تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

داڑھی آخر ضروری کیوں……؟

مولانا زبیر احمد صدیقی

انسان روز مرہ کی زندگی میں بہت سے ایسے اعمال سر انجام دیتا ہے کہ جن کے لیے اس کی فطرت سلیمہ ہی اسے ابھارتی ہے۔ نفسِ سلیم میں پیدا ہونے والا داعیہ اسے وہ کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ حدیث پاک میں ایسی چند چیزیں بیان کی گئی ہیں، جن میں ناک صاف کرنا، ناخن کتروانا، پانی کے ساتھ استنجاء کرنا وغیرہ ایسے فطری امور ہیں جن کے سر انجام دینے کے لیے انسان کسی کے حکم کا انتظار کرتاہے اور نہ ہی دلیل کا مطالبہ۔ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایسے دس امور فطرت میں داخل ہیں۔ اور داڑھی بڑھانا بھی انہیں امور میں سے ایک امر ہے۔ داڑھی کے بڑھانے پر فطرت سلیمہ بھی مجبور کرتی ہے۔ داڑھی کا کٹوانا یا منڈوانا خلاف فطرت امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داڑھی منڈوانے والے سخت کرب اور مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ رقم اور وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایسے خلاف فطرت کام کرتے ہیں جیسے کوئی شخص استنجاء پانی سے کرنا چھوڑ دے یا ناک صاف کرنا چھوڑ دے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے ہر آدمی خود گھن کھاتا ہے اور دیگر حضرات بھی۔ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کے موافق داڑھی نہ رکھنے والے بھی بالکل ایسے ہی قابل نفرت عمل کے مرتکب ہیں۔
داڑھی رکھنا اطاعت خداوندی ہے:
داڑھی رکھنا جملہ انبیاء علیہم السلام کی سنت قدیمہ ہے، جملہ شرائع نے اپنے اپنے متبعین کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا۔ سیدنا آدم علیہم السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی نے داڑھی رکھی۔ اﷲ تعالیٰ نے ان سب انبیاء علیہم السلام کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے۔ یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اﷲ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی لہٰذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔(الانعام:90) چنانچہ داڑھی رکھنا انبیاء علیہم السلام کی ہدایت کا ایک حصہ ہے اور ارشاد خداوندی کے تحت ایسے اجماعی مسائل جن پر جملہ انبیاء علیہم السلام کی اقتداء در حقیقت اطاعت خداوندی ہے۔
داڑھی رکھنا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب سنت ہے: جناب رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم خود بھی باریش تھے اور داڑھی بڑھانے کا بار ہا حکم بھی ارشاد فرمایا اور داڑھی نہ رکھنے والوں سے اظہار نفرت بھی فرمایا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی داڑھی کی کیفیت کیا تھی؟ اس سلسلہ میں ترمذی شریف کی روایت ملاحظہ ہو:’’کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کث اللحیۃ تملا صدرہ۔ فی روایۃ: قد ملأت لحیتہ مابین ھذا قد ملأت نحرہ‘‘ (ترمذی فی الشمائل)’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک اس قدر گھنی تھی کہ سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی۔ دوسری روایت میں ہے کہ دائیں بائیں اور سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے داڑھی رکھنے کا حکم:
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیاں پوری رکھو اور مونچھوں کو خوب کاٹو۔(صحیح مسلم) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مشرکین داڑھی کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کو ہدایت فرمائی کہ جیسے امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم عقائد و اعمال میں مشرکین سے بیزاری اختیار کرتی ہے۔ شکل و صورت میں بھی ان سے بے زاری اختیار کرے۔ مشرکین داڑھی کٹواتے ہیں، مومنین داڑھی بڑھاتے ہیں، مشرکین مونچھیں بڑھاتے ہیں اہل ایمان اپنی مونچھیں کترواتے ہیں۔
داڑھی نہ رکھنے والے سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اظہار نفرت:
کسریٰ شاہ ایران کی طرف جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا مکتوب گرامی ارسال کیا جس میں اسے دعوت اسلام دی لیکن بدبخت نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکتوب گرامی کی توہین کرتے ہوئے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گورنر یمن (باذان) کو خط لکھا کہ وہ دو آدمی بھیج کر حضور علیہ السلام کو گرفتار کرائے اور میری طرف بھیج دے (العیاذ بااﷲ)۔ باذام/باذان کے بھیجے ہوئے دو پولیس اہلکار حضور علیہ السلام کے پاس پہنچے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئیں اور مونچھیں بہت بڑی تھیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی شکل سے بے حد نفرت فرمائی اور ان سے فرمایا: تم پر ہلاکت ہو تم کو کس نے ایسی مکروہ شکل بنانے کا حکم دیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔
اہل اسلام کے لیے قابل عبرت بات یہ ہے کہ آنے والے کافر تھے، وہ اسلامی احکام کے مکلف اور پابند بھی نہ تھے، اپنی ایک تہذیب و تمدن رکھنے والے تھے، اس کے باوجود ان کی شکل و صورت اتنی مکروہ تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ فرمایا۔ وجہ یہ تھی کہ ان کا یہ عمل فطرت سلیمہ کے خلاف اور شیطانی اثر کا نتیجہ تھا، اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو یہ بد دعا دی کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔ غور کیجیے کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آنے والوں کو داڑھی نہ رکھنے اور مونچھیں بڑھانے کی وجہ سے فرمارہے ہیں کہ خدا تمہیں ہلاک کرے۔
داڑھی کٹوانا دوسرے گناہوں سے بد تر گناہ ہے:
عام گناہ کے مرتکب مسلمان اور داڑھی منڈوانے والے مسلمان کے گناہ میں بالکل اس طرح فرق کیا جاسکتا ہے جیساکہ حکومت و ملک کے ایک عام مخالف اور ایک اعلانیہ بغاوت کرنے والے کے درمیان کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اول بھی جرم کا مرتکب ہے اور دوسرا بھی مجرم ہے۔ لیکن اس مجرم سے جو علانیہ بغاوت کر رہا ہے ثانی الذکر مجرم حکومت کی طرف سے ناقابل معافی ہوا کرتا ہے۔مزید برآں یہ کہ عام گناہ وقتی ہوتا ہے، داڑھی نہ رکھنے کا گناہ دائمی ہے۔ مثلاً جھوٹ، غیبت، شراب، زنا، قتل وغیرہ گناہ کبیرہ ہیں لیکن ان گناہوں کا مرتکب ہر وقت ان گناہوں میں مبتلا نہیں رہتا۔جھوٹ و غیبت ایک وقت بولے گئے اور بس انھی اوقات میں گناہ لکھا گیا۔ شراب و زنا اور قتل مخصوص وقت میں کیے گئے اور انھی اوقات میں ان کے گناہ لکھے گئے۔ بخلاف داڑھی نہ رکھنے والے کے کہ جب داڑھی کاٹی یا مونڈی گئی گناہ شروع ہوا اور معافی نہ مانگنے تک گناہ لکھا جاتا رہا، گویا داڑھی رکھنے والے کے چوبیس گھنٹے ہی گناہ میں صرف ہوئے،وہ سو رہا ہے تو حالت گناہ میں ہے،جاگ رہا ہے تو حالت گناہ میں ہے،اگر عبادت میں مصروف ہے تب بھی معصیت اس کے ساتھ قائم ہے۔ (درمنثور)
داڑھی نہ رکھنے والے کی امامت و اذان:
داڑھی نہ رکھنا سخت ترین معصیت ہے، داڑھی کٹوانے یا منڈوانے والا انسان خائن بھی ہے اور فاسق بھی۔ اس لیے فقہائے احناف رحمہم اﷲ تعالیٰ نے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، فقہ حنفی کی کتاب قنیہ میں مذکور ہے:’’جو شخص داڑھی منڈوائے یا اس کو چھوٹا کرائے تو اس کی امامت جائز نہیں اور خود اس کی نماز میں بھی کراہت ہے، ایسا شخص دنیا و آخرت میں مردود و ملعون ہے‘‘۔
داڑھی منڈوانے والا شخص اﷲ اور اس کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا نافرمان ہے ایسے شخص کی امامت سے بُرائی اور داڑھی منڈوانے کا رواج عام ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ امام وہ شخص ہو جو شرعی شکل و صورت رکھتا ہو۔جو حافظ داڑھی منڈواتے یا کترواتے ہوں وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب اور فاسق ہیں، تراویح میں بھی ان کی امامت جائز نہیں اور ان کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہے اور جو حافظ صرف رمضان المبارک میں داڑھی رکھ لیتے ہیں اور بعد میں صاف کرا دیتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ایسے شخص کو فرض نماز اور تراویح میں امام بنانے والے بھی فاسق اور گنہگار ہیں۔
مسلم حکمرانوں کے نام:
نہایت ہی افسوس اور حیرت کے ساتھ اس حقیقت کو آشکار کیا جارہا ہے کہ بعض اسلامی ملکوں کے نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے اپنے اپنے ممالک کے مسلمان باشندگان یا ملازمین کے داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے ان میں سے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں داڑھی رکھنا قابل تعزیر جرم ہے(العیاذ بااﷲ)۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی بعض حکومتی اور غیر حکومتی اداروں اور کمپنیوں میں داڑھی رکھنے والے افراد پر ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ خواہ یہ داڑھی والے کتنے ہی باصلاحیت اور ایماندار کیوں نہ ہوں۔ ارباب اقتدار اور اصحاب اختیار کی خدمت میں گزارش ہے کہ خدارا اپنے گناہوں کے بوجھ کو اپنے لیے کافی سمجھیں اور بے شمار لوگوں کے داڑھی مونڈنے کے گناہ کو اپنے کندھوں پر مت لادیں۔آپ حضرات ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے اس جرم کا سبب ہیں۔ یقینا ان کے اس جرم کا وبال جہاں مجرمین پر ہوگا وہاں ارباب اختیار اور اصحاب اقتدار پر بھی ہوگا، جن کے بنائے گئے قوانین اور ملازمت کی شرائط کی وجہ سے لوگ داڑھی کٹوانے جیسے قبیح گناہ میں مبتلا ہوئے۔ آیئے……!! مل کر اﷲ کے حضور صدق دل سے توبہ کریں کہ آئندہ داڑھی کٹوانے یا منڈوانے کے گناہ میں کبھی منسلک ہوں گے اور نہ ہی کسی کو اس گناہ میں شریک کریں گے۔ بلکہ لوگوں کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کے لیے ہر موقع پر ترغیب دیتے رہیں گے تاکہ روز محشر ساقیِ کوثر صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوض کوثرکاجام نصیب ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.