ڈاکٹرعمرفاروق احرار
حلب کلسٹر بموں کی آوازوں،گولیوں کی تڑتڑاہٹوں اورزخمیوں کی کراہوں سے گونج رہاہے۔سسکیوں اور آہوں کی یہ صدائیں جولائی 2011 سے بلند ہو رہی ہیں، مگر اب خاک و خون کا یہ منظر اپنے انجام کی سمت کو بڑھ رہا ہے۔ شام کا یہ سب سے بڑا شہر اور اقتصادی دار الحکومت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ بحیرہ قلزم کے کنارے پر واقع، سرسبز اور صحت افزا، ملک کی 75 فیصد آبادی کا یہ شہر اپنے مکینوں کی بربادی پر نوحہ کناں ہے۔ شام کا سب سے قدیم اور دنیا کا خوبصورت ترین یہ بدقسمت علاقہ اب کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ کبھی یہاں کے چائے خانوں میں لوگ شیشہ پیا کرتے تھے اور اب اپنے ہی خون کے آنسو پیتے ہیں۔ حلب میں مشرق وسطیٰ کا قدیم ترین بازار مدینہ السوق، جہاں پتھر سے بنی گلیاں عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی تھیں۔ اب پتھر کے دور کے مناظر پیش کر رہی ہیں۔ نور الدین زنگی نے صدیوں برس پیشتر اِسی شہر میں جنم لیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا مسکن اور صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر یہی حلب تھا۔ 95 ھجری میں بنیاد رکھی جانے والی مسجد ’’جامع اُموی‘‘ کبھی حلب کی خوبصورتی کی علامت تھی۔ اب بربادیوں کا نشان اور ویرانیوں کا مرکز ہے۔
جب سے حلب کا بیشترعلاقہ بشارالاسد کی فوج کے زیرتسلط آیاہے ۔ 6ہزار شہری جن میں 2700بچے بھی شامل ہیں، شہر چھوڑ چکے ہیں۔تاہم حکومت کے مخالفین کے زیرقبضہ شہر کے مشرقی علاقے میں اب بھی ہزاروں شہری پھنسے ہوئے ہیں جو گھر مسمار ہو جانے کے باعث سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں اور فاقوں سے مر رہے ہیں۔حلب اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے بقول:’’ جہنم کا مترادف بن چکا ہے ۔‘‘بشارالاسدکی انتقامی جبلت اورعالمی طاقتوں کی سلگائی ہوئی آگ نے حلب کو جھلساکررکھ دیاہے۔ایل ٹی وی چینل سے جاری ویڈیو فوٹیج میں ایک بچی آیا کو دکھایاگیا ہے جو کہ حلب کے آخری ہسپتال کے سٹریچر پر بیٹھی ہے ،۔اس کا چہرہ مٹی اور خشک خون سے اَٹا ہوا ہے ۔ ہسپتال کے کمرے میں اس بچی کے ارگرد زخمیوں کی آہوں اور خوف زدہ شہریوں کا شور بپاہے ،مگر وہ روتی نہیں۔اُس کے آنسوہی خشک ہوچکے ہیں۔وہ اتنے دکھ اورغم بھرے منظردیکھ چکی ہے کہ اب شدتِ غم سے رونابھی ممکن نہیں رہا۔یہ کرب اوراَلم کی انتہاہے ،انتہا !کہ اپنے دکھوں پر انسان بولناتو درکنار، روبھی نہ سکے۔بے بسی اوربے کسی اسی کا نام ہے۔
حلب میں بشارالاسدکی فتح کے جھنڈے گڑنے والے ہیں۔شہرمیں خون اوربارود کی بُوپھیلی ہوئی ہے۔عمارات ملبے کا ڈھیرہیں۔لوگ شہرچھوڑتے جارہے ہیں۔ہزاروں موت کی وادی میں اتاردیے گئے ،جو باقی ہیں۔موت وحیات کے درمیان ہیں ۔جیتوں میں ہیں ،نہ مرتوں میں۔شامی حکومت خوش ہے کہ حلب میں اس کی حکمرانی کے پھریرے لہرانے والے ہیں۔ایران کے پاسدارانِ انقلاب اورحزب اﷲ کے گوریلے جشن منارہے ہیں کہ فتح مندہوئے۔بات حلب پر قبضہ ہوجانے پر ختم ہوجاتی تو سُکھ کا سانس لیاجاسکتاتھا،مگراب اگلے عزائم اورارادے بھی ظاہرہونے لگے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق :’’پاسدارانِ انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے سرکاری خبر رساں ایجنسی’’ارنا‘‘سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حلب کی فتح بحرین اور یمن کی آزادی کا نقطہ آغاز ہے ۔ سقوطِ حلب کے بعد ایران کا توسیع پسندانہ پروگرام اگلے مرحلے میں یمن، موصل اور بحرین میں داخل ہوگا۔ایرانی جنرل نے اشتعال انگیز لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بحرینی قوم بھی جلد ہی مخصوص ٹولے کے تسلط سے آزاد ہوگی۔ یمن کے عوام بھی آزادی کا جشن منائیں گے اور موصل کے مکین بھی آزادی اور فتح کا پرچم لہرائیں گے ۔ ان سب کے ساتھ اﷲ نے آزادی کا وعدہ کر رکھا ہے ۔‘‘خیال رہے کہ بحرین اور دوسرے خلیجی ملکوں کے خلاف ایران کے معاندانہ لب ولہجے میں اس وقت سے مزید سختی اور شدت آئی ہے ،جب حال ہی میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بحرین اور دوسرے خلیجی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے خلیجی ریاستوں میں ایرانی مداخلت کی کھل کر مذمت کی تھی۔ جس پر ایران سخت سیخ پا ہے ۔
پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف کامذکورہ بالابیان محض بیان نہیں ہے،بلکہ مستقبل قریب کا منظرنامہ ہے ۔یہی وہ منصوبے ہیں کہ جن کے تحت بیرونی قوتیں مشرق وسطیٰ میں ہر قیمت پر اپنا اقتداروتسلط قائم کرناچاہتی ہیں۔ترکی میں روسی سفیر آندرے کارلوف کا حالیہ قتل اسی پروگرام پرعمل درآمدکی ایک کڑی ہے۔واضح رہے کہ ترکی میں روسی سفیر پر حملہ ایسے وقت میں ہواہے کہ جب ترکی اور روس حلب سے شہریوں کے انخلا کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔انقرہ کے میئر نے کہا ہے کہ یہ حملہ ترک روس تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے ۔ایک سینئرترک سکیورٹی اہلکار نے کہا ہے کہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ حملہ آور کا تعلق فتح اﷲ گولن کے نیٹ ورک سے تھا۔ دوسری جانب گولن نے بھی حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم حملے میں ملوث نہیں ہیں۔اس سارے قضیے میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ یمن اورشام کے بعد اب ترکی ہی اگلاہدف بنے گا۔جس کے لیے خونی میدان سجایاجانے والاہے۔سوال یہ ہے کہ عالم اسلام کی پانچ درجن سے زائد ریاستوں کے حکمران کیا اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے!دشمن سب کو الگ الگ کرکے ختم کرنے کے پروگرام پر عمل پیراہے،مگرمسلمان حکمران صرف اپنی حکومت بچانے کے لیے دوسروں کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں۔یہی حلب تھا ،جہاں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں کے نقشے ترتیب دیے تھے ،مگر آج غیرت آسماں کی طرف تکتی ہے اورپوچھتی ہے کہ کیا اب کسی بھی مسلم حکمراں میں رتی بھر حمیت بھی باقی نہیں رہی؟قبلہ اوّل یہود کے پنجۂ استبدادمیں ہے اورحکمرانوں کی تعیشات ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتیں۔جب تک مسلمان اتفاق واتحادکا دامن نہیں تھامتے ،بیرونی قوتیں اُن کی تکّہ بوٹی کرتی رہیں گی اورحزب اﷲ اورداعش جیسی تکفیری جماعتیں مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرتی رہیں گی۔آج حلب کی سانسیں دم توڑ رہی ہیں تو کل کسی دیگرمسلم ریاست کے بخیے اُدھیڑے جاسکتے ہیں ۔کاش کہ مسلمان حکمران امت مسلمہ کی زبوں حالی اورعالمی درندوں کی مسلم کش پالیسیوں کا بروقت اِدراک کریں اورعالم اسلام کے مظلوموں کی بے جان ہوتے جسموں،ٹوٹتی سانسوں اورخاموش ہوتی ہوئی صداؤں کو زندگی کی حرارتوں سے ہمکنارکریں ۔