شکیل عثمانی
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی کی 15 تا 21 جنوری 2016ء کی اشاعت میں راقم کا ایک مضمون ’’ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، دستورِ پاکستان اور قادیانیت‘‘ شائع ہوا تھا جس میں ملک کے ممتاز دانش ور ’’ جانب جاوید احمد غامدی کے مضمون اسلامی ریاست ایک جوابی بیانیہ‘‘ کے چند نکات پر گفتگو کی گئی تھی۔ مضمون میں غامدی صاحب کے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر4 پر تفصیلی بحث کی گئی تھی اور اُن سے عرض کیا گیا تھا کہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے واضح طور پر اعلان کریں کہ 7ستمبر1947ء کی آئینی ترمیم جو کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، قرآن و سنت کے مطابق ہے ۔ یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ یہ اعلان ان کی حق پرستی کا مظہر ہوگا اور وہ ہدیۂ شریک کے مستحق قرار پائیں گے ۔ لیکن راقم کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تاحال غامدی صاحب کی طرف سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ یہ مضمون کئی ماہ قبل ان کے ماہ نامہ اشراق کو بھیجا جا چکا ہے اور وطنِ عزیز کے متعدد رسائل میں بھی شائع ہوا ہے ۔ ان رسائل میں ماہ نامہ ختم نبوت ملتان، ماہ نامہ المنبر فیصل آباد، ماہ نامہ شمش الاسلام بھیرہ، ماہ نامہ روحِ بلند لاہور، ماہ نامہ الواقعہ کراچی، سہ ماہی المظاہر کوہاٹ اور پندرہ روزہ نشور کراچی شامل ہیں۔ دراصل اس مضمون نے غامدی صاحب کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔ جماعت ِ احمدیہ لاہور کو بھی اپنے عقائد کے سبب ایک ایسے ہی مخمصے کا سامنا ہے۔
جاوید غامدی صاحب اور جماعت ِ احمدیہ لاہور کے مخمصوں پر گفتگو کرنے سے قبل راقم اپنے مضمون کے بعض قارئین کے ایک سوال کا جواب دینا چاہتا ہے۔ راقم سے پوچھا گیا ہے کہ اس نے کس بنیاد پر یہ لکھا کہ ہمیں صرف ایک فیصد امید ہے کہ غامدی صاحب ان وجوہات کو بیان کریں گے جن کے پیشِ نظر انہوں نے دین اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کیا۔ ان کے نقطۂ نظر میں تبدیلی کا ثبوت مذکورہ بالا مضمون میں پیش کیا جا چکا ہے۔ دین اور ریاست کے تعلق کے بارے میں غامدی صاحب کی مزید گزشتہ تحریریں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے۔
غامدی صاحب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کی آراء جلد تبدیل ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایک ہی مسئلہ پر وہ بار بار اپنی رائے بدلتے ہیں، لیکن بالعموم تبدیلیٔ آراء کا اعلان نہیں کرتے۔ بالعموم اس لیے کہا گیا کہ ایسی متشنیات بہرحال موجود ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ ان کی رائے تبدیل ہوگئی ہے ۔ راقم کے نزدیک رائے تبدیل کرنا ہر سوچنے سمجھنے والے انسان کا حق ہے اس لیے کہ A living mind is a changing mind اور بقول ایمرسن صرف پتھر ہی اپنے آپ کو نہیں جھٹلاتے۔ لیکن اگر تبدیلیٔ رائے کا اعلان کردیا جائے تو قاری کے سامنے ایک واضح صورت آ جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ترجیح الراجح ایک قابل قدر مثال ہے۔
غامدی صاحب کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ رائے تبدیل کرتے ہوئے علمی دیانت کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ممتاز محقّق اور غامدی صاحب کے سابق رفیق جناب نادر عقیل انصاری نے اپنے مضمون ’’ صدرضیا الحق، افغان جہاد اور غامدی صاحب کا بیانیہ‘‘ میں بڑی نفیس بحث کی ہے ۔ یہ مضمون سہ ماہی ’’ جی ‘‘ لاہور میں شائع ہوا ہے ۔ ذیل کی سطور میں اس بحث کی تلخیص پیش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اس تلخیص کو پیش کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راقم انصاری صاحب کے مضمون میں مندرج تمام خیالات سے متفق ہے۔
