(قسط :۵)
ظفر جی
دوسری ملاقات
22 جنوری ․․․․ 1953ء ․․․․ کراچی
آج پھر گورنمنٹ ہاؤس کے سامنے رونق تھی۔ مختلف اخباری نمائندے اِدھر اُدھر سرگوشیاں کرتے پھررہے تھے ۔بہت سی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ہم وزیر اعظم ہاؤس کے باہر کھڑے تھے ۔
” سنا ہے کہ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت آج کوئی الٹی میٹم دینے والی ہے۔ ” ایک دُبلے پتلے صحافی نے مجھ سے سرگوشی کی۔
” دیکھئے 1952ء گزر چکا ․․․․․ ایک سال سے تحریک چل رہی ہے ․․․․․ ظاہر ہے مجلس عمل وزیراعظم صاحب کو پھولوں کا ٹوکرا دینے سے تو رہی ․․․․ الٹی میٹم ہی دے سکتی ہے !!!! ”
” ویسے ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی ․․․․” وہ چشمہ درست کرتے ہوئے بولا۔ ” مجلس کی تشکیل کے بعد’’ خلیفہ‘‘ نے پاکستان میں مرزائیت کا جھنڈا گاڑنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ ”
” ظاہر ہے ․․․’’ خلیفہ‘‘ سوئے گا توخواب دیکھے گا ۔” میں نے جواب دیا۔
“سنا ہے آج ایک بہت بڑی شخصیت وزیراعظم سے ملنے آ رہی ہے ؟ کون ہو سکتا ہے ؟ ” وہ کچھ اور قریب ہو کر بولا۔
” چاند پوری ․․․․” میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
“کون چاند پوری ؟ ” وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگا۔
” میرا مطلب ہے چاند پوری ہی اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں ․․․ وہ لکّی سٹار تک گئے ہیں سموسے لینے۔ ”
“یہ دیکھئے ․․․مرزائی اخبار’’ الفضل‘‘ ربوہ میں اشتہار چھپا ہے ․․․․ خونی مُلاّ کے آخری دن ” اُس نے جیب سے ایک پرچہ نکال کر دکھایا۔
” یہ کہاں سے ملا تمہیں ؟ ”
” ایک مرزائی سے منگوایا ہے ”
” مجھے دے دو ․․․․ اس میں سموسے ڈال کر کھائیں گے ۔”
اتنے میں چاند پوری آ گئے ۔
” آج پیر صاحب آف سرسینہ شریف تشریف لا رہے ہیں ․․․․ ” انہوں نے دُور سے اعلان کیا۔ ” بنگال کی ایک مقتدر مذہبی شخصیت ․․․․ خواجہ ناظم الدین بھی بنگالی ہیں ․․․․ سو… لوہے کو لوہا کاٹنے آ رہا ہے بھائی․․․․ سموسہ لیجئے ۔”
کچھ ہی دیر بعد مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا وفد بھی پہنچ گیا۔وفد اندر گیا تو اخباری نمائندگان بھی پیچھے پیچھے ہولئے ۔وزیر اعظم وفد کے ہمراہ پیر صاحب کو دیکھ کر پریشان ہو گئے اور کہا:
” پیر ساب ؟؟کیا بنگال تک مرزوئیت پونس گیا ؟؟”
” اگر آپ کی شفقت رہی تو کاشغر تک بھی پہنچے گی۔” پیر صاحب نے وزیرِ اعظم سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
” اﷲ نہ کرے ․․․․ حکومت مجلس عمل کے مطالبات کی روسنی میں اہم اقدامات اٹھانے پر گور کر رہی اے۔ ”
