شاہ بلیغ الدین
تلوار ہوا میں بلند تھی اور اس جلیل القدر مجاہد راہِ خدا کے آگے ہر ایک مبہوت کھڑا تھا۔ برّاں صفتِ تیغ وپیکرِ نظر اس کی حاضرین میں سے ایک ایک کو دیکھ رہی تھی۔ وہ نظر جو دل میں ترازو ہوجاتی تھی۔ مجاہد ایمان و عشق و آگہی کا پیکر تھا۔ تاریخ اسے ہمیشہ یاد رکھے گی اور مسلمان اسے کبھی بھلا نہ سکیں گے۔ حراسے آواز گونجی ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘‘ تو اس نے کہا بے شک یہ وحی خداوندی ہے۔ اس وحی کے سنانے والے نے کہا میں محمد رسول اﷲ (ﷺ) ہوں! اس نے کہا بے شک آپ رسول ہیں اور بیعت کر لی۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حطیمِ خانہ کعبہ میں اعلان کیا کہ میں آسمانوں کے راتی رات سفر سے لوٹا ہوں اس نے بلاجھجک تصدیق کی۔ تیرہ برس کی تبلیغ کے بعد صاحبِ معراج ہجرت کے لیے نکلے تو وہ رفیقِ ہجرت بن گیا۔ غارِ ثور میں ہادیٔ برحق کا قیام ہوا تو وہی تنہا یارِ غار تھا۔ جب ساڑھے تیئس سالہ نبوی زندگی کے بعد خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملنے کا وقت آیا تو آپ نے اسی کو اُمت کا پہلا امام مقرر کیا اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو وہی خلیفۃ الرسل منتخب ہوا۔ نہ اُمت میں کوئی اس سے بڑا ہوا نہ اُمت میں کوئی اس سے زیادہ نبی ٔ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریب رہا۔ اسی لیے قرآن نے اسے صحابی، رسول نے اسے صدیق اور اُمت نے اسے صدیق اکبر کے لقب سے یاد کیا۔ اُمت میں بہت سے عالم بھی ہوں گے ولی بھی ہوں گے غازی اور شہید بھی مگر صدیق ایک ہی ہے دوسرا کوئی صدیق نہ ہوگا۔
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو ایک ساتھ کئی فتنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جھوٹے نبیوں کا فتنہ، اسلام لا کر پھر جانے والوں کا فتنہ، اسلامی مملکت کی سرحدوں پر دو سپر پاور یعنی قیصرو کسریٰ کی غارت گری کا فتنہ، زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں کا فتنہ، وہ خضرِ راہ اور مردِ حق ہر فتنے سے نبٹتا گیا۔ سب فتنوں کو اس نے کچل دیا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کا مسئلہ بڑا اہم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نمازوں کے لیے تیار ہیں روزہ ، حج،جہاد ہر بات ہمیں منظور ہے ایک زکوٰۃ کے رکن کو ختم کردیجیے۔ یہ ہم ادا نہ کریں گے، کسی نے کہا توحید کا اقرار ہے اور سب باتوں پر یہ عمل کرنے کو تیار ہیں۔ اس وقت حالات بڑے ناساز گار ہیں ان سے چشم پوشی کر لی جائے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ ہم سے ٹوٹ گئے تو ہماری قوت گھٹ جائے گی، بیرونی خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اپنی صفوں کو مستحکم رکھنے کے لیے انھیں یہ چھوٹ دینی ہی ہوگی۔ یہی موقع تھا کہ صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ اپنی جگہ ڈٹ گئے۔ خلیفۃ الرسل نے کسی دباؤ کو قبول نہ کیا اور اپنی پارلیمان کے آگے میان سے تلوار سونتی اور ہوا میں لہرا کر اعلان کیا کہ: ’’اﷲ کی قسم! تم میں سے جو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ کی رسی زکوٰۃ میں دیتا تھا میں اس سے وہ وصول کر کے رہوں گا چاہے تم میں سے سب میرا ساتھ چھوڑ جائیں اور میں تنہا رہ جاؤں‘‘۔ یہ صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ کا وہ عظیم الشان فقہی فیصلہ تھا جس نے قیامت تک کے لیے ارکانِ دین میں کمی یا اضافے کے خیال کو ختم کردیا۔ ارکانِ دین اور حدود اﷲ کوئی نہیں بدل سکتا۔ اگر صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ اس موقع پر ذرا کمزوری دکھاتے تو تحریف کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور ایک ایک کر کے حرام و حلال کی سب صورتیں بدل دی جاتیں۔ پچھلی اُمتیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ انھوں نے اپنی مصلحتوں کی بنا پر حدود اﷲ توڑ دیے۔
زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔ یہ قطعی حکم ہے، صدقہ و خیرات کے احکام ترغیبی احکام ہیں۔ صاحبِ نصاب ہو کر سرکشی سے یا مال کی محبت میں زکوٰۃ نہ دینے والا مسلمان باقی نہیں رہتا۔ قرآن اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بارے میں واضح ہدایتیں دے دی ہیں۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم نے زکوٰۃ جمع کی اور بیت المال کے ذریعہ اسے مستحقین میں تقسیم کیا۔ زکوٰۃ صاحب نصاب خود بھی تقسیم کرسکتا ہے۔ قرآن کریم میں نماز کے ساتھ اور الگ دونوں طرح زکوٰۃ کی تاکید آئی ہے۔ کوئی سو مرتبہ اس کا ذکر ہے اور اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینے میں سو فائدے مضمر رکھے ہیں۔ زکوٰۃ نکالنے میں آنا کانی منافقت کی نشانی ہے۔ ایسے منافقوں سے جہاد کرنے کا حکم ہے۔ زکوٰۃ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ہے۔ اس سے قلب صاف ہوجاتا ہے۔ تو بہ قبول ہوتی ہے۔ زکوٰۃ مال کو پاک کرتی ہے۔ زکوٰۃ اﷲ کو پہنچتی ہے اور زکوٰۃ دینے والے کی روزی اور مال میں اﷲ تعالیٰ برکت دیتا ہے یہ اس کا وعدہ ہے۔ زکوٰۃ بخل کے موذی نفسیاتی مرض سے آدمی کو بچاتی ہے۔ زکوٰۃ ہی کی طرح عشر کا حکم بھی ہے صاف اور واضح! زکوٰۃ اور عشر سے دولت پھیلتی ہے اور قوم کی مرفہ الحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ آثار عہد نبوی کے آخری دنوں ہی میں ظاہر ہو گئے تھے۔ اسی لیے یہ اسلام کے مالیاتی نظام کا اہم ترین جزو ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور میں مدینے میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔ سورۂ اعراف میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’میری رحمت صرف ان کے لیے ہے جو نافرمانی سے بچیں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میر ی آیات پر ایمان لائیں گے۔‘‘ زکوٰۃ رضائے الٰہی کے لیے ہوتی ہے۔ شہرت اور نیک نامی کے لیے نہیں۔ کوئی صحیفۂ آسمانی ایسا نہیں جس میں زکوٰۃ کا حکم نہیں آیا۔ سورۂ انبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کا حکم ملا تھا۔ سورۂ مریم میں ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام زکوٰۃ کی تاکید کرتے تھے۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ مائدہ میں ہے یہودیوں پر زکوٰۃ فرض کی گئی۔ متی اور لوقا کی انجیلوں میں ہے حضرت عیٰسی علیہ السلام زکوٰۃ کی تلقین کرتے تھے۔ سورۂ مریم میں ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے تھے اﷲ تعالیٰ نے مجھے زندگی بھر نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی تاکید کی ہے۔ زکوٰۃ کسے دی جائے یہ سورۂ توبہ میں بتادیا گیا ہے۔
زکوٰۃ اﷲ کے حکم کی تعمیل اور اس کے بندوں کے حق کی تکمیل کے لیے ہے۔ ۷ھ میں حکم آیا کہ یہ فرض ہے۔ اس سے پہلے یہ ترغیبی حکم تھا، فتحِ مکہ کے بعد اس کا محکمہ قائم ہوا۔ ایک موقع پر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں جو دو ٹکڑوں کے لیے در در پھر کر بھیک مانگتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ پھر مسکین کون ہے؟ ارشاد ہوا جو ضرورت مند تو ہوتا ہے لیکن بھیک نہیں مانگتا۔ زکوٰۃ کے زیادہ مستحق یہی لوگ ہیں۔ (ماخوذ : تجلی)