فاروق درویش
کتاب لاریب قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ 25؍ دسمبر ولادت عیسی علیہ السلام کا دن ہے ہی نہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ پھر ایک قرانک سکالر اور دینی و سیاسی دانشور طاہر القادری صاحب جیسے کئی مذہبی یا سیاسی کردار اور لاکھوں بھٹکے ہوئے غلامان مغرب، ’’ہیپی کرسمس‘‘ منانے پربضد کیوں ہیں؟ منہاج القرآن جیسے اسلامی اداروں یا کچھ متنازعہ علماء کرام کی طرف سے کرسمس منانے کے حوالے سے صلیبوں سے مزین پادریوں کی مشرکانہ عبادت اور مہناجیوں کا ان کی اقتدا میں صلیبی انداز اپنانے کا شرعی یا عقلی جواز کیا ہے؟ اس دن عیسائیت کے دجالی نظریہ ’’میری کرسمس‘‘ کے بینر لگا کر یوم ولادت منانے یا ناپاک گرجا گھروں میں محافل میلاد مصطفے صلی اﷲ علیہ وسلم کے انعقاد کا کیا جواز ہے؟ کیا ایسے مادر پدر آزاد انداز اختیار کر کے ہی ہم عالم یہود و نصاریٰ سے جواباً امن، اخوت اور مسلمانوں کے قتل عام سے توبہ کی امیدیں لگا رہے ہیں؟ بنا تحقیق خود ساختہ نظریات کی پیروی اور اسلام سے متصادم نت نئی رسومات پر مصر احبابِ روشن خیالی کو یہ ضرور یاد رہے کہ قرآن حکیم اور بائیبل سے انکی پیدائش موسم گرما میں ہونا عین ثابت ہے اور دسمبر گرمی کا نہیں بلکہ سردی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس کا مصدقہ ثبوت یہ ہے کہ قصص القرآن کے مطابق جب حضرت مریم علیہ السلام جناب عیسی کی پیدائش کے بعد کھجور کے درخت کے نیچے جا بیٹھیں تو اﷲ تعالی نے انھیں درخت پر لگی پکی ہوئی کھجوریں کھانے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ کھجوریں موسم سرما میں نہیں بلکہ موسم گرما میں ہی پکتی ہیں۔ سورۃ مریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’پھر دردِ زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی۔ اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے۔ اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لیے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی۔ (سورہ مریم آیت 23-26)‘‘۔
قرآن حکیم کے علاوہ لبرل حضرات کے معزز عیسائی دوستوں کی کتاب بائیبل سے بھی یہی ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش مبارک موسم گرما یا موسم بہار میں ہوئی۔ کیوں کہ بائیبل میں درج پیدائش عیسی علیہ السلام کے مطابق جس روز حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اس رات کچھ گڈریے اردگرد اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔ (انجیل لوقا 2:08)۔ عقل کسی بھی معاملے میں تحقیق کی پہلی اور اصل رہبر ہوتی ہے۔ لیکن دسمبر کی سخت سردی کے موسم میں کرسمس منانے والے عیسائی حضرات سے یہ حقیقت کون روشن خیال پوچھے گا کہ دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں کون احمق اپنے جانور چَراتا ہے؟ اور یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ اس قدرکم درجہ حرارت پربھیڑ بکریاں یا دوسرے چرندے گھاس نہیں چرتے بلکہ سکڑکر کسی کونے میں بیٹھ جاتے ہیں افسوس کہ ہمارے مسلمان برادرز اس بات کا بھی شعور نہیں رکھتے کہ جب ہم کسی عیسائی دوست کو کرسمس کی مبارک دیتے ہیں تو دراصل ہم عیسائیت کے عقائد کو درست تسلیم کرتے ہوئے، اس ناحق بات سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام 25؍ دسمبر کو پیدا ہوئے۔ اور جانے یا انجانے میں ہم اس بات سے بھی اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ اﷲ نے بیٹا جنا (پیدا کیا)۔ جبکہ نعوذ باﷲ ایسا خیال کرنا بھی ایک کھلا شرک ہے۔
سورۃ التوبہ کی آیات 30 اور 31 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ، ’’اور یہودیوں نے کہا عزیر (علیہ السلام) اﷲ کا بیٹا ہے اور کہا نصاری (عیسائیوں) نے مسیح (علیہ السلام) اﷲ کا بیٹا ہے، یہ ان کے مونہوں کی بات ہے، (یوں) وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا، اﷲ ان کو ہلاک کرے، کہاں وہ پھیرے (بہکتے) جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں اور مسیح ابن مریم (علیھم السلام) کو (اپنا) رب بنا لیا اﷲ کو چھوڑ کر، حالانکہ وہ حکم نہیں دیے گئے تھے مگر یہ کہ وہ (صرف) ایک معبود کی عبادت کریں، اس کے سوائے کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا، اﷲ کے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو۔ غیر مسلموں کے تہوار کے دن انکی عبادت گاہوں میں داخل نہ ہونا، کیونکہ ان پر اﷲ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے․ (سنن بیہقی 9/392)
بلاول زرداری صاحب کی طرف سے دیوالی کے موقع پر ہندو برادری کو مبارکباد دیا جانا، بین المذاہب اخوت اور بھائی چارے کا اچھا پیغام تھا، لیکن ان کی طرف سے ہندؤں نے مندر میں جا کر ہندو رسومات ادا کرنا اور بتوں کی پوجا پاٹ کا مشرکانہ طریقہ اختیار کرنا بہر صورت غیر اسلامی اور کافرانہ عمل تھا۔ ماضی میں پاکستان میں عیسائی وزیر اعظم دیکھنے کے خواہش مند بلاول صاحب کی طرف سے عیسائی برادری کے ساتھ محبت اور یک جہتی کے پیغام کے طور پر کرسمس منانے کا اعلان کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ لیکن کیا دیوالی پر ہندو عبادت گاہوں میں پوجا پاٹ کرنا یا 25؍ دسمبر کو عیسائی عقیدے کے عین مطابق ہیپی کرسمس کے غیر اسلامی پیغامات ہی سے امن کی آبیاری ممکن ہے؟ کیا اس انداز میں غیر اسلامی طریق پر ہیپی کرسمس کے پیغام بر، اپنے عیسائی دوستوں اور مغرب سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ ہم مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کے انبیائے اکرام سمیت تمام انبیائے حق کی عزت و احترام اپنے ایمان کا حصہ جان کر کرتے ہیں، لہذا جواب میں عیسائیوں اور یہودیوں پر بھی ہمارے نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و تکریم واجب ہے۔
مختصر یہ کہ ہمارے ہر ایک سیاسی اورمذہبی لیڈر کوحصول اقدار یا طوالتِ اقتدار کے لیے اپنا ایمان، نظریہ، کلمہ و قرآن یا قبلہ وکعبہ بھلا کردین الہی بردار شہنشاہ جلال الدین اکبر بننا بھی گوارا ہے۔ لیکن دین اور نظریات حق سے متصادم رویے اختیار کرنے والے سب مذہبی شعبدہ باز اور سارے ناعاقبت سیاست دان بحر حال خسارے، خسارے اور بس خسارے میں ہیں۔