” کون سے اقدامات وزیراعظم صاحب ․․․․!” ابوالحسنات بول پڑے ۔ “ہم کئی بار آپ کے پاس آ چکے ہیں ․․․ آپ کو بتا چکے ہیں کہ خدارا ! آفس سے باہر نکل کر دیکھئے ․․․․ ملک میں کیا ہو رہا ہے ․․․․ مرزائیت ملک کی رگ رگ میں بیٹھ چکی ہے ․․․․ سرظفراﷲ کلیدی آسامیاں ریوڑیوں کی طرح قادیانیوں میں بانٹ رہے ہیں ․․․․ ہم آپ کے سامنے کئی بار اِحتجاج کر چکے ․․․․ فریاد کر چکے ․․․․ مگر آپ ہیں کہ جیسے سنتے ہی نہیں ․․․․ ”
” دیکھئے ․․․․!! ہم آپ کو بار بار بتا سُکا ہے کہ جفراﷲ کو فی الفور ہٹانا ملکی مفاد میں نئیں ہے ․․․․ کیا بولے گا ؟ امریکہ سے گندم کا بات سَل ریا ہے ․․․․ موسئلہ کسمیر پرسلیوسن آنے والا ہے ․․․․ جفراﷲ کو ہٹایا گیا توپاکستان کو نقصان ہوئے گا ․․․ کیا بولے گا ؟” وزیرِ اعظم نے کہا۔
“لیکن اگر آپ نے سرظفراﷲ کو برخواست نہ کیا توملک پر اِس سے بھی بڑی آفت آئے گی۔” وفد نے کہا۔
” وہ کائیسے ؟؟ ”
” حضور!! اُمتِ مرزائیہ کی تار ربوہ سے ہلائی جاتی ہے ․․․․ کل کلاں ملک پر کوئی کڑا وقت آگیا تو بطور وزیرِ اعظم آپ کی کوئی نہیں سُنے گا ․․․․ سب ربوہ کے خلیفہ کی طرف دیکھیں گے ۔”
” دیکھو ․․․․ یہ ایک دم فجول بات ہے ․․․ مجوسی مت پھیلائیے۔ ” وزیرِ اعظم نے کہا۔
” حضور!! ہم کاہے کو مایوسی پھیلائیں گے ․․․ ابھی کل ہی کا واقعہ ہے ․․․․ آپ کی راجدھانی میں مرزائیوں کا جلسہ ہوا ․․․ آپ کا حکم تھا کہ ظفراﷲ خان کراچی نہ آئیں ․․․․ آپ کے احکامات ہوا میں اُڑا دیے گئے ․․․․ خلیفہ کی مان لی گئی ․․․․ اب آپ ہی بتائیے ․․․․ اس ملک کا اصل حاکم کون ہوا؟ آپ یا خلیفہ ؟ ․․․․ یہ تو اَندر کا حال ہے ․․․ عالمی معاملات بھی آپ کی دسترس سے نکل رہے ہیں ․․․․ کچھ عرصہ پہلے عرب ممالک نے سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی سیاسی دستگیری چاہی ․․․ انہوں نے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ․․․ جواباً انہیں بتایا گیا کہ پہلے خلیفۂ ربوہ کی رضاء حاصل کرو ․․․․ تب جا کر ہم دو لفظ آپ کی حمایت میں بولیں گے !!! ” علماء نے سوال کیا۔
” دیکھئے ․․․․ پالیٹیکس میں اُونچ نیچ سب سَلتاہے ․․․․ جیادہ ٹینسن لینے کا نئیں ہے !!! ”
” ٹینشن نہ لیں ؟؟ ․․․․ ایک آزاد اِسلامی مملکت میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان مرزائیت کی نشرو اِشاعت کے لئے وقف ہے اور ہم ٹینشن نہ لیں ؟گریڈ سترہ سے بائیس تک کی ہر آسامی پر ایک قادیانی بیٹھا ہے ، ہم ٹینشن نہ لیں ؟ بیوروکریسی ، مقنّنہ ، عدلیہ ، انتظامیہ کے ہر تبادلے پر ظفراﷲ خان کی مہر لگتی ہے ، ہم ٹینشن نہ لیں ؟؟ ․․․․ بلدیہ سے لے کر ریلوے تک کا ہر ملازم چھوٹے چھوٹے مفاد کے لئے مرزائی افسروں کے سامنے ایمان گروی رکھے بیٹھا ہے ․․․․ اور ہم ٹینشن نہ لیں !!!”
