تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مجدد اعظم، شہدائے بالاکوٹ کی یاد میں

جانشین امیرشریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذربخاری رحمتہ اللہ علیہ
ہدیۂ زہیدہ بحضور امامت پناہ، سیادت پائیگاہ، قائد انقلاب ِ اسلامی، مجددِ اعظم
مجاہد ِ جلیل، امیرالمومنین، خلیفتہ المسلمین سیدنا حضرت سید احمدشہید رحمتہ اللہ علیہ

یہ طویل نظم یوم شہداء بالاکوٹ 24/ ذوالقعدہ 1369ھ مطابق 8/ستمبر 1951ء بروزجمعتہ المبارک ”مرکزی نادیۃ الادب الاسلامی پاکستان“ ملتان کے اجلاس عام میں جانشین امیرشریعت مولانا سیدابوذربخاری رحمتہ اللہ علیہ نے پڑھی۔ اس اجلاس میں سید الاحرار حضرت امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ بھی شریک ہوئے اور مکمل سرپرستی فرمائی۔ ایک تاریخی یادگار کے طورپر ہم اسے ہدیہ قارئین کررہے ہیں۔(مدیر ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان)

عزمِ تجدید تاسیس سے کم نہیں، تو امامت کی تجسیم بن کر اٹھا
ارضِ مشرق کے تاریک ماحول میں، نورِ ایقاں کی تقویم بن کر اٹھا
تیری جہد ِ نوی دین محکوم کی، برتری کا نرالا سا پیغام تھی
تیری آواز بھی تشنہ ارواح کو بادۂ حق پژوہی کا اک جام تھی
تیرے کردارِ محکم کی تحریک سے سرد سینوں میں پھر دل دھڑکنے لگے
تیرے عزمِ مصمّم کی تسخیر سے ذرّے خورشید بن کر دمکنے لگے
تیری تبلیغ تھی ورثۂ انبیاء، تیری تعلیم سنت کی تجدید تھی
تیری تحریک تھی انقلاب آفریں اور قیادت خلافت کی تقلید تھی
تیرے نورِ تقدّس کی تاثیر سے معصیت کا کلیجہ بھی چھلنی ہوا
تیری روحِ تجدُّد کی تسخیر سے جادوئے شرک و بدعت ہوا ہو گیا
تیری جانکاہیوں اور جگر سوزیوں سے، منور ہوئی شمعِ ایقان پھر
تیری خُوں پاشیوں اشک افشانیوں سے ہوئی بار ور کشتِ ایمان پھر
تیرے پیغمبرانہ اٹل عزم نے گردشِ دہر کا رخ بدل ہی دیا
تیری للکار کی گونج سے کفر و الحاد و طاغوت کا دل دَہلنے لگا
تیرے ہاتھوں سے احیاء و تنفیذ ِ دیں، دین حق کی صداقت کا اعجاز تھا
تیرے ہاتھوں یہ تغییر تاریخ میں ارتقاءِ شریعت کا اک راز تھا
تو فناءِ رضاءِ خدا و نبی، تیرے پَیرو صحابہ کے تھے جانشیں
سب کے حسنِ خلوص و جمالِ عمل سے ہوئی یہ زمیں مثلِ خُلدِ بریں
سونی راہوں پہ تونے جو رکھا قدم، سوکھے کانٹوں سے گلشن ہَویدا ہوئے
سوختہ وادیوں پہ جو ڈالی نظر خشک صحرا سے کوثر ابلنے لگے

تیری آمد طلوعِ مہِ زندگی، تیرا جانا قیامت سے کچھ کم نہ تھا
دیں کے غدار کچھ تیرے قاتل بنے ورنہ کچھ بھی تو اس موت کا غم نہ تھا
تو نے جامِ شہادت کیا نوش جب لوگ سمجھے کہ حق بھی فنا ہو گیا
درحقیقت وہ اک عہدِ ایثار تھا لاج تو نے رکھی وہ وفا ہو گیا
پر یہ ناداں تو یہ بھی سمجھ نہ سکے، حق کے مٹنے کا کوئی زمانہ نہیں
حق چھپے گا سہی، پر مٹے گا نہیں وہ تو باطل ہے جس کا ٹھکانہ نہیں
جو بھی تھے بے بصر، جو بھی تھے بے خبر، دیکھ لیں، جان لیں، دیں کے اعجاز کو
خفتہ ارواح پھر آج بیدار ہیں، سوز سے زندگی مل گئی ساز کو

