تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

ایک نومسلم کی سرگزشت | ڈاکٹر عمر فاروق احرار

دوسری و آخری قسط

ڈاکٹر عمر فاروق احرار

پروفیسر طاہر احمد ڈار 1967ء میں فاروق آباد ضلع شیخوپورہ میں پیداہوئے۔آپ مقامی کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پروفیسر طاہر احمدڈار ایک سو چودہ سال سے قادیانیت پر قائم رہنے والے خاندان کے وہ پہلے فرد ہیں، جنہوں نے قادیانیت کو ترک کیا اور اسلام کی دولت پائی۔ اسلام کی سعادت حاصل کرنے میں پروفیسرصاحب کے پانچ بچے اوران کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں ان کے قبول اسلام کی روداد انھی کے الفاظ میں بیان کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
قادیانیت کی ساری عمارت ہی جھوٹ پر قائم ہے۔ وہ ہر معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ مثلاً قادیانی اپنی اصل تعداد کبھی نہیں بتائیں گے، بلکہ ہمیشہ اپنی تعداد کو بڑھا چڑھا کر ہی پیش کریں گے۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق رجسٹرڈ قادیانیوں کی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار473 ہے،چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چوتھے قادیانی خلیفہ مرزا طاہر احمد نے اپنے ہی پیش رو بھائی مرزا ناصر احمد (تیسرے قادیانی خلیفہ) کی بیان کردہ قادیانیوں کی تعداد سے اختلاف کیا اوراُسے ردکردیا۔ 1993ء میں موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد نے نئے بیعت ہونے والے قادیانیوں کی تعداد 2 لاکھ 64 ہزار 308 بتائی۔ اگلے سالوں میں یہ تعداد ڈبل کرتے گئے۔ جس میں احمدیوں کی اصل تعداد الگ تھی۔ 2002ء میں نئی بیعتوں کی تعداد 2 کروڑ 6 لاکھ بتائی گئی۔ پھر اُنہیں یاد نہیں رہتا کہ پہلے کیا کیا جھوٹ بول چکے ہیں، لہٰذا بڑھتی ہوئی بیعتوں کا گراف یک دم نیچے آنے لگتا ہے۔ 2003ء میں 8 لاکھ اور پھر 2005ء میں یہ تعداد تین لاکھ تک نیچے آجاتی ہے۔ کل بیعتوں کی تعداد کا اعلان 16 کروڑ 60 لاکھ ہوا تھا۔ 2003ء میں مرزا مسرور احمد جب خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے بیعتوں کی تعداد کی تصدیق کرنا چاہی۔ تب میں بھی بیعتوں کی چھان بین کرنے والی ٹیم کا رکن تھا، مگر تحقیق پر مقامی اورضلعی سطح پر سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں بیعت ہونے والے اعلانات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اوراُن بلند بانگ دعووں کی تصدیق نہ ہو سکی۔ جب مقامی سطح پر دروغ گوئی کا یہ عالم ہے تو بین الاقوامی سطح پر اُن کے پیش کردہ اعداد و شمار کی مبالغہ آمیزی کی حقیقت کھل کر واضح ہوجاتی ہے۔
دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب سالانہ جلسہ ہوتا ہے تو یہ جرمنی سے لوگوں کو جہازوں میں بھر کر لاتے ہیں اور لندن اور کینیڈا سے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے بندے لاتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ کو جہاز کا ٹکٹ بھی دیں گے، آپ آئیں اور ہمارے سالانہ جلسہ پر چلیں۔ اس طرح یہ کرسیاں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت میں قادیانیوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ تعداد میں اضافہ کے دعوے صرف اعلانات ہی کی حد تک ہیں۔ 1974ء میں جب تیسرے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد سے قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانیوں کی تعداد کے بارے میں سوال کیاتو مرزا ناصر ببانگ دہل صریحاً دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے گئے۔ یحییٰ بختیار کے سوال پر کہ آپ نے بیس سال میں کتنے لوگ احمدی کیے؟ مرزا ناصر احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے پاس ان بچوں کابھی ریکارڈ موجود ہے جوبچے لوگوں نے جماعت احمدیہ کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں، مگرکیا دیدہ دلیری ہے کہ وہ اسمبلی میں دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اور کمال سادگی بلکہ مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔
پروفیسر طاہر احمد نے اس سوال پر کہ قادیانی جماعت کا ٹارگٹ کیا ہے؟ جواب میں کہا کہ ایک تو قادیانیوں کا سب سے بڑا ہدف صرف مال اکٹھا کرنا ہے۔ مرزا غلام احمد نے لکھا ہے کہ چندہ کے مال کو تجارت میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اب قادیانی فیملی اسی مال سے بزنس کر رہی ہے اور جماعت کے اعلیٰ و کلیدی عہدوں پر مرزا کی فیملی ہی کے لوگ براجمان ہیں۔کوئی اراضی کے معاملات ڈیل کرتا ہے اور کسی نے کاروبار سنبھالا ہوا ہے۔ لوگ رکشے اور ٹیکسی چلا کر چندہ دے دیتے ہیں اور قادیانی لیڈر اس کے بل بوتے پر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے اور پر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرا انہیں حکومت کے حصول کی دیرینہ تمنا ہے۔ وہ قادیان سے بھی اسی لیے پاکستان آئے تھے، کیونکہ وہ مردم شماری میں اپنی شناخت علیحدہ کر بیٹھے تھے۔ اب وہاں ان کا ٹھہرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ بھاگ کر پاکستان چلے آئے۔ یہاں آ کر انہوں نے انگریز دور کے اور بعد ازاں سر ظفر اﷲ قادیانی وزیر خارجہ کے عہد کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات قادیانیوں کے وسیع اختیارات اور رسوخ سے فائدہ اٹھایا۔ اپنے بھائی بندوں کو مختلف محکموں میں بھرتی کرایا۔ ربوہ (چناب نگر) کے لیے زمین حاصل کی اوراسے اپنے ارتداد کا مرکز بنا لیا۔
پروفیسر طاہر احمد ڈارکہتے ہیں کہ قادیانی جماعت خدائی جماعت نہیں، بلکہ انگریز کا پیدا کردہ فتنہ ہے۔ جس کا مقصد تخلیق اسلام کشی اورمسلمان دشمنی ہے۔ جماعت میں کوئی شرعی نظام رائج نہیں،بلکہ فرد واحد یعنی خلیفہ کو مطلق العنانیت حاصل ہے۔ موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد کی پیدائش 1950ء کی ہے۔ 2003 ء میں اس نے خلافت پر قبضہ کیا۔ ابتدا ہی سے عام قادیانیوں کو دھوکہ میں رکھا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اس کے حکم کی خلاف ورزی خدا کے احکام سے انحراف ہے۔ خلیفہ کے لیے انتخابات نہیں ہوتے، بلکہ خلیفہ سازی میں نئے خلیفہ ہی کی ایک خفیہ طاقت کار فرما ہوتی ہے جو خلیفہ کے حق میں ہاتھ کھڑے کرا دیتی ہے۔ قادیانی جماعت میں وقت کے ساتھ ساتھ مخصوص مفادات کے پیش نظر خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جب 1909ء میں مرزا غلام احمد قادیانی مرا تو قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور الدین کا چناؤ ہوا، کیونکہ حکیم نور الدین مرزا قادیانی کا بزنس پارٹنر تھا۔ اس لیے قادیانی جماعت کے مخصوص چند لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حکیم نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ ورنہ خدشہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں انتشار ہوگا اور جماعت ٹوٹ جائے گی اور ہم نے جس مریدانہ کلچر کو رواج دے رکھا ہے، وہ ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا حکیم نورالدین مرزا قادیانی کے نائب کی حیثیت سے خلافت کی گدی پر بیٹھ گیا۔ اسے خلیفہ بنانے والی 14 رکنی مجلس تھی جو مرزا قادیانی نے خود منتخب کی ہوئی تھی۔ جس میں بعد میں الگ ہو جانے والی جماعت ’’لاہوری گروپ‘‘ کے اراکین کی اکثریت بھی شامل تھی۔
