تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

یوم ِفتح قادیان 21اکتوبر1934

عبداللطیف خالد چیمہ

بر ٹش ایمپا ئر نے مسلمانوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے اور فرقہ واریت کوپروان چڑھا نے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں فتنہ اِرتداد ِ مرزائیہ کو کھڑا کیا ،مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیلمہ کذاب کی جانشینی کا حق ادا کیا اور قادیانی جماعت نے اپنے آقاﺅں کی تابعداری میں تنسیخ جہاد کے لئے پورا زور لگا دیا ،بہت سے موثر سرکاری اداروں میں قادیانیوں نے رسوخ حاصل کرلیا اور بعض سرکاری محکموں میں قادیانی سفارش سے بھر تی ہونے لگے، قادیان میں مرزائیوں نے اپنی اکثریت کے زعم میں انسانیت پر جو ظلم روا ءرکھا ،اس قصبہ کی غیر مرزائی آبادی کو جس طرح پریشان کیا ،قادیان میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کی ذریت نے عالم اسلام کو جس افتراق وانتشار کا نشانہ بنایا تاریخ اس کا جواب مہیا نہیں کرسکتی ،رائج الوقت قانون کی موجودگی میں خلیفہ قادیان کے گھریلو آئین ،دن کی روشنی میں اپنے مخالفوں کا قتل عام مسلمانوں اور غیر مسلموں سے اقتصادی مقاطعہ ،معصوم عصمتوں کی ہلاکت، قصر خلافت میں اخلاق سوز حرکتوں کا ارتکاب یہ تھے ،وہ عوامل جس سے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی سیخ پاءتھے،سلطنت بر طانیہ کے خلاف آزادی کی ہر آواز کو دبانے کے لئے قادیانی مُخبر حق ِ نمک ادا کرنے لگے، قادیانی تحریک کاہرفرد بر طانوی سامراج کے مفادات کا محافظ اور وفا دار بن کر رہ گیا، تمام مکاتب فکر علمی سطح پر تعاقب میں مصروف ہو گئے ، اسی دوران مجلس احرار اسلام جو مسلمانوں کے لیے مسیحاءبن کر اٹھی، 14اپریل 1920 ء میں حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بندے ماترم ھال امر تسر میں مرزا بشیر الدین محمود کو ٹوکا کہ تم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریف کرکے مرضی کی تشریح کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا قرار نہ دو بھر ے ھال میں ہنگا مہ کھڑا ہو گیا ،حضرت امیر شریعت نے مرزا بشیر الدین محمود کو للکارا کہ حدیث شریف میں تحریف نہیں کرنے دو نگا، چنانچہ پہلے عوامی معرکے میں مرزا بشیر الدین اسٹیج چھوڑ کر بھاگ نکلا شاہ جی نے حدیث شریف کی روشنی میں حاضرین سے خطاب کیا ،یہی جدوجہد سامراج دشمنی اور قادیانیت کے تعاقب کی راہیں متعین کرنے لگی اور مجلس احرار ِاسلام کی بنیاد رکھی گئی، احرار محدث العصر حضر ت سید محمد انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کی دعاﺅں اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی آرزو کا نتیجہ تھی ،تو حضرت مفتی کفائت اللہ، چودھری افضل حق ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ،مولانا محمدداﺅ د غز نوی رحمتہ اللہ علیہم کی مشاورت و تائید سے احرار کا پلیٹ فارم سامنے آیا ،جو بہت سے نشیب و فراز، دشمن کی چیرہ دستیوں اور اپنوں کی بے و فا ئیوں کے باوجود آج بھی الحمد اللہ قافلہ سخت جاں کے طو ر پر پھر منظم ہو رھا ہے، مرزا غلام نبی جانباز رحمتہ اللہ علیہ ” حیات امیر شریعت “ میں لکھتے ہیں کہ ” 1857 ءکے بعد انگریز ی سامراج نے جن تحریکات کو از خود جنم دے کر پروان چڑھا یا ، مرزائیت اسی پودے کا اہم بیج تھا ،احرار رہنماﺅں کے تدّبرنے اس سے چشم پوشی کو ہندوستان سے غداری اور اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم ِنبوت سے انحراف سمجھ کر قادیان کے نظام ِ حکومت میں دراڑ ڈالنا ضروری خیال کیا، چنانچہ 23,22,21 اکتوبر 1934 ءکو قادیان میں حضرت امیر شریعت کی صدارت میں تبلیغی کانفرنس کرنے کا اعلان کیاگیا، اس فیصلے سے مرزائی اور حکومت اپنی اپنی جگہ سوچ میں پڑ گئے، پنجاب میں خصوصاََ احرار رضا کاروں نے کانفرنس میں