انصاری صاحب لکھتے ہیں: جاوید غامدی صاحب نے 28 فروری 2014ء کو سماء ٹی وی کے پروگرام ’’ غامدی کے ساتھ ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے ] سابق سویٹ یونین کے خلاف [ افغان جہاد کی سر پرستی کی اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کو استعمال کیا، ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔ ہماری اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ پرائیوٹ آرمی بنائیں، مذہبی بنیاد پر لوگوں کو منظم کریں اور ان کے ذریعے جہاد فرمائیں۔ میں نے اُس زمانے میں بھی بڑی شدت کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہم اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں اور اپنی قبر کھود رہے ہیں ۔ جنہوں نے یہ کام کیا وہ سر تا سر مجرم ہیں۔ میں ہمیشہ ہی کہتا رہا ہوں۔
انصاری صاحب لکھتے ہیں:غامدی صاحب کی اِس گفتگو کے بعد ان کا وہ مضمون ملاحظہ فرمائیے جو ستمبر1988ء کے ’’ اشراق ‘‘ میں صدر ضیا ء الحق کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا گیا۔ غامدی صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’ یہ قوم اُن ] صدر ضیاء الحق [ کی ہر بات فراموش کرسکتی ہے ، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پا مردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندانِِ لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبحِ نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کر سکیں گی۔
انصاری صاحب مزید لکھتے ہیں: آراء بدلنے کا اختیار ہر صاحب قلم کو ہے۔ لیکن اس میں اگر علمی دیانت داری کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یادِ ماضی عذاب بن جاتی ہے ۔ علمی دیانت کا تقاضا تھا کہ غامی صاحب سماء ٹی وی کے پروگرام میں کہتے کہ افغان جہاد کے بارے میں ان کی رائے بدل گئی ہے اور اب وہ اُس جہاد کو ایک جرم سمجھتے ہیں لیکن اس کے بجائے اپنی سابقہ تحریر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ ہم اپنی قبر کھود رہے ہیں اور اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں ‘‘ ( سہ ماہی ’’ جی ‘‘ لاہور جلد نمبر11 ،12 صفحات 116 تا 121 اور 127 )
جناب غامدی نے ’’ اشراق‘‘ (ستمبر1988ء) میں لکھا کہ اسلام جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے ، اسی طرح ہماری ریاست کا بھی دین ہے اور جو لوگ مذہب کو انسان کا انفرادی معاملہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریاست کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، وہ حماقت میں مبتلا ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2015ء میں اپنے جوابی بیانیے میں ارشاد فرمایا کہ ریاست کا کوئی دین نہیں ہوتا۔ ان دونوں ارشادات میں تطبیق دینا ممکن نہیں ہے۔ اگر غامدی صاحب ان ارشادات میں تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ’’اشراق‘‘ (ستمبر 1988ء) کا حوالہ دینا ناگزیر ہے اور اگر وہ اس ناگزیر تقاضے کو پورا کرتے ہیں تو قارئین کی خاصی تعداد محولہ بالا ’’ اشراق ‘‘ کی طرف رجوع کرے گی۔ اس طرح افغان جہاد کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کا تضاد سامنے آ جائے گا ۔ کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے متناقص آراء کا حامل سمجھا جائے۔ اس لیے لکھا گیا کہ صرف ایک فیصد امید ہے کہ موصوف ان وجوہات کو بیان کریں جن کے پیش نظر انہوں نے دین اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کیا۔