وزیرِ اعظم کچھ دیر سوچتے رہے ، پھر بولے :
” دیکھو ․․․․ جب تک اس کرسی پر ایک پنجابی وَجیرِ اَعجم بیٹھا تھا ․․․․ سب ایک دم بڑھیا تھا ․․․․ مولوی بھی خُس تھا ․․․․ اور مرزؤئی بھی خاموس ․․․․ ایک بنگاؤلی وَجیرِ اَعجم کیا بنا ․․․ سب اُٹھ کھڑے ہوئے ۔”
” کیا مطلب ؟؟ ․․․․ ہم کچھ سمجھے نہیں ؟؟ ” پیر صاحب سرسینہ شریف نے پوچھا۔
” پیر صاحب !!! یہ سازِس ہے ․․․․ ہم بتاتا ہے ․․․․ میرا کھلاف سازس سُروع ہو گیا ہے ․․․․ اور اِس سازس کے پیچھے پنجاب کا وَجیرِ اعلیٰ ہے ․․․․ ممتاج دولتانہ ․․․․ اب مولبی لوگ کو یہ بات سمجھ نئیں آتا۔ ”
“آخر کیوں ؟؟ دولتانہ آپ کے خلاف کیو ں سازش کرنے لگے ؟؟ ”
” وہ کیا ہے کہ ہم بنگاؤلی ہے ․․․․ اور بنگال کے مساوی حقوق کا بات کرتا ہے ․․․․ دولتانہ مولبی کو اِستعمال کر ریا ہے ․․․ تا کہ میرے پہ دباؤ ڈال کے اپنا کرسی مجبوط کرے ․․․․ کیا بولے گا ؟؟ ”
”جناب ِ وزیراعظم !!تحفظ ختم نبوت تمام مسلمانوں کامتفقہ مطالبہ ہے، ایسے مطالبات کی حمایت کرنا،ممتازدولتانہ جیسے دُنیادارسیاست دانوں کے نصیب میں کہاں؟؟”
پیر صاحب سرسینہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا :” خواجہ صاحب !!!! خُدا کے لئے ․․․․حالات کو سمجھیں… سازش کوئی اور کر رہا ہے ․․․․ اورآپ کی نظریں کہیں اور ہیں ․․․․ ہم فی الحال آپ کو صرف تیس دن کا الٹی میٹم ہی دے سکتے ہیں۔”
” الٹی میٹم ․․․․ کائیسا الٹی میٹم ․․․․؟؟” وزیر اعظم پریشان ہوکر بولے ۔
” یہ میرا نہیں آل مسلم پارٹیزکنونشن کا فیصلہ ہے ․․․․ 22 فروری تک اگر مجلس کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو ڈائریکٹ ایکشن ہو گا ․․․․ بہتر ہے کہ مان لیجئے ․․․․ ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں خسارا ہی خسارا ہے ۔”
وزیرِ اعظم میز کے پیچھے سے چل کر پیر صاحب کے سامنے آ گئے اور کہا :
” میرے ساتھ تسریف لائیے ․․․․ ہم آپ کو اَندر کا بات بتاتا ہے ۔”
وہ پیر صاحب کا ہاتھ پکڑ کے ایک کونے میں لے گئے اور بنگالی زبان میں کچھ سمجھانے کی کوشش کرنے لگے، لیکن پیر صاحب مسلسل انکار میں سر ہلاتے رہے ۔وزیر اعظم واپس آئے تو کافی مایوس تھے ۔انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا :
” مُسکل تو یہ ہے کہ کوئی ہمارا بات سمجھنے کو تیّار نہیں ․․․․․ نہ تو مولوی ساب ․․․․ نہ دولتانہ ․․․․․ ٹھیک ہے ․․․․ کوئی بات نہیں ․․․․․․ ہم بھی دولتانہ کو ٹینسن دے گا ․․․․․ ہم سرگودھا جائے گا ․․․․ اور دولتانہ کے سیاسی حریف خضرحیات خان کے ساتھ تیتر کا سکار کھیلے گا ․․․․ اگر وہ مولویوں کے ذریعے ہمیں ٹینسن دے سکتا ہے ․․․․ تو ہم بھی اُس کو …بروبر… ٹینسن دے گا ”