آج پھر تیری یادِ کہن کے حسیں نقش فریاد بن کے ابھرنے لگے
آج پھر تیرے خاموش نغمات کی لَے پہ سرمست غازی بپھرنے لگے
آج پھر تیری مظلومیوں کی کسک، جذبۂ انتقام آفریں بن گئی
تیرا پاکیزہ خوں جب ہوا گل فشاں یہ زمیں گلشنِ احمریں بن گئی
تیرے خونِ مطہر کی تعظیر سے آج تک ارضِ سرحد ہے عنبر فشاں
تیرے جسمِ مقدّس کی تنویر سے چرخِ مشہد ہے اب تک ستارہ چکاں
تیرے ذکر ِحسیں کا دیا کر کے روشن تیرے پاس فریاد لایا ہوں میں
دین و قرآنِ مہجور کی بے کسی کی جگر دوز روداد لایا ہوں میں
وہ جو مسجد میں اور خانقاہوں میں ہیں آگے پھر ان میں روحِ عمل پھونک دے
آکے گم کردہ راہوں کا بن رہنما، تشنگی کو مٹا جامِ تسکین سے
پھر سے پندارِ باطل ملا خاک میں پھر قیادت کا آکے عَلم چھین لے
پھر قیادت، امامت کی تجسیم بن پھر خلافت کو شاہی پہ تمکین دے

آج پھر تیرے محکوم و مظلوم ساتھی، لہو اور پسینے میں آلودہ ہیں
آج پھر ملک و ملت کے غدّار تختِ شہی پر بصد ناز آسودہ ہیں
آج پھر تیرے جاں باز ہیں مبتلا اور چمر قند میں محوِ پیکار ہیں
آج پھر کچھ فداکار، حق گوئی پر گولیوں، سولیوں کے سزاوار ہیں
پھر بھی مایوس ہوں تو گنہگار ہوں، مژدۂ فتحِ حق جب میرے پاس ہے
مجھ کو اس تیرہ و تار ماحول میں اک درخشندہ منزل کا احساس ہے
آج پھر تیرے پیغام کی آتشیں لہر مردہ دلوں کو جِلانے لگی
آج پھر تیری تاثیر جوشِ عمل زندگی کی حرارت بڑھانے لگی
پھر حیاتِ نوی رقص کرنے لگی پھر عزائم کا طوفاں اُمڈنے لگا
پھر اُجالے کے تیروں سے منہ موڑ کر تہ بہ تہ سب اندھیرا سمٹنے لگا
پھر سے ذروں میں خاور چمکنے لگے، پھر سے قطروں سے دریاچھلکنے لگے
پھر سے کانٹوں میں غنچے چٹکنے لگے، پھر سے جنگل بیاباں مہکنے لگے
عہد ِ ماضی میں کچھ کشتکاروں نے یاں بیج بوئے تو سینچا انھیں خون سے
اب وہ بن کے گلاب وسمن نسترن اُگ رہے ہیں تعامل کے قانون سے
تیرے پَیرو جبینوں سے جن کی عیاں انقلاب حجازی کی تنویر ہے
ان کی قسمت میں ہے انقلاب ِ قیادت مقدّر میں عالم کی تسخیر ہے
ان کی نظروں کا مقصد کوئی منطقہ یا قبیلہ نہیں نوعِ انسان ہے
ان کی کوشش کا مقصد کوئی دنیوی جاہ و منصب نہیں حق کا رضوان ہے
پھر سے آیاتِ فطرت، احادیث ِ قدسی وہ کوچہ بکوچہ سنانے لگے
وہ ہدایت کی شمعیں جلانے لگے، معصیت کے جہنم بجھانے لگے
وہ نیا دور تعمیر کرنے لگے، وہ عناصر کی تسخیر کرنے لگے
دورِ حاضر کے خاکوں میں صدیقؓ و فاروقؓ کے عہد کا رنگ بھرنے لگے
ان کا زندہ شعور عہد ِ نبوی کی زرپاش کرنوں شعاعوں سے معمور ہے
آج پھر ایشیا کی فضا ان کے نغماتِ پائندہ کی لَے سے مسحور ہے
ان کے جوشِ تہوّر سے برخود غلط قائدین ِ غوی کپکپانے لگے
ان کے شورِ بغاوت سے قصرِ ضلالت کے مینار بھی تھرتھرانے لگے
ان کی بے باک پیغمبرانہ مساعی سے ابلیس افرنگ مبہوت ہے
ان کی نصف صدی کی مسلسل ریاضت پہ حیران عیار طاغوت ہے
اب تو کمزور و کمتر ممولے بھی شاہیں کی قوت سے پنجہ لڑانے لگے
اب تو نادار و مفلس بھی شاہنشہوں، کجکلاہوں کو نیچا دکھانے لگے
جاں سپارانِ حق پھر مصائب کی صبر آزما گھاٹیوں سے گزرنے لگے
عافیت کوشیوں سے گریزاں ہوئے پھول کانٹوں میں پھر سے بکھرنے لگے
پھر سے غازی سروں پہ کفن باندھ کر پئے بہ پئے سوئے جنگاہ جانے لگے
پھر سے جاں باز ”بدر“ و ”اُحد“ کی طرح غلبۂ دیں کا سکہ جمانے لگے
وہ سسکتی، بلکتی ہوئی آدمیت کی آزُردگی کا مداوا بنے
وہ ایامیٰ، یتامیٰ، مساکین و بیوہ کی بے چارگی کا سہارا بنے
وہ ملوکیت و اشتراکیت و آمریت کے بُت کو گرانے لگے
وہ طلسمِ مظالم مٹانے لگے وہ شہیدوں کا بدلہ چکانے لگے
وہ امانت، دیانت، مروت کے اور عدل واحسان کے گیت گانے لگے
وہ اخوت، مؤدّت کے روشن الاؤ بَہر سنگ ِ منزل جلانے لگے
پھر سے جارا، چمر قند و لاہور کی ریف و خرطوم سے سرحدیں مل گئیں
مردِ مومن کی یلغار سے اقتدارِ ضلالت کی ساری جڑیں ہل گئیں
مردِ مومن کا عزمِ جواں پھر مدینہ سے دنیا کا رشتہ ملانے لگا
معجزہ فتحِ حق کا دکھانے لگا، مژدہ تجدید ِ دیں کا سنانے لگے

