مولانا مجاہد الحسینی
اﷲ کے آخری نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلے میں ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت کا آغاز تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگی رہنماؤں کی حصولِ اقتدار کی کشمکش خوب زوروں پر تھی، آزادی ملنے کے بعد پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ کی وزارت علیا کی گدی پر میاں ممتاز دولتانہ براجمان ہوچکے تھے، تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی سعادت پانے والوں کا تحریک کے ترجمان روز نامہ آزاد لاہور کے دفتر میں عشاق عقیدہ ختم نبوت کی خوب رونق رہتی تھی۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس، سر کے بکھرے بال، چہرے پر غربت و افلاس کی سلوٹیں اور عجیب و غریب حالت میں ایک درویش میرے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ میں سمجھا کہ ابھی اپنی غربت کا رونا رو کر مجھ سے بھیک مانگے گا مگر میری حیرت کی انتہا کہ اس نے دعا سلام کے بعد بیٹھتے ہی چائے کی فرمائش کی، میں نے دفتر کے خادم سے چائے لانے کو کہا تو اس نے ساتھ ہی سگریٹ کی ڈبیا لانے کی بھی فرمائش کردی، میں نے ساتھ بسکٹ لانے کا اضافہ کرکے خادم کو روانہ کردیا، پھر میں نے نو وارد کا تعارف اور ضروری معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے ساغرؔ صدیقی نام بتاتے ہی اپنے چند اشعار سنائے۔
راہ گذر کے چراغ ہیں ہم لوگ آپ اپنا سراغ ہیں ہم لوگ
چشمِ تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ
کلام کی روانی اور بلاغت سے میں بہت متاثر ہوا کہ یہ تو گودڑی میں لعل کا مصداق ہے۔ اب ساغر صدیقی سے دوستی اور تعلق خاطر کا رشتہ قائم ہوگیا، وہ چند روزے کے وقفے کے بعد دفتر میں قدم رنجاں ہوتے تو حسبِ معمول آتے ہی چائے اور سگریٹ کی فرمائش کرتے ہوئے لکھنے کے لیے کاغذ طلب کرتے اور میرے سامنے بیٹھ کر فی البدیہہ اپنا کلام لکھتے اور سناتے اور دفتری عملے سمیت موجود سامعین سے خوب داد وصول کرتے تھے۔
چناں چہ تحریک ختم نبوت کی تائید میں ساغر صدیقی کے ساتھ ریڈیو پاکستان کے کاپی رائٹر علامہ لطیف انور، شریف جالندھری، جانباز مرزا، محمود مرزا پشاوری، حفیظ رضا پسروری ، سائیں محمد حیات اور دیگر شعراء بھی ہم نوا اور شرکت کیا کرتے تھے، پھر تحریک ختم نبوت رفتہ رفتہ ہمہ گیر ہوتی گئی اور صورتِ حال کی مناسبت سے سب سے زیادہ حسب حال کلام ساغر صدیقی اور علامہ شریف جالندھری کا ہوتا تھا، تحریک ختم نبوت کی شدت پر دولتانہ صاحب نے عشاق عقیدۂ ختم نبوت کی پکڑ دھکڑ شروع کردی تھی، چنانچہ سرگودھا میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری مرحوم کے پوتے ذکاء اﷲ امرتسری اور صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ سجادہ نشین آلو مہار شریف کے فرزند خالد حسن کو ختم نبوت کے نام سے جلسے کا انتظام کرنے پر گرفتار کر لیا تھا جس پر علامہ شریف جالندھری نے لکھا تھا۔
اسے یہ کہہ دو جو ممتاز دولتانہ نہ کر غرور گرچہ تیرا زمانہ ہے
قدم قدم پہ ہیں جبر کے گلی گلی تیرے ظلم کا فسانہ
ممتاز دولتانہ کے خلاف یہ اشعار زبان زد عوام ہوگئے تھے، حالات کی سنگینی اور تلخی کے پیشِ نظر اک دن محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میر نور احمد دفتر روزنامہ آزاد میں تشریف لائے اور وزیر اعلیٰ پنجاب ممتاز محمد خان دولتانہ کی طرف سے تحریک سے متعلق خبریں وغیرہ شائع کرنے سے اجتناب کرنے کی بابت پہلے نرم لہجے میں اور پھر تہدید آمیز لب و لہجے میں حکم نامہ سنایا۔ میں نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ و اشاعت تو امت مسلمہ کا ایسا عقیدہ ہے جس کی کڑیاں اسلامی عقاید کی اساس سے وابستہ ہیں ، ہم تو پر امن طریقے سے اور شائستہ انداز میں فریضۂ انجام دے رہے ہیں ، تشدد اور تلخی سے گریز کرتے ہیں۔ اس یقین دہانی کے باوجود میر نور احمد صاحب مطمئن نہ ہوئے اور اپنی فطری تھتھلی زبان میں کچھ فرماتے ہوئے چلے گئے۔
چند روز بعد حکومت پنجاب کا نمایندہ آگیا جس نے ہوم سیکرٹری سے ملاقات کا پیغام سنایا، ہوم سیکرٹری صاحب سے حسب پروگرام ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی وزیراعلیٰ کی حسب ہدایت پہلے ترغیب پھر تخویف کا حربہ استعمال کیا، میری جانب سے عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلے میں استقامت کا موقف دیکھ کر انھوں نے چائے سے تواضع کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ذمہ داریاں پوری دیانت سے پورا کردی ہیں، جہاں تک عقیدۂ ختم نبوت کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کے دین و ایمان کا معاملہ ہے اس سلسلے میں میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو آپ کا ہے، دینِ اسلام کے احکام پر ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ ذرا نرم اور شائستہ انداز میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
