مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
آج بعض متوحش ہیں کہ الٹی گنگا کیوں بہنے لگی۔ اس کا انجام کیا ہوگا۔ مجھے خود تردد ہے۔ مگر غیر کے حملے کا نہیں بلکہ اپنی بے نظمی کا اگر ہمارے اندر نظام تبلیغی استوار ہوتا تو نوبت اس حد تک نہ پہنچتی۔جو جنرل فاتحانہ پیش قدمی کرتا رہتا ہے ابنائے وطن راستہ میں آنکھیں بچھاتے رہتے ہیں۔ جب پیش قدمی رک جاتی ہے اور شکست کامنہ دیکھتا ہے تو لوگوں کے دلوں سے اتر جاتا ہے۔ وہی لوگ پھر جان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ یہ فطرت انسانی ہے، اس سے کسی کو گریز نہیں۔ ملسمان ملک میں ایسا وسیع تبلیغی جال بچھادیں کہ ہر غیر مسلم کے گھر میں دن رات اسلام کا پیغام پہنچے۔ ہر مسلمان بچہ، بوڑھا اسلام کا مبلغ ہو۔ اسلام کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے بیتاب ہو۔ مسلمانوں کا اس میدان میں فتحیاب ہو کر دکھانا ہی ملکی حالات کو روبہ اصلاح کرسکتا ہے اور نشہ سے سرشار دماغوں کو ہوش میں لاسکتا ہے۔
کافروں کو مسلمان بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس میں شیروں کا حوصلہ، مردوں کی سی غیرت، صحابہ کا سا خلوص اور سب سے زیادہ یہ کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم امی عربی کا سا اخلاق چاہیے ۔ تاکہ دشمن بھی دیانت و امانت کی شہادت دے۔ ہمسایہ اچھے اخلاق کی وجہ سے محبت کرے۔ اس کے دل میں ہماری طرف سے کسی قسم کا مالی و جانی اندیشہ نہ ہو۔ ہمارے وعدوں پر پورا اعتماد ہو۔ بلکہ اپنے مال و جان، عزت و آبرو کا ہمیں سچا محافظ سمجھے۔ ہم میں خود داری ہو،مگر غرور نہ ہو۔ خلوص ہو بناوٹ نہ ہو، ہر شعبہ زندگی میں ہماری حیثیت نمایاں ہو۔ جسم، دل، دماغ، ہمت اور حوصلہ میں کوئی ہم سے برتر نہ ہو۔ اس لیے ہر مسلمان عاقل و بالغ کو اپنے مزاج کی افتاد کے مطابق کسی نہ کسی شعبے میں دلچسپی لینی چاہیے۔ مگر تبلیغ سے کبھی کسی جگہ بھی غافل نہ ہو۔ وہ جھونپڑیاں جہاں ابھی تک پیغام حق نہیں پہنچا وہاں پہنچایا جائے۔ ان غریبوں کے ساتھ رحم و پیار کا سلوک کیا جائے، دلجوئی کی جائے اور تعلیم و تربیت دی جائے۔
تبلیغ و اشاعت مذہب میں اگر خوف اور لالچ کو کام میں نہ لایا جائے تو کوئی شریف شخص بھی معترض نہیں ہوسکتا۔ اسلام، مسلمانوں کو اس سے بھی آگے بڑھنے کو کہتا ہے۔ تبلیغ کے دو طریقے ہیں۔ مخالف کی کمزوریوں کا اظہار اور اپنے مذہب کے اوصاف کا بیان مگر مسلمان مشنریوں کو چاہیے کہ کبھی کسی کے مذہبی احساسات کو ٹھیس نہ لگنے دیں۔میں جانتا ہوں کہ حلقۂ ارتداد میں جنگِ زرگری جاری ہے ۔ مسلمانوں کو مرتد کرنے میں کسی اصول کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ تاہم مسلمانوں کو چاہیے روپیہ اور فریب کے مقابل اخلاق اور اخلاص سے دلوں کو مسخر کریں۔
