سید محمد کفیل بخاری کا دورۂ خیبر پختونخوا
تنویر الحسن احرار
۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ بنیادی مقاصد ہندوستان کی آزادی، حکومت الہیہ کا قیام اور تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے لیے پر امن جدوجہد تھی۔ بانی جماعت اور امیر اوّل امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی شخصیت تھی۔ آپ کے اخلاص اور ﷲیت نے برصغیر کی تمام بڑی شخصیات کو اپنا مداح بنالیا۔ صرف تین ماہ کے عرصے میں ۳۰؍ مارچ ۱۹۳۰ء کو محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے پانچ سو علماء کی موجودگی میں انجمن خدام الدین شیرانوالہ لاہور کے جلسے میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو امیر شریعت کی ذمہ داری سونپ کر بیعت الی الحق کر لی۔
امیر شریعت کی ذمہ داری سونپے کے بعد شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ نے برصغیر کے طول و عرض میں انگریزی اقتدار کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ ملک کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کے قدم نہ لگے ہوں۔ یوں تھوڑے ہی عرصے میں مجلس احرار اسلام مسلمانوں کی مقبول عام جماعت بن گئی۔تحریک آزادی کشمیر ہو، یا تحریک مسجد شہید گنج ہو یا تحریک مدح صحابہ رضی اﷲ عنہم ہر تحریک میں مجلس احرار نے صف اول کا کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت کی داعی جماعت مجلس احرار اسلام تھی جس نے سنت صدیقی رضی اﷲ عنہ کو زندہ کرتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے لیے دس ہزار نفوس قدسیہ کی قربانی دی۔ ۱۹۵۳ء میں مجلس احرار خلاف قانون قرار دے دی گئی ، ۱۹۵۴ء میں شعبہ تبلیغ مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے متحرک کردیاگیا۔ ۱۹۵۸ء میں احرار سے پابندی ختم ہونے پر امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ نے ملتان میں احرار کے پرچم کو لہرایا اور اعلان کیاکہ میرا جینا مرنا احرار کے ساتھ ہے۔ میں جنگل میں ایک کٹیا بنالوں گا اور اس پہ احرار کا جھنڈا لہرادوں گا یہی میرا دفتر ہوگا اور یہی میرا ٹھکانہ۔ جس نے مجھے ملنا ہو یہاں آجائے گا۔
۱۹۷۴ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تو امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ عالم فنا سے عالم بقاء میں جا چکے تھے۔ ابنائے امیر شریعت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں احرار نے بھرپور کردار ادا کیا۔ سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ، سید عطاء المومن بخاری دامت برکاتہم اور سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ نے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی قیادت و سیادت میں تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور اﷲ کے فضل سے یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو پارلیمنٹ میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ کا مقدمہ لڑا گیا اور پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ شہداءِ ختم نبوت کا خون اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی محنت رنگ لائی۔مختلف ادوار میں چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، ماسٹر تاج الدین انصاری،شیخ حسام الدین، مولانا مظہر علی اـظہر، آغا شورش کاشمیری، مولانا لال حسین اختر،مولانا عبدالکریم مباہلہ، مولانا عنایت اﷲ چشتی،غلام نبی جانباز، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد حیات، مولانا گلشیر اعوان شہیدرحمتہ اﷲ علیہم جیسی قیادت نے احرار کو طاقت بخشی۔ چودھری ثناء اﷲ بھٹہ، محمد حسن چغتائی، مولانا عبیداﷲ احرار اور مولانا فضل الرحمن احراررحمتہ اﷲ علیہم جیسے مجاہدوں نے مجلس احرار اسلام کے لیے اپنا تن من دھن لگادیا۔ موجودہ قافلہ احرار ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کی امارت اور ابن امیر شریعت سید عطاء المومن بخاری مدظلہٗ کی سرپرستی و دعاؤں سے اپنے مبارک سفر کی طرف رواں دواں ہے۔جس کے روح و رواں نواسۂ امیر شریعت سید محمد کفیل بخاری، عبداللطیف خالد چیمہ ، میاں محمد اویس، مولانا محمد مغیرہ اور ڈاکٹر عمر فاروق ہیں۔
