عبد اللطیف خالد چیمہ
آج سے ۴۲ سال قبل ۷ستمبر ۱۹۷۴ء کو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ اقتدار میں پارلیمنٹ میں لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا قومی اسمبلی میں اس بحث کو۱۳؍ دن لگے اور لاہوری وقادیانی دونوں گروپوں کو اپنااپنا موقف پیش کرنے کے لیے پورا موقع دیا گیا۔ لیکن امت مسلمہ کے موقف کے مقابلے میں مرزائی اپنا مقدمہ ہار گئے اور یوں متفقہ طور پر آئینی ترمیم کے بعد یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کردیا گیا۔ بھٹو مرحوم نے اس قرارداد کی منظور ی کے بعد ایوان میں ۲۷منٹ کی جو تقریر کی اس میں کہاکہ:
جناب اسپیکر !
’’میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے تو اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلہ پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبا دلۂ خیال کیاہے ، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمائندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے ، یہ ایک قومی فیصلہ ہے ، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے ، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلہ کی تحسین کی مستحق قرار پائے ۔ اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلہ کی تعریف و تحسین کا حقدار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ ، بلکہ میر ی ناچیز رائے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
یہ ایک پرانا مسئلہ ہے۔ نوّے سال پرانا مسئلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تلخیاں اور تفرقے پیدا ہوئے لیکن آج کے دن تک اس مسئلہ کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ماضـی میں بھی پیدا ہوا تھا۔ ایک بار نہیں ، بلکہ کئی بار ، ہمیں بتایا گیا کہ ماضی میں اس مسئلہ پر جس طرح قابو پایا گیا تھا۔ اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کیا گیا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں کیا گیا تھا۔۱۹۵۳ء میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ طور پر طاقت کا استعمال کیا گیا تھا جو اس مسئلہ کے حل کے لیے نہیں ، بلکہ اس مسئلہ کو دبا دینے کے لیے تھا کسی مسئلہ کو دبا دینے سے اس کا حل نہیں نکلتا ۔ اگر کچھ صاحبان عقل وفہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کر کے اس مسئلہ کو حل کیا جائے ، اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے ، تو شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکل آتا ، لیکن یہ مسئلہ کا صحیح اور درست حل نہ ہوتا ۔ مسئلہ دب تو جاتا ، اور پس منظر میں چلا جاتا ، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا‘‘۔ (اقتباس ا ز تقریر بھٹو مرحوم )
حکمرانوں، سیاستدانوں ،خصوصاََ پیپلز پارٹی کی قیادت اور بھٹو اور زرداری خاندان کو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی ریکارڈ میں موجود اس پوری تقریر کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔یہ لوگ بھٹو مرحوم کی سیاسی کمائی تو کھا رہے ہیں لیکن بھٹو کے جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے تحفظ کے لیے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے تاریخی و سنہری کارنامے کو نظر انداز کرکے ہمارے خیال میں بھٹو کی روح کو تکلیف پہنچا رہے ہیں اور ان کے خیالات سے رو گردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
آئین میں ترمیم کے بعد اس ساتویں غیر مسلم اقلیت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ،شعائر اسلامی اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے مرزائیوں کو روکنے کے لیے ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کیا ، لیکن عملاََ صورتحال یہ ہے کہ مرزائی اپنی متعینہ آئینی وقانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے کفر کو اسلام کے نام پر پیش کررہے ہیں،ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک ختم نبوت کی جماعتیں اس کی اصل وجوہ پر توجہ دیں اور آئینی جدوجہد کے ذریعے اپنا کیس عالمی سطح پر اٹھائیں ۔۷؍ ستمبر(یوم ختم نبوت) اور یکم تا دس ستمبر عشرۂ ختم نبوت کے موقع پر ہمیں ’’عقیدۂ ختم نبوت اور پارلیمنٹ کے فیصلے‘‘ کے حوالے سے اچھے اور دعوتی اسلوب میں اپنی بات ذرائع ابلاغ کے ذریعے آگے بڑھانی چاہیے۔اﷲ نے کرم فرمایا، جس قومی اسمبلی میں قرار دادِ اقلیت متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی اسی قومی اسمبلی کے موجودہ ڈپٹی سپیکر جناب مرتضیٰ جاوید عباسی جو اتفاق سے گزشتہ ۷؍ستمبر ۲۰۱۵ء کے موقع پر قائم مقام سپیکر اسمبلی تھے نے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی مسجدمیں منعقدہ یوم ختم نبوت کی مبارک تقریب میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ ’’آئندہ سال سے پارلیمنٹ ہاؤس میں باقاعدہ طور پر یوم ختم نبوت منایا جائے گا‘‘ اس موقع پر ہم نے اس بابت یاد دہانی کے لیے انھیں خط بھی لکھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کریں گے۔
ماتحت احرار شاخوں اور احرار ساتھیوں کو ان سطور کے ذریعے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اجتماعات ،سیمینارز اور اجلاسوں کے ذریعے 7؍ ستمبر کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کے ساتھ اپنی بے لچک وابستگی کا منظم اظہار کریں، اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی کھل کر نشاندہی کریں ۔اﷲ تعالیٰ آپ اور ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین یارب العالمین !