بہادرانہ قربانی ایسی شے ہے جس سے دشمن سے دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔یہاں صرف اسلام کے لیے میدان کھلا ہے۔ جو سب سے بہادر اور ملک کی جنگ میں کام آنے والا ہو۔ قربانی سے گریز کرنے والی، مصبیت کے وقت گھبرا جانے والی قوم کے لیے اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔ وہ قوم ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے گی۔ جس جماعت کے افراد ملکی ضروریات سے غافل و لاپروا ہوں گے وہ کبھی عزت کی نگاہ سے نہ دیکھی جائے گی۔کاش مسلمان اس رمز کو سمجھیں کہ زندہ اور بہادر قوم میں شامل ہونے کی ہر شخص خواہش کرتا ہے۔ مُردوں میں شمار ہونے سے ہر ایک کو قدرتی طور سے نفرت ہے۔ اگر مسلمان ہر میدان میں زندگی کا ثبوت پیش کریں، اعلائے کلمتہ الحق میں حاکم و جابر کسی کی پروا نہ کریں، آزادی کی خواہش میں ہروقت سربکف نظر آئیں تو بغیر تبلیغ کے بھی لاکھوں ان کی طرف کھچے آسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ مسلمان سیاست سے کچھ کچھ دور جا رہے ہیں۔ عاقبت اندیش محب وطن سچے مسلمان کی تو یہی خواہش ہوگی کہ دین و دنیا میں ہم سرخرو ہوں۔ اور مذہبی میدان میں مذہبی حریفوں کو اور میدان کار زار میں ظالموں کو پچھاڑنے والے بنیں۔
غافل، یہ دنیا دار العمل ہے۔ شکوہ شکایت، آہ فریاد کو یہاں کون سنتا ہے۔ مرنے کی تڑپ پیدا کرو تو زندہ رہ سکتے ہو۔ جوش کو چھوڑو ہوش سے کام لو۔ گل کی طرح خاموش رہ کر مصروف عمل ہو جا۔ بلبل کی طرح محونالہ و فغاں نہ رہ۔ اس میں شبہ نہیں ہم نہایت ہی ابتلا و امتحاں کے وقت پیدا ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہے وہ جو آج اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہستی کو کھودے۔ اور بدقسمت ہے وہ، جو آج ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے۔ اگر جماعت موجود نہیں تو آؤ آج ہی بنالیں۔ اگر پہلے غافل رہے تو آج ہو شیار ہوجائیں۔ جماعت بنانے والا، کام شروع کرنے والا، ہمارا ہی وجود کیوں نہ ہو۔ یہ سعادت غیر کے حصہ میں کیوں آئے۔ ایک اولوالعزم انسان نے اپنے لیے سلطنت پیدا کی۔ کیا ہم کام کے لیے پریشانیوں میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ کام کرنے والوں کے لیے راہیں کھلی ہیں، خلوص و تڑپ کی ضرورت ہے۔ چولھے میں آگ ہو تو روٹی پکائی جاسکتی ہے، سالن تیار کیا جاسکتا ہے، پانی گرم ہوسکتا ہے ۔ جس انسان کے قلب میں حرارت ہو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ کسی کی رہنمائی کا شرمندہ احسان نہیں رہتا۔ خدارا زبان بند کر، ہاتھ پاؤں کو حرکت میں لا، گھڑیاں نازک ہیں،دنیا تنگ ہورہی ہے، عمل خدارا عمل:
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
دنیا کا قانون یہی ہے کہ غافل سرمایہ سے محروم کردیا جائے اور اپنی حالت پر قانع رہنی والی قوم پامال کردی جائے۔ جو پودا بڑھتا نہیں،وہ گھٹتا ہے، سوکھتا ہے، فنا ہوجاتا ہے۔ دیکھ کر ہیبت آئے نہ کہ جس کو دیکھ کر د ل بستگی پیدا ہو۔ آج اسلامی کالجوں، سکولوں کو دیکھو گویا نازنینوں کی ایک بھیڑ ہے۔ آنکھیں ان قدسی طینت نفوس کو ڈھونڈھتی ہیں۔ جو راہ حق میں مصیبتوں کو دنیا کی راحتوں کے بدلے خرید لیں۔