قافلہ احرار روز بروز ترقی کی راہ پہ گامزن ہے۔ ملک بھر میں پھیلے مراکز میں تعلیم قرآن کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا کام جاری ہے۔ امیر احرار حضرت سید عطاء المہیمن بخاری کی علالت کی وجہ سے اسفار کا سلسلہ ختم ہوا تو نائب امیر احرارسید کفیل شاہ جی اس کمی کو پورا کررہے ہیں۔ ملک بھر میں تبلیغی و تنظیمی سرگرمیاں، لٹریچر کی اشاعت، ماہنامہ نقیب ختم نبوت کی اشاعت و ترسیل، ماہنامہ احرار نیوز کی اشاعت سمیت جماعتوں اور کارکنوں کے مسائل، ان کی دیکھ بھال، مراکز میں سو سے زائد کارکنوں کی ضروریات کا خیال رکھنا۔ یہ سب سید کفیل شاہ جی نے اپنے اوپر فرض کیا ہوا ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کو دعوت اسلام کے فریضے کی ادائیگی کے لیے سید محمد کفیل بخاری مختلف اوقات میں ملک بھر کے شہروں، قصبوں، دیہاتوں کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے صوبہ خبیر پختونخواہ میں اجتماعات کا نظم راقم تنویرالحسن کے ذمے ہوتا ہے۔ الحمدﷲ ہری پور سے مانسہرہ تک اور خیر آباد سے چارسدہ، پشاور ، مردان، نوشہرہ او رکوہاٹ تک کے اضلاع میں ختم نبوت اجتماعات کے ذریعے صدائے حق بلند ہورہی ہے۔
امسال پشاور میں انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس نشتر ہال ۷؍اگست کو طے تھی اسی مناسبت سے اجتماعات کی ترتیب تشکیل دی گئی۔
سید کفیلبخاری نے ۳۰؍جولائی کو ملتان سے رخت سفر باندھا اور بھائی سعید احمد کے ہمراہ لاہور پہنچ گئے۔ ۳۱؍ جولائی کو سیالکوٹ میں بھائی امجد حسین احرار کے گھر ماہانہ درس قرآن تھا۔ سابق قادیانی، بھائی محمد آصف، محمد قاسم چیمہ کی معیت میں شاہ جی سیالکوٹ پہنچے درس قرآن دیا۔ رکنیت سازی کے بعد سیالکوٹ کی جماعت تشکیل دی اور رات گئے لاہور واپسی ہوئی۔ یکم اگست صبح آرام کے بعد اور مختلف امور نمٹاتے ہوئے شاہ جی نے راولپنڈی کے لیے سفر شروع کیا۔ برادرم محمد قاسم چیمہ اور بھائی سعید احمد ہمراہ تھے۔ دو بجے دوپہر کے قریب بلکسر انٹر چینج سے بندۂ فقیر نے ہمراہی کی سعادت حاصل کی اور سفر شروع ہوگیا۔ چکر ی انٹر چینج پر نماز ظہر ادا کی ۔ شاہ جی کو راقم نے پورے سفر کا شیڈول سنایا جس میں اٹھارہ بیانات اور بیس کے قریب عمومی ملاقاتیں طے تھیں۔ پونے چار بجے ہمارا قافلہ اسلام آباد جامع مسجد صدیق اکبر جھنگی سیداں پہنچا۔ جہاں مولانا پیر محمد ابوذر، بھائی اشرف اور دیگر احباب نے استقبال کیا۔ کچھ دیر آرام اور نماز عصر کے ادا کرنے کے بعد پیرابوذر صاحب کی روایتی ضیافتسے لطف اندوز ہو کر جامع مسجد ریاض الجنۃ سر سید چوک پہنچے جہاں مغرب کی نماز کے بعد ختم نبوت کے عنوان پہ شاہ جی نے بیان کیا۔شاہ جی کے بیان سے قبل جمعیت علماء اسلام کے معروف عالم دین مولانا محبوب الرحمن قریشی نے مدارس دینیہ کی خدمات اور مجلس احرار اسلام کا تعارف کروایا ۔ قاری فہد رضا منتظم ادارہ نے خیر مقدمی کلمات کہے۔ عشاء کی نماز کے بعد آریہ محلہ میں چودھری خادم حسین صدر مجلس احرار اسلام راولپنڈی کے گھر پہنچے جہاں شہر بھر کے احرار کارکن جمع تھے۔ کھانا تناول کیا۔ احباب احرار سے مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی، بارہ بجے کے قریب واپس مسجد صدیق اکبر پہنچے، آرام کیا۔
۱۲؍اگست سوموار ۹بجے المصطفیٰ قرآن اکیڈمی، خیابان سرسید میں بھائی وقاص سعید کی دعوت پر شاہ جی نے خواتین سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے سے خطاب کیا۔ بھائی وقاص سعید نوجوان عالم دین اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے شریعہ لا کر چکے ہیں۔ متفکر اور صالح نوجوان ہیں۔