1914ء میں حکیم نور الدین کی موت کے بعد خلافت کے لیے مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کا انتخاب ہوا جوانتخاب نہیں،بلکہ سیدھا ساداقبضہ تھا،کیوں کہ اس وقت مرزا محمود نے ڈیڑھ دو ہزار بندے لے کریلغار کی ہوئی تھی کہ جیسے قادیان کو فتح کرنا ہے۔ مرزا بشیر الدین نے تمام جماعت کو یرغمال بنا لیا تھا، کیونکہ قادیانی جماعت کے بڑوں نے مرزا بشیر الدین کے کردار پر اعتراضات اٹھائے تھے اور اسے خلافت کے منصب کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ مرزا بشیر الدین نے اعتراضات کے جواب کے بجائے مولوی محمد علی جیسے سینئر قادیانیوں کے ساتھ انتہائی بدسلوکی کی۔ مرزا محمود کے انتخاب کے مسئلہ پر قادیانی جماعت دوفرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ مولوی محمد علی نے قادیان چھوڑ کر لاہور میں رہائش اختیار کرلی اور اُن کا گروہ لاہوری گروپ کہلایا۔ بہرحال دھونس اور دھاندلی سے مرزا بشیر الدین نے خلافت پر قبضہ کرلیا۔ مرزا محمود کی نااہلی کا یہ عالم تھا کہ اسے بیعت لینے کے الفاظ تک یاد نہیں تھے اور اس کے لیے بیعت کے الفاظ دہرانے اور آگے بیعت کرانے والا مولوی غلام سرور شاہ تھا جو ایک افیمی تھا۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، بلکہ قادیانیوں کی کتاب ’’اصحاب احمدیت‘‘ میں ان کے افیمی ہونے کا لکھا ہوا ہے۔ اس طرح کے منشیات کے عادی اور بدکردار لوگوں کا ایک ٹولہ اکٹھا تھا۔ اب بھی اسی قماش کے لوگوں کو ساتھ ملا کر قادیانی رائل فیملی اپنے خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے۔ پہلے قادیانی خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کے طریقہ انتخاب کو تبدیل کر دیا گیا۔ جب مرزا بشیر الدین نے دیکھا کہ پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نور الدین کی اولاد خلافت کے حصول کے لیے سٹینڈنگ پوزیشن میں آ گئی تو اس نے سب سے پہلے ان کو جماعت سے نکالا اور اس کے ساتھ ہی آئندہ کے لیے خلیفہ کے طریقہ انتخاب میں تبدیلی عمل میں لائی۔ اس طریقہ کار کے مطابق چند قادیانی جماعتوں کے امیر اور خاص الخاص مبلغین و ناظرانِ شعبہ جات کو اِکٹھا کر لیا جاتا جو خلیفہ کو منتخب کرتے یہ ایک فرضی کارروائی ہے۔ ورنہ خلیفہ کا انتخاب تو پہلے ہی اندرون خانہ کر لیا جاتا ہے۔
موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد کی جماعت پر گرفت کمزور ہو چکی ہے اسی لیے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر قادیانیوں نے مرزا مسرور احمد کے ’’عالمی خلیفہ اسلام‘‘ ہونے کا ٹرینڈ چلایا گیا تھا۔ اب جماعت اور خلافت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مریدوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ خلافت کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے،کیونکہ ان کا کھوکھلا نظام تیزی سے روبہ زوال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ چناب نگر میں جماعت احمدیہ کے محلہ صدر نے اپنے ایک ہم مذہب قادیانی کی بیٹی کے ساتھ تعلقات قائم کرلیے تو اس نے مرزا خورشید احمد ناظر اعلیٰ امور عامہ چنا ب نگر کودرخواست دی اور ساتھ ہی ایک لیٹر مرزا مسرور احمد کو بھی لکھا کہ محلے کا صدر جو میری بچی کو اپنی بیٹی کہا کرتا تھا، اب اس نے میری بیٹی کے ساتھ تعلقات قائم کر کے شادی کر لی ہے اورمجھے ہراساں کر رہا ہے۔ جس پر مرزا مسرور احمد نے مداخلت کی، مگر مقامی جماعت صدر محلہ سے ملی ہوئی تھی، کیونکہ یہ ہر حالت میں اپنے عہدہ داران کا دفاع کرتے ہیں، اس لیے مرزا مسرور کی مداخلت بھی کام نہ آئی۔ مرزا مسرور احمد نے متاثرہ لڑکی کے والد کو اپنے خط میں لکھا کہ نیچے والے عہدیدار میری بات نہیں مانتے۔ یہ قادیانی خلیفہ کی جماعت پر گرفت کی ابتر حالت کا کھلا ثبوت ہے۔
جماعت میں ہر طرح کی کرپشن انتہا پر ہے۔ دیکھ لیجیے کہ گزشتہ سالوں میں قادیانی جماعت کے بڑے بڑے مالی سکینڈل منظر عام پر آئے ہیں۔ پانامہ لیکس میں مرزامسروراحمد کی آف شور کمپنیوں اورشیئرزکا شہرہ رہا ہے۔ پانامہ پیپرز کی فہرست کے مطابق قادیانی رہنماؤں کی کوئی ایک آدھ آف شور کمپنی نہیں، بلکہ وہ کئی کئی کمپنیوں کے مالک، یا شیئرز ہولڈر زتھے۔ جن میں مرزا مسرور احمد، مرزا مظفر احمد، مرزا ناصر انعام احمدوغیرہ شامل تھے۔ دو سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مقامی سیکرٹری مال چناب نگر نے پچاس ساٹھ لاکھ روپے کا غبن کیا،لیکن ان کا نظام دیکھیں کہ وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے انکوائری میں ڈالا گیا تو سب کے نام لے دوں گا اور معاملہ کو دبا دیا گیا۔
