ثمریاب ثمر
ڈھاکہ دیوی رامپور، منہاران سہارنپور، انڈیا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
بجھ گئے آنسوؤں سے کیوں شعلے
ان کو کچھ دیر اور جلنا تھا
خاک و خوں میں تلاش کر لیتی
امی ابا سے کاش مل لیتی
بھائی بہنوں سے پیار کر لیتی
گھر کے ملبے تلے دفن ہیں سب
کاش میرا بھی دم نکلنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
مجھ کو دنیا میں چھوڑ کر امی
جا بسی ہو بہار ِ جنت میں
سرخ جوڑا پہن لیا میں نے
اب تو مجھ کو بلاؤ جنت میں
مجھ کو اپنے خدا سے ملنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
1اپنے رب سے بتاؤں گی جاکر
خون ارزاں ہوا ہے دنیا میں
جسم جلتے ہوں بے گناہوں کے
ظلم کیا کیا نہیں ہے دنیا میں
اب تو ظالم کا سر کچلنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
آج چیخیں سنائی دیتی ہیں
میں نے دیکھی ہیں عصمتیں لٹتی
بنت حوا کا سینہ چھلنی ہے
سوئی امت مگر نہیں اٹھتی
اب تو امت کو جاگ جانا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
گود ماؤں کی ہو گئی سونی
زخمی زخمی ہیں پھول سے چہرے
کچھ کو گودوں میں مارڈالا ہے
کچھ پہ اب بھی ہزار ہیں پہرے
آج ایوبی کوئی………… آنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
مائیں کہتی ہیں آج بچوں سے
اب نہ روؤ کہ جاگ جائیں گے
سن کے آہ و بکا تمہاری پھر
شیخ عربوں سے بھاگ جائیں گے
ان کو دنیا سے بھاگ جانا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
وہ حلب سے ہماری کچھ بہنیں
معتصم کو صدائیں دیتی ہیں
کون سنتا ہے آج…… امت میں
کس کی آخر دہائی دیتی ہیں
سر بکف ہو کے اب نکلنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
آج دیکھو حسین کی بیٹیں
اپنا سب کچھ ہی ہار بیٹھی ہیں
کربلا میں شمر کے آگے پھر
اپنی عزت بھی ہار بیٹھی ہیں
ہم کو کچھ بھی ہو کر گزرنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
;مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
آج دیکھا بلکتی بہنوں کو
اپنے پر کھوں کی لاج کی خاطر
کیسے ناموس کی حفاظت میں
جان دیدی ہے شان کی خاطر
قوم بزدل ہے کچھ تو کر نا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
سر زمین ِ حلب کی وہ بہنیں
آج نوحہ کناں ہیں امت پر
آج تاریخ بھی ہوئی حیراں
بز دلی ہے عظیم …… امت پر
اس سے بد تر تو کچھ نہ ہونا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
پھول کچلے گئے ہیں گلشن میں
خون کب تک بہے گا آنگن میں
یاخدا! رحم کر ضعیفوں پر
آگ کب تک بجھے گی گلشن میں
ابر رحمت کو اب برسنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
بھوک سے تلملا رہے …………بچے
3گوشت مردوں کا کھا رہے بچے
کون ان کی مدد کو آئے گا
تجھ کو یا رب! بلا رہے بچے
اب تو ان کی مدد کو آنا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا
اپنا دکھڑا بیان کرتا ہوں
مجھ کو افسوس ہے ندامت ہے
اے شہیدو! سلام کرتا ہوں
میں جو زندہ ہوں مجھ پہ لعنت ہے
اے ثمر اب تو سر کٹانا تھا
میں اکیلی ہی کیوں رہی زندہ؟
مجھ کو ان کے ہی ساتھ مرنا تھا