خدمات، اہداف اور حکمت عملی
سید محمد کفیل بخاری
مجلس احرار اسلام برصغیر کی قدیم حریت پسند اور ایثار پیشہ جماعت ہے۔ تحریک خلافت کے خاتمے پر ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی اظہر، خواجہ عبدالرحمن غازی، شیخ حسام الدین اور مولانا ظفر علی خان رحمہم اﷲ جیسے محب وطن اور مخلص رہنماؤں نے اس جماعت کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان سے انگریز کا انخلاء اور کامل آزادی ، مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی حقوق کا تحفظ اور مخلوق کی خدمت قیام احرار کے بنیادی مقاصد قرار دیے گئے۔ اپنے قیام کے تین ماہ بعد تحریک کشمیر ۱۹۳۰ء کی بھرپور قیادت، شرکت اور قربانیوں نے احرار کو شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ قومی ، سیاسی و دینی تحریکوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ احرار ہر تحریک میں نمایاں تھے۔ قید و بند اور مالی و جانی قربانیوں میں احرار سب سے آگے تھے۔ مجلس احرار میں ہر طبقے اور مکتب فکر کے لوگ شامل ہوئے اور انھوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کیے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی موجودگی میں اپنا مقام حاصل کرنا جان جوکھوں کاکام تھا۔ مگر احرار نے اپنا مقام حاصل کیا۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی حقوق کا تحفظ سیاست کے میدان میں ہی ہوسکتا تھا۔ ۱۹۳۶ء میں ہندوستان کے پہلے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔ مفکر احرار چودھری افضل حق مولانا مظہر علی اظہر اور دیگر متعدد رہنما کامیاب ہو کر قانون ساز اسمبلی میں پہنچے۔ اسی طرح ۱۹۴۵ء کے انتخابات میں بھی بھر پور حصہ لیا اور پنجاب کے جاگیرداروں کا زبردست مقابلہ کیا۔ مجلس احرار اسلام نے ہمیشہ برطانوی استعمار اور اس کے خود کاشتہ پودے قادیانیت کو عوام میں بے نقاب کیا، غریب اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی اور خدمت خلق کے ذریعے عوام میں رسوخ حاصل کیا۔
جنوری ۱۹۴۹ء میں انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کر کے جماعت کو تبلیغی و تحریکی سرگرمیوں تک محدود کر لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد احرار سیاسی افق پر مسلم لیگ کے مقابلے میں واحد اپوزیشن پارٹی نظر آتی تھی اور قیادت کا خیال تھا کہ ملک کی بانی جماعت کی اپوزیشن کا لیبل تبلیغی کاموں کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ تحریک پاکستان میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے ساتھ جو وعدے کیے ان کی تکمیل کا اسے کھلا موقع دیا جائے اور مکمل تعاون کیا جائے۔ ادھر بھارت نے کشمیر کے محاذپر پاکستان پر حملہ کر دیا۔ چنانچہ ملک بھر میں دفاع پاکستان احرار کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور احرار رضاکاروں کو ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا۔ ایک سال بعد ۱۹۵۰ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے آٹھ قادیانی امیدواروں کو ٹکٹ دیا تو مجلس احرار نے اس کی شدید مخالفت کی، انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا، تمام قادیانی امیدواروں کو عبرتناک شکست ہوئی اور ان کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ وزیر خارجہ ظفر اﷲ خان قادیانی کی سرپرستی میں حکومتی اداروں میں قادیانیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بلوچستان کو قادیانی سٹیٹ بنانے کی سازشوں نے ہر محب وطن کو فکر مند کردیا۔ چنانچہ ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں تحریک تحفظِ ختم نبوت کی پاداش میں حکومت نے احرار کو خلاف قانون قرار دیا اور ۱۸؍ اگست ۱۹۵۸ء کو چار سال بعد پابندی ختم کردی۔ ۲۵؍ستمبر ۱۹۵۸ء کو سیاست میں دوبارہ شمولیت کا فیصلہ ہوا لیکن دو ماہ بعد ۸؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا کر تمام جماعتوں پر پابندی عائد کردی۔ ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۲ء کو ایوب خان نے سیاسی پابندیاں ختم کیں تو جانشین امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے پھر سے احرار کی شہرازہ بندی کی۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۲ء تک دس سال جماعت پابندیوں کی زد میں رہی۔
۱۹۵۶ء میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اﷲ علیہ نے جمعیت علماء اسلام قائم کی تو احرار کارکنوں کی بڑی تعداد جمعیت علماء اور دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئی۔ تاہم ابناء امیر شریعت مولانا سید ابوذر بخاری، مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہما اﷲ، مولانا سید عطاء المومن بخاری اور مولانا سید عطاء المہیمن بخاری اپنے رفقاء کے ساتھ قافلۂ احرار کو منظم کرتے رہے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں فعال کردار ادا کیا، ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا نے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ قائدین احرار نے جس تدبر کے ساتھ جماعت کے نام کو زندہ رکھا وہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ احرار نے ماضی میں بھی دینی و سیاسی محاذ پر ملک و قوم کے لیے خدمات انجام دیں اور اب بھی اسلام اور وطن کی خدمت سے دریغ نہیں کرے گی۔ مجلس احرار اسلام و حدت امت کی داعی واحد جماعت ہے۔ مسلمانوں کے تمام مسالک کے لوگ روز اوّل سے احرار میں شامل رہے اور آج بھی سب کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا انتشار و تفریق، لوٹ کھسوٹ بد عنوانیوں اور مفاد پرستی سے مکدر ہو چکی ہے۔ احرار کے لیے سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں لیکن ہمیں سیاست میں مثبت اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔ پاکستان کا آئین اسلامی نظام کے نفاذ کی ضمانت دیتا ہے۔ ملک کی سیکولر پارٹیاں آئین سے انحراف اور نظریۂ پاکستان سے انکار کے راستے پر گامزن ہیں۔ دینی سیاسی جماعتیں مجلس احرار اسلام کی فطری حلیف ہیں، آئندہ انتخابات میں پارلیمانی دینی قوتوں کی بھر پور حمایت کی جائے گی۔ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے پبلک ویلفیر اور سوشل ریفارمز کے ساتھ ساتھ تعلیمی منصوبوں پر بھی پوری توجہ دی جائے گی۔ اس سلسلہ میں آئندہ پانچ سالہ منصوبہ بندی کر کے اہداف متعین کیے جائیں گے۔ احرار کارکن یونین کونسل سے لے کر ملکی سطح تک رکنیت سازی کر کے یونٹس قائم کریں اور عوامی رابطہ مضبوط کر کے مستقبل میں نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری کریں۔ اگر خلوص کے ساتھ محنت کی گئی تو ہم اپنے اہداف حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ ان شاء اﷲ