مرزا مسروراحمد ستر برس سے زیادہ عمر کے ہو چکے ہیں۔ ان کے جانشین کی دوڑ ابھی سے جاری ہے۔ اس دوڑ میں مرزا مسرور کی سسرالی شاہ فیملی بھی شامل ہے۔ خالد شاہ، محمود شاہ کے لیے ابھی سے تگ و دو اور لابنگ کی جا رہی ہے۔ تمام اہم عہدوں پر مرزا غلام احمد قادیانی کی فیملی کا ہولڈ ہے۔ مثلا ًمرزا خورشید احمد ناظر اعلیٰ چناب نگر مرا تو اس عہدہ پر اس کے بھائی مرزا غلام احمد کو بٹھا دیا گیا۔ مرزا غلام احمد کے بعد جب کوئی کارآمد بندہ اس عہدے کے لیے نہ ملا تو انہیں مجبوراً خالد شاہ کو ناظر اعلیٰ بنانا پڑا جس کا تعلق بھی مرزا فیملی ہی سے ہے۔ جب تک قادیانی خود نہیں اٹھیں گے اورمرزافیملی کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آوازبلندنہیں کریں گے۔ اُن کا خون اسی طرح نچوڑا جاتا رہے گا اور قادیانی لیڈر اُن کی دولت کے سہارے اُن کا استحصال کرتے رہیں گے۔ قادیانیوں کا نچلا طبقہ اپنی قیادت سے نالاں ہے۔ وہ خواہش کے باوجود قیادت کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ عام قادیانی قادیانیت کی حقیقت کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ اس پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے، نیز مسلمانوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دے کر اُنہیں قادیانی وڈیروں کے نرغے سے نکالیں۔
ڈاکٹر طاہر احمد ڈار مزید کہتے ہیں کہ میری ابتدائی زندگی قادیانیت سے متعلق بے خبری اور سادگی میں گزری، مگر جب 2000 ء کے بعد شعور کا دور آیا تو حالات یکسر بدل چکے تھے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور تھا اور بہت سارے نئے معاملات نئی شکل وصورت کے ساتھ سامنے آچکے تھے۔ ایسے حالات کے دوران میرے جماعت احمدیہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور ہر چند ماہ کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ ہو جاتا تھا کہ میں ان لوگوں سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا تھاکہ جب آپ لوگوں کا یہ سلوگن ہے کہ ’’محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور آپ کا کہنا ہے کہ احمدی جماعت، الٰہی جماعت ہے۔ ہم لوگ اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ جماعت ہیں، جس نے جنت میں جانا ہے۔ لیکن آپ کی حرکتیں وہ ہیں جو جہنم کے سب سے نچلے درجہ ہاویہ میں گرانے والی ہیں۔ مالی غبن،منافقت، سیاست، جھوٹ، بظاہر زبان کے میٹھے، مگرعمل ایسے جیسے بھیڑیے نے بھیڑ کی کھال اوڑھی ہوئی ہو اور اندر بھیڑیا چھپا ہو۔ مفاد کی سیاست، عہدہ کی دوڑ، یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو قادیانیت سے نفرت کا باعث بنیں۔ ہمارے بچپن ہی سے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ ہمارے سوا کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہے۔ جبکہ قادیانی نظریاتی خودکش حملہ آور ہیں، جنہوں نے لاکھوں انسانوں کے ایمان کو لوٹا ہے۔ اسلام سے دشمنی کی خاطر قادیانی حلقوں میں علماکے ساتھ شدید نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مولوی کو ایسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ کائنات کا سب سے بڑا اٹھائی گیراور سب سے بڑا فراڈی ہے۔ جس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہو، اس پر مولوی کا لیبل لگا کر اور اس کے ذاتی افعال کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر اتنی نفرت پیدا کی جاتی ہے کہ عام قادیانی علما کے قریب آنے سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانی لوگ معاشرے سے کٹ کے رہ گئے ہیں۔ ماسوائے ایسے لوگوں کے جن کا سوشل سیٹ اپ ہے یا وہ جوکسی اچھی جاب پر بیٹھے ہیں اوراُن کا سوشل سرکل ہوتا ہے۔ ایسی محدود اور مخصوص تعداد کے علاوہ جو عام قادیانی ہیں، ان کی حیثیت جماعت میں ایک غلام کی سی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بظاہر یہ بڑے میٹھے انداز سے پیش آتے ہیں۔ بظاہر ایسے ملتے ہیں جیسے ان جیسا شریف النفس اور کوئی نہیں ہے، مگرخیال رہے کہ یہ اس وقت تک ہی خوش اخلاق ہیں کہ جب تک مسلمان ان کے پھندے میں پھنس نہیں جاتے۔
