مولانا محمد نافع رحمتہ اﷲ علیہ
ولادت با سعادت:
سیرت نگاروں کے نزدیک سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں قریشِ مکہ کعبہ شریف کی بنا کر رہے تھے اس زمانہ میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی ولادت باسعادت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کے بطن مبارک سے ہوئی اور اس وقت آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کو پہنچ چکی تھی۔ یہ واقعہ نبوت سے قریباً پانچ برس پہلے کا ہے [۱]۔
بعض علماء کے نزدیک ان کی ولادت بعثت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہوئی اور آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت اکتالیس سال تھی۔ اسی طرح مزید اقوال بھی اس مقام میں منقول ہیں[۲]۔
اسم گرامی اور القاب:
آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں مشہور قول کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ ان کا اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ ہے اور ان کے مشہور القاب ’’زہرا‘‘ اور ’’بتول‘‘ ہیں۔ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت امِ کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہن، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کی اولاد شریف ہیں اور باہمی حقیقی بہنیں ہیں۔
ان کی پرورش اور تربیت خانۂ رسول خدا کے مبارک ماحول میں ہوئی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں سنِ شعور کو پہنچیں اور اپنے والدین شریفین کے نفوسِ طیبہ سے مستفید ہوتی رہیں۔
شمائل وخصائل:
حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے متعلق ان کی سیرت اور طرزِ طریق کو محدثین اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:
فاقبلت فاطمۃ تمشی ماتخطئی مشیۃ الرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شیئا۔
یعنی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جس وقت چلتی تھیں تو آپ رضی اﷲ عنہا کی چال ڈھال اپنے والد شریف صلی اﷲ علیہ وسلم کے بالکل مشابہ ہوتی تھی [۳]۔
ٍ ترمذی شریف میں یہی مضمون حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے اس طرح مروی ہے کہ:
عن عائشۃ قالت مارأیت احدا أشبہ سمتاً ولاھدیا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم
یعنی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قیام وقعود میں نشست و برخاست کے عادات واطوار میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے زیادہ مشابہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا طرز و طریق اخلاق شمائل میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زیادہ موافق تھا: الولدسر لابیہ کے صحیح مصداق تھیں اور آپ کی گفتار رفتار اور لب و لہجہ اپنے والد شریف کے بہت مطابق تھا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پرشفقت فرمانا:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جب نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم (ان کی رعایت خاطر کے لیے) کھڑے ہو جاتے تھے اور پیار کرنے کے لیے ہاتھ پکڑ لیتے اور بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کے مقام پر بٹھا لیتے تھے۔
اور جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو احتراماً حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کھڑی ہوجاتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک کو چوم لیتیں اور اپنی نشست پر بٹھا لیتی تھیں[۴]۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے محبت رکھنے کی ترغیب:
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ دیگر ازواج مطہرات نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو ایک کام کے لیے آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بھیجا۔ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں تشریف فرما تھے تو اس کام کے متعلق گفتگو ہوئی، نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا:
’’أی بنّیۃ الست تحبین ما احب قالت بلیٰ قال فاحبی ھٰذہٖ‘‘
یعنی اے میری بیٹی جس کو میں محبوب رکھتا ہوں کیا تو اسے محبوب نہیں رکھتی؟تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہانے عرض کیا کیوں نہیں! میں محبوب رکھتی ہوں۔ تو آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ محبت رکھنا [۵]۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا احترام ام المؤمنین ہونے کی بناء پر لازماً کرتی تھیں اور اس کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں تاکید کر رکھی تھی۔ ارشاد نبوی ہوا کہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ محبت اور عمدہ سلوک قائم رکھنا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جس کو محبوب جانیں اس کو محبوب ہی رکھنا چاہیے۔
رازدارانہ گفتگو:
نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری ایام میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ سردار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے اور ہم آپ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تشریف لائیں اور اس وقت نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد میں سے صرف حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہی زندہ تھیں ان کی باقی تمام اولاد قبل ازیں فوت ہوچکی تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا اندازِ رفتار اپنے والد شریف کی رفتار کے موافق تھا۔ جس وقت آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو دیکھا تو مرحبا فرمایا اور انھیں اپنے پاس بٹھالیا۔ پھر ان کے ساتھ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرگوشی فرمائی توآپ رضی اﷲ عنہا بے ساختہ رونے لگیں، جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی غمگینی دیکھی تو دوبارہ سر گوشی فرمائی، اس دفعہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہنسنے لگیں۔
جب نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم اس مجلس سے تشریف لے گئے توحضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے وہ بات دریافت کی جس کے متعلق سرگوشی ہوئی تھی تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رازدارانہ بات کو میں افشاء اور اظہار کرنا نہیں چاہتی۔
اس کے بعد جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو اس حق کی قسم دلا کر بات کی جو میرا ان پر ہے کہ آپ مجھے ضرور خبر دیں۔ اس وقت حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے کہا کہ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے مرتبہ میرے ساتھ سرگوشی فرمائی تو آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک دفعہ آکر قرآن مجید میں معارضہ کرتے یعنی مجھے قرآن مجید سناتے اور مجھ سے سنتے۔ اس سال دوبار مجھے انھوں نے قرآن سنا او رسنایا، میں اس سے یہی خیال کرتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے۔ اے فاطمہ! اﷲ سے خوف کھانا اور صبر اختیار کرنا۔ میں تیرے لیے بہترین پیش روہوں گا۔ پس میں یہ سن کر رونے لگی۔ جب آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری گھبراہٹ اور پریشانی دیکھی تو آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوبارہ سرگوشی فرما کر مجھے فرمایا کہ: اے فاطمہ ! تم اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ تم اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہو یا مؤمنوں کی عورتوں کی سردار ہو۔
اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ اسی مرض میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحلت کر جاؤں گا پس میں گریہ کرنے لگی پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرگوشی فرمائی اور فرمایا کہ اے فاطمہ ! تم میرے اہل بیت میں سے پہلی شخصیت ہو جو میرے پیچھے آئے گی یہ سن کرمیں خنداں ہوئی[مشکوٰۃ شریف ص:۵۶۸، طبع نور محمدی دہلی]
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو وصیت:
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخری اوقات میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو متعدد وصایا فرمائی تھیں۔ ان میں سے ایک خصوصی وصیت ’’ماتم‘‘ سے منع کرنے کے متعلق تھی کہ میرے وصال پر کسی قسم کا مروجہ ماتم نہ کیا جائے۔
فائدہ: اس وصیت میں سردارِ دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے مروجہ ماتم کے جمیع اقسام (چہرہ نوچنااور پیٹنا، بال کھولنا، واویلا کرنا، بین کرنا اور نوحہ خوانی کرنا وغیرہ) سے تاکیداً منع فرمایا ہے۔ گویا حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی وساطت سے تمام امت کو یہ وصیت فرمادی گئی ہے کہ جتنے بھی اہم مصائب مؤمن کو پیش آئیں ان میں صبر اور استقامت پر رہے اور بے صبری سے اجتناب کرے۔
انتقالِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم پر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہ کا اظہارِ غم:
گزشتہ واقعہ میں بات ذکر کردی گئی تھی کہ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت میں مذکورہ کلام حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ ہوئی تھی یہ آخری ایام تھے نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ تھا۔ جب مرض شدت اختیار کر گیا تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پریشانی کے عالم میں کہنے لگیں کہ ’’واکرب اباہ‘‘ (افسوس! ہمارے والد صاحب کی تکلیف) اس وقت آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’آج کے بعد تیرے والد پر کوئی تکلیف نہیں‘‘ پھر آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارتحال ہوگیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف انتقال فرما گئے۔ (اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد وبارک وسلم)
آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال اُمّت کے لیے مصیبت ِعظمیٰ تھی اور اس چیز کا رنج والم تمام اہلِ اسلام کے لیے ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن تمام اقرباء اور تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم پر دہشت اور پریشانی کی کیفیت طاری تھی جس کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بڑی وضاحت سے درج ہیں۔
ہم اس مقام میں صرف حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے متعلقات ذکر کر رہے ہیں۔ اس بنا پر باقی حضرات کے ہم وغم کی کیفیات شدیدہ یہاں ذکر نہیں کی گئیں۔
آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال ہوجانے کے بعد اظہارِ تأسف کے طور پر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی تھیں کہ’’ اے باپ!آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کی۔ اے باپ! جنت الفردوس آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ٹھکانہ ہوگا۔ اے باپ! ہم جبرائیل علیہ السلام کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر دیتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کے کفن دفن اور جنازہ کے مراحل گزرے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ مبارکہ میں آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم دفن ہوئے آپ کے دفن کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم واپس ہوئے، خادم نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا دریافت فرمانے لگیں اور ازراہِ تحسر و افسوس سوال کیا کہ:
یا انس! اطابت انفسکم ان تحثوا علی رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم التراب! (رواہ البخاری)
یعنی اے انس! آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر مٹی ڈالنا تم لوگوں کو کس طرح اچھا معلوم ہوا؟ اور کس طرح تم نے آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنا گوارہ کرلیا[۶]۔( انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی مرض الوفات اور ان کی تیمار داری:
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نہایت مغموم رہتی تھیں اور یہ ایام انھوں نے صبر وسکون کے ساتھ پورے کیے۔آپ رضی اﷲ عنہا کی تیمار داری کے لیے حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا بنت عمیس جو خلیفۂ اوّل صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں تشریف لاتیں اور خدمات سرانجام دیتی تھیں۔
اسماء بنت عمیس وہ خوش بخت خاتون ہیں جو قبل ازیں حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں رہیں ان سے ان کی اولاد بھی ہوئی تھی مگر جب حضرت جعفر طیار رضی اﷲ عنہ غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے تو ان کے بعد ان کا نکاح حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے ہوا۔ وصالِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا بیمار ہوئیں تو ان کی تیمار داری میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کا خصوصی حصہ تھا۔ اسماء رضی اﷲ عنہا اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفۂ اوّل کے نکاح میں تھیں آپ کی وفات کے بعد حضرت اسماء نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے نکاح کیا۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے چھے ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں۔ پھر تین رمضان المبارک ۱۱ھ میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس یا انتیس برس ذکر کی ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے سن وفات اورا ن کی عمر کی تعیین میں سیرت نگاروں نے متعد و اقوال لکھے ہیں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال او رمدت عمر درج کی ہے [۷]۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال اور ارتحال خصوصاً اس وقت کے اہلِ اسلام کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا۔ جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم مدینہ منورہ میں موجود تھے ان کے غم والم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہوگئی۔ تمام اہلِ مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اس صدمۂ کبریٰ کی وجہ سے نہایت اندوہ گین تھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا اندوہ گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بلاواسطہ اولاد کی نسبی نشانی اختتام پذیر ہوگئی تھی۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادتِ عظمیٰ سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماء نے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کاغسل اور اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کی خدمات:
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے قبل از وفات حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کو یہ وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ ان کے ساتھ معاون ہوں۔
چنانچہ حسب وصیت حضرت اسماء بنت عمیس نے آپ رضی اﷲ عنہا کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیبیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام ابورافع رضی اﷲ عنہ کی بیوی سلمیٰ رضی اﷲ عنہا اور اُمِ ایمن رضی اﷲ عنہا وغیرہ ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے[۸]۔
