری دیتا ہے۔’’ دو میں سے ایک انعام نقد و نقدی مل رہا ہے۔ بتاؤ کیا لینا ہے۔ آنکھ لیتی ہے تو میں دعا کردیتا ہوں یا جنت مگر ہیرے کا مول جو ہری اور جنت کی قیمت صحابی سے زیادہ کون جانتا ہے۔ جنت کا سودا پکا ہوجاتا ہے۔ اﷲ دینے والا اور محمد علیہ السلام دلوانے والے ضامن بن جاتے ہیں۔ جنت کا مزہ شاید جلد ہی چکھ لیتا ہوگا کہ پھر اپنے افرادِ خاندان بیٹوں بیوی سب کو لے کر جہاد یرموک میں حاضری دیتے اور سب غازی مجاہدوں کو گواہ بنا کر دوسری آنکھ بھی قربان کردیتے ہیں۔ اسی انداز میں خالد بن ولید اور عمرو بن عاص غزوہ مکہ سے پہلے ہی حبیش محمد کے کمانڈروں میں آ ملتے ہیں علی الترتیب ’’اﷲ کی تلوار‘‘ اور ’’مرد صالح رجل صالح‘‘ کے عظیم خطابات سے نوازے جاتے ہیں۔ سابقون الاولون میں سے مسلمہ بن ہشام اور بد نصیب عمروبن ہشام (ابوجہل) کا بیٹا عکرمہ بھاگ کر حبشہ روانہ ہوا مگر رحمت رب نے دامن گھسیٹ لیا۔ کشتی بھنور میں پھنس گئی۔ ناخداؤں نے آسمانی رب کو پکارنے کی تلقین کی کہا آسمانی رب ہی کو پکارنا ہے تو محمد رسول اﷲ کی بات ہی کیوں نہ مان لوں ان کی دعوت بھی تو یہی ہے۔ آسمانی رب نے یاوری کی۔ بھنور سے نجات ملی کہا مجھے واپس لے چلو۔ ادھر نیک بخت بیوی ساحل پر ڈھونڈنے پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے ہمراہ خدمتِ نبوی میں پہنچے پھر معافی تلافی ہوئی اور جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک بڑے سالار بن گئے۔ اﷲ نے مولفۃ القلوب نام دیا تھا کہ ان کے دلوں میں خود رب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم الفت محبت ڈالی ہے۔ آج چودہ سوسال بعد بعض از خود محقق اس کا معنیٰ یہ سمجھے کہ تالیف قلب کا معنیٰ کمزور ایمان والے، معیوب لوگ۔ اﷲ کی ڈالی الفت کو انھوں نے عیب کا معنیٰ دے دیا۔ واہ ری عجمی عربیت! ہائے ری بیماریٔ دل! یا اﷲ سب بیماریوں کی شفاء تیرے ہاتھ میں ہے۔ ارے ان مولفہ القلوب کے کارنامے تو دیکھ! روم، شام، ایران انہی کے آگے سرجھکا گئے جنھوں نے سرجھکانا نہ سیکھا، سرکٹا گئے۔ قیصر ، شام کو الوداع کہہ کر بھاگا ۔ رستم نے دریا میں چھلانگ لگائی ہلال رضی اﷲ عنہ بن علقمہ نے بھی چھلانگ لگادی۔ ٹانگوں سے کھینچا اور جہنم برد کردیا۔ یزدگردا یران چھوڑ گیا۔ خاقانِ چین کے پاس مدد کو عرضی گزاری وہ فوجیں لے کر مدد کو نکلا مگر فدائیوں کے دو ہاتھ دیکھے اپنے بڑے بڑے تین جرنیل مروالیے۔ کہنے لگا ایسے بہادروں سے لڑنا خلاف حکمت ہے۔ شاہِ ایران یزدگرد چین کی گلیوں میں تنہا دھکے کھاتا بالآخر ایک دیہاتی چکی والے کے ہاتھ کھیت رہا۔ رہے نام اﷲ کا۔ اس کامیاب انعام یافتہ جماعت میں سے ایک کو صدیق کا اور ایک کو فاروق کا نشان امتیاز ملا اور دونوں کو معیت دائمہ کے لیے چن لیا گیا وہ آج بھی ساتھ ہیں۔ نبوت اور رسالت محنت اور کسب سے نہیں ملتی۔ یہ وہی چیز ہے ۔ اﷲ نے جسے چاہا عطا کی۔ نبوت تقسیم ہوتی رہی بالآخر مشیتِ الٰہی نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیین، خاتم المعصومین کا نادر اکلوتا تاج پہنا کر رسالت و نبوت پر مہر لگادی۔ نبوت کے تاج محل کی آخری اینٹ لگ کر عمارت مکمل ہوگئی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک و مسعود۲۳ سالہ تبلیغی زندگی میں ایک لاکھ چوبیس ہزار اور بقول ابن امیر شریعت سید عطاء المحسن بخاری چار لاکھ شاگردوں نے اس مقدس و مختار جماعت میں د اخلہ لیا۔ معیت کورس میں داخلہ ملا۔ صحابیت رسول کا اعزاز ملا۔ نبی مختار و محبوب تو ان کے صحابہ بھی مختار و محبوب۔ اب نہ کوئی نبی ہوگا نہ صحابیت ہوگی اﷲ نے ان سب معیت کورس والوں کا ان کے دلوں کا امتحان لیا۔ تقویٰ کے ہر امتحان میں وہ کامیاب ہوئے۔‘‘ وہ اﷲ کی جماعت طے پائے’’ (القرآن) اور ان سب کو رضوان سرٹیفکیٹ دے دیاگیا۔ کلاوعد اﷲ الحسنیٰ (صحابہ سارے جنتی)