مولانا تنویر الحسن احرار
دوالمیال، تحصیل چوآسیدن شاہ ضلع چکوال کا قدیم قصبہ ہے ،کلر کہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کے بالمقابل قصبہ تترال ہے اور روڈ سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر دُوالمیال ہے ۔دوالمیال کی آبادی کم و بیش بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔قصبہ دوالمیال تحصیل چوآسیدن شاہ کا واحد قصبہ ہے کہ جس میں قادیانی رہتے ہیں ۔ 1860کے ریونیو بورڈ کی رپورٹ کے مطابق 1860میں اس قصبہ میں صرف مسلمان ہی بستے تھے اور میناروالی مسجدجس کا تنازع چل رہا ہے ۔ریونیو بورڈ ہی کی رپورٹ کے مطابق’’ یہ مسجد مسلماناں ہے ۔‘‘اسلام کی تاریخ میں مختلف ادوار میں المناک حادثات ہوتے رہے۔ ایسا ہی حادثہ 1880میں ہوا کہ قادیان کی بستی کے رئیس زادے مرزا غلام احمد کو انگریزسرکارنے پہلے مجدداور مناظر بنایا ۔پھر ’’براہین احمدیہ ‘‘نامی کتاب لکھوائی ۔1884میں لدھیانہ کے علماء مولانا عبد العزیز ،مولانا محمد لدھیانوی ،مولانا عبد القادر لدھیانوی رحمہم اﷲ نے اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہی صاحبِ کتاب مرزا غلام احمد کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتوی دیا۔مرزا غلام احمد اپنے دعووں میں آگے بڑھتا گیا ۔حتیٰ کہ1901ء میں نبوت کا دعویٰ کرکے دجالوں اور کذابوں کی صف میں شامل ہو گیا ۔
1890ء میں دوالمیال کے خواجہ محمد صادق کی حکیم نور الدین بھیروی قادیانی سے ملاقاتیں ہوئیں اور پھر مرزا کی نبوت کاذبہ کو تسلیم کرلینے کے بعداُس کا پورا خاندان قادیانی ہو گیا۔پھر آہستہ آہستہ دوالمیال میں بھی قادیانیوں کا اثر و رسوخ قائم ہوتا گیا۔1925ء تک دوالمیال میں ایک ہی مسجد’’میناروالی مسجد‘‘ تھی۔ جس کے امام مسجدبھی مسلمان تھے۔قادیانی بھی اسی مسجد میں آکر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے نمازیں پڑھتے تھے ۔1925ء میں پہلی مرتبہ قادیانیوں نے مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اوربالآخر انگریز حکومت کی سر پرستی میں طاقت کے زورپرمسلمانوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ الغرض مسلمانوں کی مسجد قادیانیوں کے تسلط میں چلی گئی ۔انہی دنوں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے دوالمیال تشریف لائے اور مسلمانوں کو قادیانیوں کے عقائد اور ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔
دوالمیال کے سادات خاندان نے گولڑہ شریف کے حضرت بابو جی ؒ،سیال شریف کے حضرت خواجہ پیر قمر الدین سیالویؒ اورحضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سے تعلق قائم کر کے قادیانیوں کے بارے میں مسلسل آگاہی حاصل کی اور مسلمانوں کو قادیانیوں کے دجل و فریب سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ،مگر قادیانیوں کی انگریز سے وفاداری کی بدولت
اُن کا افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جانا، مسلمانوں کے لئے پریشان کن تھا ۔دوالمیال کے قادیانی سول اورآرمی میں اعلیٰ عہدوں پر فائض ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی کوششوں میں مگن رہے ۔1953ء کی تحریک مقدس ختم نبوت کی عوامی قوت کو کچلنے کیلئے قادیانیوں کی الفرقان بٹالین نے حکومتی اسلحے سے لیس ہو کر مسلمانوں پر گولیاں برسائی تھیں۔ جس کی وجہ سے لاہور میں دس ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔مسلمانوں کے اس قتل عام میں دوالمیال کے قادیانی بھی شریک تھے۔ 1974ء میں قادیانیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ،مگر قادیانی اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہے۔ وہ جن مساجد پہ قبضہ کر چکے تھے۔ ان پر ان کا قبضہ بدستور برقرار رہا۔ 1984ء میں امتناع قادیانیت آرڈینس جاری ہوا۔ جس کے تحت قادیانی مسلمانوں کی کوئی نشانی یعنی شعائر اﷲ کا استعمال نہیں کر سکتے مگر قادیانی غیر ملکی قوتوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کی مساجد وغیرہ پہ قبضہ جاری رکھتے ہوئے آئین پاکستان کی کھلا کھلم بغاوت کے مرتکب ہوتے رہے ۔1996ء میں مسلمانوں میں بیداری پیداہوئی اور مقبوضہ مسجد مینار والی دوالمیال کا کیس عدالت میں دائر کیا گیا ۔جس کے نتیجے میں عدالتی فیصلے کے مطابق مسجد کو سیل کر دیا گیا ۔1997ء میں قادیانیوں نے محکمانہ ملی بھگت سے دوبارہ مسجد کھلوالی۔ جبکہ کیس مسلسل عدالت میں ہے 2002ء میں مسلمانوں کے حق میں فیصلے کی امید لگی تو قادیانیوں نے کیس کا تمام ریکارڈ غائب کرا دیا ۔2015ء سے تا حال عدالتی کارروائی تعطل کا شکار تھی کہ 10ربیع الاوّل 1438ھ کو سوشل میڈیا پرمقبوضہ مسجد کی تصاویر دیکھنے میں آئیں۔ جس کے اندر قادیانی مورچے واضح دکھائی دیتے تھے اور مسلح قادیانی ڈیوٹی پہ مامورکھڑے تھے ۔کئی احباب نے بذریعہ فون رابطے کئے،مگر ہم نے حالات کا جائز ہ لے کر تسلی دی کہ ابھی عدالتیں اور آئین کے ضوابط موجود ہیں ۔ اس لئے سب احباب مطمئن رہیں ۔12ربیع الاوّل 1438ء میلاد النبی ﷺ کاروایتی جلوس تھا ۔دوالمیال کے مسلمان درود و سلام پڑھتے ہوئے مسجد مینار والی کے قریب پہنچے اور شرکاء جلوس ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے کہ اچانک مقبوضہ مسجد میں موجود قادیانیوں کی جانب سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے جلوس میں بھگڈر مچ گئی اور ساتھ ہی مسجد سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ شروع ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں 4مسلمان زخمی اور ایک مسلمان محمد نعیم شفیق سکنہ تترال شہید ہو گیا ۔جس کی میت کو پولیس نے چھپا دیا ۔
اس واقعہ کے بعد جو حالات پیش آئے ۔وہ انتہائی پریشان کن تھے۔ مسلمان مظلوم تھے، زخمی تھے، شہید کے وارث تھے ۔اس کے باوجود انتظامیہ مسلمانوں ہی کوشدید تر پریشان کر رہی تھی ۔بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریاں اتنی ہوئیں کہ تاحال شمار سے باہر ہیں ۔شہر میں کرفیو لگ گیا۔ پولیس اور رینجر کا دُوالمیال پہ قبضہ تھا ۔13ربیع الاوّل کوشہیدِ ختم نبوت محمد نعیم شفیق شہید کی نماز جنازہ بندوقوں کے سائے میں اداء کی گئی۔ جبکہ اس موقع پر بھی بے گناہ مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ روزنامہ اسلام، روزنامہ اوصاف،روزنامہ امت سمیت تمام اخبارات نے اپنی خبروں اور رپورٹوں میں مسلمانوں کی مظلومیت کو اجاگر کیا ۔14ربیع الاوّل کو بندہ (تنویر الحسن ) اورمحمد سعید طورا مجلس احرار اسلام کے وفد کے ہمراہ تترال پہنچے ۔جہاں ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ لوگ سہمے ہوئے تھے ۔شہید کے والدین سے اظہار تعزیت اور بلندیٔ درجات کی دعا کے بعد شہید کے والد محمد شفیق ،بھائی سعد رضا، حبیب الرحمن ،عدنان شفیق اور علاقہ کی معروف شخصیت مولانا سید عنایت اﷲ شاہ صاحب کے فرزند سید نعمان شاہ صاحب سے تمام حالات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوئی ۔ مجلس احرار اسلام کے مرکزی نائب امیر نواسۂ امیر شریعت جناب سید محمدکفیل بخاری ،الحاج عبد الطیف خالد چیمہ جنر ل سیکرٹری مجلس احرار اسلام پاکستان نے محمد نعیم شہید کے ورثا ء سے فون پر تعزیت کی اور کیس کے حوالے سے اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔ختم نبوت لائر فورم کے صدر چودھری غلام مصطفی ایڈووکیٹ،شاہ شمس العارفین ایڈووکیٹ سے مسلسل قانونی مشورے ہوئے ۔