احمد جاوید
تیری آواز قرآن کی ہم لحن ہے
مولا!
تیرا ہاتھ رسول اﷲ کا ہاتھ ہے
ید اﷲ کے سرمدی لمس کا وارث!
غیب و شہود کی منتہا در منتہا یکجائی کے نورانی سمٹاؤ میں
تو قائم کیا گیا الوہی تھام کے ساتھ
احمد مختار کی دست گیر سہار کے ساتھ
مالک الاشتر کی خبیث تلوار
قرآن کے حلقوم پر گری تھی
اس شیطان کی ضرب نے
ابوالقاسم کے دستِ مبارک کو گزند پہنچائی
تیرے دشمنوں نے اسلام کے شاداب شجر پر زہراب چھڑکا
اور مدینے کی پاک مٹی میں خباثت کاشت کرنے کی ٹھانی
دوزخ کے کتوں کی مکروہ غراہٹوں نے
حیا اور سخاوت کے ملکوتی آفاق سے طلوع ہونے والے
سورج کی مقدس پیشانی کو پر خراش کردیا
نجس نیتوں کے تعفن نے ابلیس کی ریاح کی طرح طغیان کیا
اور کچھ ایسی آنکھوں کو بھی گدلا کردیا
جنھیں نبی کی مزکیٰ رویت نے پاکی تلقین کی تھی
شیطانوں کا بد بودار جھنڈ
اس گل تر کو برگ برگ کرنے نکلا تھا
جس کی تزئین میں بہار کا سارا اندوختہ صرف ہوا تھا
احسان فراموش خنزیروں کا ریوڑ حقارت سے ہنکا دیا جاتا
قبطی بندروں کا منحوس جتھا ایک ہش سے کھدیڑا گیا ہوتا
کفرکے راتب پر پلنے والا گیدڑوں کا قبیلہ
کھائے ہوئے بھوسے کی طرح پامال ہوچکا ہوتا
مگر اسے مظلومی کے جاوداں آسمان
تو نے صبر کی چادر لپیٹے رکھی
اور اسماعیل کی وراثت کو اپنی عفیف گرفت سے نکلنے نہ دیا
تونے گرنے نہ دیا رحمتہ اللعالمینی کا سائبان۔۔۔۔
اور قاتل بچھوؤں کی تیزابی باڑھ
شیطان کی قے کی طرح اس خاک پر پھیل گئی
جس سے افلاک اگا کرتے تھے
اور جبریل نمو پاتے تھے
اے عثمان! اے امام مظلوم! اے وارث اسماعیل!
تو صبر کے قلعے کا سب سے اونچا برج ہے
حیا کے بہشتی خیام کی سب سے پکی سہار
سخا کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ۔۔۔۔
تو بندگی کی محمدی اٹھان پر استوار رکھا گیا
مولا! تیرا پیڑ ربانی بلندیوں سے سینچا گیا
شور زدہ زمینوں کی سنڈیاں تیرا پھل نہ کھائیں گی
نجاست نژاد چھچھوندریں تیری مطہر چھاؤں نہ کتریں گی
وہ سعید ساعت ابھی زمانے کے ضمیر میں نمو پارہی ہے
جب خدائی جلال تیرے سب دشمنوں کو
ذلت اور نا بودی کے میدان میں گھیرے گا
اور آگ کو نئی ڈیگ ملے گی
کہ ناگ پھنی کا جنگل جلا کر پاک رہے۔۔۔۔
جہنم کے دھویں کا مشتاق بگولا
سمیٹ لے گا زمین کا سارا خس و خاشاک (آندھی کا رجز)