مجلسِ ابلیس
25 جنوری 1953ء ․․․ گورنمنٹ ہاؤس لاہور
اسٹیورڈ نے سر پر لمبے طُرّے والی پگڑ ی پہنی اور خود کو آئینے میں اچھی طرح دیکھااو ٹرالی دھکیلتا گورنر ہاؤس کے خُفیہ میٹنگ روم میں داخل ہو گیا۔ یہاں سٹیبلشمنٹ سر جوڑے بیٹھی تھی۔کمرے میں سگریٹ اور ولایتی شراب کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ایک بڑا سا ایگزاسٹ فین ماحول کی حبس دُور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
” دیکھو․․․․ کیا ہے یہ ؟؟” گورنر جنرل غلام محمد نے ایک اخبار لہراتے ہوئے کہا۔
” اخبار ہے سر․․․․ ” ایک مُچُھَّل وردی پوش بولا۔
” فردوس شاہ ․․․․ مُجھے بھی پتا ہے اخبار ہے ․․․․ اس پر کچھ لکھاا ہوا بھی ہے ․․․․ پڑھو اِسے۔ ”
” یس سر !!!” ڈی ایس پی فردوس شاہ بیلٹ درست کرتا ہوا اُٹھا اور گورنر کے پاس جاکر اَخبار میں جھانکنے لگا:
“امریکہ سے ایک لاکھ پچھتّر ہزار ٹن گندم کی کھیپ ․․․․․․”
” او نالائق آدمی ․․․․ یہ نہیں ․․․․ یہ پڑھو۔ ” باس نے ایک چوکٹھے پر انگلی دھر دی۔
” سر ․․․سر ․․․سر․․․․” فردوس شاہ اخبار پر پورا جھک گیا:
” پچیس ․․․․ دِن ․․․․ باقی ہیں ․․․ ”
” کچھ آیا سمجھ شریف میں ؟”گورنر نے سگار کا دُھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔
“یس سر ․․․․ پچیس دن باقی ہیں۔”
” کس چیز میں ؟”گورنر نے پوچھا:
” امریکہ سے گندم آنے میں !!! ”
” ہمیشہ پیٹ سے سوچتے ہو فردوس شاہ !!! سوال چن،ّا جواب گندم ․․․․ یہ الٹی میٹم کی خبر ہے۔ ”
“الٹی میٹم ؟؟ ”
“ہاں الٹی میٹم ․․․․ اگر پولیس کی یہ حالت ہے تو باقی اداروں کا کیا بنے گا ․․․․ بیٹھو !!! ” گورنر نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
” یس سر ․․․ یس سر۔ ” ڈی ایس پی واپس کرسی پرجا بیٹھا۔
“مولویوں کی ایک تحریک چل رہی ہے آجکل ․․․․ کچھ علم ہے اس بارے میں ؟”گورنر نے کہا۔
“یس سر ․․․․ اینٹی احمدیہ موومنٹ ”
“جی ہاں ․․․․ اور اِس تحریک نے ایک الٹی میٹم دے رکھا ہے ․․․․ تیس دن کا الٹی میٹم ․․․․ جس میں پچیس دن باقی ہیں ․․․روزنامہ’’․ زمیندار‘‘میں روزانہ یہ چوکٹھا چھپتا ہے ․․․․․ دیکھا ہے کبھی’’ زمیندار‘‘ ؟؟”
” نو سر ․․․․․ ” فردوس شاہ نے معصومیت سے کہا۔
” اسی لئے تم نے ابھی تک ترقّی نہیں کی !!! ”
