پروفیسر حمزہ نعیم
اصحابِ رسول کی زندگی دین ہے اور دین کو پرکھنے کا معیار تاریخ نہیں، قرآن اور حدیث ہے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ کُلّلا وَعَدَ اللّٰہُ الحُسْنیٰ سب کے ساتھ اﷲ نے جنت کا وعدہ کر لیا تو اب چاہے سند متصل کے ساتھ بھی روایات موجود ہوں تو بھی ہم ان کو رد کریں گے کیونکہ وہ خالق کائنات جس نے جزا و سزا کا نظام بنایا اور چلایا ہے وہی کہہ رہا ہے ’’میں نے جنت کا وعدہ ان کے ساتھ کر لیا ہے‘‘ صحابہ پر جرح حرام ہے ارشاد نبوی ہے اللّٰہَ اللّٰہَ فی اَصحابی! لا تتخذوھم غرضاًمِنْ بعدی۔ میرے صحابہ کے بارے میں اﷲ سے ڈرو، اﷲ سے ڈرو۔انھیں میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بناؤ۔ فَمَنْ أحَبَّہُم فبِحُبِّی أحَبَّہُمْ ومَنْ أَبْغَضَہُم فبیغضی أَبْغَضَہُمْ جس کسی نے ان سے محبت کی تو میرے ساتھ محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت کی اور جس کسی نے ان کے ساتھ بغض رکھا تو میرے ساتھ اپنے بغض کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھا۔تمہیں اگر تاریخ پڑھنے کا موقع ملے تو ہوش میں رہنا کہیں تمہارے دلوں پر غبار نہ چھا جائے۔ فرمایا اِنْ بَغَتْ اِحْداھُما۔ اگر ایک جماعت ان میں سے دوسری کے خلاف ہوجائے۔ سوچیں یہاں کیا فرمایا۔ مومنین میں سے ایک جماعت دونوں میں سے ایک دونوں کو اہل ایمان قرار دیتے رہے ہیں۔ فاصلحوا بینہما ان دونوں میں صلح کرادو۔ اور جب تم عرصہ بعد دنیا میں آئے تم ان کے درمیان صلح کرانے کا موقع نہیں رکھتے تو پھر ان کے معاملات میں دخل مت دو نبی کے سامنے ان سے غلطی ہوئی نبی پاک ان سے مواخذہ کر سکتے ہیں مگر نہیں، حکم ہوا۔ فَاعْفُ عنہم ان کو معاف کردیجیے۔ یہ سفارش کون کررہا ہے وہ جس نے جزا و سزا کا نظام بنایا وہ خود اصحاب رسول کی سفارش کر رہا ہے میرے نبی ان کو معاف کر دیجیے جبکہ ان کو مشورہ میں شامل رکھیے۔ ان کی شان میں کمی نہیں آئی۔ ان کا سفارشی خود اﷲ ہے ان کی شان کیا ہوگی۔ فاعف عنہم ان کو معاف کردیجیے اب ان سے خطائے اجتہادی کی بجائے اگر خطائے صریحی اور خطائے بدیہی بھی سرزد ہو تو کوئی گرفت نہیں۔ اب کوئی بدبخت ہی ان آیات کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ انھوں نے یہ کیوں کیا اور وہ کیوں کیا؟ اﷲ اکبر! اب ان پر میں جرح کروں یا مودودی صاحب جرح کریں یا کوئی رافضی شیعہ جرح کرے اس سے ان کی شان میں کمی تو نہیں آسکتی کہ وہ جس نے پکڑنا ہے وہ کہہ رہا ہے فاعف عنہم ’’تم بھی ان کو معاف کردو‘‘ اور فرمایا وشاورھم فی الامر ان سے مشورہ چھوڑنا نہیں آپ ان سے مشورہ لیتے رہے۔ اب اگر اور کوئی آیت بھی اصحاب رسول کے حق میں نہ ہو تب بھی ان کے مقام بلند میں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کی شان اور مقام میرا اﷲ طے کرچکا ہے ان پر جرح حرام ہے ان پر تنقید حرام ہے۔ ان کی تکفیر کرنے والا خود تکفیر کی زد میں ہے۔صحابیت کی تعریف علماء امت اجماعی طور پر طے کرچکے ۔ جو شخص ایمان لا کر ثابت قدمی کے ساتھ صحبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوچکا ہے صحابی رسول ہے۔ ان میں اوّل مومن اوّل صحابی حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ جیسے اول تا آخر ہمدم و ہم راز بھی ہیں اور چند لمحات کے صحابی بھی شامل ہیں کہ ایمان لا کر جہاد میں شامل ہوئے شہادت پائی ۔ نہ نماز کا موقع ملا نہ زکوٰۃ کا، نہ روزہ رکھا نہ حج کو گئے۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے محبوب عم رسول سید الشہدا حمزہ بن عبدالمطلب کو شہید کیا اور سامنے نہ آنے کی شر ط پر ان کو بھی شرف صحابیت سے نواز دیا گیا۔ وہ حبشی غلام وحشی بھی رضی اﷲ عنہ کے تاج سے سرفراز ہوئے اب اندازہ کیجیے جن قدسیوں نے۲۳ سال کی طویل صحبت رسول کا حظِّ وافر حاصل کیا اور جن قدسیوں نے اﷲ کی کتاب لکھ کر اﷲ کے کلام قدیم قرآن کریم میں اپنا کھلا تذکرہ درج کروالیا ان کی کیا شان ہوگی ارشاد الٰہی فی صحف مکرمہ مرفوعۃ مطہرۃ بایدی سفرۃ کرام بَرَرَۃ مکرم بلند شان پاک صحیفے مکرم پاکباز لکھنے والے چمکتے ہاتھ۔ کیا شان ہے ان کی یہاں خصوصی طور پر ان اصحاب رسول کا ذکر پاک ہوا جو کا تبانِ وحی مثل زید، عمر، عثمان، علی اور معاویہ کے ہیں اصحاب رسول کے بعد بھی جن خوش نصیب لوگوں نے کتاب الٰہی قرآن مجید کی نشرو اشاعت میں حصہ لیا ان کا ذکر خیر بھی آگیا۔ پھر اصحاب رسول کے کیا کہنے!
ء ء ء