نظم کے مطابق المصطفیٰ اکیڈمی سے فارغ ہو کر جامعہ محمدیہ F6/4 اسلام آباد جانا تھا مگر حضرت مولانا پیر عزیز الراحمن ہزاروی مدظلہٗ (خلیفہ مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمتہ اﷲ علیہ) کے حکم پر مولوی ابوذر صاحب کی معیت میں دارالعلوم زکریا پہنچے۔ جہاں صاحبزادہ مولانا اویس عزیز دیگر علماء سمیت استقبال کے لیے موجود تھے۔
حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی دامت برکاتہم العالیہ سے تین گھنٹے نشست ہوئی۔ سادات بنی ہاشم سے خاص لگاؤ اور محبت ان کے خمیر میں شامل ہے۔ بڑی محبت سے بار بار ’’شاہ بادشاہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمتہ اﷲ علیہ اور مدینہ منورہ میں حضرت شیخ الحدیث کی خانقاہ میں ابنِ امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ کی رفاقت میں گزرے واقعات کے تذکرے بہت دیر تک ہوتے رہے ۔ حضرت نے خوب اکرام فرمایا۔
دارالعلوم زکریا سے فارغ ہو کر سٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں مجاہد ختم نبوت بھائی ناصر صاحب کے گھر پہنچے جہاں دوپہر کے کھانے کا اہتمام تھا۔ بھائی ناصر معروف تاجر ہیں اور ختم نبوت کے کام میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔ یہاں سے جامعہ محمدیہ اسلام آباد پہنچے جہاں مفتی سعید الرحمن ناظم جامعہ، مولانا تنویراحمد علوی او ردیگر اساتذہ نے استقبال کیا۔ سوا چار بجے شاہ جی کا طلباء میں بیان شروع ہوا۔شاہ جی نے طلباء کو اپنے اکابر کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کی سوا پانچ بجے تک بیان جاری رہا۔ نماز عصر کے بعد مہتمم جامعہ مولانا ظہور احمد علوی مدظلہٗ کی محبتوں کو سمیٹتے ہوئے ٹیکسلاکی طرف روانہ ہوئے جہاں شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا عبدالغفور قریشی دامت برکاتہم سے ملاقات مقصود تھی۔حضرت کے بیٹے مولانا زکریا نے دیگر احباب کے ساتھ استقبال کیا۔ نماز مغرب ادا کی، حضرت مولانا عبدالغفور دامت برکاتہم کمال شفقت سے پیش آئے۔ حیران کن با ت یہ تھی کہ کفیل شاہ جی دو دن سے بیانات میں علماء ، طلباء کو جن باتوں کی طرف متوجہ فرما رہے تھے حضرت مولانا عبدالغفور مدظلہٗ نے وہ ہی باتیں دہرائیں اور شاہ جی کی گفتگو پہ مہر تصدیق ثبت کی۔شاہ جی عرض کیا حضرت یہ آپ کی توجہ اور توارد ہے، میں دو دن سے یہی باتیں اپنے بیانات میں عرض کر رہا ہوں۔ حضرت سے دعا کرائی اور اجازت لے کر وحدت کالونی ٹیکسلا میں مولانا عطاء اﷲ شاہ ہاشمی کی قیام گاہ پہنچے جہاں عشائیہ کا انتظام تھا۔ استاذالقرأ قاری عبدالجلیل صاحب بھی احباب کے ساتھ پہنچ گئے۔ رات ایک بجے مسجد صدیق اکبر جھنگی سیداں راولپنڈی پہنچے اور آرام کیا۔
۳؍اگست صبح ۹بجے واہ کینٹ کی مرکزی جامع مسجد مدرسہ عربیہ تدریس القرآن کی طرف روانہ ہوئے۔ پروانہ ختم نبوت حضرت مولانا محمد اسحاق پیرانہ سالی، ضعف، بیماری کے باوجود سٹیج پہ جلوہ افروز تھے ۔ مولانا محمد قاسم ادریس مہتمم ادارہ نے خوب محبت کا اظہار فرمایا۔ شاہ جی نے علماء، طلباء اور عوام الناس سے ایک گھنٹہ ختم نبوت کے کام کی اہمیت اور موجودہ فتنوں کے دور دینی قوتوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے کے عنوان پہ خطاب کیا۔
مولانا قاری عبدالجلیل صاحب سمیت علماء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ واہ کینٹ سے ہزارہ ڈویژن کے لیے روانہ ہوئے۔ تو اب ہمارے قافلے میں مجلس احرارِ اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور معروف کالم نگار ڈاکٹر عمر فاروق احرار بھی شامل ہوگئے۔ حسن ابدال جو تاریخی شہر ہے وہاں مختصر رکے اور مولانا محمد ناصر خان سے ملاقات کے بعد ہری پور روانہ ہوگئے۔ ہری پور جب بھی داخل ہوتے تھے سرائے صالح کے معروف دوست بھائی فہیم قریشی مرحوم استقبال کے لیے موجود ہوتے تھے۔ ان کو فوت ہوئے دو سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ بھائی فہیم قریشی مرحوم کی یادیں لیے بوجھل دل کے ساتھ سرائے صالح سے گزرے اور بوقت نماز ظہر مرکز اہل حق مرکزی جامع مسجد امیر معاویہ حویلیاں پہنچے ۔ علاقے کی خوبصورت اور بڑی جامع مسجد اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود نمازوں کے اوقات میں تنگ پڑ جاتی ہے۔ خطیب مسجد محقق اسلام پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی ہیں۔ بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں ہر کتاب اپنا تعارف آپ ہے۔تازہ دو کتب سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے باقدین اور امام طبری ، افسانہ ساز شخصیت قابل مطالعہ کتب ہیں۔ حضرت قاضی صاحب خاندان امیر شریعت کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں دفاع صحابہ رضی اﷲ عنہم کے لیے دن رات قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ جب بھی شاہ جی کا اس علاقے کا سفر ہوتا ہے حویلیاں حاضری دینا واجب ہوجاتا ہے۔ قاضی صاحب گرمیوں کے ایام آزاد کشمیر میں گزارتے ہیں ان دنوں بھی وہاں ہی ہیں۔ مگر جوں ہی پروگرام کی ترتیب بنی قاضی صاحب نے فرمایا کہ حویلیاں حاضری لازمی ہونی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ قاضی صاحب کے علم و عمل میں برکت نصیب فرمائے۔ مسجد کے نائب خطیب مولانا منظور احمد صاحب اور حافظ ظہیر احمد نے استقبال کیا۔ نماز ظہرکی ادائیگی سے متصل شاہ جی کا بیان ہوا۔اہل علاقہ بھی شاہ صاحبان سے بہت محبت کرتے ہیں اور محبت کی ایک ہی وجہ میری سمجھ میں آئی ہے کہ سادات کی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت اور ان کا دفاع۔ کچھ دیر آرام کیا او رعصر کی نما زپڑتھے ہی ایبٹ آباد کے لیے روانہ ہوئے جہاں خانوادۂ زاہد الحسینی کے روح و رواں پیر طریقت مولانا قاضی محمد ارشد الحسینی دامت برکاتہم اور حضرت کے فرزند مولانا قاضی محمد احمد الحسینی کو منتظر پایا۔ حضرت قاضی صاحب خوب مجلسی انسان ہیں بہت تواضع کی۔ مولانا قاضی محمد احمد روایتی صاحبزادوں سے کوسوں دور خدمت گار انسان ہیں۔ رات کا قیام حضرت قاضی صاحب کی خانقاہ میں ہی تھا۔
۴؍اگست جمعرات کے دن مولانانصیر خان جدون کی معیت میں ہر نوئی گئے واپسی پر ہزارہ کی معروف ’’الیاسی مسجد‘‘ دیکھی۔ مولانا نصیر خان نے الیاسی مسجد کی مشہور سوغات پکوڑوں سے تواضع کی۔ او رہمیں ایبٹ آباد سے مانسہرہ روڈ پہنچ کر الوداع کہا۔ ایبٹ آباد سے مانسہرہ انتہائی مصروف سڑک ہے کم و بیش آدھے گھنٹے کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔ مانسہرہ جناح کالج میں مفتی عبدالرزاق آزاد کی کوشش اور پرنسپل ادارہ جناب فیاض خان کی خصوصی دلچسپی سے ’’ختم نبوت سیمینار‘‘ کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت مفتی وقارالحق عثمان نے کی۔کالج انتظامیہ اور سٹوڈنٹس نے خصوصی دلچسپی لی۔ اس سیمینار میں علاقہ بھر کے کالجز کے پرنسپل اور ذمہ دار حضرات نے شرکت کی۔طلباء نے مہمانِ خصوصی سید محمد کفیل بخاری کازبردست استقبال کیا۔
شاہ جی نے نظم و نعت کے بعد انتہائی خوبصورت انداز میں عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مفصل گفتگو کی جس کو کالج کے طلباء اور دیگر طبقے نے بہت سراہا۔ سیمینار کے اختتام پر مہمانوں کی پرتکلف ضیافت کی گئی۔ جناح کالج سے مانسہرہ کی قدیم مرکزی جامع مسجد پہنچے علاقہ بھر سے کثیر تعداد میں علماء کرام جمع تھے۔ شاہ جی سے سب علماء کی ملاقات ہوئی۔ موجودہ حالات میں علماء کی ذمہ داریوں، حکمت عملی اور مؤثر کردار کے عنوانات پر شاہ جی نے تفصیلی گفتگو کی۔مولانا قاضی محمد اسرائیل گڑنگی، مولانا حفیظ الرحمن اور مولانا طارق نعمان گڑنگی سمیت کئی علماء موجود تھے۔ عصر سے قبل ایبٹ آباد روڈ پر قصبہ ’’داتا‘‘ پہنچے جہاں عصر کی نماز پڑھی، مانسہرہ اور گرد ونواح کے تقریباً ۳۵؍علماء سے ملاقات ہوئی۔ داتا گاؤں میں قادیانی جماعت مضبوط رہی ہے مگر آہستہ آہستہ اب قادیانی اسلام قبول کر رہے ہیں یا وہاں سے بیرون ممالک بھاگ رہے ہیں۔ علماء نے بتایا کہ یہاں ختم نبوت کے کام میں برکت اور وسعت حضرت خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی دعاؤں اور توجہات کا نتیجہ ہے۔ دعوتِ چائے کے بعد مانسہرہ کے علماء نے محبتوں سے رخصت کیا۔ مفتی عبدالرزاق آزاد کی معیت میں قافلۂ احرار جامع مسجد عثمان غنی رضی اﷲ عنہ اسلام کوٹ ایبٹ آباد پہنچا۔ نماز مغرب شاہ جی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ تلاوت، نعت اور نظم کے بعد مفتی عبدالرزاق آزاد نے مجلس احرار اسلام کا تعارف خوبصورت انداز میں کرایا او رپھر شاہ جی نے عظمت توحید عقیدۂ ختم نبوت اور مقامِ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے عنوانات پر تفصیلی بیان کیا۔ نماز عشاء کی ادائیگی اور ضیافت کے بعد اسلام آباد کے لیے سفر شروع ہوا، رات دو بجے اسلام آباد جامع مسجد صدیق اکبر میں مولانا پیر ابوذر کے پاس پہنچے او رآرام کیا۔
۵؍اگست صبح ۸بجے ٹیکسلا کے لیے روانہ ہوئے جہاں جمعیت علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات محمد اقبال اعوان اپنے احباب کے ساتھ منتظر تھے ۔اقبال اعوان جمعیت کے متحرک ذمہ دار ہیں اور زمانہ طالب علمی سے احرار بزرگوں سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں چند ماہ قبل جو اں سال بیٹے حافظ اعزاز احسن کا ایکسیڈنٹ حادثے میں انتقال ہوا۔ شاہ جی اور احباب نے تعزیت کی۔ JUIٹیکسلا کے امیر حکیم اسعد سمیت معروف شخصیات موجود تھیں۔دن گیارہ بجے راولپنڈی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ شاہ جی، اقبال اعوان صاحب کی گاڑی میں بیٹھ گئے، پونے بارہ بجے جامعہ اسلامیہ کامران مارکیٹ راولپنڈی صدر پہنچے۔ اس ادارے کا شمار پنجاب کے بڑے مدارس میں ہوتاہے۔ حضرت مفتی احمد الرحمن رحمہ اﷲ مہتمم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے بھائی حضرت مولانا قاری سعید الرحمن رحمہ اﷲ نے نصف صدی قبل اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ قاری صاحب معروف سیاسی بزرگ تھے، صوبائی وزیر بھی رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمن اس ادارے کو سنبھالا اور ادارے نے خوب ترقی کی۔ تعلیم و تدریس اور اہتمام کے ساتھ JUIپنجاب کی امارت کی ذمہ داری بھی انتہائی خلوص کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عتیق الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے خیر مقدم کیا۔ جمعہ کا بیان ایک بجے شروع ہوا۔ وسیع و عریض مسجد، گیلریاں، صحن اور برآمدہ کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ شاہ جی نے عقیدہ ختم نبوت ، مجلس احرار اسلام اور محاسبہ قادیانیت کے عنوان پر پینتیس منٹ خطاب کیا۔ نماز جمعہ پڑھائی، بعد میں معروف صحافی روزنامہ امت کے کوآرڈینیٹر سعود ساحر سمیت دیگر شخصیات موجو دتھیں۔سعود ساحر نے اپنی کتاب تحریک ختم نبوت، شاہ جی اور ڈاکٹر عتیق الرحمن کو پیش کی۔ڈاکٹر صاحب کی پرتکلف ضیافت کے بعد اجازت لی اور اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ آبپارہ میں روزنامہ اوصاف کے دفتر میں معروف کالم نگار سیف اﷲ خالد منتظر تھے، خیر مقدمی کلمات کے بعد سیف اﷲ خالد اور جناب عمر فاروق نے شاہ جی کا انٹرویو کیا۔ اوصاف سے روزنامہ مشرق کے دفتر گئے جہاں ظفر سلطان منتظر تھے۔ ظفر سلطان اور ان کی ٹیم نے انٹرویو کیا اور روزنامہ مشرق کے چینل جو پشتو زبان میں پشاور سے شروع کیا جارہا ہے کے لیے شاہ جی سے تأثرات لیے۔نماز مغرب جھنگی سیداں پہنچ کر ادا کی جبکہ ڈاکٹر عمر فاروق واپس تلہ گنگ اور مولانا ابوذر اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ خیبر پختونخواہ کا سفر شروع ہوا، اٹک کے بعد جی ٹی روڈ پر KPK کا پہلا ضلع نوشہرہ آتا ہے۔ یہ ضلع فوجی ٹریننگ او ربھرتی کے حوالے سے مشہور ہے جبکہ یہاں بڑے مدارس موجود ہیں۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو دیوبند ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ پورا علاقہ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ کے علمی فیض کا مظہر ہے۔رات ساڑھے نو بجے جامعہ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ خالق آباد نوشہرہ پہنچے، حسب روایت محقق العصر مولانا عبدالقیوم حقانی ’’مصنف کتب کثیرہ‘‘ سینکڑوں طلباء کے ساتھ منتظر تھے۔ بھرپور استقبال کیا۔ہم نے نمازِ عشاء ادا کی اور پھر حضرت حقانی کے ساتھ دیر تک مجلس جمی رہی۔ وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں پشتون روایا ت کے مطابق خوب مہمان نوازی کی۔ حقانی صاحب ان دنوں شرح صحیح مسلم پہ کام کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ دیگر کتب بھی منصہ شہود پر آتی رہتی ہیں۔ ۶؍اگست نماز فجر کے بعد جامعہ کے مدرس مولانا نوراﷲ نور جو خدمت پہ مامور تھے کے ساتھ مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔نہایت مستعد او رنیک عالم ہیں۔ ناشتے کے بعد شاہ جی کا بیان شروع ہوا۔ ہزار کے لگ بھگ طلباء نے مسجد ابوہریرہ میں بیٹھ کر او ر سینکڑوں طالبات نے پردے میں اپنے جامعہ میں بیٹھ کر بیان سنا۔
شاہ جی کے اس سفر کے متعلق راقم نے اخبارات کے ذریعے اشتہارات دیے اور احباب کو مطلع کیا۔ جہاں چاہنے والوں کو خوشی ہوئی وہاں بعض دوستوں کو سخت پریشانی بھی ہوئی۔ جامعہ اسلامیہ اضاخیل نوشہرہ بہت بڑا ادارہ ہے، جامعہ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کے بعد دن دس بجے شاہ جی کا وہاں بیان طے تھا مگرپریشان دوستوں کے دباؤ پر منتظم ادارہ نے بے بسی کا اظہار فرمایا اور پروگرام منسوخ کردیا۔ حسبِ روایت مولانا حقانی صاحب نے کتابوں کا تحفہ پیش کیا او راجازت لے کر ہم واپس اکوڑہ خٹک کے لیے روانہ ہوگئے۔ امام المجاہدین شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمتہ اﷲ علیہ کے گھر حاضری دی، حضرت کے داماد مولانا ضیاء الرحمن اور مولانا سید ارشد علی شاہ بن شیر علی شاہ نے خوب محبتوں سے نوازا۔ حضرت کی قبر پر فاتحہ و دعا کے بعد قیام گاہ پر حاضری دی۔ جہاں کبھی حضرت آرام فرما ہوتے تھے آج وہ حجرہ ادرس تھا انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اﷲ تعالیٰ شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ جامعہ دارالعلوم حقانیہ پہنچے۔ جامع مسجد عبدالحق کی تعمیر نو کا سلسلہ جاری ہے۔ حضرت مولانا سمیع الحق دامت برکاتہم کی عدم موجودگی میں ان کے صاحبزادے محمد اسامہ حقانی اور بھائی شیخ الحدیث مولانا انوارالحق مدظلہٗ نائب صدر وفاق المدارس پاکستان سے ملاقات ہوئی۔ حضرت مولانا عبدالحق نوراﷲ مرقدہ کے مزار پر حاضری، فاتحہ اور دعاء کے بعد مکتبہ حقانیہ میں جناب ادریس اعوان سے ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر کے پاس بیٹھے اجازت لی اور اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔
محترم قارئین! جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیا کہ نواسۂ امیر شریعت کے اس دورہ سے بعض دوست بہت پریشان ہوئے۔ انھوں نے اپنی پریشانی کا اظہار اچھے اخلاق سے نہیں کیا۔ جو تحفظ ختم نبوت جیسے عظیم الشان کام کرنے والوں کو زیب نہیں دیتا تھا۔ جامعہ دارالعلوم اسلامیہ، جامعہ امام اعظم ابوحنیفہ، جامعۃ الحسن چارسدہ میں طے شدہ اجتماعات بندکروادیے گئے۔اﷲ تعالیٰ ان دوستوں کو اخلاص، محبت، رواداری اور اعلیٰ اخلاق کی نعمتیں عطا ء فرمائے اور حسد کی بیماری سے شفا عطاء فرمائے۔ نوشہرہ سے ہوتے ہوئے ہم چارسدہ پہنچے۔ کچھ دیر کے لیے جامعہ دارالادب میں رکے، JUI ضلع چارسدہ کے امیر مولانا محمد ہاشم صاحب نے اساتذہ کے ساتھ خیر مقدم کیا اور بہت اعلیٰ اخلاق سے پیش آئے۔ انھوں نے ’’پریشان دوستوں‘‘ کے حوالے سے بعض سوالات بھی کیے، شاہ جی نے بڑے تحمل اور محبت سے جوابات عرض کیے ، جنھیں سن کر تمام علماء بہت خوش اور مطمئن ہوگئے۔ ان حضرات کی محبت و خلوص اور اکرام ہمیشہ یاد رہے گا۔ چار سدہ سے اتمان زئی جامعہ دارالعلوم نعمانیہ پہنچے، جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی حسن جان صاحب انتہائی نیک ، صالح اور بااخلاق عالم ہیں۔ بہت بڑا ادارہ چلا رہے ہیں۔ ظہر تا عصر دارالعلوم نعمانیہ میں قیام کیا۔ان کی محبت اور مہمان نوازی ناقابل فراموش ہے۔ عصر کے بعد اتمان زئی سے ترنگزئی روانہ ہوئے۔ ترنگزئی کا نام آتے ہی جنگ آزادی کے ہیرو حضرت حاجی صاحب کی طرف ذہن جاتا ہے جنھوں نے امیرالمومنین سید احمد شہید رحمتہ اﷲ علیہ کے قافلہ حریت کے تسلسل میں شرکت کر کے انگریزی استعمار کے خلاف زبردست جدوجہد کی۔ اتمان زئی سے ترنگزئی پہنچے جامعہ محمودیہ کے گیٹ پر مولانا حق نواز درانی، مولانا امان اﷲ درانی سمیت کثیر علماء طلباء استقبال کے لیے موجود تھے۔ حضرت مولانا پیر مسعود الرحمن درانی دامت برکاتہم اس ادارے کے مہتمم ہیں اور حضرت پیر عزیز الرحمن ہزاروی مدظلہٗ کے خلیفہ ہیں۔ عمر رسیدہ اور معذور ہیں، بڑی نسبت کے حامل ہیں، شیخ التفسیر مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اﷲ کے نواسے ہیں۔مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے علوم نبویہ کا خاص فہم عطاء فرمایا تھا۔بطل حریت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخادری رحمہ اﷲ اور مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اﷲ کے نواسوں کی ملاقات اور محبت دیدنی تھی۔ نماز مغرب سے پہلے حضرت افغانی کے مزار پر حاضری دی اور حسب توفیق ایصال ثواب کیا۔ نماز مغرب کی امامت سید محمد کفیل بخاری نے کرائی۔ نماز کے بعد علاقہ بھر سے علماء عاشق رسول حاجی محمد امین رحمہ اﷲ کے عزیز مولانا فیضان اﷲ صاحب، حضرت افغانی رحمتہ اﷲ علیہ کے نواسے قاری انواراﷲ،پشتو کے معروف خطیب مولانا محمد امیر بجلی گھر رحمہ اﷲ فرزند مولانا محمد قاسم مدظلہٗ سمیت بیسیوں علماء او رمعززین علاقہ نے شاہ صاحب کی ترنگزئی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ شاہ صاحب کو جب بیان کے لیے دعوت دی گئی تو پورا مجمع استقبال کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ سید محمد کفیل بخاری نے خاندانی روایت کے مطابق تلاوت قرآن کی تو سماں بندھ گیا آپ نے حضرت افغانی کی شخصیت و کردار،علمی مقام ، خدمات اور علماءِ امت کی قربانیاں اور اوصاف خوب بیان کیے۔ آخر میں محاسبۂ قادیانیت اور تحریک ختم نبوت کے حوالے سے مجلس احرار اسلام کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ پشاور کے احباب بھائی شہاب خان اور ان کے والد محترم جناب فضل ہادی کی دعوت پر پشاور کے لیے عازم سفر ہوئے۔ بھائی شہاب خان اور ان کے والد محترم نے بہت محبت کی، رات کو ان کے گھر محلہ بشیرآباد میں قیام کیا۔
۷؍اگست اتوا ر صبح ساتھ بجے بھائی شہاب کے گھر میں بنات کے مدرسے میں خواتین کا اجتماع ہوا۔ شاہ جی نے اسلامی معاشرے میں خواتین کا کردار کے عنوان پہ گفتگو کی۔ نوبجے پشاور کے معروف ادارے دارالعلوم سرحد پہنچے۔ یہ ادارہ مولانا ایوب جان بنوری رحمہ اﷲ کی نشانی ہے بارہ سو طلباء علم دین کے حصول میں مصروف ہیں۔ مہتمم جامعہ مولانا محمد جواد خان اور مولانا تحسین اﷲ خان و دیگر اساتذہ و شیوخ نے خیر مقدم کیا۔ شاہ جی نے پون گھنٹہ گفتگو کی۔ دارالعلوم سرحد سے جامعہ عثمانیہ پشاور پہنچے۔ جس کے بانی مفتی غلام الرحمن مدظلہٗ ہیں۔ تعلیمی و تربیتی حوالے سے جامعہ عثمانیہ کا معیار اور مقام بہت اعلیٰ ہے۔حضرت مفتی صاحب اور جامعہ کے استاذ مولانا حسین احمدمدظلہٗ سے ایک گھنٹہ نشست ہوئی۔ جامعہ عثمانیہ سے نشتر ہال پہنچے جہاں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیراہتمام ، ختم نبوت کانفرنس شروع تھی۔انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ خیبر پختونخوا کے امیر اور فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالحفیظ مکی دامت برکاتہم کے خلیفہ پیر شکیل اختر نے اپنے رفقا کے ساتھ شاہ جی کا استقبال کیا۔ پہلی نشست دس بجے دن شروع ہوئی، مختلف علماء کرام کے بیانات ہوتے رہے پونے ایک بجے سـٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا کہ خطاب کریں گے مجلس احرارِ اسلام پاکستان کے نائب امیر نواسہ امیر شریعت سید محمد کفیل بخاری تو مجمع استقبال کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ شاہ جی نے عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت، فتنۂ قادیانیت کا استحصال، قادیانیوں کو اسلام کی دعوت او رتحریک ختم نبوت میں مجلس احرار کے کلیدی و سیاسی کردار پر تفصیل سے بیان کیا۔ دوران بیان مولانا عبدالحفیظ مکی، ڈاکٹر احمد علی سراج تشریف لے آئے۔ ایک عرب مہمان شیخ محی الدین احمد نے محبت کا اظہار کیا۔ شاہ جی نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت امت مسلمہ کی وحدت کا مرکز ہے۔ مجلس احرار اسلام تحفظ ختم نبوت کا کام کرنے والی پہلی جماعت ہے۔ آج ملک بھر میں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں کئی جماعتیں تحفظ ختم نبوت کا فریضہ ادا کر رہی ہیں۔ مجلس احرار ان تمام جماعتوں کی ماں ہے۔ ماں کبھی بھی اپنے بچوں میں سے کسی کو برا نہیں کہتی۔ انھوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت شبانِ ختم نبوت، سب مجلس احرار اسلام کی اپنی تنظیمیں ہیں۔ احرار کو فخر ہے کہ کبھی قادیان میں انھوں نے تنہا کام کیا اور پھر چناب نگر میں بھی سب سے پہلے تنہا کام کیا مگر آج ہماری دیگر جماعتیں بھی میدان میں اُتر آئیں اور احرار کا سہارا بنیں۔ انہوں نے کہا کہ کام کے بڑھنے سے حسد نہیں کرنا چاہیے بل کہ فخر اور شکر کرنا چاہیے۔ حسد وہ کرتا ہے جو محروم النعمۃ ہو۔ الحمد ﷲ احرار پر اﷲ کا فضل ہے، ہر نعمت حاصل ہے۔ اس لیے حسد نہیں کرتی۔ شاہ جی نے کہا کہ میں انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ، اس کے امیر مرکزیہ حضرت شیخ مکی اور آپ کے تمام رفقاء کا شکریہ اداد کرتا ہوں اور دنیا بھر میں ان کے کام پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اخلاص عطاء فرمائے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے قبول فرمائے۔ برادرم شہاب اور محترم فضل ہادی نے پشاور سے رخصت کیا۔ شاہ جی کے بیان کے دوران راولپنڈی سے مولانا پیر ابوذر صاحب کا فون بھائی قاسم چیمہ کو موصول ہوا اور شدید بیماری کا اظہار کیا۔ شاہ جی کو جب بتایا گیا تو فرمایا کہ ہم لاہور کا پروگرام چھوڑ کر مولانا ابوذر سے ضرور ملیں گے۔ بالآخر چار بجے جھنگی سیداں راولپنڈی میں مولانا ابوذر کے پاس پہنچے جو شدید علیل میں تھے۔ قارئین دعا کریں اﷲ کریم مولانا ابوذر کو صحت کاملہ عطاء فرمائیں۔ شاہ جی کو دیکھتے ہی خوشی سے اٹھ بیٹھے اور فرمانے لگے شاہ جی کو دیکھ کر طبیعت سنبھل گئی ہے۔ مولانا ابوذر نے بوجہ علالت شاہ جی سے گزارش کی کہ اگر میں اس مرض میں اﷲ سے جاملا تو احرار کے کوئی بزرگ میرا جنازہ پڑھائیں اور پرچم احرار میں لپیٹ کر رخصت کریں۔ فرمانے لگے یہ زندگی کی آخری خواہش کا اظہار ہے۔ ان کے ان کلمات سے شرکاءِ مجلس آبدیدہ ہوگئے۔ اسی دوران قاری محمد زبیر، خالد ایڈووکیٹ اور دیگر احباب تلہ گنگ سے آگئے جو حج کے سفر پہ روانہ ہورہے تھے۔ پانچ بجے کے قریب اسلام آباد سے لاہور کے لیے بذریعہ موٹروے روانہ ہوئے۔ بلکسر انٹرچینج سے گزرے ہی تھے کہ گاڑی نے اپنی علالت کا ظاہر کی، کلر کہار بمشکل پہنچے کہ گاڑی نے چلنے سے انکار کردیا۔ شاہ جی اور قاسم چیمہ کو بس پہ لاہور کے لیے روانہ کیا اور اﷲ کی مدد کے منتظر راقم اور ڈرائیور سعید احمد گاڑی کے پاس رک گئے۔بالآخر اﷲ نے فضل فرمایا اور اڑھائی بجے رات لاہور مسلم ٹاؤن دفتر احرار میں جا کر آرام کیا۔
۸؍اگست سوموار دفتر احرار لاہور میں تربیت المبلغین کورس کے حوالے سے شاہ جی ، محترم عبداللطیف خالد چیمہ، میاں محمد اویس، قاری محمد قاسم ودیگر احباب کی موجودگی میں میٹنگ ہوئی اور کورس کے انتظامات کے سلسلے میں کئی امور طے ہوئے۔
برادرم حافظ ضیاء اﷲ ناگڑیاں گجرات سے تشریف لائے ہوئے تھے ان سے مختلف مسائل پر بات چیت او رمشاورت ہوئی۔ ۸؍اگست کی شام شاہ جی ملتان کے لیے روانہ ہوئے اور راقم تلہ گنگ کے لیے۔ یوں یہ آٹھ روزہ سفر اختتام پذیر ہوا۔
قارئین سے درخواست ہے دعا کریں اﷲ کریم ہمیں اپنے بزرگوں کے اخلاص کی بدولت اس مبارک کام سے جوڑے رکھیں اور دعوت اسلام کے فریضے کی ادائیگی میں ہماری مدد فرمائے (آمین)۔