” حضرات !! آج کی یہ میٹنگ انتہائی غیر معمولی حالات میں بلائی گئی ہے ․․․․ مولویوں کی اس تحریک کو طاقت سے کچلنا ہے ․․․․ نو تھرڈ آپشن ․․․․ تاکہ یہ لوگ دوبارہ اکٹھے نہ ہو سکیں ․․․”
اسٹیورڈ گلاسوں میں شراب اُنڈیلنے لگا۔
” لیکن فی الحال تو وہ لوگ پُرامن ہیں سر، انتظامیہ سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔” ڈی آئی جی نے کہا۔
” ڈی آئی جی صاحب ․․․․ لگتا ہے آپ کو پَروموشن کی ضرورت نہیں ۔ ؟؟”
“یس… سررر ․․․․ نو …سر ․․․․ آئی وانٹ پروموشن سر ” ڈی آئی جی بوکھلا گیا۔
” مُلا جب مسجدسے نکل کر سڑک پر آ جائے تو ریاست کے پاس دو ہی رستے بچتے ہیں ․․․․ یا تو سفید ٹوپی اوڑھ کر اﷲ اﷲ شروع کردے یا پھر ڈٹ کر مقابلہ کرے ․․․․ کیا سمجھے ؟؟ ”
” یس سر ․․․․ یس سر !!!” ڈی آئی جی نے ڈائری میں نوٹس لیتے ہوئے کہا۔
” مولوی مسیت سے نکل چکا ہے ․․․․ اب جو کچھ کرنا ہے ریاست نے کرنا ہے ․․․․ اب وہ صرف تقریریں نہیں کرے گا ․․․․ ایجی ٹیشن کرے گا ․․․․ گرفتاریاں دے گا ․․․․ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بھی بڑھائے گا ․․․․ ”
” یس سر ․․․․․یس سر ․․․․ ”
اِن لوگوں کو پہلے خوب براَنگیختہ کرو ․․․․ تشدّد پر اُکساؤ ․․․․ پھر تشدّد کرو ․․․․ یہ ہے اصل طریقہ !!!”
“یس سر ․․․ انڈرسٹینڈ سر !!!! ”
” آپ کو اَڑہائی سو رضاکار مل جائیں گے ․․․․ احمدی کمیونٹی سے ․․․ !” گورنر نے ساغر بھرتے ہوئے کہا۔
” یس سر ․․․․ !!! ”
” یاد رکھو!..․ اگر ایک بار بھی اس ملک میں مولوی قابض ہو گیا توشراب کے ایک ایک قطرے کو ترس جاؤ گے تم لوگ۔ تمہارے یہ سب رنڈی خانے ویران ہو جائیں گے ۔یہ چہل پہل سب برباد ہو جائے گی۔ بڑی مشکل سے ایک آزاد ریاست حاصل کی ہے۔ جہاں شرفاء آزادی کا سانس لے سکیں اور یہ مولوی پہلے پارٹیشن کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا۔ اب آزاد ملک کے آزاد لوگوں کے خلاف کھڑا ہے ․․․․”
“سر میں تو کہتا ہوں کل ہی سب کو اَریسٹ کر کے اندر کر دیں ․․․․ نہ رہے گا بانس ، نہ رہے گی بانسری۔” چیف سیکرٹری نے کہا۔
” معاملہ ِاتنا سیدھا نہیں ہے چیف سیکرٹری صاحب !․․․․پہلے پبلک کو مطمئن کرنا پڑتا ہے ․․․․ جنہیں اسلام کا نعرہ دے کر ہم نے یہ ملک بنایا ․․․․ امتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ․․․․ جن سے اسلام کے نام پر ہم امداد وصول کر رہے ہیں ․․․ ریاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ․․․․”
” میں آج ہی جوانوں کو اَلرٹ کر دیتا ہوں سر !!! ” ڈی آئی جی نے کہا۔
