سراج الدین ظفرؔ
سبوئے جاں میں چھلکتا ہے کیمیا کی طرح کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفی کی طرح
قدح گسار ہیں اس کی اماں میں جس کا وجود سفینۂ دوسرا میں ہے نا خدا کی طرح
وہ جس کے لطف سے کھِلتا ہے غنچۂ ادراک وہ جس کا نام نسیمِ گرہ کشا کی طرح
طلسمِ جاں میں وہ آئینہ دارِ محبوبی حریمِ عرش میں وہ یارِ آشنا کی طرح
وہ جس کا جذب تھا بیداریِ جہاں کا سبب وہ جس کا عزم تھا دستورِ ارتقا کی طرح
وہ جس کا سلسلۂ جُود ابرِ گوہر بار وہ جس کا دستِ عطا مصدرِ عطا کی طرح
سوادِ صبحِ ازل جس کے راستے کا غبار طلسمِ لوحِ ابد جس کے نقش پا کی طرح
خزاں کے حجلۂ ویراں میں وہ شگفتِ بہار فنا کے دشت میں وہ روضۂ بقا کی طرح
وہ عرش و فرش و زمان و مکاں کا نقشِ مراد وہ ابتدا کے مطابق وہ انتہا کی طرح
بسیط جس کی جلالت حمل سے میزاں تک محیط جس کی سعادت خطِ سما کی طرح
شرف ملا بشریت کو اس کے قدموں میں یہ مشتِ خاک بھی تاباں ہوئی سہا کی طرح
اسی کے حسنِ سماعت کی تھی کرامتِ خاص وہ اک کتاب کہ ہے نسخۂ شفا کی
وہ حسنِ لم یزلی تھا تہِ قبائے وجود یہ راز ہم پہ کھلا رشتۂ قبا کی
بغیر عشقِ محمد کسی سے کھل نہ سکے رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا کی طرح
ریاضِ مدحِ رسالت میں راہوارِ غزل چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح
نہ پوچھ معجزۂ مدحتِ شہِ کونین مرے قلم میں ہے جنبش پرِ ہما کی طرح
جمالِ روئے محمد کی تابشوں سے ظفر دماغِ رِند ہوا عرشِ کبریا کی طرح