ہر حال تحریک ہمہ گیر ہوگئی، ملتان کی مسجد پھل ہٹاں کے سامنے ختم نبوت کے جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے چند مسلمان شہید ہوگئے تو ساغر صدیقی نے اپنی ایمان افروز طویل نظم میں کہا۔
ملتان کے شہیدو! ملتان کے ستارو! تم نے اٹھا لیا ہے بطحا کا سبز پرچم
ساغر صدیقی قادراکلام اور بلند درجے کا شاعر تھا۔ زندگی کے ابتدائی ایام میں معاشی تنگدستی اور غربت و افلاس نے ایسا گھیرا ڈالا ہوگا کہ غم غلط کرنے کے لیے اس نے بھنگ بھری سگریٹ پی لی ہوگی، پھر وہی ہوا جو منشیات زدہ افراد کا حال ہوتا ہے ۔ساغر صدیقی بایں ہمہ مد ہوش و سچا اور پکا عاشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تھا، اس کا نعتیہ کلام پڑھ کر اور سن کر ہر شخص اشکبار ہوجاتا ہے، اس نے کیا خوب نعتیہ شعر کہے ہیں، ملاحظہ فرمایے۔
جن کو الہام و نبوت کا امیں ہونا تھا جن سے قائم ہوئے بیدار نگاہی کے اصول
دوشِ براق پہ پہنچے جو سرِ عرشِ بریں وہ خلاؤں کے پیمبر وہ فضاؤں کے رسول
محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ساغر صدیقی کے گہرے عقیدت و محبت کے رشتے کے ہمدوش سیدنا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ کی زیارت کے سلسلے میں ماہی بے آب کی مانند تڑپتے ہوئے وہ اپنی محرومی کا رونا روتے ہوئے کیا خوب اظہار کرتے ہیں۔
دل ہاتھوں میں آجاتا ہے جب لوگ مدینے جاتے ہیں بے تاب سماں تڑپاتا ہے جب لوگ مدینے جاتے ہیں
اے جی نہ ترس ہم اگلے برس ارمان نکالیں گے تیرے جی ایسے کوئی بہلاتا ہے جب لوگ مدینے جاتے ہیں
کاش اس دور کے حکمران ساغر صدیقی کی اس بے چینی اور محرومی کا احساس کرتے ہوئے حج کے موقع پر سرکاری حج وفد میں اس مور بے مایہ شاعر کو بھی شامل کرلتیے تو روز قیامت وہ شفیع المذنبین صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں ساغر صدیقی کے درد بھرے شکوے سے اپنا دامن داغدار ہونے سے محفوظ کرسکتے تھے۔ ساغر صدیقی کے نعتیہ کلام کے چند اشعار یہ بھی ہیں۔
اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں سارے عالم کے مقدر کو جگایا جس نے
جس کے جھولے پہ ملائک نے ترانے چھیڑے قیصر و کسریٰ کی منڈیروں کو ہلایا جس نے
جو کھلونوں سے نہیں شمس و قمر سے کھیلے جن پر سایہ پَر جبریل کیا کرتے تھے
گود میں لے کر گزرتی تھی حلیمہ جس سمت خار اس راہ کے خوشبو سی دیا کرتے تھے
خوفِ طوالت کے پیش نظر ساغر صدیقی کے اس نعتیہ کلام پر اکتفا کرتے ہوئے ان کا غیر مطبوعہ کلام جو میرے گمشدہ کاغذات سے دستیاب ہوا پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمایے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے ناگفتنی حالات کے پیشِ نظر ساغر صدیقی مرحوم نے مشاہداتی انداز میں یہ نظم تحریر کی ہے۔
یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی! کریں گے تاریخ مے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی!
اگر یہ اندھیر اور کچھ دن رہا تو ایسا ضرور ہوگا الجھ پڑیں گے بنام حالات زلفِ جاناں سے لوگ ساقی!
مطالبہ کر رہے ہیں تجھ سے کوئی منظم الم عطا کر یہ باخبر ہو چلے ہیں شاید گم فراواں سے لوگ ساقی!
کوئی نیا رنگ بخش اس کو کوئی نئی روح پھونک اس میں گریز کرنے لگیں گے ورنہ حدیثِ یزداں سے لوگ ساقی!
چمن کی خیرات چند کانٹے ہی ڈال دے دامن طلب میں وگرنہ مر جائیں گے لپٹ کر درِ گلستاں سے لوگ ساقی!
یہ جگنوؤں کی چمک پر بھی اب سنبھال لیتے ہیں اپنا خرمن مجھے یقین ہے کہ ڈر گئے ہیں شبِ چراغاں سے لوگ ساقی!
خیال ہے میکدے میں اک بار اور شعلوں کا راج ہوگا شنید ہے انتقام لیں گے نشاط دوراں سے لوگ ساقی!
لگا کوئی ضرب اس ادا سے کہ ٹوٹ جائیں دلوں کی مہریں تری قسم تنگ آگئے ہیں سکوت پنہاں سے لوگ ساقی!
دلوں میں صد انقلاب رقصاں لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ نہ جانے آئے ہیں کس جہاں سے یہ حشر ساماں سے لوگ ساقی!
ساغر صدیقی کی بھی کوئی انجمن ستائش باہمی ہوتی تو وہ بھی شہر خاموشاں کو سفر کی روانگی سے پہلے ضرور اپنے اعزاز میں اجلاس منعقد کر کے میڈیا کو ساغر نمبر شائع کرنے اور ان کے ادبی کارناموں کے ہر سال اوصاف بیان کرنے کی تلقین کرتے۔