” دیکھو !․․․․․․ پہلے تھوڑا بلوہ کراؤ، دوچار لاشیں گراؤ ۔عوام خود اُن کے خلاف ہو جائے گی ․․․․ اس کے بعد ہم انہیں فوجداری مقدمات میں باندھ لیں گے ․․․․ یوں سانپ بھی مر جائے گا ․․․․ اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی ۔”
” بے فکر رہیں سر !․․․․ موقع ملتے ہی ہم مظاہرین پر ٹوٹ پڑیں گے۔”
” یاد رکھو ! یہی پہلا اور آخری موقع ہے۔ اگر آج مولوی بچ گیا تو یہ مزید طاقتور ہوجائے گا ․․․ ڈرو اُس وقت سے جب یہی مولوی تمہارے سرپر سوار ہو کر تمہارے منہ سونگھ رہا ہوگا۔ تم سے نکاح نامے طلب کر رہا ہوگا۔ فحاشی، فحاشی کا راگ الاپ رہا ہوگا ․․․․ اگر ملک کو ترقی دینی ہے تواِس تحریک کا وہ حشر کرو کہ آئندہ سو سال تک یہ لوگ اُٹھ نہ سکیں ․․․․”
” لیکن سر! ․․․․ ِاتنے بڑے ایجی ٹیشن کو روکنا اکیلے پولیس کے بس میں نہیں ہے ․․․․ اگر بارڈر پولیس کی ایڈ میسر ہو جائے ․․․ ”
” ہم کوشش کر رہے ہیں۔بارڈر پولیس منگوانے کی۔ خان بہادر سے رابطہ ہے میرا۔ مسجد شہید گنج تحریک میں اس نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی ․․․․ اُسے مولوی کو کچل دینے کا پرانا تجربہ ہے ․․․․ ”
“ٹھیک ہے سر !!!”
” ایڈیٹر حضرات ․․․․ آپ کو یہاں بلانے کا مقصد یہ ہے کہ ” ڈان” اور’’سول‘‘ اخبارکاکردار بہت اہم ہے۔ اس آگ پر اتنا تیل چھڑکو کہ شعلے آسمانوں کو چھونے لگیں۔تاکہ ہمیں گولی چلانے کا …لاجک مل سکے ․․․․ دِس اِز اے وار اَگینسٹ اسٹیٹ !!!”
“یس سر ․․․․ یس سر !!!”
زلزلہ
فروری ۔۔۔۔ 1953ء
پورا ملک علماء کی ولولہ انگیز تقاریر سے گونج اٹھاتھا۔کراچی تا خیبر تحریک تحفظ ختم نبوت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ اس طوفانِ بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لئے مرزائیوں نے شہر شہر’’ سیرت کانفرنسوں‘‘ کا انعقادبھی کیا، لیکن عوامی غیظ و غضب نے اُن کی یہ جعلی کارروائیاں ناکام بناکر رکھ دیں۔میں اور چاند پوری ، پاؤں میں بھنور باندھے شہر شہر گھوم رہے تھے۔صبح آٹھ بجے ہم چک ڈہگیاں[چناب نگر] پہنچے ۔جہاں ساٹھ ہزار کے مجمع سے قادیانی خلیفہ کا خطاب جاری تھا۔ خطاب کیا تھا ، اونچے درجے کا سیلاب تھا !!!
” سُن لو !کان کھول کے سن لو !!! اُن کا خُدا اور ہے ۔ ہمارا خدا اور ہے ۔!!!اُن کا اسلام اور ہے ۔ہمارا اسلام اور ہے۔ !!!!اُن کا رسول اور ہے ہمارا رسول اور ہے ۔!!!!ان کا حج اور ہے۔ہمارا حج اور ہے ۔!!!!ہر بات میں ہمیں ان سے اختلاف ہے ۔ہر عمل میں اختلاف ہے ۔ہر چیز میں اختلاف ہے ۔ !!!!