اس سوال پر کہ آپ موجودہ حالات میں قادیانیوں اورمسلمانوں کے لیے کیاحل تجویزکرتے ہیں کہ جودونوں طبقات کے لیے سودمندہو؟ پروفیسر طاہراحمدڈارنے کہاکہ میں قادیانیت میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد اپنے تجربات کی روشنی میں قادیانیوں اور مسلمانوں سے چند گزارشات کروں گا۔ سب سے پہلے میں اپنے قادیانی دوستوں سے کہوں گا کہ آپ کسی عالم یا مولوی کی بات بے شک نہ مانیں، لیکن خدارا!ا روزانہ تھوڑا ساوقت نکال کر اپنے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا خودمطالعہ کریں۔ اگرساری کتابوں کا مطالعہ کرنا ممکن نہیں ہے، تو ’’حقیقت الوحی‘‘ جسے مرزا غلام احمد نے اپنی کتب کا خلاصہ قرار دیا ہے، اُس کا بغور مطالعہ کریں۔ نیز ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پہلی جلد کو پڑھیں اور اس کا تنقیدی مطالعہ کریں تو ان شاء اﷲ بہت ساری حقیقتیں خودبخودکھل کر آپ کے سامنے آجائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اپنے اﷲ سے یہ دعابھی مانگنا ہوگی کہ اے اﷲ مجھ پر حق کو واضح کر دے اور مجھے سیدھے راستے پر گامزن کر دے تو مجھے یقین ہے کہ ان شاء اﷲ آپ کو حقیقت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی، مگر تلاشِ حق میں اخلاص ضروری ہے کیونکہ توفیق بھی طلب کے بغیر نہیں ملتی۔ اسلام غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اورذہن میں پیدا ہونے والے ہرسوال کا جواب فراہم کرتا ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں قادیانی گروہ میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے سوالات جو قادیانی مبلغین یا رہنماؤں کی کی طبع یا ان کے سسٹم کے خلاف نہ ہوں،اُن کا گول مول جواب تو مل جاتا ہے،مگر جو سوال اُن کے سسٹم کو چیلنج کرتا ہے، وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ مثلاً میں نے جب اپنے سوالات پر مشتمل خطوط ضلعی مربیوں سے لے کر قادیانی خلیفہ مرزا مسرور احمد تک کو لکھے تھے، ان کا مجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔مجھے اسلام میں آکر غوروفکر کی دولت ملی ہے۔ قادیانی مربیوں کے برعکس علماءِ اسلام ہمارے سوالوں کا مکمل جواب دیتے ہیں اور سوال کرنے پر کوئی فتویٰ بھی نہیں لگتا۔ مجھے تو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ محبت ملی ہے کہ اب احساس ہوتا ہے کہ اے کاش! اس سے بہت پہلے میں اسلام قبول کر لیتا اور ایسی بے لوث محبتوں سے اپنا دامن بھر لیتا۔علماء کرام قادیانی عقائد و نظریات کے متعلق قادیانی کتب سے جو حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ قادیانی احباب اگر اصل قادیانی کتب سے ان حوالہ جات کوچیک کر لیں تواُن کے لیے اسلام قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی، کیونکہ قادیانی مبلغین مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب میں موجود مرزا صاحب کے عقائد کو عام قادیانیوں سے چھپاتے ہیں۔ اگر قادیانی دوست ہمت کریں اور براہ راست مرزا قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان پر قادیانیت کا کفر ہونا ظاہر ہو جائے گا۔ اگر وہ براہ راست خود مطالعہ کرنے کے بجائے اپنے مبلغین سے سیدھا راستہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ انہیں سیدھے راستے کی نشاندہی کریں۔