راقم کے مضمون کی اشاعت کے بعد غامدی صاحب ایک مخمصے میں ہیں۔ وہ مخمصہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ 7 ستمبر1974ء کی آئینی ترمیم جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، قرآن و سنت کے مطابق ہے، تو انہیں اپنے ’’ جوابی بیانیے ‘‘ کے نکتہ نمبر4 سے دستبردار ہونا پڑے گا جس کے مطابق جو لوگ اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علماء یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے ، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جاسکتا ہے ، لیکن اس کے حامین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب 7 ستمبر1947ء کی آئینی ترمیم اور اپنے بیانیے کے نکتہ نمبر4 سے دستبرداری پر اپنی خاموشی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ بہر حال راقم کی دعا ہے کہ مسئلہ تکفیر کے بارے میں غلط موقف اختیار کرنے کی وجہ سے وہ جس مخمصے میں پڑ گئے ہیں، اس سے جلد نکل آئیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ لیکن یہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کی خوش قسمتی ہے کہ اسے کعبے( اسلام کے علم برداروں ) سے پاسباں مل گئے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ راقم کی رسائی احمدیہ انجمن لاہور کی حال ہی میں شائع کردہ کتاب ’’ اختلاف ِ سلسلۂ احمدیہ‘‘ ( اشاعت دوم) تک ہوئی ہے۔ اس کے مؤلف عامر عزیر الازہری بن عبدالعزیز ہیں۔ ٹائٹل پر’’ اختلاف ِ سلسلۂ احمدیہ‘‘ کے نتیجے’’ تقابلی جائزہ جماعت ِ احمدیہ لاہور و جماعت احمدیہدبوہ‘‘ لکھا ہے۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت ِ احمدیہدبوہ کے برعکس، جماعت ِ احمدیہ لاہور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تعلیمات کی حقیقی علم بردار ہے۔ کتاب کے مؤلف عامر عزیز الازہری لکھتے ہیں:
’’ موجودہ دور میں پاکستان میں محترم و مکرم جاوید احمد غامدی صاحب وہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کی خدمت ِ دین اور اسلام کے لیے شب و روز سعی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی گواہی کہ حضرت مرزا ] غلام احمد قادیانی [ صاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا، اس دور کی سب سے بڑی سچائی اور جرأت مندانہ حق گوئی ہے ‘‘ ( ص 83 )
عامر عزیز الازہری مزید لکھتے ہے کہ محترم و مکرم جاوید احمد غامدی صاحب کی گواہی کہ حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت نہیں کیا اُن] غامدی صاحب [ کے ایک لیکچر میں دی گئی ہے جس کا موضوع ختم نبوت ہے ۔ یہ لیکچر یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔ غامدی صاحب ] اس لیکچر میں [ فرماتے ہیں:
’’ یہ جو مقام یا مرتبہ بیان کیا ہے بالکل یہی ہے ۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے وہ بنیادی طور پر صوفی تھے۔ تصوف سے ان کا اشتغال تھا۔ اس طرح کے اوراد، وظائف، چلے یہی چیزیں ان کے ہاں تھیں۔ انہی چیزوں کو وہ بیان بھی کرتے ہیں۔ اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری نبوت سے مراد تشریعی نبوت نہیں، میں اصطلاحی نبی نہیں ہوں، بروزی نبی ہوں۔ نبوت کا ایک سایہ پڑ رہا ہے۔ نبوت کا ایک پر تو میرے اندر آ رہا ہے۔۔۔ پھر کچھ دبی دبی باتیں ہوئیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ نبی بنا دئیے گئے۔ لیکن میں آپ سے عرض کروں کہ خود مرزا غلام احمد صاحب کی تحریریں جتنی بھی ہیں ان میں بالصراحت نبوت کے دعویٰ کی کوئی تحریر نہیں۔ یعنی اسی طرح کی باتیں ہیں ( یعنی صوفیانہ اصطلاحات کا استعمال ہے۔ ناقل)۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی جماعت کے دو گروہ ہوگئے ۔ ان کے قدیم ترین صحابہ ان کی اصطلاح کے مطابق، انہوں نے تو کہا کہ ایسا نہیں تھا بلکہ وہ مجدد تھے۔ یہ جو لاہوری جماعت ہے یہ اسی تعبیر پر وجود میں آئی اور مرزا بشیر الدین محمود صاحب جو ان کے فرزند تھے انہوں نے اصل میں اس کو زیادہ صریح کیا۔ اور یہ کہا کہ نہیں یہ باقاعدہ یعنی ورنہ معاملہ ٹھیک ہو جاتا، اتنا ہی رہ جاتا جتنا صوفیوں کا ہے ۔