’’مرزاکی جے‘‘ کے نعروں سے ربوہ گونج رہا تھا۔قادیانی خلیفہ ایک سو بیس کی رفتار سے تقریر کر رہے تھے ، اور چاند پوری دو سو بیس کی رفتار سے مسلسل نوٹس لئے جا رہے تھے ۔ میں کچھوے کی رفتار سے اِن دونوں کا پیچھا کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کبھی دو لفظ لکھتا ، پھر کاٹ کے چاند پوری کی نقل مارنے لگتا ، پھر تھوک سے مٹا کر خلیفہ کا خطاب سننے لگتا۔ سوچا کیوں نہ موبائل پر ریکارڈنگ کی جائے ۔ جیب سے موبائل نکالا تو اُسے پھپھوندی لگ چکی تھی۔
” احمدیوں کی غیر احمدیوں سے قوم جُدا، نسل جُدا،گوت جُدا،ملّت جُدا ۔خُدا کی قسم!ہمارے اوراُن کے درمیان وہی فرق ہے جو ہندو اور مسلمان میں تھا ۔”نعرۂ تکبیر ․․․․․․ اﷲ اکبر ۔
میں نے کہا ” آج تو چائے سے زیادہ کیتلی گرم ہے ۔”
” گیلی لکڑیوں کی آگ ہے ․․․․ اثر تو دکھائے گی !!! ” چاند پوری مسلسل قلم چلاتے ہوئے بولے ۔
” مبارک ہو ۔ مبارک ہو ۔ مبارک ہو ۔ عالمِ رویا سے ایک اور چِٹّھی آئی ہے۔ !!! ”
چاند پوری مجھے کہنی مار کر بولے :” لو جی پھر آمد ہو گئی !!! ”
” حضرات !․․․․․․ میں نے ایک گائے دیکھی۔گائے ، جس کی لمباء شرق تا غرب پھیلی ہوء تھی ۔۔۔۔۔۔ !!! جس کے سینگ بادلوں سے اونچے تھے ۔۔۔۔۔۔۔!!!میں اس گائے پر سوار ہوا ۔۔۔ وہ چلتی گء ۔۔۔ چلتی گء ۔۔۔ چلتی گء یہاں تک کہ دلّی پہنچ گء ۔۔ !!!”
” گائے ہو ، بھینس ہو ، بکری ہو ، گدھی ہو ․․․ جائے گی سیدھا دلّی” چاند پوری نے تبصرہ کیا۔
” سُنو۔سنو ۔ سُنو۔ تعبیر بھی سُنتے جاؤ ۔ !!!! ” خلیفہ نے پانی پی کر دوبارہ سٹارٹ پکڑا۔
” پاکستان آناہماری مجبوری تھی۔تاکہ’’ خدائی جماعت‘‘کو بچایاجا سکے، لیکن اب یہ زمین بھی ہم پرتنگ کی جا رہی ہے اور اِسے ملاؤں کے قبضے میں دیا جا رہا ہے ۔!!!یاد رکھو ! اگریہ زمین بھی احمدیوں پر تنگ ہوئی تو دوبارہ اکھنڈ بھارت بنے گا ۔جس کی پیش گوئی بھی ہم کرچکے ہیں۔ !!! ”
’’مرزاکی جے‘‘کے نعروں سے چنیوٹ کی پہاڑیاں لرز اٹھیں !!!
” اُٹھو !چلتے ہیں ․․․․کل یہی اکھنڈ بھارت والی ہیڈ لائن لگائیں گے ․․․․ شاید حکومت کو ہوش آ جائے۔ ”
” ہوش میں آ بھی گئی تو “ڈان ” اور “سول” پڑھ کر پھر بے ہوش ہو جائے گی ․․․․ حکمرانوں کا اپنا میڈیا ہوتا ہے اور عوام کا اپنا۔ ” میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ہم وہاں سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے ۔عصر کی نماز ہم نے جامع مسجد شیرانوالا میں پڑھی۔یہاں بھی ایک خلقِ کثیر جمع تھی۔نماز کے بعد شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری ؒکا خطاب شروع ہوا۔