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کے بعض وصایا جو غسل واغتسال کے متعلق پائے جاتے ہیں ان میں بعض چیزیں بالکل قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔
چنانچہ علماء نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ:
وماروی من انھا اغتسلت قبل وفاتھا واوصت ان لا تغسل بعد ذالک فضعیف لایعول علیہ۔ اللّٰہ علم[۹]۔
مطلب یہ ہے کہ بعض روایات میں جو آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے انتقال سے قبل غسل کر لیا تھا اور وصیت فرمائی تھی کہ مجھے اس کے بعد غسل نہ دیا جائے یہ ضعیف ہے اس قسم کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (اس کی وجہ ضعف ابن اسحاق کا تفرد ہے)
غسل کے متعلق وہی روایت صحیح ہے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے یعنی حضرت اسماء اور دیگر خواتین نے مل کر حسب قاعدہ شرعی بعداز وفات غسل سرانجام دیا تھا۔ اس لیے کہ میت کے لیے اسلام کا قاعدہ شرعی یہی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی صلوٰۃ جنازہ اور شیخین کی شمولیت:
غسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا تو آں محترمہ رضی اﷲ عنہا کے جنازہ پر خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ او ردیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم جو اس موقع پر موجود تھے، تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں جواب میں حضرت علی المرتضیٰ نے ذکر کیا کہ آنجناب خلیفۂ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جناب کی موجودگی میں مَیں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں صلوٰۃِ جنازہ ادا کی۔
یہ باتیں متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہے چنانچہ چند ایک عبارتیں ا ہل علم کی تسلی خاطر کے لیے بعینہٖ ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
۱۔عن حمّاد عن ابراہیم قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکبر علیھا اربعاً[۱۰]۔
یعنی ابراہیم (النغی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
۲۔عن جعفر ابن محمد عن ابیہ قال ماتت فاطمۃ بنت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فجاء ابوبکر وعمر لیصلوا فقال ابوبکر لعلی ابن ابی طالب تقد م فقال ماکنت لا تقدم وأنت خلیفۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فتقدم ابوبکر وصلی علیھا[ا۱]۔
یعنی امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ اپنے والد امام محمد باقر سے ذکر فرماتے ہیں کہ محمد باقر نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا فوت ہوئیں تو ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ دونوں تشریف لائے تاکہ جنازہ کی نماز پڑھیں۔ تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کو فرمایاکہ آپ آگے ہو کر نماز پڑھائیے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہاکہ آپ خلیفۂ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں آپ (رضی اﷲ عنہ) کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں ہوتا۔ پس حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمۃ الزہراکا جنازہ پڑھایا۔
۳۔ طبقات ابن سعد میں ہے:عن مجاہد عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر رضی اﷲ عنہ و عنھا۔
یعنی شعبی کہتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی[۱۲]۔
﴿حوالہ جات﴾
[۱]۔ طبقات ابن سعد ص:۱۱،ج:۸، تحت ذکر فاطمہ رضی اﷲ عنہا طبع لیڈن،الاصابہ لابن حجر ص:۳۶۵،ج:۴ تحت ذکر فاطمہ رضی اﷲ عنہا، تفسیر القرطبی ص:۲۴۱،ج:۱۴، تحت آیت قل لازواجک وبنا تک…… الخ (سورۃ احزاب)، [۲]۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر ص:۳۶۵،ج:۴ تحت تذکرہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا،[۳]۔مسلم شریف ص:۲۹۰ج:ثانی، باب فضائل حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا، [۴]۔مشکوٰۃ شریف ص:۴۰۲ بحوالہ ابوداؤد باب المصافحہ والمعانقہ،[۵]۔مسلم شریف ص:۲۸۵،ج:۲ باب فضائل عائشہ رضی اﷲ عنہا،[۶]۔مشکوٰۃ شریف ص:۸۴۷ الفصل الاوّل عن انس باب وفات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم۔ طبع نور محمدی دہلی،[۷]۔البدایۃ والنھایۃ ص:۳۳۴،ج:۶ تحت حالات ۱۱ھ، وفاء الوفاء للسھودی ص:۹۰۵،ج:۳ تحت عنوان قبر فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم)،[۸]۔اسد الغابہ ص:۴۷۸،ج:۵ تحت سلمیٰ امراۃ ابی رافع رضی اﷲ عنہ،[۹]۔البدایہ والنھایہ ص:۳۳۳،ج:۶،[۱۰]۔طبقات ابن سعد ص:۱۹ج:۸ تحت تذکرہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا طبع لیڈن،[۱۱]۔کنزالعمال ص:۳۱۸،ج:۶ خط فی رواۃ مالک طبع اول حیدر آباد دکن تحت فضل الصدیق رضی اﷲ عنہ (مسندات علی رضی اﷲ عنہ باب فضائل الصحابۃ)،[۱۲]۔طبقات ابن سعد ص:۱۹،ج:۸ تحت تذکرہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا طبع قدیم۔