تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

خطیبِ بنی ہاشم، سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اللہ علیہ 

ملک منیر عباس وینس

نہ تاج و تخت میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کی ڈھلتی دوپہر کو دارِ بنی ہاشم پہنچا تو ’’آرزوئے محسن‘‘ کی ’’تعبیر جمیل‘‘ جناب سید کفیل بخاری کتابوں کے جلو میں تشریف فرما تھے۔ جدید دور کی برق رفتار آسانیوں کے بوجھ میں اپنی سماعت موبائل کی گرفت میں دیے مجھے خوش آمدید کہا۔ ہر چند کوشش کی مگر (Calls)کا نزول ورودِ شام و سحر کی تجسیم میں ڈھلتا چلا گیا اور کچھ دیر بعد بے تکلفی سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے حکماً کہا کہ ابنِ امیرِ شریعت سید عطاء المحسن بخاری نور اللہ مرقدہٗ کے ساتھ گزری رفاقتوں کے کچھ احوال لکھے جائیں۔ کہاں فکرِ محسن اور کہاں مجھ جیسا بے نوا۔ لیکن جناب سید کفیل بخاری کی بے لوث محبت نے ایک فرض کی ادائیگی کا احساس دلا کر مجھے کچھ لکھنے پر آمادہ کیا۔
غالباً ۱۹۹۰ء کے دور میں مجھے دارِ بنی ہاشم کے اس مرد قلندر سے شناسائی ہوئی۔ میں چونکہ بریلوی مکتب فکر کا ’’مریدِخاص‘‘ تھا اور حق گو لوگ ہمیں ہر اعتبار سے ’’وہابی ‘‘ نظر آتے تھے۔ کیونکہ ہمارے ’’پیرانِ تسمہ پا‘‘ نے ہمیں شروع سے ہی مذہبی تعصب کا درس بڑی فیّاضی سے دیا۔ لہٰذا اس ماحول سے یکسر نکلنا میرے لیے ایک معجزے سے کم نہ تھا۔
میں سردیوں کے موسم میں اپنے مکان کی تعمیر میں مصروف تھا، ٹھیکیدار سے مذہبی امور پر کچھ بحثا بحثی ہوتی رہتی۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ کسی دن میں تمہیں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے بیٹے سید عطاء المحسن بخاری کے پاس لے چلتا ہوں آپ انہیں ایک دفعہ سنیں اور پھر فیصلہ کریں چنانچہ
وارفتگئ شوق میں بقول داغ:
جذبۂ عشق سلامت ہو تو ان شاء اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
ہم دونوں دارِ بنی ہاشم پہنچ ہی آئے،باہر صحن میں بچھی صفوں پر لوگ کثیر تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد شمالی جانب سے ایک پرشکوہ قامت، وجیہہ حسن کی علامتِ دل آویز ایک مسحور کن شخصیت نمودار ہوئی اور نہایت پروقار انداز میں منبر پر جلوہ افروز ہوئی۔ انتہائی دلنشیں لہجے میں خطبۂ مسنونہ پڑھا، پھر حجازی لَے میں کلامِ پاک کی چند آیات تلاوت فرمائیں۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور درودِ ابراہیمی اپنے منفرد انداز میں تین مرتبہ خود بھی پڑھا اور سامعین کو بھی بہ آواز بلند پڑھنے کی تلقین کی۔ اس کے بعد تقریر کا مرحلہ آیا ، تقریر کیا تھی ایسی مرصع اور پُرتاثیر گویا ابرِ نیساں کی طرح دل و دماغ کو معطر کرتی چلی گئی۔ میں اُن کے سحرِ خطابت، جرأتِ اظہار اور حق گوئی کا ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کے بعد شاید ہی میری زندگی کے ماہ و سال میں آنے والا کوئی ایسا جمعہ ہو کہ میں دارِ بنی ہاشم بہ اہتمام نہ پہنچا ہوں۔