” پاکستان کے غیرت مند حکمرانو!خون کے دریا بہا کر پاکستان بنانے والو!تم تو کہا کرتے تھے کہ یہاں اسلام نافذہوگا ۔شریعتِ محمدی ﷺ کا نفاذ ہوگا۔ناموسِ رسالت کا تحفظ ہوگا۔لیکن یہاں حالات تمہارے دعووں کے برعکس ہیں۔ کیا پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ اسے مرزائیستان بنا دیا جائے؟اِس میں غلام قادیانی کی کذاب نبوت کا کھوٹا سکّہ چلایا جائے؟کیاخواجہ ناظم الدین مرزائیت کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں؟ کیا گورنر غلام محمدپاکستان کا مفتیٔ اعظم ہے ؟ جب یہ لوگ عالم دین نہیں ہیں ، مفتی نہیں ہیں تو مرزائیت کے متعلق ہم ان کا فیصلہ کیوں مانیں ۔ ”
حضرتِ شیخ التفسیرؒ کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک صوفی گھرانے سے تھا ۔ آپ کے والد گرامی شیخ عبیداﷲؒ سلسلۂ چشتیہ سے بیعت تھے ۔آپ مولانا عبیداﷲ سندھیؒکے شاگرد تھے اور زندگی بھر انگریزی استعمار سے نبرد آزما رہے ۔ برٹش راج کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے ۔
” خُدا کا شُکر ادا کرو۔اگر علمائے دین نہ ہوتے۔ اگر صوفیاء نہ ہوتے ۔ اگر فقہا نہ ہوتے ۔ تو آج سارا پنجاب مُرتد ہو چُکا ہوتا ۔انگریز دور سے آج تک علماء چٹان بن کر اِس قادیانی و مرزائی فتنے کے سامنے کھڑے ہیں ۔ان بزرگوں کی وجہ سے آج ہمارے ایمان سلامت ہیں ۔ میری بات لکھ رکھو کہ اگراِن حکمرانوں نے مسلمانوں کے مطالبات نہ مانے تو ایک برے انجام سے دوچار ہوں گے ۔مستقبل کا مؤرخ جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھّے گا ۔ان حکمرانوں پر لعنت بھیجے گا ۔”
مغرب کے بعد ہم موچی گیٹ پہنچے۔ جہاں مخدومِ اہلسنّت مولاناعبدالغفور ہزاروی چشتی خطاب فرما رہے تھے :
” عزیزانِ وطن !تقریروں کا وقت بیت گیا۔ اب عمل کا وقت ہے۔بہت صبر کر لیا اس قوم نے ۔پانچ برس ہو گئے، اس ملک کو وجود میں آئے ہوئے ۔پانچ برس اور آج تک ایک ہی تماشا چلتا رہا ۔چند پیٹو یہاں کا سارا آٹا کھاتے رہے ۔مسلمان چُپ رہا ۔غریب ایک ایک دانے کو ترس کر رہ گیا۔ مسلمان صبر کرتا رہا ۔تم نے کاروباری سرگرمیاں معطل کیں۔ہم کچھ نہ بولے ۔تم دستوری سفارشات لے کر آئے ۔ہم دیکھتے رہ گئے۔ارے یہ کیسا دستور لے آئے ہو ؟نبی ﷺ کی جوتیوں کے صدقے ملا تھا تمہیں پاکستان اور آج اسی پاکستان کے دستور میں نبی ﷺ کا منصبِ ختم نبوت ہی محفوظ نہیں ہے۔ ناموسِ رسالت محفوظ نہیں ۔ختمِ نبوت محفوظ نہیں۔یہ ہے تمہارا دستور؟ایک اسلامی ملک کا دستور ایسا ہوتا ہے؟تم نے غریب سے روٹی چھینی، اس کی چھت چھینی، اس کا آرام و سکون چھینا اور اب منصبِ رسالت پر ڈاکہ مارنے والوں کے پشتیبان بننے چلے ہو؟خواجہ ناظم الدین صاحب!یہ عہدے ،یہ وزارتیں، یہ گدیاں، تمہیں مبارک ہوں ۔بس ہمارے نبی ﷺ کے ناموسِ رسالت کو نکیل ڈال دو۔ تحفّظ ختم نبوت کا قانون بنا کر ہمیں دے دو اور اگرتم ایسا نہیں کرو گے توپھر نتائج کی تمام تر ذمہ داری بھی تمہارے سر پر ہوگی۔” جاری ہے
ء ء ء