انہوں ( مرزا بشیر الدین محمود مرحوم۔ ناقل) نے اس کو اس کی منتہائے کمال تک پہنچا دیا جہاں پر توضیح کی ضرورت نہ رہی۔۔۔ حکیم نور الدین صاحب کے زمانے میں بھی صورتحال یہ نہیں تھی اسی طرح تھی ( یعنی حضرت مرزا صاحب کو نبی مجدد ہی سمجھا جاتا تھا۔ ناقل)۔ زیادہ سے زیادہ جو بات وہ کرتے تھے جو ابن عربی نے کہی ہے ۔ یعنی دیانتداری کے ساتھ آپ الزام لگانے کے لیے نہ کہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں۔ یعنی ابھی تک حسرت ہے کہ وہ واضح عبارت کون سی ہے(یعنی حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کی ۔ ناقل) آپ دیکھیں اس میں الیاس برنی کی کتاب ’’ قادیانی مذہب‘‘ سب سے اعلیٰ کتاب ہے ۔ پوری پڑھ جائیے۔ پھر اس کے بعد ہمارے اپنے زمانے میں مولانا ابو الحسن علی ندوی جیسے جلیل القدر عالم نے ’’ قادیانیت‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ اس میں بھی آپ پوری کی پوری پڑھ جائیے( احمدیت کے خلاف ان دو مستند کتابوں میں بھی کوئی تحریر یا کوئی حوالہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا۔ ناقل)۔۔۔ یعنی وہ ( پہلے صوفیاء کی تحریرات۔ ناقل)۔۔۔ انہیں اس سے زیادہ تاویل کو قبول کر لیتی ہیں جیسی میں نے بیان کی ہیں۔ اس طرح کا واضح معاملہ نہیں ہے جیسے کہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ زیادہ تر بشیر الدین محمود صاحب کی ہیں۔‘‘ (ص 84 تا 86 )
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا عبارت کی بے ربطیاں جوں کی توں کتاب ہی سے نقل کی گئی ہیں۔ بہر حال عبارت کے ناقل( جو غالباً عامر عزیز الازہری ہیں) نے قوسین کے درمیان اپنی طرف سے الفاظ بڑھا کر جملوں کو مکمل اور بامعنی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ جناب ِ جاوید غامدی کا یہ لیکچر جماعت ِ احمدیہ لاہور کے اس بنیادی موقف کی مکمل تائید کرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور یہ مرزا بشیر الدین محمود تھے جنہوں نے غلو کرتے ہوئے مرزا صاحب کو نبی قرار دیا۔ اس لیکچر سے درج ذیل تین نکات اخذ ہوتے ہیں:
(1) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوی کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ’’ قادیانی مذہب‘‘ اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’ قادیانیت‘‘ بھی مرزا صاحب کی کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں انہوں نے بالصراحت نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔
(2) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین مرزا صاحب کو اصطلاحی نبی نہیں سمجھتے تھے۔
(3) احمدیوں کا لاہوری فریق( مولوی محمد علی لاہوری گروپ ) شروع سے مرزا صاحب کو مجدد سمجھتا رہا ہے۔
