انڈونیشیا کے ایک چھوٹے سے صوبے میں احمدی فرقے کی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پیشرفت اس مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی عدم برداشت میں اضافے سے تعبیر کی جا رہی ہے۔
جنوبی سماٹرا میں دو جزائر پر مشتمل بانگکا بیلیٹنگ نامی صوبے میں مسیحی اور شیعہ اقلیت کے خلاف عدم برداشت کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات پائے جا رہے تھے۔ تاہم احمدی فرقے کی مذہبی سرگرمیوں پر اس تازہ پابندی کے اعلان نے انسانی حقوق کے کارکنان کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایک اعلیٰ صوبائی اہلکار فیرے انسانی نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ احمدی اس صوبے میں رہ سکتے ہیں لیکن انہیں اپنے مذہب کو پھیلانے کے لیے تبلیغ کی اجازت نہیں ہو گی، ’’کمیونٹی کے مذہبی اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں اتفاق رائے ہوا ہے کہ احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا میں اعتدال پسند سنی عقائد پر عمل کیا جاتا ہے لیکن کٹر نظریات کے حامل مسلمان احمدیوں اور دیگر مسلم اقلیتوں پر ’غیرمسلم‘ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی جنوبی کالی مانتان میں تشدد کی لہر کے نتیجے میں وہاں سے گفاتار نامی گروہ کے ایک ہزار افراد کو ہنگامی طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑ گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق قبل ازیں حکام نے اس گروہ کو ’بنیاد پسند اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
بانگکا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے وہاں مقیم احمدیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس صوبے میں احمدیوں کو مسلسل خوف کا سامنا ہے جبکہ حکام انہیں غیر محسوس طریقے سے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
صوبہ آچے میں چرچوں پر بھی حملے کیے جا چکے ہیں
انڈونیشیا میں احمدی کمیونٹی کے ترجمان یندرا بُودیانا نے جکارتہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ اس مسلم اکثریتی ملک میں ان کی کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ بانگکا میں پولیس احمدیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کی ضمانت دے گی۔ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ علاقائی حکومت اس اقلیتی کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنائے گی۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اس پورے معاملے میں انڈونیشیا کی مذہبی وزارت نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس آچے میں کٹر نظریات کے حامل سینکڑوں مسلمانوں نے متعدد مسیحی عبادت خانوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ اس وقت الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان گرجا گھروں کے پاس باقاعدہ اجازت نامے نہیں تھے۔