شمولیت کی تیاریاں شروع کر دیں،جہاں مسلمان کانفرنس کی تیاریوں میں مگن ہوگئے ،وہاں قادیانیوں نے بھی رائج الوقت اسلحہ برچھے ، کلہاڑیاں ودیگر سے لیس ہوکر مسلمانوں کو ہر قسم کا جواب دینے کی تیاری شروع کردی، مسلمانوں کا شوق دیدنی تھا، احر ار تبلیغ کانفرنس کے لیے سپیشل ٹرینیں چلائی گئی، لدھیانہ ،لاہور ،امرتسر ،دہلی ،پشاور ،گوجرانوالہ ، کوئٹہ سے کراچی ،سری نگرسے سیالکوٹ ہرطرف گہما گہمی تھی، 21اکتوبر صبح گیارہ بجے چالیس ڈبوں پر مشتمل احر ار سپیشل ٹرین جس میں امیرشریعت سید عطا ءاللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ اور ہزاروں احر ار سرخ پوش رضا کار سوار تھے، امرت سر سے قادیان کے لیے روانہ ہوئے ٹرین کے دونوں جانب انجن تک احرار کے سرخ پرچم لہرا رہے تھے، احرار پرچم کی اڑانوں نے قادیانیوں کے چہروں کی رنگت اڑادی تھی، قصر خلافت کے مینا ر ایڑیوں کے بل اچھل اچھل کر احرار سپیشل ٹرین کا نظارہ کررہے تھے ،قادیان کا سومنات احر ار غزنوی کے قدموں میں ڈھیر ہورہا تھا، قادیان کے مسلمان ،سکھ اور ہندﺅ اس دن کو یوم نجات کہہ کر خوشی منا رہے تھے، کفر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود لرزہ براندام تھا کہ ٹھیک 1:30 بجے یہ قافلہ حریت قادیان ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا ،حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ اور مولانا عبدالکریم مباہلہ رحمة اللہ علیہ قافلہ سالار کی حیثیت سے افواج ایمان کے ساتھ قادیان کے لات وہبل پر حملہ آور ہوئے ،جہاں اسلامی دنیا کی عظیم شخصیات شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ،ابوحنیفہ ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ ،ابوالوفا مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ،ظفر الملت مولانا ظفر اللہ علی خان رحمہ اللہ ،امام الاﺅلیا مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ سمیت بے شمار اﺅلیا وصلحاءنے اپنی تائیدات کا اظہار فرمایا یوں 21اکتوبر 1934ءقادیان میں پہلی احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی اور ان عظیم رہنماﺅں اور احرار رضاکاروں کو اللہ کریم نے قادیان میں پہلی فتح عظیم سے سرفراز فرمایا ۔ ،اِس کانفرنس جس نے پوری دنیا میں قادیانیت کے دجل و فریب کو بے نقاب کیا اِس سے پہلے ایک طویل عرصہ کس طرح سوچ وبچار کرکے اِس کو پلان کیا گیا اور کتنے حضرات کو قربانی دینا پڑی اس کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے حضرت امیر شریعت نے 21 اکتوبر کو رات دس بجے سے سحر تک شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ کی صدارت میں جو تقریر کی اس نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں شاہ جی کی تقریر پر مقدمہ ہوا اور سزا بھی لیکن مسٹر جی۔ڈی۔کھو سلہ سیشن جج گور داسپور نے فریقین کے وکلاءکی بحث کے بعد جو فیصلہ دیا اِس کو تحریک ِختم ِنبوت کی تاریخ میں ممتاز حیثیت حاصل ہے اور اس فیصلے نے خود ”فیصلہ“ کردیا ۔ اکابر احرار اور قافلہ¿ ختم ِنبوت نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں انگریزی جبرو استبداد کے باوجود قادیان میں 21 تا 23 اکتوبر 1934 ءکو ”احرار تبلیغ کانفرنس “ کا انعقاد کرکے پوری دنیا پر فتنہ¿ قادیانیت اور مرزا غلام احمدقادیانی کی حقیقت کو آشکار ا کر دیا تھا مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا سیدحسین احمد مدنی ،پیر سید مہرعلی شاہ گولڑوی ، مولانا ثنا ءاللہ امرتسری رحمتہ اللہ علیہم اور اِن کے پیر وکار تحریک ختم ِنبوت کی پُشت پر کھڑے تھے مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان رحمتہ اللہ علیہم اور یونیوسٹائز طبقہ بھی قادیانیوں کو دین وملت کا غدار قرار دے رھا تھا لیکن دنیا پر قادیانیت کا کفر وارتداد واضح کرنے کے لئے مجلس احرار