ہمارے قارئین اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کا موقف بھی وہی ہے جو مندرجہ بالا تین نکات میں بیان کیا گیا ہے۔ راقم اپنے مضمون ’’ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ، دستورِ پاکستان اور قادیانیت‘‘ میں حوالوں کے ساتھ ان تینوں نکات کی تردید کر چکا ہے۔ اس نے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی ایسی چار تحریریں پیش کی ہیں جن میں انہوں نے بالصراحت نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ بھی عرض کیا گیا کہ مرزا صاحب کی ایسی بیسیوں تحریریں موجود ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ مرزا صاحب خود کو صرف لغوی معنی میں نبی نہیں کہتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں خدا نے نبی بنایا اور ان کا منکر مسلمان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ان کے مجموعۂ الہامات’’ تذکرہ‘‘ اور ان کی کتاب ’’ حقیقت الوحی‘‘ کے اقتباسات پیش کیے گئے۔ راقم نے غامدی صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور کے بانی امیر مولوی محمد علی لاہوری صاحب نے ریویو آف ریلیجنز(قادیان) کی ادارت کے دور میں اپنے بیسیوں ایسے مضامین اس پرچے میں شائع کیے جن میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیے نبی اور رسول کا لفظ استعمال کیا اور اشارۃً بھی نہیں لکھا کہ وہ ان الفاظ کو استعارے کے طور پر یا مجازی مفہوم میں استعمال کررہے ہیں۔ آج ہفت روزہ پیغام صلح لاہور مرزا صاحب کی مجددیت کا علم بردار بنا ہوا ہے لیکن اسی پرچے میں 16 اکتوبر 1913ء کی اشاعت میں لکھا گیا:
’’ معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا ] ہفت روزہ پیغام صلح لاہور [ کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا و بادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلاۃ و السلام کے مدارجِ عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح سے تعلق ہے خدا تعالیٰ کو جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے ، حاضر و ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اِس زمانے کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔ (ص 2 )
اسی طرح راقم غامدی صاحب کے اس نقطۂ نظر کی حوالوں کے ساتھ تردید کی کہ مرزا غلام احمد صاحب کے پہلے جانشین حکیم نورالدین صاحب مرزا صاحب کو مامور من اﷲ نبی نہیں مانتے تھے۔
اب ہم غامدی صاحب کے ’’ جوابی بیانیے‘‘ کے نکتہ نمبر4 کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں۔ موصوف اپنے’’ جوابی بیانیے‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے ، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کے حاملین قرآن و حدیث ہی سے استدلال کررہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ راقم کا خیال ہے کہ غامدی صاحب استاذ امام امین احسن اصلاحی کے بارے اس سوئے ظن کا شکار نہیں ہوں گے کہ وہ اسلام اور کفر کی حدود سے ناواقف تھے۔ استاذ امام نے اپنی متعدد تحریروں میں قادیانیوں کی تکفیر کی ہے۔ غامدی صاحب نے ان سے کیوں نہیں پوچھ لیا کہ قادیانی اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں اور قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں انہیں کیوں کر کافر قرار دیا جاسکتا ہے؟ وہ فیس بک پر ایک مضمون میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہوگیا ہے اور وہ اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اﷲ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اب یہ حق کسی فرد یا گروہ کو حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔‘‘ httpp://daleel-pk/2016/09/06/6971