آج پھر دینِ محکوم کے روئے تاباں سے گردِ غلامی اترنے لگی
آج پھر مہرِ حریت و ماہِ امن و مساوات کی ضَو بکھرنے لگی
آج پھر فسقِ عیار ہے مبتلا اپنی تدبیرِ باطل کے انجام میں
آج پھر کفرِ جابر نگونسار ہے اس کی عیشیں بھی بدلیں گی آلام میں
غم نہ کر روحِ دینِ حنیفِ نبی مردِ مومن کی آمد پہ مسرور ہو
جس کی تعظیم میں کفر کا سر ہو خم جس کی طاعت پہ طاغوت مجبور ہو
مرحبا ارضِ پاک اب نئے مردِ مومن کی آمد مبارک، مبارک تجھے
فاتحِ عہدِ ظلمت ہی کیا، وارثِ عظمتِ آدمیت کہیں گے جسے
لاجَرم مظہرِ نورِ فطرت ہے وہ پاسدارِ رموزِ حقیقت ہے وہ
لاجَرم حاملِ شرفِ تجدید ہے لاجَرم پاسبانِ شریعت ہے، وہ
وہ جو پابند ہو کر بھی آزاد ہیں آج اپنے مقدر کے مِعمار ہیں
تیری مانند طاغوت کے ہاتھ سے عظمتِ حق جھپٹنے کو تیار ہیں
ارضِ پاک اب فقط ہے تیری منتظر روحِ عشاق تجھ بن پریشان ہے
اب ہیں غدار دَورِ مکافات میں دشمنِ دین و قرآں پشیمان ہے
سیدِ ذی حشَم جب میں بارِ دگر تیرے تذکار کی بزم گرماؤں گا
آنسوؤں کا بدل گل فشاں، مسکراہٹ کھنکتے ہوئے قہقہے لاؤں گا

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.