دوسری بات قادیانی احباب کے لیے یہ ہے کہ وہ یہ خوف اپنے دل سے نکال دیں کہ اگر قادیانیت ترک کردی تو قادیانی آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اورآپ دنیامیں تنہا ہوجائیں گے۔ ایسی کو ئی بات نہیں ہوگی، کیونکہ زندگی اورموت اﷲ کے ہاتھ میں ہے اوراُسی کے حکم سے نفع ونقصان پہنچتا ہے، کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میں آپ کے سامنے زندہ حقیقت کے طورپر موجود ہوں۔ الحمدﷲ! کسی قادیانی کو ہمت نہیں ہے کہ وہ میرابال بھی بیکاکر سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں قادیانیت چھوڑنے کے بعدبھی قادیانیوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑتا رہا ہوں۔ میں وہ واحد آدمی ہوں، جس نے قادیانیوں سے اپنا وصیت والا فنڈ واپس لیا ہے۔ ورنہ وہ لوٹی ہوئی دولت کسی کو واپس نہیں کرتے۔ انہیں یہ جرأت تو نہ ہوئی کہ وہ مجھے میری بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے دی جانے والی رقم واپس کرتے، البتہ ان پر اﷲ نے میرارعب جما دیا اور انہوں نے نہ صرف میرے، بلکہ میری اہلیہ کے پیسے بھی میرے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرادیے۔ میں ان سب قادیانی احباب اور قادیانی رشتہ داروں کے لیے راہ ِحق پانے کی دعا کرتا ہوں کہ جن کے ساتھ میں نے زندگی کا ایک لمبا عرصہ گزارا ہے اوران کے ساتھ ساتھ دیگر تمام قادیانیوں کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالی ان کی ہدایت کے لیے بھی خصوصی سامان پیدا کر دے۔اﷲ اُن کوبھی قادیانی جماعت کی اندرکی باتیں دیکھنے، پرکھنے اورجھوٹ اورسچ کو علیحدہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
میری اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ عام قادیانیوں کوجو اندھی تقلید کا شکار ہیں اور کوہلو کے بیل کی طرح بے خبری میں گھوم رہے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کریں کریں۔ انہیں قریب لائیں اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے شعبہ تبلیغ دعوت و ارشاد کے ناظم (سابق قادیانی) ڈاکٹر محمد آصف جیسے لوگوں سے، (جن کے ہاتھ پر مجھے بھی قبول اسلام کی سعادت ملی) ملوائیں جو انہیں قادیانیت کے حقیقی چہرہ سے واقف کرائیں گے اور انہیں حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دے کر اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ کردیں گے،کیونکہ اُن کا دعوتِ اسلام کا طریقہ فتویٰ بازی اورنفرت انگیزی نہیں،بلکہ محبت کے فروغ پر مبنی ہے۔ محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ قادیانیوں کے عقائد سے بے شک نفرت کی جائے اور بے شک اُن کے عقائد نفرت ہی کے مستحق ہیں، لیکن بحیثیت انسان انہیں قریب لانے کی ضرورت ہے کیونکہ نفرت کبھی محبت کو جنم نہیں دے سکتی۔ مناظروں کا دور گزر چکا۔ قادیانیوں نے بھی اپنے کام کے انداز کا رُخ بالکل ہی بدل دیا ہے۔ اگر قادیانیوں سے مکالمہ کو رواج دیا جائے اور قادیانیوں سے گفتگوکے روایتی اور پرانے اسلوب میں تبدیلی پیدا کی جائے اور حالات کے تقاضوں کے مدنظر اپنی محنت اور دعوت کے طریقہ کار میں بہتری لائی جائے تو اُس کے نتائج یقینابہت نفع بخش نکلیں گے، لیکن یاد رہے کہ قادیانیوں کو قریب لانے اور اُن سے دعوتی مکالمہ کا کام عام مسلمان کے بس کا نہیں ہے، بلکہ یہ کام قادیانیت کے خلاف کام کرنے والوں اوراس موضوع کے سپیشلسٹ حضرات کا ہے اوروہ ہی اسے احسن انداز میں انجام دے کر قادیانیوں کو واپس اسلام میں لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر قرآنی حکم کے مطابق دعوتِ اسلام حکمت وموعظت کے ساتھ دی جائے گی تو اﷲ تعالیٰ قادیانیوں کے دل پھیر دے گا اورحق وسچ کی طلب رکھنے والوں کو اسلام کی دولت سے مالامال کردے گا۔ان شاء اﷲ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.