یہاں پھر غامدی صاحب سے سوال ہے کہ انہوں نے مولانا اصلاحی سے یہ کیوں نہیں پوچھ لیا کہ آپ کو کس ذریعے سے معلوم ہوا کہ قادیانیوں پر اتمام حجت ہوگیا ہے اور ان کی تکفیر کی جاسکتی ہے؟ ] اس مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا تھا کہ غامدی صاحب کی طرح جماعت ِ احمدیہ لاہور کو بھی اپنے عقائد کے سبب ایک ایسے ہی مخمصے کا سامنا ہے۔ دراصل مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتابیں مداری کا پٹارہ ہیں۔ ان میں سے ہر چیز نکالی جاسکتی ہے۔ ان میں نزول مسیحؑ کا اقرار بھی ہے اور انکار بھی۔ آں حضرت ﷺ کو آخری نبی بھی کہا گیا ہے اور مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت بھی ہے۔ اِس وقت راقم کے سامنے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی شائع کردہ کتاب مجاہدِ کبیر ( مؤلفہ ممتاز احمد فاروق اور محمد احمد ) ہے جو بانی جماعت ِ احمدیہ لاہور، مولوی علی لاہوری صاحب کی سوانح عمری ہے۔ اس کتاب کے آخری صفحے پر جماعت ِ احمدیہ لاہور کے عقائد درج کیے گئے ہیں۔ عقیدہ نمبر2 کے تحت کہا گیا ہے:
ہم آں حضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ با الفاظ بانی سلسلہ، حضرت مرزا غلام احمد صاحب ’’ جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اسے بیدین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ ﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘
اور عقیدہ نمبر6 کے تحت کہا گیا ہے: ہم ہر اس شخص کو جو لا الہ الا اﷲ محمد رسول کا اقرار کرتا ہے مسلمان کہتے ہیں۔
اسی طرح انجمن اشاعت ِ اسلام لاہور کے شائع کردہ کتابچے’’ شہادت ِ حقّہ‘‘ کے بیک ٹائٹل پر جماعت ِ احمدیہ لاہور کی امتیازی خصوصیات کے زیر عنوان لکھا گیا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ لاہور ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتی ہے۔
یہاں جماعت ِ احمدیہ لاہور سے مسلمان کی تعریف کرنے میں وہی غلطی ہوئی جو غامدی صاحب سے مسئلہ تکفیر پر غلط موقفاختیار کرنے کے نتیجے میں ہوئی اور اسے مخمصے کا سامنا ہے۔ بہر حال اس مخمصے کے حوالے سے یہ الگ بات ہے کہ اس نے1914ء سے شتر مرغ کے ریت میں سر چھپانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ] اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کی جاسکتی یا ہر کلمہ گو مسلمان ہے [ بلاشبہ کلمۂ حق ہے لیکن ایک خاص تناظر میں اس سے مراد باطل ہے۔ اس موضوع پر برصغیر کے ممتاز متکلّم مولانا محمد عبدالعزیز پرہاروی کی کتاب ’’النبراس علیٰ شرح العقائد‘‘ سے اہل سنت کا موقف پیش کیا جاتا ہے:
’’ہم اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے ۔ اہلِ قبلہ سے لغوی اعتبار سے وہ شخص مراد ہے جو کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے یا اسے قبلہ مانے لیکن متکلّمین کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ضروریات ِ دین کی تصدیق کرے، یعنی ان امور کی جن کا ثبوت شرع سے معلوم و مشہور ہے۔ لیکن جس شخص نے ضروریات ِ دین میں سے کسی شے کا انکار کیا، مثلاً حدوث عالم کا، یا حشر اجساد کا یا اﷲ تعالیٰ کے علم بالجزئیات کا ، یا فرضیت صلوٰۃ و صوم کا ، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہے، خواہ وہ طاعات میں مجاہدہ کرتا ہو۔ اسی طرح جس شخص نے ایسا کام کیا جو دین کی تکذیب کی علامات میں سے ہے جیسے بتوں کو سجدہ کیا یا کسی شرعی امر کی توہین و استہزا کا مرتکب ہوا، تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہے ۔ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان فقط اس وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا کہ اس نے گناہ کیا ہے۔‘‘
اہلِ سنت کے نزدیک ضروریات ِ دین کا انکار کرنے والے کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، خواہ وہ تمام عمر اہلِ قبلہ میں سے رہا ہو اور راقم کو یقین ہے کہ جاوید خامدی صاحب ضروریاتِ دین سے اچھی طرح واقف ہیں۔