شاہ جی ؒ صرف خطیب ابنِ خطیب ہی نہ تھے بلکہ علومِ ربانی کی ایک روشن تفسیر بھی تھے۔ علم و فضل کی جولانگاہ میں ان کے معاصرین میں کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ وہ اسلامی فکر و نظر کی ترویج و اشاعت میں کسی لگی لپٹی بات سے کام نہیں لیتے تھے۔ بلکہ کلامِ حق کو اس کے اعجازِ مبین کے پیرائے میں بیان کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے تھے۔ حالات چاہے کتنے ہی ناگفتہ بہ کیوں نہ تھے شاہ جی ؒ نے دینی نہج پر ایک پرامن معاشرے کی تشکیل نو کے لیے ہمیشہ منفرد کردار ادا کیا۔ علم قرآن اور فقہ و حدیث سے بے پناہ ادراک کے ساتھ انہیں شعر و سخن کا ملکہ بھی حاصل تھا۔ تاریخ، فلسفہ اور علم و ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کا ابلاغ شاہ صاحب کی تحریر و تقریر میں نظر نہ آئے۔ میرے نزدیک ان کی ہمہ جہت شخصیت کے تین پہلو بہت نمایاں ہیں:
(۱) قرون اولیٰ کے علمائے حق کا عکسِ جمیل
(۲) اعصاب شکن دور کے بذلہ سنج خطیب
(۳) سادگی و متانت کی بہارِ آفرین
میں نے اپنی زندگی میں بہت ہی کم ایسے لوگ دیکھے ہیں جو محراب و منبر کی حرمت کا خیال رکھیں وگرنہ بڑے بڑے فصیح اللسان جب خطابت کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو مفاد پرستی کے عناصر ان کی حق گوئی پر غالب نظر آتے ہیں۔ وہ حاکمانِ وقت سے ڈرتے ہیں کہ حق کہنے سے وہ کہیں ان کی ’’بارگاہِ فیض‘‘ سے محروم نہ ٹھہرائے جائیں، چنانچہ اس عتاب سے بچنے کے لیے وہ ان کے مندروں میں جا کر وہ بجھن گاتے ہیں کہ بقول اقبال:
’’جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں۔ چنانچہ حق تعالیٰ شانہٗ نے جناب سید عطاء المحسن بخاریؒ کو ان علما سُو کے سایۂ ابتذال سے نہ صرف دور رکھا بلکہ قرونِ اولیٰ کے حق پرست علما کے منصب پر فائز کیا جس کا ایک مشاہدہ راقم الحروف نے خود بھی کیا۔
بہت عرصہ پہلے اُچ شریف میں بیادِ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں ملک کے معروف علمائے کرام تشریف فرما تھے۔ ہر عالمِ دین نے بقدر استعدادسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی باکردار شخصیت پر روشنی ڈالی۔ آخر میں خاندان بنی ہاشم کے اس سحر انگیز خطیب کی باری آئی، دوسری طرف کچھ فاصلے پر اہلِ تشیُع کے ’’طالب جوہری‘‘ بھی اپنی محفل جمائے ہوئے تھے۔ جلسہ برخاست ہونے کے بعد شاہ صاحب لوگوں سے مل رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی نے کہا کہ شاہ جی جب آپ نے تقریر شروع کی اور آپ کی تلاوتِ قرآن کی آواز اُن تک پہنچی تو جوہری نے جلسہ برخاست کیا اور پنڈال چھوڑ کر بھاگیا۔ بمطابق نص قرآنی ’’حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا‘‘
یہ میری زندگی کا ایک محیر العقول واقعہ تھا کہ خطیبِ بنی ہاشم کی ’’صدائے حق‘‘ کے سامنے ایک رافضی اور سبّی تبرّائی ٹھہر نہ سکا۔ ایسے کئی بے شمار واقعات ہیں جو شاہ جیؒ کی للٰہیّت پر شاہد عدل ہیں۔
شاہ جیؒ ایک کثیر المطالعہ اور زندہ دل شخصیت تھے وہ درانِ تقریر سامعین کی اعصاب شکنی دور کرنے کے لیے بذلہ سنجی کا اہتمام بھی کرتے۔ اور یہ طرۂ امتیاز انہیں اپنے والد گرامی حضرت امیرِشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ورثے میں ملا تھا جو لاکھوں انسانوں کے مجمع میں لوگوں کو پل بھر میں رُلا دیتے یا پھر عین اسی لمحے ان کی آنکھوں سے آنسو اوجھل کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے۔ فنِ خطات کے اس شاہسوار کی گفتگو بھی ہردرجہ لطف آمیز اور پُر شگفتہ ہوتی۔ اُن کی خطابت میں کبھی دریاؤں کی روانی اور سمندروں کے خروش ہوتا، کبھی پُر جوش الفاظ بادلوں کی طرح گرجتے، بجلی کی طرح کڑکتے اور کبھی مترادفات کا مینہ برستا۔ دورانِ خطاب اپنی بات کو مدلّل کرنے کے لیے جب وہ حجازی لَے میں قرآن کریم کی آیات تلاوت کرتے تو سامعین کے دل بھی اُن کے ساتھ دھڑکنے لگتے۔ اشعار کا برجستہ استعمال ایسا تھا جیسے خطابت کی انگشتری میں عقیق و یاقوت اور مرجان جڑ رہے ہوں۔ بعض ترکیبیں، اصطلاحات اور امثال اُن کی طبع زاد تھیں۔ جو کتابوں میں پڑھیں نہ کسی سے سنیں۔ اگر انہیں جمع کیا جائے تو ادب و تاریخ میں زبردست اضافہ ہو گا۔ وہ کئی علاقائی زبانیں جانتے تھے۔ اُن کی اپنی زبان پنجابی تھی لیکن اردو، سرائیکی، جھنگوی رچناوی، میں دو دو گھنٹے تقریر کرتے۔ کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ شاہ جی کی اپنی زبان کون سی ہے۔ وہ جس زبان میں بھی گفتگو کرتے تلفظ اور طرز ادا میں غلطی نہیں کرتے تھے۔ اردو، پنجابی، سرائیکی، ہندکو کے تمام لہجوں میں بولتے تھے۔ عربی، فارسی میں مکمل عبور تھا، ہندی، گورمکھی بنگالی اور انگریزی بھی جانتے تھے۔ جلسۂ عام ہو یا نجی محفل، وہ بے تکلف گفتگو کرتے۔ وہ واقعی خطیب بنی ہاشم تھے۔ اُنہیں خطابت، علم، تقویٰ اور جرأت و بہادری ورثہ میں ملی تھی۔ شاہ جی واقعتا ایک جامع الصفات شخصیت تھے۔
شاہ جیؒ مجلس احرار کے قائد ہونے کے باوجود اپنے کارکنوں کے درمیان کسی امتیاز کے قائل نہ تھے۔ ہر کارکن کی بھرپور سرپرستی فرماتے اور ان کی درد مندی کا خاص خیال رکھتے وہ دوستوں کی طرح ان میں گھل مل جاتے، ان کا حوصلہ بڑھاتے اور بے پناہ قدر کرتے۔ جماعت کے ایک انتہائی خوش طبع دوست جناب عبدالحکیم کے ساتھ دل لگی کا یہ عالم تھا کہ شاہ جیؒ لاہور میں بوجہ علالت قیام پذیر تھے تو عبدالحکیم نے انہیں خط لکھا کہ میرے پاس آنے کی استطاعت نہیں لیکن دل بہت اداس ہے۔ شاہ جیؒ خط پڑھ کر آبدیدہ ہوگئے۔ محسنِ احرار نے اپنی فکر و نظر کے امین جناب سید کفیل بخاری کو حکم دیا کہ وہ ان کو ساتھ لے کر لاہور پہنچیں۔ چنانچہ جناب سید کفیل بخاری، عبدالحکیم صاحب کو لے کر لاہور پہنچے اور شاہ جیؒ کی محبت آمیز محافل سے فیض یاب اور لطف اندوز ہوتے رہے۔
شاہ جیؒ کی انسان دوستی کی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں لکھنے کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ ان کی دل افروز خطابت کے علاوہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کا استغنا تھا۔ آپ اس قدر خودار انسان تھے کہ آپ نے کبھی امراء وقت کے ساتھ روابط نہیں رکھے بلکہ مجبور قوم پر ان کی مسلط کردہ آمریت کو ہمیشہ للکارا۔ بھٹو دورِ حکومت کے طوفان بدتمیزی اور فسطائی ہتھکنڈوں پر کڑی تنقید کی پاداش میں آپ کو پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ اس مردِ حُر نے زنداں کی صعوبت تو برداشت کی لیکن لا دین اور سیکولر حکومت سے مفاہمت قبول نہ کی۔ شاہ جیؒ نے فرقہ بندی سے ہمیشہ بالا تر ہو کر دینِ اسلام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث حتیٰ کہ بعض شیعہ حضرات بھی آپ کی تقاریر سننے کے لیے آتے۔ اور جو ایک دفعہ صدقِ دل سے آتا تو پھر کبھی ’’بزمِ محسن‘‘ سے دور نہ رہتا۔