میڈیا کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ 14دسمبر 2016کا دن اسی مشاورت میں گزرا۔ 15دسمبر کو جناب عبد الطیف خالد چیمہ کی BBCکے ادارے سے بات ہوئی اوربی بی سی کے دوالمیال کے واقعہ کی جانبدارانہ رپورٹنگ کے خلاف شدیداحتجاج کیا۔ 16دسمبر کو راقم الحروف (تنویر الحسن) مولانا محمد شعیب ،محمد سعید طورا صبح تترال پہنچے تو BBCکی ٹیم بھی پہنچ گئی۔ جن سے ہماری تقریباً2گھنٹے گفتگوہوئی۔جس کے نتیجے میں 16دسمبر 2016کی رات 8بجے کی خبروں میں BBCنے ہمارا موقف واضح طور پر نشر کیا ۔قانونی جنگ ابھی تک کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے ۔16دسمبر 2016کو کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی اپیل پر ملک بھر میں خطبات جمعہ کے موقعہ پر علمائے کرام نے احتجاج کیا اور قرارداد مذمت منظورکرائیں ۔17دسمبر 2016تک انتہائی کوشش کے باوجود گرفتار مسلمان رہا نہ ہو سکے ۔جبکہ علاقے میں بدستور کرفیو جاری رہا۔18دسمبر کو تلہ گنگ سے ممتاز سیاسی وسماجی شخصیت جناب حافظ عمار یاسر رہنما مسلم لیگ ق کا وفد لے کراحرار رہنماؤں کے ہمراہ تترال شہید کے گھر تعزیت کیلئے گئے ۔حافظ عمار یاسر نے شہید کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کیلئے ایک لاکھ روپے کانقد تعاون پیش کیا ۔جبکہ بچوں کی کفالت کے لئے مستقل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اسی شام چکوال سے اہلسنت رہنما ندیم یعقوب اور پیر عبد القدوس نقشبندی کی ہمراہی میں ایک وفد نے دوالمیال تترال کا دورہ کیا۔ جبکہ تلہ گنگ کے تھانوں میں موجود اَسیرانِ ختم نبوت کی دیکھ بھال کے سلسلے میں بھی حافظ عمار یاسر تعاون کا قابل ذکر ہے ۔علاقہ دوالمیال کی موجودہ صورتحال کافی تشویشناک ہے ۔انتظامیہ کے پیداکردہ خوف وہراس کے بادل ابھی تک عوام کے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ہر لمحہ بلاجوازگرفتاریوں کے خدشہ کی وجہ سے علاقہ کے مسلمان سہمے ہوئے ہیں ۔جبکہ تا حال کسی سیاسی شخصیت نے اہل علاقہ کی طرف توجہ نہ دی ہے اور ان کی اس مشکل میں کوئی پرسان ِحال نہیں ہے۔مجلس احرار اسلام کے امیر مرکزیہ فرزند ِامیر شریعت مولانا سید عطا ء المہیمن بخاری مدظلہ ،مرکزی نائب امیر جناب سید محمد کفیل بخاری ،ناظم اعلیٰ جناب عبد الطیف خالد چیمہ اور مرکزی نائب ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عمر فاروق احرار اور خادم احرار بندہ تنویر الحسن دوالمیال کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی ،اخلاقی ،آئینی اور مالی امداد کے لئے ہمہ وقت مصروف ہیں ،الحمداﷲ ۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی چکوال میں میٹنگ کی ہے اور قرارداد مذمت پیش کی ہے ۔ادارہ صراط مستقیم کے ڈاکٹراشرف آصف جلالی اور دیگر علمائے اہلسنت کی طرف سے بھی حالات کی بہتری کے لیے حکومت سے اپیلیں کی جارہی ہیں ۔ضلع بھر کے وکلاء نے انتہائی دینی غیرت کا ثبوت دیا ہے ۔اور اب کیس کی پیروی کیلئے قانونی ماہرین پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا جا چکاہے ۔حکومت اگر بروقت حالات کو بہتری پر لانے میں مزیدسستی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اِس بات کا شدید امکان ہے کہ یہ تحریک ملکی سطح پر بھی پھیل سکتی ہے اورمسلمانوں میں حکام کے خلاف مزیدبداعتمادی کے جذبات ہواپکڑ سکتے ہیں۔