اب ہم مسلمان کی تعریف کے سلسلے میں جماعت احمدیہ لاہور کے موقف کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس جماعت کا موقف اس کی شائع کردہ کتاب’’ مجاہد کبیر‘‘ اور کتابچے’’ شہادت حقّہ‘‘ کے حوالے سے پیش کیا جاچکا ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے، بلکہ جماعت احمدیہ لاہور اُس جماعت کو بھی مسلمان قرار دیتی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی حقیقی نبی تھے اور اُن کی نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ راقم کی مراد جماعت احمدیہ قادیان ( اب دبوہ) سے ہے۔ جماعت احمدیہ قادیان( اب دبوہ) کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود (م 1965ء) نے یہ بھی لکھا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت جاری ہے اور ایک نبی تو کیا ہزاروں نبی آئیں گے۔ حوالے کے لیے اُن کی درج ذیل تحریریں ملاحظہ ہوں:
’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آں حضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دورازہ کھلا ہے۔‘‘
( حقیقۃ النبوت، ص228)
’’انہوں نے ( یعنی مسلمانوں نے) یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے۔۔۔۔۔ ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے، ورنہ ایک نبی کیا میں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی ہوں گے۔‘‘ ( انوارِ خلافت، ص62)
’’ اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آں حضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اُسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے، کذاب ہے، آپ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘ (انوارِ خلافت، ص 65)
حیرت ہے کہ جماعت احمدیہ لاہور کے مسیح موعود و بانی سلسلۂ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی تو جماعت ِ احمدیہ لاہور کی شائع کردہ کتابوں کے مطابق ختم نبوت کے منکر کو بیدین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھیں اور جماعت ِ احمدیہ لاہور اُسے مسلمان قرار دے۔ درحقیقت یہ مسلمان کی غلط تعریف کا شاخسانہ ہے جس میں جماعت ِ احمدیہ لاہور ایک صدی سے مبتلا ہے ۔ جماعت احمدیہ لاہور کے نزدیک جماعت احمدیہ دبوہ کا status کیا ہے؟ اس کی وضاحت جماعت کے ترجمان، ہفت روزہ پیغام صلح لاہور کے ایک اداریے کے اس اقتباس سے ہوتی ہے۔ یہ اقتباس ماہ نامہ طلوع اسلام لاہور کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے ۔ بطور تمہید طلوع اسلام لکھتا ہے گزشتہ سال جب یہ سوال اٹھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے تو لاہوری جماعت کے ترجمان ’’ پیغام صلح‘‘ نے اپنی 30 مئی 1973ء کی اشاعت میں لکھا:
’’ ان حالات میں اول تو کسی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا صحیح نہیں اور اگر اس شوق کو پورا ہی کرنا ہے۔۔۔ تو کم از کم احمدیوں کے اس گروہ کو اس سے مستثنیٰ کرنا ضروری ہے جو حضرت خاتم النبیینؐ کے بعد کسی بھی نبی کے آنے کے قائل نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہم قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں ہیں۔ ہمارے نزدیک قادیانی ہو یا غیر قادیانی ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ اس کو غیر مسلم قرار دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔‘‘
(ماہ نامہ طلوع اسلام لاہور ، جولائی 1974ء ، ص 15 )
جماعت ِ احمدیہ لاہور کا جماعت ِ احمدیہ دبوہ کے بارے یہ موقف اُس کے اِس عقیدے کا منطقی نتیجہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ اگر وہ جماعت احمدیہ دبوہ کی تکفیر کرتی ہے اسے اپنے اس عقیدے سے دستبردار ہونا پڑے گا، اس نے یہ عقیدہ ایک صدی سے اختیار کر رکھا ہے ۔ بہر حال راقم کی دعا ہے کہ ، سو سال بعد ہی سہی، جماعت احمدیہ لاہور اس مخمصے سے نکل آئے۔