ڈاکٹر عمر فاروق احرار
قادیانیت ہندوستان میں انگریز استعمار کا پیدا کردہ فتنہ تھا۔ جس نے امت مسلمہ کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت پر حملہ زن ہو کر مسلمانوں کے ایمان کو لُوٹنے کی پوری کوشش کی۔ بیرونی قوتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے قادیانیت کو پروان چڑھا کر مسلمانوں کی اجتماعیت ومرکزیت پر کاری ضرب لگائی۔ 1928 میں حیفہ (اسرائیل) کے مقام پر قادیانی مشن قائم کیا گیا۔ اسرائیل جہاں مسلمانوں کو جان وایمان کی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ یہ قادیانی مشن وہاں آج بھی پوری آزادی سے کام کررہا ہے اورعرب دنیامیں اسرائیل کو قادیانیوں کے ہیڈ آفس کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر ممالک بالخصوص اسرائیل سے مسلمانوں کو قادیانی بنانے کا جو مذموم دھندہ شروع ہوا تھا۔ اُس کے نتیجے میں عرب ملکوں میں اس فتنے کی خوفناکیوں سے بے خبر مسلمان قادیانیت کو اِسلام سمجھ کر اِرتداد کا شکار ہوتے رہے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قادیانیوں کے حمایتی لبرل اور سیکولر حضرات آخر اِس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر پورے عالم اسلام پر قادیانیت کے کفرو اِرتداد کو واضح کردیا۔ ورنہ قادیانی اسلام کا لبادہ اوڑھ کرمستقلاً لاکھوں مسلمانوں کی گمراہی کا باعث بن جاتے۔ قادیانی اگر اپنے مذہب کو اِسلام نہ کہیں تو اُن کی اصلیت آشکاراہوجاتی ہے۔دجل اورتلبیس ہی قادیانیوں کے وہ ہتھیارہیں،جن کی بدولت وہ اپنی گمراہی اوراِرتدادکواِسلام کا نام دے کر دُنیاکودھوکہ دیتے ہیں ۔
اُردن کے ایک جدید تعلیم یافتہ فردجناب امجدسقلاوی جو پہلے مسلمان تھے ،مگر قادیانیت سے ناواقفیت کی بناء پر قادیانیت کے فریب میں آکر اسلام سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں پھر ہدایت سے نوازا،اوروہ چندبرس پہلے قادیانیت کو ترک کرکے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوگئے۔امجدسقلاوی مسلمان ہونے کے بعدفارغ نہ بیٹھے،بلکہ انہوں نے قادیانیوں پر اِسلام کی حقانیت واضح کرنے کے لیے مسلسل محنت جاری رکھی ہے اورفیس بک پر روزانہ کی بنیادپر اسلام کی دعوت کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔قادیانیوں سے مستقلاً بحث ومباحثہ میں مشغول رہتے ہیں۔حالیہ برسوں میں قادیانیت کو چھوڑنے والوں میں امجدسقلاوی کا نام سرفہرست ہے۔تمام سابق قادیانی نومسلم اُن کے رابطے میں ہیں۔
اب حال ہی میں اسلام کی روشنی سے منورہونے والوں میں دیگر خوش قسمت افرادکے علاوہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے معروف قادیانی جناب ہانی طاہرانٹرنیٹ کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔جنہوں نے 31؍اگست کو اسلام قبول کرلیا ہے۔یہ قادیانیت کے لیے بہت بڑادھچکہ ہے ۔ان کے قبول اسلام سے عرب میں قادیانیت کی دیواریں اپنی بنیاد سے ہِل گئی ہیں ،کیونکہ 47سالہ سابق قادیانی مبلّغ ہانی طاہر کا شمارپرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فلسطین اور مصر نیز دیگر عرب ممالک میں عرصہ دراز سے قادیانیت کا پرچار کرنے والے اہم افرادمیں ہوتاتھا۔یاد رہے کہ استاد ہانی طاہر کے فلسطین میں قادیانی جماعت کے سربراہ شریف عودہ سے کچھ عرصہ سے قادیانی عقائد پر اختلافات بھی چلے آرہے تھے۔ جن کی وجہ سے فلسطین اور مصر میں قادیانی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ہانی طاہر کا قادیانیت ترک کرنا عرب ممالک میں تحفظ ختم نبوت کا کام کرنے والے کارکنوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری اور اہل ایمان کے لیے ایک بہت بڑی فتح ہے ۔ہانی طاہرالیکٹریکل انجنیئرنگ میں ماسٹر اورالشریعہ میں بیچلرکی ڈگری رکھتے ہیں۔وہ قادیانیوں کے عرب ٹی وی چینل3 کے پروگراموں الحوار المباشر، سبیل الہدیٰ، قرائۃ فی الصحف اور الخزائن الروحانیۃ کے میزبان کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔
ہانی طاہر نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ ’’جب تک مرزا قادیانی کی تحریروں کا عربی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تھا۔اُس وقت تک ہمیں قادیانی جماعت کی طرف سے قادیانیت کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتاتھا۔ ہم اُسے ہی سچ سمجھتے تھے ، لیکن جب مرزا غلام احمدقادیانی کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ شروع ہوا، اور خاص طور پر مرزاقادیانی کے جاری کردہ اشتہارات کا عربی ترجمہ ہوا، تو میری آنکھیں کھلیں اور مجھے پتہ چلا کہ مرزا قادیانی کی تو سبھی پیش گوئیاں جھوٹی نکلی تھیں اور الحمدﷲ!میں اس فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچا کہ درحقیقت مرزا قادیانی نہ تو مہدی ہے اور نہ وہ مسیح موعودہے ۔ ‘‘
ہانی طاہر کے مطابق مرزاقادیانی کے مرنے کے بعداُس کے جانشینوں نے بھی بہت سے ایسے عقائد ایجاد کرلئے تھے جوخود مرزا قادیانی کی تحریروں کے برعکس ہیں، لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں دجل وفریب کی اس دلدل میں مزید نہیں رہ سکتا۔ہانی طاہر نے قادیانیوں کو نصیحت کی وہ بے شک اُن کے کہنے پر قادیانی جماعت نہ چھوڑیں،لیکن وہ صرف ایک بار خودمرزاقادیانی کی کتب کا مطالعہ کریں اورحقیقت تک پہنچیں۔میرا دعویٰ ہے کہ اگر وہ مرزا قادیانی کا لکھا ہوا سارا لٹریچر براہ راست پڑھ لیں تو اُن کے لیے قادیانیت میں ایک دن رہنا بھی ممکن نہ رہے گا ۔
ہانی طاہر نے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ جانے کی بجائے مرزا قادیانی کے کفریہ عقائداور قادیانیت کے دجل وفریب سے پردہ اٹھانا شروع کردیا ہے اوروہ تقریباً ہرروز ایک نیا ویڈیوبیان ’’یوٹیوب‘‘ پر اَپ لوڈ کرتے ہیں۔ جس میں مرزا قادیانی کی ناکام پیش گوئیوں سے لے کر ،اُس کے پیش کردہ قرآن وحدیث کے جھوٹے حوالوں اور قادیانی جماعت کی مبالغہ آمیزبتائی جانے والی تعداد کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھایا جاتاہے۔ہانی طاہرکے چشم کشا بیانات کے اثرات رنگ لارہے ہیں اوراُن کی بدولت مزید عرب حضرات جو قادیانیت کی دلدل میں پھنس چکے تھے ،وہ واپس اسلام کی طرف لوٹناشروع ہوگئے ہیں جوکہ ایک خوش آئندبات ہے۔