شاہ جیؒ نے مروّجہ کافرانہ نظامِ جمہوریت کے خلاف ہمیشہ علمِ بغاوت بلند رکھا۔ ’’گردن فرازانِ جہاں‘‘ کی لادین سرگرمیوں کے خلاف اپنی آواز کوکبھی دھیما نہیں ہونے دیا، مسئلہ ختم نبوت سے لے کر ناموس اہلِ بیت اور آبروئے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنی فکر و نظر کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دیا۔ قتیلِ سازشِ ابن سبا، نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ریحانۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، مظلومِ کربلا جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقائے گرامی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد ہ سالانہ مجلس ذکرِ حسین سے پہلے مسجد میں ختم قرآن کراتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اہلِ بیت اُمّہات المؤمنین، آپ کی اولاد، صحابۂ کرام اور شہدائے کربلا رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں ہدیۂ ایصالِ ثواب کی محفل کا اہتمام کرواتے۔ بعض ’’یارانِ سرِپل ‘‘ نے شاہ جیؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کیں اور اب تک کر رہے ہیں۔اور انہیں الزام ودشنام دینے سے بھی نہیں شرماتے۔ لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ میں نے خود نجی محفل میں اس موضوع پر ان سے کئی سوالات کیے جن کا انہوں نے یوں جواب دیا:
’’میرے نزدیک یزید کبھی سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کا ہمسر نہیں ہو سکتا اور مجھ جیسے کروڑوں محسن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں کی دھول پر قربان۔ وہ میرے جد امجد ہیں میں بھلا ان کے ساتھ اپنی نسبت کیسے توڑ سکتا ہوں؟ ہاں روافض کی سازش باطل کو بے نقاب کرنے کے لیے میں قرآن کی ممدوح شخصیات یعنی اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے دفاع کے لیے سخت اسلوب اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا رشتہ آپس میں گل و بلبل کی طرح ہے۔‘‘
ان اشکالات کے رفع ہونے کے بعد اگر کوئی کور باطن شاہ جیؒ کی فکر کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرے تو یہ سراسر ظلم اور جہالت ہے۔ خاندانِ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرد فرید جس کی پوری زندگی دینِ اسلام کی تبلیغ و نفاذکی جہد مبین میں گزری بالآخر ۱۲؍نومبر۱۹۹۹ء کی افسردہ صبح کو اپنے رب سے دائمی ملاقات کے لیے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
آج کے بگڑے ہوئے حالات میں شاہ جیؒ کی کمی شدّت سے محسوس کرتا ہوں۔سوچتا ہو ں کوئی تو ہو جو اُن کی طرح قوم کے عقائد درست کرے، اعمال کی اصلاح کرے اور صحیح راستہ دکھائے۔ تبلیغِ دین کا عظیم الشان کام ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا(ان شاء اللہ) مگر بعض شخصیات کی ادائیں اور انداز بڑے بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ جو بُھلائے نہیں جاسکتے، شاہ جی ؒ اُنہیں میں سے ایک تھے ۔
آہ!
بُلبُل کہاں، بہار کہاں، باغباں کہاں
وہ دن گزر گئے، وہ زمانہ گزر گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.