ِاسلام نے قادیان میں شعبہ¿ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت قائم کیا اور پورے ہندوستان میں اس کے دفاتر قائم کئے قادیان میں کفر وارتداد کا تسلط اور غرور توڑ کے رکھ دیا فاتح قادیان مولانا محمد حیات، مولانا عنائت اللہ چشتیرحمتہ اللہ علیہم اور دیگر رہنما ﺅں کی قیادت میں احرار کا رکنوں نے جفا کشی اور سرفروشی کی ایک نئی تاریخ رقم کی،مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اللہ علیہ تاریخ احرار میں لکھتے ہیں کہ” جماعت کی ورکنگ کمیٹی میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ قادیان میں پہلے پہل جاکر کے کام کا آغاز کرنے کے لےے کوئی ایسا ساتھی اپنا نام پیش کرے جس کی شادی نہ ہوئی ہو تاکہ اگر وہ قادیانیوں کے ہاتھوں شہید ہوجائے،تو ….. اس پر مولانا عنائت اللہ چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا نام پیش کیا اور قادیان میں جا کر اپنا کام شروع کر دیا پھر مولانا محمد حیات رحمتہ اللہ علیہ قادیان پہنچے اور دارالمبلغین کا قیام عمل میں آیا جبکہ قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، ماسٹر تاج الدین انصاری ، جانباز مرزا ، مولانا لعل حسین اختر مرحومین اور دیگر رہنما قادیان آتے جاتے رہے اور کام منظم ہوتا رہا،اکتوبر 1934 ءکی اس بنیادی ، کلید ی اور تاریخی احرار کانفرنس کی مناسبت سے مجلس احرار اسلام پاکستان کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام 23,22,21 اکتوبر کو ”یاد ماضی“ کی ورق گردانی کی جاتی ہے اور مختلف اجتماعات میں ان حسین یادوں کو تازہ اور زندہ کرکے لہو کو گرم کر لیا جاتاہے ،جس سے ایمان کو حرارت پہنچتی ہے اور بیٹری چارج ہو جاتی ہے ، اس دفعہ 21 اکتوبر اتوار کو آ رہاہے اس روز ہم ان شاءاللہ تعالیٰ ”یوم فتح قادیان“ منائیں گے ،چناب نگر (ربوہ)میں قافلہ احرار 27 ۔فروری 1976 ءکو فاتحانہ انداز میں داخل ہوا،چھ ضلعوں کی پنجاب پولیس نے لوگوں کا راستہ روکا ،اس وقت کی پیپلز پارٹی نے فسطائیت کی انتہا کی کردی ،جانشین امیر شریعت سید ابو معاویہ ابوذربخاری اور فاتح ربوہ سید عطاءالمحسن بخاری مرحومین کو ربوہ ،مسجد احرار کے سنگ بنیاد کے بعد گرفتار کرلیا گیا، بعد ازاں اِن ناروا پابندیوں کی صدائے بازگشت پنجاب اسمبلی میں بھی سنی گئی ۔بطل حرےت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمة ہ اللہ علیہ اورمجاہد ختم نبوت ملک رب نواز ایڈووکیٹ نے بھی ربوہ میں اس اولین نماز جمعة البارک کے اجتماع سے خطا ب کیا دراصل ربوہ میں تاریخ کے پہلے داخلے کو قادیان کے تسلسل سے ہی موسوم کیا جاتا ہے ،یہ اعزاز بھی احرار اور فرزندان امیر شریعت کے حصے میں آیا راقم لحروف تب گورنمنٹ کالج ساہیوال میں زیر تعلیم تھا اور اپنے ایک ساتھی چودھری محمد ارشاد کے ساتھ پولیس کے روکنے کے باوجود حیلے سے ربوہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جب کہ ہر طرف سے پولیس کی سخت ناکا بندی تی تھی ،اب ہرسال 12-11 ربیع الاوّل کو ربوہ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے اختتام پر دعوتی جلوس نکالا جاتا ہے اور ”ایوان محمود “کے عین سامنے قادیانیوں کو دعوت اسلام کا فریضہ دہرایا جاتا ہے ،امسال بھی ان شاءاللہ تعالیٰ نومبر میں اس عمل مبارک کا اعادہ کیا جائے گا ،قافلہ احرار اس وقت ابن امیر شریعت سید عطا ءالمہےمن بخاری مدظلہ العالی،پروفیسر خالد شبیر احمد ،سید محمد کفیل بخاری ،میاں محمد اویس ، مولانا محمد مغیرہ ،سید عطاءاللہ شاہ ثالث ،ڈاکٹر عمر فاروق احرار اورقاری محمد یوسف احرار کی پر عزم قیادت میں بتدریج آگے بڑھ رھا ہے ،اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور ہم سب مل جل کر اِس جماعت کو ترقی کی جانب لے جانے کا ذرےعہ بنیں ،آمین یارب العالمین!

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.