قادیانی اس صورت حال سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔عرب قادیانی چینل ایم ٹی اے کی ٹیم نے شریف عودہ قادیانی کی سربراہی میں ہانی طاہر کی پیش کردہ ویڈیوز کے جوابات وڈیوزکے ذریعے دینے کی ناکام کوشش کی ہے،مگراُن میں ہانی طاہرکی ذات کے خلاف طعن وتشنیع کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ابھی تک ہانی طاہر کے پیش کردہ دلائل اور حوالہ جات کو غلط ثابت نہیں کرسکے ، قادیانی ہانی طاہرکو مخاطب کرتے ہوئے کبھی یہ کہتے ہیں کہ کیا تم پہلے جاہل اور اندھے تھے جو تم مرزاقادیانی کو مہدی، مسیح اور نبی سمجھتے تھے؟ کبھی کہتے ہیں کہ تم خود مرزاقادیانی کی صداقت کی دلیلیں دیا کرتے تھے،مگر اَب تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ وغیرہ، وغیرہ ۔کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق شریف عودہ قادیانی نے اپنی ایک ویڈیو میں اپناغصہ یہ کہہ کر نکالاہے کہ’’ ہانی طاہر کے قادیانی جماعت چھوڑنے سے پہلے ہی ہماری بہت سے قادیانیوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہانی طاہر مرتد ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا ۔‘‘واضح رہے کہ ہانی طاہر کوئی عام قادیانی نہیں تھا،بلکہ اُس نے قادیانیت پر کیے گئے مسلمانوں کے اعتراضات کے جواب میں ساڑھے تین سو صفحات کے قریب ایک کتاب ’’شبہات وردود‘‘ کے نام سے عربی میں لکھی تھی۔
اب قادیانیت کے مکروفریب سے بڑی تیزی کے ساتھ پردہ ہٹتاچلاجارہاہے،کیونکہ بہروپ کی زندگی بہت مختصرہواکرتی ہے۔مجلس احراراسلام کے بزرگ قادیانیت کو مذہب نہیں،بلکہ سیاسی مرتدگروہ سمجھتے تھے ۔جس نے مذہب کی چادراَوڑھ کربرطانوی استعمارکے مقاصد کی تکمیل کو حرزِ جاں بنارکھاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر برطانیہ میں ہے اوراُن کا سربراہ مرزامسروربھی برطانیہ کو اَپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔ ہانی طاہربارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ہے۔اب عرب دنیاکے قادیانی اسلام کی حقانیت کو پارہے ہیں۔حال ہی میں شام اورمصر اور سے تعلق رکھنے والی تین عرب قادیانی خواتین نے اسلام قبول کیا ہے۔ان میں سے ایک خاتون کا تعلق شریف عودہ قادیانی کے علاقہ فلسطین سے بتایا جاتاہے ۔یہ خاتون پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔اسی طرح ایک اورقابل ذکر قادیانی احمد محمود عبدالجواد نے بھی حال ہی میں قادیانیت کو خیرباد کہہ دیا ہے ۔جبکہ ستمبر کے اوائل میں مصر سے تعلق رکھنے والے استاد فاروق اسماعیل اور ان کے دوستوں کا ایک پورا گروپ اپنی فیملیوں سمیت قادیانیت سے توبہ تائب ہو کر اسلام قبول کرچکاہے۔
ان بدلتے ہوئے حالات کا تقاضاہے کہ عرب ممالک میں تحفظ ختم نبوت کے محاذپر کام کرنے والے مسلمان اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائیں اوربکھرتے ہوئے قادیانی نیٹ ورک کو سنبھالیں اورمتذبذب قادیانیوں کو اسلام کے دامن میں لانے کے لیے دن رات ایک کردیں۔تاکہ عالم اسلام میں قادیانیت کے ناپاک وجودسے پاک ہو جائے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے کارکنان اپنے آپ کو اِس محاذپرروایتی طریقۂ کارکی بجائے دلائل اوربراہین کے جدیدہتھیاروں سے مسلّح کریں۔جدید اسلوبِ گفتگو اورمکالمہ کی زبان استعمال میں لائیں۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے میدان میں اپنا کرداراَداکریں اورقادیانیوں کی عالم اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کو بے نقاب کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ قادیانی دنیامیں بھونچال پیدانہ ہو اورعرب ملکوں میں ترکِ قادیانیت کی یہ تازہ لہراِسلام کی سربلندی اورنشاۃِثانیہ کی باعث بن جائے۔
ء ء ء